آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے میکرو اکنامک استحکام آئیگا وزیرخزانہ
ادائیگیوں کا توازن سرپلس بھی ہوسکتا ہے، اضافی اخراجات کو ٹیکس اقدامات سے فنڈ کیا جائیگا
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اگست کے اختتام سے قبل آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے میکرو اکنامک استحکام آئے گا۔
پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے بورڈ ودیگر نمائندوں پر مشتمل اجلاس سے خطاب میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مالیاتی نظم و ضبط کی سختی سے پیروی کی جائے گی اور تمام اضافی اخراجات کو ٹیکس اقدامات سے مکمل طور پر فنڈ کیا جائے گا۔ 10 فیصد سپر ٹیکس صرف ایک سال کے لیے عائد کیا گیا ہے اور آمدنی کے متبادل ذرائع بھی تلاش کیے گئے ہیں۔ بینکوں پر اے ڈی آر سے منسلک ٹیکس سابقہ طور پر نہیں لگایا جائے گا اور ریٹیل شعبے سے محصولات کی وصولیوں کے حجم میں نمایاں اضافے کی توقعات ہیں۔
انھوں نے ایس ایس سی پی سے کہا کہ وہ سہولت اکاؤنٹس کے لیے سرمایہ کاری کی حد اور AML کی ضروریات کا جائزہ لے۔ انھوں نے وزارت خزانہ کو ترقیاتی مالیاتی اداروں کی فہرست سازی، کیپٹل مارکیٹوں میں قرض/سکوک کے اجرا کے طریقہ کار اور قومی بچت اسکیموں کی شرح سود کی ترتیب کا جائزہ لینے کی بھی ہدایت کی۔
اجلاس میں پی ایس ایکس کی چئیرپرسن ڈاکٹر شمشاد اختر, چئیرمین ایس ای سی پی عامر خان, سی ای او پی ایس ایکس فرخ خان ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین اسپیشل سیکریٹری فنانس اویس منظور بینکوں کے صدور پی ایس ایکس کے ممبران بھی موجود تھے۔
اجلاس کے شرکا نے کیپٹل مارکیٹس کے حوالے سے کہا کہ کیپٹل مارکیٹوں کی پائیدار اور دیرپا ترقی کے لیے میکرو ڈیولپمنٹ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
شرکا نے کہا کہ کیپٹل مارکیٹ کی ترقی میں دو سب سے بڑی رکاوٹیں دیگر اثاثہ جاتی شعبوں کو دی جانے والی ٹیکس مراعات اور اسٹاک مارکیٹ میں کے وائی سی کی ضروریات ہیں جو کہ دیگر اثاثی جاتی شعبوں پر مستقل طور پر لاگو نہیں ہوتی ہیں۔ ان رکاوٹوں کے نتیجے میں اثاثہ جات شعبوں میں اے ایم ایل اور ٹیکس پر مبنی عدم توازن پیدا ہو رہا ہے جو کہ پاکستان میں قلیل وسائل کی موثر تقسیم کے لیے نقصان دہ ہے اس لیے کیپٹل مارکیٹس کے لیے طلب اور رسد دونوں اطراف سے چیلنج پیدا ہو رہے ہیں۔
شرکا نے نشاندہی کی کہ اگرچہ اسٹاک مارکیٹ بلاشبہ معیشت کے سب سے زیادہ دستاویزی شعبوں میں سے ایک ہے لیکن لسٹڈ کمپنیوں کی آمدنی پر کمپنی کی سطح پر اور بعد میں ڈیویڈنڈ پر دہرا ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جبکہ غیر مربوط کاروبار پر کم بہت ٹیکس ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ ٹیکس میں یہ عدم توازن کارپوریٹائزیشن اور دستاویزات کی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔ کارپوریٹائزیشن اور دستاویزات کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار کیے گئے نکات میں غیر لسٹڈ کمپنیوں کے لیے ٹیکس کی شرح اوراے او پیز کا منطقی طور پر لسٹڈ کمپنیوں کے مقابلے میں زیادہ ہونا، نئی لسٹڈ کمپنیوں کے لیے ٹیکس کریڈٹ کی بحالی کیونکہ اس کا ریونیو پر اثر بہت کم ہے۔ درمیانی مدت میں یہ ریونیو کے لیے مثبت اقدام ہوگا کیونکہ ایف بی آر لسٹڈ کمپنیوں کی سپلائی چین میں شامل دونوں کمپنیوں اور دیگر کمپنیوں سے سی جی ٹی اور زیادہ انکم ٹیکس دونوں ہی اکٹھا کرے گا۔
اجلاس کے بعد اسٹاک ایکس چینج کے ایم ڈی فرخ خان نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرخزانہ نے ریاستی ملکیتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ شیئرہولڈرز کو زیادہ سے زیادہ ڈیوڈنڈ ادا کریں۔
پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے بورڈ ودیگر نمائندوں پر مشتمل اجلاس سے خطاب میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مالیاتی نظم و ضبط کی سختی سے پیروی کی جائے گی اور تمام اضافی اخراجات کو ٹیکس اقدامات سے مکمل طور پر فنڈ کیا جائے گا۔ 10 فیصد سپر ٹیکس صرف ایک سال کے لیے عائد کیا گیا ہے اور آمدنی کے متبادل ذرائع بھی تلاش کیے گئے ہیں۔ بینکوں پر اے ڈی آر سے منسلک ٹیکس سابقہ طور پر نہیں لگایا جائے گا اور ریٹیل شعبے سے محصولات کی وصولیوں کے حجم میں نمایاں اضافے کی توقعات ہیں۔
انھوں نے ایس ایس سی پی سے کہا کہ وہ سہولت اکاؤنٹس کے لیے سرمایہ کاری کی حد اور AML کی ضروریات کا جائزہ لے۔ انھوں نے وزارت خزانہ کو ترقیاتی مالیاتی اداروں کی فہرست سازی، کیپٹل مارکیٹوں میں قرض/سکوک کے اجرا کے طریقہ کار اور قومی بچت اسکیموں کی شرح سود کی ترتیب کا جائزہ لینے کی بھی ہدایت کی۔
اجلاس میں پی ایس ایکس کی چئیرپرسن ڈاکٹر شمشاد اختر, چئیرمین ایس ای سی پی عامر خان, سی ای او پی ایس ایکس فرخ خان ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین اسپیشل سیکریٹری فنانس اویس منظور بینکوں کے صدور پی ایس ایکس کے ممبران بھی موجود تھے۔
اجلاس کے شرکا نے کیپٹل مارکیٹس کے حوالے سے کہا کہ کیپٹل مارکیٹوں کی پائیدار اور دیرپا ترقی کے لیے میکرو ڈیولپمنٹ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
شرکا نے کہا کہ کیپٹل مارکیٹ کی ترقی میں دو سب سے بڑی رکاوٹیں دیگر اثاثہ جاتی شعبوں کو دی جانے والی ٹیکس مراعات اور اسٹاک مارکیٹ میں کے وائی سی کی ضروریات ہیں جو کہ دیگر اثاثی جاتی شعبوں پر مستقل طور پر لاگو نہیں ہوتی ہیں۔ ان رکاوٹوں کے نتیجے میں اثاثہ جات شعبوں میں اے ایم ایل اور ٹیکس پر مبنی عدم توازن پیدا ہو رہا ہے جو کہ پاکستان میں قلیل وسائل کی موثر تقسیم کے لیے نقصان دہ ہے اس لیے کیپٹل مارکیٹس کے لیے طلب اور رسد دونوں اطراف سے چیلنج پیدا ہو رہے ہیں۔
شرکا نے نشاندہی کی کہ اگرچہ اسٹاک مارکیٹ بلاشبہ معیشت کے سب سے زیادہ دستاویزی شعبوں میں سے ایک ہے لیکن لسٹڈ کمپنیوں کی آمدنی پر کمپنی کی سطح پر اور بعد میں ڈیویڈنڈ پر دہرا ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جبکہ غیر مربوط کاروبار پر کم بہت ٹیکس ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ ٹیکس میں یہ عدم توازن کارپوریٹائزیشن اور دستاویزات کی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔ کارپوریٹائزیشن اور دستاویزات کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار کیے گئے نکات میں غیر لسٹڈ کمپنیوں کے لیے ٹیکس کی شرح اوراے او پیز کا منطقی طور پر لسٹڈ کمپنیوں کے مقابلے میں زیادہ ہونا، نئی لسٹڈ کمپنیوں کے لیے ٹیکس کریڈٹ کی بحالی کیونکہ اس کا ریونیو پر اثر بہت کم ہے۔ درمیانی مدت میں یہ ریونیو کے لیے مثبت اقدام ہوگا کیونکہ ایف بی آر لسٹڈ کمپنیوں کی سپلائی چین میں شامل دونوں کمپنیوں اور دیگر کمپنیوں سے سی جی ٹی اور زیادہ انکم ٹیکس دونوں ہی اکٹھا کرے گا۔
اجلاس کے بعد اسٹاک ایکس چینج کے ایم ڈی فرخ خان نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرخزانہ نے ریاستی ملکیتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ شیئرہولڈرز کو زیادہ سے زیادہ ڈیوڈنڈ ادا کریں۔