معاشی استحکام کیسے ممکن ہے

درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کے ذریعے روپے کو مضبوط کرنا چاہیے

سیاسی عدم استحکام کا ملکی معیشت اور عوام پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہم نے جب سے شعور سنبھالا ہے ہمیشہ سے ہر دور میں مہنگائی کا شور اور معیشت کے عدم استحکام کی خبریں ہی سنتے چلے آرہے ہیں۔ معیشت کے عدم استحکام کو ہر ٹی وی چینل کی ہیڈ لائنز اور ٹاک شوز میں ڈسکس کیا جاتا ہے، مگر اس کا حل آج تک کوئی نہ نکال سکا۔

ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ملک چلانے کا فارمولا ملا اور انہوں نے گزشتہ 35, 40 سال سے اُسی فارمولے کو لاگو کر رکھا ہے، اور وہ فارمولا ہے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک کو بہتر اکانومی پلانر نہ مل سکے جو ملک کی معیشت کو صحیح ڈگر پر چلانے کےلیے پلاننگ کرسکیں۔ اگر پاکستان میں کوئی اس قابل ہے تو اسے بالکل بھی آگے نہیں آنے دیا جاتا کیونکہ کرسیٔ اقتدار چند خاندانوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

معاشی استحکام کی خبریں تو اُڑتی اُڑتی ملیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ جولائی میں بھی روپے کی قدر میں غیر معمولی گراوٹ دیکھنے کو ملی، جس کی وجوہات وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کچھ یوں بیان کیں کہ جون کے مہینے میں درآمدات زیادہ رہیں جس کی وجہ سے جولائی کے مہینے میں ڈالر کی آمد سے زیادہ ادائیگیاں کرنا پڑیں جس سے روپے پر بوجھ پڑا۔ یہ عام شہری کی سوچ سے بالاتر باتیں ہیں۔ عوام کو اگر غرض ہے تو بنیادی ضروریات کا سستا ہونا مثلاً آٹا، گھی، چینی وغیرہ۔ مگر یہ بات نہایت اہم ہے ہر پاکستانی کےلیے کہ جیسے ہی روپے میں گراوٹ آتی ہے تو اسٹاک ایکسچینج مندی کا شکار ہوجاتی ہے۔

ہمارے ہاں اسٹاک مارکیٹ میں مندی کی ایک سرسری سی خبر دے دی جاتی ہے مگر اس کا عام شہری پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا مطلب ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول نہیں اور وہ سرمایہ دار جن کا سرمایہ کچھ ہوتا بھی ہے وہ مارکیٹ سے تیزی سے نکالتے ہیں، جس سے روزگار کے دروازے مزید بند ہوتے ہیں، نئے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوتے اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

کسی بھی ملک کی اسٹاک مارکیٹ بزنس کا ہب ہوتا ہے، اگر اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار رہے تو اُس ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے۔ کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کار کسی بھی ملک کی اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال کو دیکھ کر ہی سرمایہ کاری کے ماحول کا اندازہ لگاتے ہیں۔

یہ اہم سوال ہے کہ ہمارے ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کے رحجان کی وجوہات کیا ہیں؟ جس پر کوئی بھی سیاسی رہنما توجہ نہیں دے رہا، نہ ہی اس کی کبھی کوئی پلاننگ واضح ہوئی ہے۔ ہمارا ملک آئی ایم ایف کے قرض پر چل رہا ہے، جیسے ہی روپے کی قدر میں گراوٹ آتی ہے اور شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے تو اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہوجاتی ہے۔


جولائی کا مہینہ ملکی کرنسی کےلیے بھیانک ثابت ہوا۔ اس ایک ماہ کے دوران روپے کی قدر میں 14 فیصد گراوٹ آئی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال درآمدی عوامل کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام کا ماحول بھی ایک وجہ ہے۔ حکومت کو صرف انہی چیزوں کو مدنظر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس وقت سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور اقتدار کی کھینچا تانی سے نکل کر مکمل پلاننگ کی ضرورت ہے، تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کروائی جاسکے۔

غیر ضروری سرمایہ کاری، درآمدی اشیاء پر قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنے کے بجائے ملکی صنعتوں کو ترقی دینی چاہیے، مگر اس طرف بھی ہمارے سیاسی رہنماؤں کی توجہ نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کی معشیت کی ترقی کا راز زیادہ تر اس ملک کی صنعتوں پر ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ تمام سیاسی رہنماؤں نے سیاسی رسہ کشی میں خود کو الجھا لیا ہے، جس کا ملکی معیشت اور عوام پر اثر پڑ رہا ہے۔

وہ ملک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے وہ بھی آج ترقی یافتہ ممالک کی صف کے قریب ترین ہیں۔ بہت سے ممالک کی پالیسیز کا اگر ہم موازنہ کریں تو اُن کی ترقی کا راز بھی اسی میں ہے کہ اُنہوں نے اپنی صنعتوں کی طرف توجہ دی اور بہتر پالیسیاں بنائیں، جن میں چین اور بنگلا دیش شامل ہیں، جنہوں نے صنعتکاری پر توجہ دی اور اپنی پراڈکٹ کو عالی منڈیوں میں پہنچایا۔ اور نہ صرف اُن پراڈکٹ کو عالمی منڈی میں پہنچایا بلکہ اُن پراڈکٹ کو ڈیمانڈ بنایا جس سے ان کی معیشت پر مثبت اثر پڑا بلکہ عوام کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئے۔

وطن عزیز میں بائیس کروڑ سے زائد صارفین کی ایک بڑی منڈی ہے، مگر ہمارے ملک میں کام کرنے والی متعدد کمپنیاں بھی ملک کے اندر پراڈکٹ تیار کرنے کے بجائے درآمدی مصنوعات بیچتی ہیں۔ حیران کن طور پر بہت سی اشیا جو پاکستان میں بہتر طور پر تیار کی جاسکتی ہیں ان اشیا کی تیاری کی جانب توجہ دینے کے بجائے درآمدات کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں روپے کی قدر میں مستقل طور پر نمایاں بہتری کا امکان کم رہ جاتا ہے۔

دنیا بھر کی حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کےلیے درآمدات میں اضافہ یقینی بناتی ہیں اور اس میں صف اول کے ترقی یافتہ ممالک کی تخصیص نہیں۔ ہمارے خطے کے اکثر ممالک اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ وہ ممالک اپنی افرادی قوت اور مہارتوں سے لے کر مصنوعات اور خام مال کی پیداوار اور برآمدات بڑھانے کےلیے نہ صرف کوشاں ہیں بلکہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں توانائی کے وسائل وغیرہ تو ایک طرف، غذا پر بھی سالانہ 10 ارب ڈالر خرچ کردیے جاتے ہیں، جبکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے۔ بجائے اس کے کہ اس طرف توجہ دی جائے، پلاننگ کی جائے، یہ سیکٹر بھی عدم توجہی کا شکار ہے۔

روپے کی قدر کا تعلق اگر درآمدی ادائیگیوں کے ساتھ ہے تو درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کے ذریعے روپے کو مضبوط کرنا چاہیے اور یہ طویل المدتی اور مستقل پالیسی ہونی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story