صبر تحمل اور برداشت کی بھی حد ہوتی ہے
ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کے اندر شہباز گل اور اس سوچ کی حمایت کم ہوتی جائے گی
کراچی:
شہباز گل کی گرفتاری پر کوئی طوفان نہیں آیا۔ بلکہ تحریک انصاف کی قیادت نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے بتدریج خود کو شہباز گل سے علیحدہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کے اندر شہباز گل اور اس سوچ کی حمایت کم ہوتی جائے گی۔
یہ جو تھوڑی بہت ہمدردی ہمیں نظر آبھی رہی ہے وہ بھی روز بروز کم ہوتی جائے گی۔ تحریک انصاف کی قیادت اداروں سے لڑنے کے نہ پہلے حق میں تھی اور نہ ہی اب حق میں نظر آرہی ہے۔ تا ہم شہباز گل جیسے چند لوگوں نے ماحول آلودہ کیا ہوا تھا جس کی سزا اب پوری تحریک انصاف اور ان کے دوستوں کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔
عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد تحریک انصاف نے شہباز گل ٹائپ کے چند چہروں کے ساتھ اداروں کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کیا۔ ہم نے پہلی بار دیکھا کہ آرمی چیف کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائے گئے۔ ان کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
عمران خان خود تو استعاروں میں بات کرتے تھے۔ نیوٹرلز جیسا استعارہ استعمال کرتے تھے۔ لیکن ان کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے ایک طوفان مچایا ہوا تھا۔ ٹرینڈ پر ٹرینڈ۔ اور پاک فوج کی قیادت پر ایسے حملے کہ دشمن بھی نہ کرے۔ پھر ان ٹرینڈ اور ان کو بنانے کی طاقت پر فخر بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن دوست ان کو تب بھی سمجھاتے تھے کہ اداروں کے صبر کا اس قدر امتحان نہ لیں۔ رعایت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں' خاموشی کو کمزوری نہ سمجھیں۔
آرمی چیف کی جانب سے بہت رعایت دی گئی۔ صبر کا بہت مظاہرہ کیا گیا۔ انھوں نے اپنی ذات پر جس قدر تنقید برداشت کی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کسی سیاستدان میں بھی شائد تنقید برداشت کرنے کا اتنا حوصلہ نہیں ہے جتنا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مظاہرہ کیا ہے۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ لوگ سوال کرنے لگ گئے کہ کیا ہوگیا۔ کیا ادارہ اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ اپنے آرمی چیف کی عزت کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ کیا یہ ٹرولرز آج ادارے سے مضبوط ہو گئے ہیں۔ کیا یہ ریاست سے بھی مضبوط ہو گئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سے صبر اور تحمل کا ہی مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ ایک خاموشی رکھی گئی۔ اتنے حملوں کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہم نے دیکھا کہ آئی ایس پی آر کی عزت کا بھی خیال نہیں کیا گیا۔ پاک فوج کے ترجمان پر بھی سوشل میڈیا ٹرینڈ اور ان پر بھی حملے دیکھے گئے۔ کل تک پاک فوج کے گن گانے والے عمران خان کے حامی اقتدار کے جاتے ہی بیان بازی کرنے لگے۔ ایسا لگنے لگا کہ ان کی پاک فوج سے محبت صرف اور صرف اقتدار کے لیے ہی تھی۔ اقتدار گیا محبت ختم۔ اقتدار واپس دو گے تو محبت کریں گے ورنہ دشمن سے بھی بدتر ہو جائیں گے۔ایسا لگنے لگا کہ ہاتھوں سے تراشے بت ہی گلے کو آگئے ہیں۔ ایک ماحول بنادیا گیا کہ اقتدار جانے کی تمام تر ذمے د اری فوجی قیادت پرہے۔ نیوٹرل ہونا جرم ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب پاک فوج کو اپنی عزت اور حرمت پر کوئی رعایت نہیں کرنی چاہیے۔ پاک فوج کی قیادت نے اپنے اوپر ہونے والے حملوں پر بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ بہت برداشت کیا ہے۔ لیکن اب حد ہو گئی ہے۔ آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اداروں میں بغاوت کی باتیں کرنے لگ جائیں۔ ملک کا مفاد بھی کوئی چیز ہے۔
آزادی اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ملک سے اونچے ہو گئے ہیں۔ آپ ملک کے اداروں پر حملے شروع کر دیں اور اس کو آزادی اظہار کہہ دیں۔ کہیں نہ کہیں تو کوئی ریڈ لائن ہوگی۔ مادرپدر آزادی دنیا میں کہاں ہے۔ آج شہباز گل کی باتوں کا جب ان کے حامیوں کے پاس کوئی دفاع نہیں ہے تو وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ماضی کے بیانات نکال کر دکھا رہے ہیں کہ دیکھیں ان بیانات پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ ان پر کوئی گرفتاری نہیں ہوئی تو اب کیوں کی جا رہی ہے۔ ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تب بہت رعایت کی گئی اور اب سختی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ بہت کمزور دفاع ہے۔
شہباز گل کی گرفتاری پر کوئی طوفان نہیں آیا۔ بلکہ تحریک انصاف کی قیادت نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے بتدریج خود کو شہباز گل سے علیحدہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کے اندر شہباز گل اور اس سوچ کی حمایت کم ہوتی جائے گی۔
یہ جو تھوڑی بہت ہمدردی ہمیں نظر آبھی رہی ہے وہ بھی روز بروز کم ہوتی جائے گی۔ تحریک انصاف کی قیادت اداروں سے لڑنے کے نہ پہلے حق میں تھی اور نہ ہی اب حق میں نظر آرہی ہے۔ تا ہم شہباز گل جیسے چند لوگوں نے ماحول آلودہ کیا ہوا تھا جس کی سزا اب پوری تحریک انصاف اور ان کے دوستوں کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔
عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد تحریک انصاف نے شہباز گل ٹائپ کے چند چہروں کے ساتھ اداروں کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کیا۔ ہم نے پہلی بار دیکھا کہ آرمی چیف کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائے گئے۔ ان کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
عمران خان خود تو استعاروں میں بات کرتے تھے۔ نیوٹرلز جیسا استعارہ استعمال کرتے تھے۔ لیکن ان کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے ایک طوفان مچایا ہوا تھا۔ ٹرینڈ پر ٹرینڈ۔ اور پاک فوج کی قیادت پر ایسے حملے کہ دشمن بھی نہ کرے۔ پھر ان ٹرینڈ اور ان کو بنانے کی طاقت پر فخر بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن دوست ان کو تب بھی سمجھاتے تھے کہ اداروں کے صبر کا اس قدر امتحان نہ لیں۔ رعایت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں' خاموشی کو کمزوری نہ سمجھیں۔
آرمی چیف کی جانب سے بہت رعایت دی گئی۔ صبر کا بہت مظاہرہ کیا گیا۔ انھوں نے اپنی ذات پر جس قدر تنقید برداشت کی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کسی سیاستدان میں بھی شائد تنقید برداشت کرنے کا اتنا حوصلہ نہیں ہے جتنا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مظاہرہ کیا ہے۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ لوگ سوال کرنے لگ گئے کہ کیا ہوگیا۔ کیا ادارہ اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ اپنے آرمی چیف کی عزت کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ کیا یہ ٹرولرز آج ادارے سے مضبوط ہو گئے ہیں۔ کیا یہ ریاست سے بھی مضبوط ہو گئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سے صبر اور تحمل کا ہی مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ ایک خاموشی رکھی گئی۔ اتنے حملوں کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہم نے دیکھا کہ آئی ایس پی آر کی عزت کا بھی خیال نہیں کیا گیا۔ پاک فوج کے ترجمان پر بھی سوشل میڈیا ٹرینڈ اور ان پر بھی حملے دیکھے گئے۔ کل تک پاک فوج کے گن گانے والے عمران خان کے حامی اقتدار کے جاتے ہی بیان بازی کرنے لگے۔ ایسا لگنے لگا کہ ان کی پاک فوج سے محبت صرف اور صرف اقتدار کے لیے ہی تھی۔ اقتدار گیا محبت ختم۔ اقتدار واپس دو گے تو محبت کریں گے ورنہ دشمن سے بھی بدتر ہو جائیں گے۔ایسا لگنے لگا کہ ہاتھوں سے تراشے بت ہی گلے کو آگئے ہیں۔ ایک ماحول بنادیا گیا کہ اقتدار جانے کی تمام تر ذمے د اری فوجی قیادت پرہے۔ نیوٹرل ہونا جرم ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب پاک فوج کو اپنی عزت اور حرمت پر کوئی رعایت نہیں کرنی چاہیے۔ پاک فوج کی قیادت نے اپنے اوپر ہونے والے حملوں پر بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ بہت برداشت کیا ہے۔ لیکن اب حد ہو گئی ہے۔ آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اداروں میں بغاوت کی باتیں کرنے لگ جائیں۔ ملک کا مفاد بھی کوئی چیز ہے۔
آزادی اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ملک سے اونچے ہو گئے ہیں۔ آپ ملک کے اداروں پر حملے شروع کر دیں اور اس کو آزادی اظہار کہہ دیں۔ کہیں نہ کہیں تو کوئی ریڈ لائن ہوگی۔ مادرپدر آزادی دنیا میں کہاں ہے۔ آج شہباز گل کی باتوں کا جب ان کے حامیوں کے پاس کوئی دفاع نہیں ہے تو وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ماضی کے بیانات نکال کر دکھا رہے ہیں کہ دیکھیں ان بیانات پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ ان پر کوئی گرفتاری نہیں ہوئی تو اب کیوں کی جا رہی ہے۔ ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تب بہت رعایت کی گئی اور اب سختی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ بہت کمزور دفاع ہے۔