یوم عاشور پر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ
کربلا والوں کے پیغام کونعروں تک محدودنہیں کرنا ہوگا بلکہ ان کے ایثارکو مشعل راہ قرار دے کرطاغوت سے نجات حاصل کرنی ہوگی
ISLAMABAD:
وزیراعظم شہبازشریف نے پرامن یوم عاشور پروزارت داخلہ ،صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ اﷲ کا شکر ہے،عاشورہ محرم الحرام پرامن ماحول میں منایا گیا۔
بلاشبہ عاشورہ محرم میں امن و امان کے قیام کے لیے ،وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھرپور انتظامات کیے جب کہ علما و مشائخ، ذاکرین، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں اور ہزاروں پولیس اہلکاروں اور افسران نے بھرپورکردار ادا کیا، دشمن کی سازشیں ناکام ہوئیں اور امن و سلامتی اور بین المسالک ہم آہنگی کا بول بالا ہوا۔
دریں اثنا وزیراعظم شہباز شریف نے یوم عاشور کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا کہ '' شہادت امام حسینؓ اْمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ہم سب کو چاہیے کہ ان کے فلسفہ شہادت کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں اور حق کی سربلندی کے لیے ہر قسم کی آزمائش کا جواں مردی اور اسقامت کے ساتھ مقابلہ کریں۔ اس وقت ہمارا ملک جس نازک صورتحال سے دوچار ہے، ہمارے لیے اس جذبہ جواں مردی اور حق گوئی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے وطن عزیز کو ان مشکلات سے نکالنے کے لیے ہمیں صبر، ہمت اور یکسوئی کا مظاہرہ کرنا ہے۔''
دنیا کے ہر مذہب وقوم میں ذکر حسین کا رواج ہے۔کربلا والوں نے ہمیں نامساعد حالات میں بھی حق پر چلنا سکھایا۔واقعہ کربلا نے تمام امتیاز مٹا دیے، اہرام مصر سے بابل و نینوا تک، موہنجودڑو سے ہڑپہ وٹیکسلا تک،اردن میں اصحاب کہف کے غار سے لے کر طور و نیل تک، آثار قدیمہ کی تاریخ پھیلی ہے مگر ایسے اوراق نادر کسی کے صفحہ قرطاس پر رقم نہیں جیسے کربلا کی دھرتی پر رقم ہیں۔ یکم محرم الحرام سے مساجد اور امام بارگاہوں میں شہدائے کربلا کی یاد میں محافل میں حاضری بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ محرم کی مجالس مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے بہترین درس گاہ ہیں ،کیونکہ ان مجالس میں تمام مسالک کے مسلمان شرکت کرتے ہیں لہذا اتحاد اسلامی کے لیے یہ بہترین پلیٹ فارم ہے۔
خانوادہ رسول سے محبت ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے، مسلمانوں کو اپنے کردار و عمل سے اسلام کا نظریہ امن اجاگر کرنا ہے ،دنیا کو فکر کربلا سے روشناس کرانا ہے۔ حقیقی اسلام کے آفاقی اصولوں کو زبان زد عام کرنا ہے، شہدائے کربلا کی قربانی کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کی مجروح ساکھ بحال ہوسکتی ہے، شہدائے کربلا نے حق و باطل،صدق و کذب،شرافت و ذلت، خیر و شر اور امن ودہشت میں امتیاز کاخط کھینچا اور دین اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سربلند کردیا اور محفوظ بنادیا ہے۔
انسانی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی، اس کی بنیاد زمین پر اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خدا پرستی، حریت فکر، انسان دوستی، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت کے غیراسلامی اقدامات، ظلم و جبر کی پالیسی ان اصولوں سے ہٹ کر بادشاہت میں ڈھل گئی تھی۔
لہذا ایسے غیراسلامی اقدامات دین اسلام پر کاری ضرب تھے، اس وقت کے مسلمان بھی یزیدی حکومت کی پالیسیوں کو دین اسلام کی تعلمیات کے برعکس سمجھتے تھے، اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدانِ عمل میں اترے، راہِ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدانِ کربلا میں گزری وہ جور و جفا، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔
محرم الحرام کے دوران نواسہ رسول نے مدینہ اس لیے چھوڑا کہ اس شہر میں قتل عام نہ ہو، اسی لیے حج کے احرام کو عمرے میں بدل کر جوارِ خانہ کعبہ سے بھی کوچ کر لیا کیوں کہ بعض لوگ حاجیوں کے لباس میں امام حسینؓ کو شہید کرنے آئے تھے۔ یزید نے دنیاوی جاہ وجلال چاہا تھا جب کہ امام عالی مقام دین اسلام کی بقاء کا مقدس مشن لے کر بڑھ رہے تھے۔
یزید نے خلافت راشدہ کی اقدار کو پامال کرکے اسے بدترین ملوکیت، سفاکیت،کرپٹ آمریت اور دہشت گردی سے بدل دیا۔یزید نے خلافت راشدہ اور نظامِ رسالت کی تمام اقدار کو پامال کرکے بدترین آمریت کے نظام کو رائج کیا۔ اس نے حکومتی ڈھانچے میں اوپر سے لے کر نیچے تک باکردار، پختہ، نیک سیرت، عمر رسیدہ، تجربہ کار، دیانتدار، ایماندار، باشعور اور غیرتِ ایمانی رکھنے والے تمام افراد اور بزرگ صحابہ و تابعین کو ان کے مراتب و مناصب سے ہٹا کر ان کی جگہ اپنے ذاتی وفاداروں کو ذمے داریاں سونپ دیں۔
گویا اس نے اس سیاسی کلچر ہی کو بدل ڈالا جو حضورﷺ نے اپنی سنت، ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کی صورت میں امت کو عطا فرمایا تھا۔ امام حسین علیہ السلام خلافت راشدہ کی اصل اور حقیقی اقدار کے امین، محافظ اور وارث تھے۔ آپ رضی تعالی عنہ خلافت راشدہ کی اقدار کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے تھے، انھیں تمکن دینا چاہتے تھے اور ان اقدار پر امت کا مستقبل سنوارنا اور استوار کرنا چاہتے تھے۔ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قربانی پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ اہل حق ،سچ کی راہ پر چلنے کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا گیا۔ اس وقت متعدد صحابہ زندہ بھی تھے، تابعین بھی تھے لیکن ان کی رائے کو بھی پرکاہ جتنی اہمیت نہ دی گئی۔ یہاں یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مفادات اور ہوس اقتدار دین کی تعلیمات پر حاوی ہو جاتے ہیں تو انسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرتا ہے ، جہاں تک حق و انصاف، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے، تو شہدائے کربلا نے اپنا خون دے کر اس جدوجہد کو جلا بخشی ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میدان کربلا میں غلبہ حق کے لیے عظیم قربانی دے کر یزید کے باطل نظریات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رد اور بے نقاب کر دیا اور پوری دنیا پر واضح کردیا کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کا یریذیدیت کے نظام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کربلا کے ریگزاروں سے شعور و آگہی اور حق وصداقت کے چشمے پھوٹے۔ زندگی حق کے ساتھ بسر کرنی ہے تو پھر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار سے رہنمائی لی جائے۔ شہدائے کربلا کی قربانیوں سے اہل حق کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ ملا۔ یزیدیت آج بھی اسلام کی قدریں مٹانے، امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سرگرم ہے جب کہ حسینیت اتحاد امت، اخوت، محبت، امن، حق گوئی و بے باکی کا نام ہے۔
امت مسلمہ کو ایام محرم میں خاطر خواہ جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔اولاً امت محمدیہ کے درمیان وحدت و اتحاد، مفاہمت و یگانگت اور عفو و درگزر کو رواج دینا ہوگا۔دوسروں پر فتوے لگانے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا، فرقہ وارانہ سوچ نے ہمیں بڑی نعمتوں سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے ایک خود ساختہ تقسیم کررکھی ہے کہ صحابہ فلاں کے ہیں، اہل بیت فلاں کے ہیں، اولیا فلاں کے ہیں، امام حسین رضی اللہ تعالی فلاں کے ہیں، اس فلاں فلاں نے ہمیں برباد کردیا ہے۔ اس سوچ سے ہمیں نکلنا ہوگا۔ رحمت دوجہاں حضور اکرم ﷺ نے تفریق کی سوچ نہیں دی تھی۔
کربلا والوں کے پیغام کو نعروں تک محدود نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان کے ایثار کو مشعل راہ قرار دے کر طاغوت سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ اسلام میں تفرقہ بازی اور مسلمانوں کی مسلمانوں سے نفرت وعداوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نسلی، لسانی ، صوبائی تعصبات کو دین اور مسلک کا لبادہ پہنانے والے دین اسلام کے داعی نہیں ہوسکتے، اسی طرح اقتدار کے حصول ، مالی مفادات کی سیاست کرنے والوں کو اپنے ان دنیاوی لالچ و ہوس کو دین و مسلک کا لبادہ پہنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ایسے گروہ اور جماعتیں اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہوسکتے ہیں۔
عالم اسلام جن حالات سے دوچار ہے، اس میں کسی غیر اسلامی قوت کا ہاتھ ہونا کوئی اچنبھے ، حیرانی اور پریشانی کی بات نہیں ہے ۔ جو مسلمان ہی نہیں اور جو اسلام کا پیروکار ہی نہیں، وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرتاہے، جنگ کرتاہے یا مالی نقصان پہنچاتا ہے تو اس میں اچنبھے، حیرانی اور پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ مسلمان چودہ سو برس سے دشمنان اسلام کی سازشوں سے نبٹ رہے ہیں اور اﷲ نے ہر سازش کو ناکام بنایا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ ایسے گروہوں اور گمراہ جماعتوں سے ہے جو دین میں نت نئی اختراعات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مسالک کو دین پر غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے مالی مفادات کے لیے دین میں تاویلات تلاش کرنے کی کوشش کرتے، سیاسی مفادات کے لیے دین کو استعمال کرتے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے پرامن یوم عاشور پروزارت داخلہ ،صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ اﷲ کا شکر ہے،عاشورہ محرم الحرام پرامن ماحول میں منایا گیا۔
بلاشبہ عاشورہ محرم میں امن و امان کے قیام کے لیے ،وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھرپور انتظامات کیے جب کہ علما و مشائخ، ذاکرین، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں اور ہزاروں پولیس اہلکاروں اور افسران نے بھرپورکردار ادا کیا، دشمن کی سازشیں ناکام ہوئیں اور امن و سلامتی اور بین المسالک ہم آہنگی کا بول بالا ہوا۔
دریں اثنا وزیراعظم شہباز شریف نے یوم عاشور کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا کہ '' شہادت امام حسینؓ اْمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ہم سب کو چاہیے کہ ان کے فلسفہ شہادت کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں اور حق کی سربلندی کے لیے ہر قسم کی آزمائش کا جواں مردی اور اسقامت کے ساتھ مقابلہ کریں۔ اس وقت ہمارا ملک جس نازک صورتحال سے دوچار ہے، ہمارے لیے اس جذبہ جواں مردی اور حق گوئی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے وطن عزیز کو ان مشکلات سے نکالنے کے لیے ہمیں صبر، ہمت اور یکسوئی کا مظاہرہ کرنا ہے۔''
دنیا کے ہر مذہب وقوم میں ذکر حسین کا رواج ہے۔کربلا والوں نے ہمیں نامساعد حالات میں بھی حق پر چلنا سکھایا۔واقعہ کربلا نے تمام امتیاز مٹا دیے، اہرام مصر سے بابل و نینوا تک، موہنجودڑو سے ہڑپہ وٹیکسلا تک،اردن میں اصحاب کہف کے غار سے لے کر طور و نیل تک، آثار قدیمہ کی تاریخ پھیلی ہے مگر ایسے اوراق نادر کسی کے صفحہ قرطاس پر رقم نہیں جیسے کربلا کی دھرتی پر رقم ہیں۔ یکم محرم الحرام سے مساجد اور امام بارگاہوں میں شہدائے کربلا کی یاد میں محافل میں حاضری بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ محرم کی مجالس مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے بہترین درس گاہ ہیں ،کیونکہ ان مجالس میں تمام مسالک کے مسلمان شرکت کرتے ہیں لہذا اتحاد اسلامی کے لیے یہ بہترین پلیٹ فارم ہے۔
خانوادہ رسول سے محبت ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے، مسلمانوں کو اپنے کردار و عمل سے اسلام کا نظریہ امن اجاگر کرنا ہے ،دنیا کو فکر کربلا سے روشناس کرانا ہے۔ حقیقی اسلام کے آفاقی اصولوں کو زبان زد عام کرنا ہے، شہدائے کربلا کی قربانی کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کی مجروح ساکھ بحال ہوسکتی ہے، شہدائے کربلا نے حق و باطل،صدق و کذب،شرافت و ذلت، خیر و شر اور امن ودہشت میں امتیاز کاخط کھینچا اور دین اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سربلند کردیا اور محفوظ بنادیا ہے۔
انسانی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی، اس کی بنیاد زمین پر اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خدا پرستی، حریت فکر، انسان دوستی، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت کے غیراسلامی اقدامات، ظلم و جبر کی پالیسی ان اصولوں سے ہٹ کر بادشاہت میں ڈھل گئی تھی۔
لہذا ایسے غیراسلامی اقدامات دین اسلام پر کاری ضرب تھے، اس وقت کے مسلمان بھی یزیدی حکومت کی پالیسیوں کو دین اسلام کی تعلمیات کے برعکس سمجھتے تھے، اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدانِ عمل میں اترے، راہِ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدانِ کربلا میں گزری وہ جور و جفا، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔
محرم الحرام کے دوران نواسہ رسول نے مدینہ اس لیے چھوڑا کہ اس شہر میں قتل عام نہ ہو، اسی لیے حج کے احرام کو عمرے میں بدل کر جوارِ خانہ کعبہ سے بھی کوچ کر لیا کیوں کہ بعض لوگ حاجیوں کے لباس میں امام حسینؓ کو شہید کرنے آئے تھے۔ یزید نے دنیاوی جاہ وجلال چاہا تھا جب کہ امام عالی مقام دین اسلام کی بقاء کا مقدس مشن لے کر بڑھ رہے تھے۔
یزید نے خلافت راشدہ کی اقدار کو پامال کرکے اسے بدترین ملوکیت، سفاکیت،کرپٹ آمریت اور دہشت گردی سے بدل دیا۔یزید نے خلافت راشدہ اور نظامِ رسالت کی تمام اقدار کو پامال کرکے بدترین آمریت کے نظام کو رائج کیا۔ اس نے حکومتی ڈھانچے میں اوپر سے لے کر نیچے تک باکردار، پختہ، نیک سیرت، عمر رسیدہ، تجربہ کار، دیانتدار، ایماندار، باشعور اور غیرتِ ایمانی رکھنے والے تمام افراد اور بزرگ صحابہ و تابعین کو ان کے مراتب و مناصب سے ہٹا کر ان کی جگہ اپنے ذاتی وفاداروں کو ذمے داریاں سونپ دیں۔
گویا اس نے اس سیاسی کلچر ہی کو بدل ڈالا جو حضورﷺ نے اپنی سنت، ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کی صورت میں امت کو عطا فرمایا تھا۔ امام حسین علیہ السلام خلافت راشدہ کی اصل اور حقیقی اقدار کے امین، محافظ اور وارث تھے۔ آپ رضی تعالی عنہ خلافت راشدہ کی اقدار کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے تھے، انھیں تمکن دینا چاہتے تھے اور ان اقدار پر امت کا مستقبل سنوارنا اور استوار کرنا چاہتے تھے۔ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قربانی پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ اہل حق ،سچ کی راہ پر چلنے کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا گیا۔ اس وقت متعدد صحابہ زندہ بھی تھے، تابعین بھی تھے لیکن ان کی رائے کو بھی پرکاہ جتنی اہمیت نہ دی گئی۔ یہاں یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مفادات اور ہوس اقتدار دین کی تعلیمات پر حاوی ہو جاتے ہیں تو انسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرتا ہے ، جہاں تک حق و انصاف، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے، تو شہدائے کربلا نے اپنا خون دے کر اس جدوجہد کو جلا بخشی ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میدان کربلا میں غلبہ حق کے لیے عظیم قربانی دے کر یزید کے باطل نظریات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رد اور بے نقاب کر دیا اور پوری دنیا پر واضح کردیا کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کا یریذیدیت کے نظام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کربلا کے ریگزاروں سے شعور و آگہی اور حق وصداقت کے چشمے پھوٹے۔ زندگی حق کے ساتھ بسر کرنی ہے تو پھر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار سے رہنمائی لی جائے۔ شہدائے کربلا کی قربانیوں سے اہل حق کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ ملا۔ یزیدیت آج بھی اسلام کی قدریں مٹانے، امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سرگرم ہے جب کہ حسینیت اتحاد امت، اخوت، محبت، امن، حق گوئی و بے باکی کا نام ہے۔
امت مسلمہ کو ایام محرم میں خاطر خواہ جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔اولاً امت محمدیہ کے درمیان وحدت و اتحاد، مفاہمت و یگانگت اور عفو و درگزر کو رواج دینا ہوگا۔دوسروں پر فتوے لگانے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا، فرقہ وارانہ سوچ نے ہمیں بڑی نعمتوں سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے ایک خود ساختہ تقسیم کررکھی ہے کہ صحابہ فلاں کے ہیں، اہل بیت فلاں کے ہیں، اولیا فلاں کے ہیں، امام حسین رضی اللہ تعالی فلاں کے ہیں، اس فلاں فلاں نے ہمیں برباد کردیا ہے۔ اس سوچ سے ہمیں نکلنا ہوگا۔ رحمت دوجہاں حضور اکرم ﷺ نے تفریق کی سوچ نہیں دی تھی۔
کربلا والوں کے پیغام کو نعروں تک محدود نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان کے ایثار کو مشعل راہ قرار دے کر طاغوت سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ اسلام میں تفرقہ بازی اور مسلمانوں کی مسلمانوں سے نفرت وعداوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نسلی، لسانی ، صوبائی تعصبات کو دین اور مسلک کا لبادہ پہنانے والے دین اسلام کے داعی نہیں ہوسکتے، اسی طرح اقتدار کے حصول ، مالی مفادات کی سیاست کرنے والوں کو اپنے ان دنیاوی لالچ و ہوس کو دین و مسلک کا لبادہ پہنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ایسے گروہ اور جماعتیں اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہوسکتے ہیں۔
عالم اسلام جن حالات سے دوچار ہے، اس میں کسی غیر اسلامی قوت کا ہاتھ ہونا کوئی اچنبھے ، حیرانی اور پریشانی کی بات نہیں ہے ۔ جو مسلمان ہی نہیں اور جو اسلام کا پیروکار ہی نہیں، وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرتاہے، جنگ کرتاہے یا مالی نقصان پہنچاتا ہے تو اس میں اچنبھے، حیرانی اور پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ مسلمان چودہ سو برس سے دشمنان اسلام کی سازشوں سے نبٹ رہے ہیں اور اﷲ نے ہر سازش کو ناکام بنایا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ ایسے گروہوں اور گمراہ جماعتوں سے ہے جو دین میں نت نئی اختراعات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مسالک کو دین پر غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے مالی مفادات کے لیے دین میں تاویلات تلاش کرنے کی کوشش کرتے، سیاسی مفادات کے لیے دین کو استعمال کرتے ہیں۔