آزاد ریاست کشمیر کیش میر
آزاد کشمیر میں گھر بیٹھ کر تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافے کےلیے سڑکوں پر ہیں
سرخ، سبز اور خاکستری نوٹ، خوبصورت ویسٹ کوٹ، پالش شدہ بوٹ، کلف لگا سوٹ؛ یہ کسی ممبر اسمبلی، وزیر اور مشیر کا حلیہ نہیں بلکہ 24 اکتوبر 1947 کو بیس کیمپ کے طور پر قائم ایک آزاد ریاست جموں و کشمیر کے سرکاری ملازمین کا حلیہ ہے۔ گریڈ ایک ہو یا گریڈ 20، آزاد کشمیر میں سرکاری ملازمت تو گویا قارون کا خزانہ ہاتھ لگنے کے مترادف ہے۔ سرکاری ملازمت کے حصول کے اس ٹرینڈ نے آزاد کشمیر کو معاشی طور پر منجمد کردیا ہے۔ وہ خطہ جو تقسیم سے قبل چاول، سبزیوں، خشک میوہ جات سمیت کئی فصلوں کی پیداوار کےلیے مشہور تھا، اب گاجر سے گھاس تک ہر شے کےلیے پنجاب کا محتاج ہے۔ ریاست کے زیادہ تر نوجوان یا تو سرکاری ملازمت کرتے ہیں یا بیرون ملک اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں پرائیویٹ نوکریاں کرتے ہیں۔
یوں تو چند لاکھ کی آبادی کےلیے چند سو سرکاری ملازمین ہی کافی ہیں، مگر بیس کیمپ کے نام پر بنی حکومت سالانہ سرکاری ملازمین کی فوج ظفر موج میں سیکڑوں کے حساب سے اضافہ کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں کئی ایسے اسکول ہیں، جہاں پچاس بچوں کےلیے پچیس کا اسٹاف موجود ہے۔ صرف ایک ادارے کشمیر لبریشن سیل کا تذکرہ سن کر انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔
1987 میں آزاد کشمیر حکومت نے تحریک آزادی کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کےلیے ایک ادارہ قائم کیا۔ یہ ادارہ بھی اقربا پروری، جیالا ازم کے فروغ اور سیاسی بھرتیوں کی نذر ہوگیا۔ اس ادارے میں 130 مستقل ملازمین ہیں جبکہ 70 افراد کو صوابدیدی کوٹے پر ہر حکومت بھرتی کرتی ہے۔ ماضی میں اس ادارے کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں مگر 5 اگست 2019 کے بعد کی کارکردگی کا تھوڑا سا جائزہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
جب پوری وادی کشمیر بھارتی فوج نے پنجروں میں بند کر رکھی تھی، جب جموں و کشمیر کو عملی طور پر ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا تھا، اسی دوران جموں و کشمیر لبریشن سیل نے سال 2020-21 میں 12 کروڑ 76 لاکھ 46 ہزار روپے خرچ کیے، جن میں سے تقریباً 90 فیصد یعنی 8 کروڑ 75 لاکھ 64 ہزارروپے تنخواہوں اور الاؤنسز پر خرچ کیے، دیگر تین کروڑ فرنیچر اور گاڑیوں کی خریداری اور سرکاری ملازمین کی شاہ خرچیوں پر لٹائے گئے۔ اگلے سال یعنی مالی سال 2021 اور 2022 میں تنخواہ و الاؤنسز کی مد میں 10 کروڑ 30 لاکھ 84 ہزار 1 سو روپے خرچ کیے گئے۔ دو برس میں مجموعی طور پر 23 کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا جس سے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو فائدہ ہوا ہو۔ لیکن مسلم لیگ ن اور اب تحریک انصاف دونوں نے اپنے لوگوں کو اس خصوصی سیل سے خصوصی فیض ضرور پہنچایا۔
آزاد کشمیر میں دوسرا سونے کا ہاتھی محکمہ جنگلات ہے۔ دنیا بھر میں جنگلات کا محکمہ جنگلوں کی حفاظت کےلیے ہوتا ہے، لیکن ہمارے خطے میں جنگلات والوں کے دو کام ہیں، ایک غیر قانونی طریقے سے لکڑیاں بیچنا، دوسرا جنگل میں آگ لگانا۔ یہی وجہ ہے کہ 1947 میں خطے کے 48 فیصد رقبے پر جنگلات تھے، جن میں سے 11 فیصد تجارتی مقاصد کےلیے استعمال کیے جانے تھے، مگر اب ریاست میں جنگلات کا کل رقبہ 12 فیصد ہوگیا ہے۔ موجودہ جنگلات کا 60 فیصد وادی نیلم جبکہ ضلع حویلی، ہٹیاں بالا اور بھمبر کا 30 فیصد حصہ ہے، جبکہ دیگر علاقوں کے حصے میں کل جنگلات کا 10 فیصد آتا ہے۔
ماضی میں کشمیر کے 30 ہزار ایکڑ رقبے پر سالانہ شجرکاری کی جاتی تھی مگر اب یہ کم ہوکر 5 ہزار ایکڑ تک آگئی ہے۔ اس دوران بھی لاکھوں کی تعداد میں پودے لگانے کے دعوے کیے جاتے رہے، مگر نتیجہ کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ ہاں گزشتہ 75 برس کے دوران محکمہ جنگلات کے عام گارڈ، فاریسٹر سے لے کر سی ای او تک سب کی جائیدادوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ جنگلات کے ملازمین جنگلات کے تحفظ کے بجائے اس کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے دیودار اور اخروٹ کے درخت کراچی تک اسمگل کیے جاتے ہیں مگر کہیں بھی کوئی روک تھام نہیں ہے۔ اس برس بھی آزاد کشمیر حکومت نے محکمہ جنگلات کےلیے 19 ہزار 284 اعشاریہ 890 ملین روپے مختص کئے ہیں مگر سب بے سود ہی دکھائی دے رہا ہے۔ ہاں اس دوران محکمہ جنگلات کے ملازمین کے اثاثوں میں مزید اضافہ ہونے کی پوری توقعات ہیں۔
آزاد کشمیر میں دو محکمے بیٹھ کر کھانے والے محکمے سمجھے جاتے ہیں، ایک محکمہ تعلیم اور دوسرا محکمہ صحت۔ آزاد کشمیر کے اساتذہ درحقیقت سیاستدانوں کے داہنے ہاتھ ہیں، جو تعلیمی اداروں میں کم اور سیاسی میٹنگز میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان کی تقرریاں اور تبادلے بھی محض سیاسی بنیادوں پر کیے جاتے ہیں، بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کی انہیں کھلی آزادی ہے۔ کیونکہ ان کے اپنے بچے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح محکمہ صحت کے ملازمین بھی اپنے اپنے میڈیکل اسٹورز کھول کر بیٹھے ہیں، نجی کمپنیوں کی ادویہ فروخت کرکے دونوں ہاتھوں سے کمیشن سمیٹ رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کو ''کیش میر'' کہنا بے جا نہ ہوگا، جہاں گھر بیٹھ کر تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافے کےلیے سڑکوں پر ہیں، سرکاری ملازمین کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر دیکھ کر مجھے بیس کیمپ میں مقبوضہ کشمیر کے شہریوں سے اظہار یکجہتی کےلیے کیے جانے والے مظاہرے یاد آگئے۔ جہاں سرکاری نوٹیفکیشن کے باوجود کبھی بھی ہزار سے زائد افراد کا کوئی مظاہرہ نہیں دیکھا۔ ہاں تنخواہوں میں اضافے اور ذاتی مفادات کےلیے ایک چھوٹے سے تحصیل ہیڈ کوراٹر میں بھی مظاہرین کی کم سے کم تعداد 2 ہزار تک ہوتی ہے۔
یوں تو سرکار کا نظام چلانے کےلیے چند ملازمین بھی کافی تھے مگر تحریک آزادی کے نام پر ملازمین کا جمع کیا گیا ہجوم ریاست کے خزانے پر بوجھ بنتا جارہا ہے۔ جس کا مظلوم کشمیریوں کو فائدہ تو نہ ہوا لیکن آزاد کشمیر کی زرخیر زمین کو نقصان ضرور ہورہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یوں تو چند لاکھ کی آبادی کےلیے چند سو سرکاری ملازمین ہی کافی ہیں، مگر بیس کیمپ کے نام پر بنی حکومت سالانہ سرکاری ملازمین کی فوج ظفر موج میں سیکڑوں کے حساب سے اضافہ کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں کئی ایسے اسکول ہیں، جہاں پچاس بچوں کےلیے پچیس کا اسٹاف موجود ہے۔ صرف ایک ادارے کشمیر لبریشن سیل کا تذکرہ سن کر انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔
1987 میں آزاد کشمیر حکومت نے تحریک آزادی کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کےلیے ایک ادارہ قائم کیا۔ یہ ادارہ بھی اقربا پروری، جیالا ازم کے فروغ اور سیاسی بھرتیوں کی نذر ہوگیا۔ اس ادارے میں 130 مستقل ملازمین ہیں جبکہ 70 افراد کو صوابدیدی کوٹے پر ہر حکومت بھرتی کرتی ہے۔ ماضی میں اس ادارے کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں مگر 5 اگست 2019 کے بعد کی کارکردگی کا تھوڑا سا جائزہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
جب پوری وادی کشمیر بھارتی فوج نے پنجروں میں بند کر رکھی تھی، جب جموں و کشمیر کو عملی طور پر ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا تھا، اسی دوران جموں و کشمیر لبریشن سیل نے سال 2020-21 میں 12 کروڑ 76 لاکھ 46 ہزار روپے خرچ کیے، جن میں سے تقریباً 90 فیصد یعنی 8 کروڑ 75 لاکھ 64 ہزارروپے تنخواہوں اور الاؤنسز پر خرچ کیے، دیگر تین کروڑ فرنیچر اور گاڑیوں کی خریداری اور سرکاری ملازمین کی شاہ خرچیوں پر لٹائے گئے۔ اگلے سال یعنی مالی سال 2021 اور 2022 میں تنخواہ و الاؤنسز کی مد میں 10 کروڑ 30 لاکھ 84 ہزار 1 سو روپے خرچ کیے گئے۔ دو برس میں مجموعی طور پر 23 کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا جس سے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو فائدہ ہوا ہو۔ لیکن مسلم لیگ ن اور اب تحریک انصاف دونوں نے اپنے لوگوں کو اس خصوصی سیل سے خصوصی فیض ضرور پہنچایا۔
آزاد کشمیر میں دوسرا سونے کا ہاتھی محکمہ جنگلات ہے۔ دنیا بھر میں جنگلات کا محکمہ جنگلوں کی حفاظت کےلیے ہوتا ہے، لیکن ہمارے خطے میں جنگلات والوں کے دو کام ہیں، ایک غیر قانونی طریقے سے لکڑیاں بیچنا، دوسرا جنگل میں آگ لگانا۔ یہی وجہ ہے کہ 1947 میں خطے کے 48 فیصد رقبے پر جنگلات تھے، جن میں سے 11 فیصد تجارتی مقاصد کےلیے استعمال کیے جانے تھے، مگر اب ریاست میں جنگلات کا کل رقبہ 12 فیصد ہوگیا ہے۔ موجودہ جنگلات کا 60 فیصد وادی نیلم جبکہ ضلع حویلی، ہٹیاں بالا اور بھمبر کا 30 فیصد حصہ ہے، جبکہ دیگر علاقوں کے حصے میں کل جنگلات کا 10 فیصد آتا ہے۔
ماضی میں کشمیر کے 30 ہزار ایکڑ رقبے پر سالانہ شجرکاری کی جاتی تھی مگر اب یہ کم ہوکر 5 ہزار ایکڑ تک آگئی ہے۔ اس دوران بھی لاکھوں کی تعداد میں پودے لگانے کے دعوے کیے جاتے رہے، مگر نتیجہ کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ ہاں گزشتہ 75 برس کے دوران محکمہ جنگلات کے عام گارڈ، فاریسٹر سے لے کر سی ای او تک سب کی جائیدادوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ جنگلات کے ملازمین جنگلات کے تحفظ کے بجائے اس کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے دیودار اور اخروٹ کے درخت کراچی تک اسمگل کیے جاتے ہیں مگر کہیں بھی کوئی روک تھام نہیں ہے۔ اس برس بھی آزاد کشمیر حکومت نے محکمہ جنگلات کےلیے 19 ہزار 284 اعشاریہ 890 ملین روپے مختص کئے ہیں مگر سب بے سود ہی دکھائی دے رہا ہے۔ ہاں اس دوران محکمہ جنگلات کے ملازمین کے اثاثوں میں مزید اضافہ ہونے کی پوری توقعات ہیں۔
آزاد کشمیر میں دو محکمے بیٹھ کر کھانے والے محکمے سمجھے جاتے ہیں، ایک محکمہ تعلیم اور دوسرا محکمہ صحت۔ آزاد کشمیر کے اساتذہ درحقیقت سیاستدانوں کے داہنے ہاتھ ہیں، جو تعلیمی اداروں میں کم اور سیاسی میٹنگز میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان کی تقرریاں اور تبادلے بھی محض سیاسی بنیادوں پر کیے جاتے ہیں، بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کی انہیں کھلی آزادی ہے۔ کیونکہ ان کے اپنے بچے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح محکمہ صحت کے ملازمین بھی اپنے اپنے میڈیکل اسٹورز کھول کر بیٹھے ہیں، نجی کمپنیوں کی ادویہ فروخت کرکے دونوں ہاتھوں سے کمیشن سمیٹ رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کو ''کیش میر'' کہنا بے جا نہ ہوگا، جہاں گھر بیٹھ کر تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافے کےلیے سڑکوں پر ہیں، سرکاری ملازمین کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر دیکھ کر مجھے بیس کیمپ میں مقبوضہ کشمیر کے شہریوں سے اظہار یکجہتی کےلیے کیے جانے والے مظاہرے یاد آگئے۔ جہاں سرکاری نوٹیفکیشن کے باوجود کبھی بھی ہزار سے زائد افراد کا کوئی مظاہرہ نہیں دیکھا۔ ہاں تنخواہوں میں اضافے اور ذاتی مفادات کےلیے ایک چھوٹے سے تحصیل ہیڈ کوراٹر میں بھی مظاہرین کی کم سے کم تعداد 2 ہزار تک ہوتی ہے۔
یوں تو سرکار کا نظام چلانے کےلیے چند ملازمین بھی کافی تھے مگر تحریک آزادی کے نام پر ملازمین کا جمع کیا گیا ہجوم ریاست کے خزانے پر بوجھ بنتا جارہا ہے۔ جس کا مظلوم کشمیریوں کو فائدہ تو نہ ہوا لیکن آزاد کشمیر کی زرخیر زمین کو نقصان ضرور ہورہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔