ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
انسانی معاشروں یا ملکوں میں امن کی ضمانت صرف انصاف دیتا ہے، بے لاگ اور بلا استثنیٰ انصاف
فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مختلف لوگ اپنے اپنے تجربات، مشاہدات، تعلقات اور خواہشات کے مطابق تجزیے کررہے ہیں، کسی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں کامیابی کے جھنڈے تھما رہے ہیں اور کسی کو زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک رہے ہیں۔
اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کون اس کا شکار بنتا ہے اور کون مستفیض ہوتا ہے، کون victim بنتا ہے اور کون beneficiary۔ یہ توآنے والا وقت بتائے گا مگر اس طویل قانونی جنگ میں جو شخص سر بلند اور سرخرو ہوا ہے، اس کا نام اکبر شیر بابر ہے۔
کیس کی سماعت آٹھ سال تک چلتی رہی مگر پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر اکبر بابر کے کردار اور دیانتداری پر انگلی نہیں اٹھاسکا، اپنے ہر مخالف کو چور، ڈاکو کہنے والے عمران خان بھی اکبر ایس بابر کی ذات پر کوئی الزام نہیں لگا سکے۔ بابر قبیلے کے اس پٹھان کی سادگی، دیانتداری، مقصد سے لگن، حوصلے، جرأت اور ثابت قدمی نے ایک نئی تاریخ لکھ کر سب کو حیران اور ششدر کردیا ہے۔
پونے چار سال تک اس کیس کا بڑا ملزم الیہہ ملک کا وزیراعظم اور سیاہ وسفید کا مالک تھا، لہٰذامدعی پر بے پناہ دباؤ بھی ڈالا گیا، دھمکیاں بھی دی گئیں، جُھوٹے کیس بھی درج کرائے گئے اور گورنر سمیت بڑے سے بڑے عہدے کا لالچ بھی دیا گیا مگر نہ کسی دھمکی سے اس کے قدم لڑکھڑائے اور نہ کوئی تحریص اور لالچ اسے جھکا سکا۔ میں اس کی لگن اور ثابت قدمی دیکھ سوچ رہا ہوں کہ ؎ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔
میں نے خود پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں سے اکبر بابر کی integrity اور کیریکٹر کے بارے میں پوچھا تو سب نے تسلیم کیا کہ ''اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا کردار بے داغ ہے'' بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افراد اپنے فرائض اور ذمے دار ی بلاخوف ورغبت ادا کرنے کے حلف اٹھاتے ہیں مگر کبھی رغبت اور temptation سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور کبھی خوف سے لڑکھڑا جاتے ہیں۔
مگر ایک معمولی سی کار میں سفر کرنے والا اورسادہ زندگی گذارنے والایہ پختون انجینئر ہر قسم کے خوف اور دباؤ کے سامنے سینہ سپر ہوگیا، اُس نے اپنی جرأت اور اولوالعزامی سے ہر قسم کی دھمکیوں اور رغبتوں کو پاؤں تلے روند ڈالا اور اپنے ٹھوس شواہد کی ضربات سے ملک کے سب سے مقبول شخص کو بے نقاب کردیا اوراس کی ''ایمانداری'' کے بُت کو پاش پاش کردیا۔ میں جب اس کے کردار کا جائزہ لیتا ہوں تو سیاسی جماعتوں میں ایسے بلند اور بے داغ کردار کا کوئی شخص نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ ایسے ہیرے ہی ہماری سیاست اور لولی لنگڑی جمہوریت کا حسن ہیں۔ ایسے لوگوں کے وجود سے ہی پارلیمنٹ کے وقار اور اعتبار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
بہت سے باخبر حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی ریٹائرڈ جج چیف الیکشن کمشنر ہوتا تو فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس مزید کئی سالوں تک لٹکا رہتا اور اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہوسکتا۔ جس طرح تھا نہ کلچر کی کچھ قباحتیں ہیں، اسی طرح عدالتی کلچر کی بھی کچھ کمزوریاںہیں اور ''تاخیر'' ایک ایسی ہی کمزوری ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ منصفین تمام فریقوں کو اپنا موقف بیان کرنے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں، اس دوران مختلف فریقوں کی درخواست پر سماعت بھی ملتوی ہوتی رہتی ہے۔
Quick Decision Making انتظامی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پولیس اور انتظامیہ کے افسران میں فوری یا جلد فیصلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راقم 2010سے یہ لکھ رہا تھا کہ انتخابات کا انعقاد، عدالتی نہیں انتظامی عمل ہے، اس طرح کے کام سرانجام دینا جیوڈیشری کی تربیّت میں شامل نہیں ہے۔
لہٰذا الیکشن کمیشن کے افسران عدلیہ سے نہیں لینے چاہیں، اس سلسلے میں ممبرانِ پارلیمنٹ کو بھی sensitise کیا گیا اور بالآخر متعلقہ حضرات قائل ہوئے اور آئین میں ترمیم کی گئی کہ چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر ریٹائرڈ جج صاحبان کے بجائے سول سروسز کے ریٹائرڈ افسروں کو تعینات کیا جائے گا۔
عمران خان صاحب کی شخصیّت اور سیاست کا مشاہدہ کرنے والاہر شخص یہ جان چکا ہے کہ وہ ہر سرکاری افسر اور ہر ادارے کی طرف سے مکمل اطاعت چاہتے ہیں، انھوں نے اپنے اقتدار میں یہ ثابت کیا ہے کہ انھیں سول سرونٹس کی ایمانداری سے نہیں وفاداری سے غرض ہے، اگرکوئی افسر اُن سے وفاداری نبھانے کے لیے تیار ہے، ان کے سیاسی مخالفین کو کچلنے کا ٹاسک مکمل کرنے میں ''مخلص''ہے تو پھر اس کی بددیانتی، اس کی لُوٹ مار اور عوام کے ساتھ زیادتی اور بے انصافی بھی قابلِ قبول ہے۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ ڈسکہ میں پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران نے حکومت کی ہدایت پر پی ٹی آئی کو جتوانے کے لیے تمام تر غیرقانونی حربے استعمال کیے تھے۔
کوئی بھی الیکشن کمشنر اس قدر عریاں دھاندلی دیکھ کر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا تھا، میرے خیال میں تو ڈسکہ میں الیکشن کمیشن کی طرف سے نرمی دکھائی گئی تھی۔ اس وقت کے آئی جی اور چیف سیکریٹری کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ 2010 میں جب راقم گوجرانوالہ کا ڈی آئی جی تھا تو ایک ضمنی الیکشن میں اسی طرح پریذائڈنگ افسر غائب کیے گئے تھے اور ان کے ذریعے دھاندلی کا پروگرام بنایا گیا مگر غیر جانبدار پولیس نے بروقت اور موثر کارروائی کر کے دھاندلی کا منصوبہ ناکام بنادیا اور حقدار کو فورری طور پر اس کا حق مل گیا۔ نہ چیف الیکشن کمیشن تک بات گئی اور نہ ہی سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ عمران خان نے اُس وقت گوجرانوالہ پولیس کی غیر جانبداری کی درجنوں بار تعریف کی مگر وزیرِاعظم بن کر انھیں غیرجانبدار ادارے برے لگنے لگے۔
وہ چاہتے تھے کہ الیکشن کمیشن اُن کے ہر غیر قانونی کام میں ان کی مدد کرے، ایسا نہ ہوسکا، اس لیے وہ کمیشن سے ناراض ہوگئے۔ دال میں کالا تو اُسی وقت نظر آگیا تھا جب عمران صاحب بار بار اس کیس کی سماعت ملتوی کراتے یا اس میں رکاوٹیں ڈالتے تھے مگر اب تو یہ بات قانون کی زبان میںbeyond any doubt ثابت ہوگئی ہے کہ عمران خان صاحب اکاؤنٹس چھپانے اور الیکشن کمیشن کے سامنے جھوٹا بیانِ حلفی دینے (misdeclaration) کے جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
اس لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو قا نون میں درج ہے اور جو ماضی میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ 2016میں میرے بڑے بھائی صاحب جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ ایم این اے تھے، وہ اپنے انتخابی فارم میں اپنے آبائی گاؤں کی مسجد (جس کے انتظامات اور اخراجات کی ذمے داری انھی کے پاس تھی) کے ڈیڑھ دو لاکھ کے بینک اکاؤنٹ کا سہواً ذکر نہ کرسکے، الیکشن ٹریبونل نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دیا، معاملہ سپریم کورٹ گیا تو جج صاحبان نے کہا ''ہم جانتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نام جج رہے ہیںاور آپ کی کوئی بدنیتی نہیں ہے مگر قانون میں لکھا ہے کہ ایک روپے کا ذکر بھی مِس ہوا ہو تو پورا الیکشن کا لعدم قرار پائے گا'' لہٰذا اُن کا الیکشن کا لعدم قرار دے دیا گیا۔
میاں نوازشریف کے ساتھ تو بے پناہ زیادتی ہوئی، ایک خیالی آمدنی (جو انھوں نے وصول ہی نہیں کی تھی) کا اندراج نہ کرنے پر انھیں تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا، اب عمران خان کے سپورٹرز یہ بیانیہ بیچ رہے ہیں کہ عمران خان نے چاہے جرم کیا ہے مگر سزا اس لیے نہیں ملنی چاہیے کہ وہ بڑا مقبول ہے۔ مقبولیت قانون سے بالاہونے کا معیار قرار پائی تو کل کلاں کوئی مقبول لیڈر قتل یا اربوں کے فراڈ کے کیسوں میں بھی استثنیٰ مانگے گا۔ مدینہ کا نام بے جا استعمال کرنے والا کپتان کیا نہیں جانتا کہ شاہِ مدینہﷺ نے جب یہ فرمادیا کہ ''اگر میری بیٹی فاطمہ بھی جرم کرے گی تو اسے وہی سزا ملے گی جو ایک عام مجرم کو ملتی ہے'' توequality before law کا اصول ہمیشہ کے لیے طے کردیا اور ہر قسم کیexemption کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔
انسانی معاشروں یا ملکوں میں امن کی ضمانت صرف انصاف دیتا ہے، بے لاگ اور بلا استثنیٰ انصاف۔ اگر مختلف مجرموں کے لیے قانون کے معیار مختلف ہوںگے، اگر عام آدمی اور کم مقبول شخص کو سزا دی جائے اور مقبول کے لیے انصاف اور سزا کا پیمانہ بدل دیا جائے تو اس سے ملک انار کی اور بدامنی کا شکار ہو جائے گا۔ ہوش مند، باشعور اورmature قومیں قیادت کے لیے شکل، رنگ یا قد نہیں دیکھتیں وہاں امیدواروں کا کیریکٹر اوراہلیت دیکھی جاتی ہے، جذباتی اور immature لوگ سیرت کے بجائے ظاہری صورت سے متاثر ہوتے اور دلکش نعروں سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور غلط فیصلہ کر کے کئی دھائیوں تک اس کے نقصان اٹھاتے رہتے ہیں۔
اگر دونوں کا کردار اور طرزِ عمل دیکھا جائے تو اکبر شیر بابر، عمران خان سے کہیں بڑا انسان ثابت ہوا ہے، اسے مالی معاملات میں بے ضابطگی اور بددیانتی نظر آئی تو عمران خان کو زبانی اور تحریری طور پر آگاہ کیا، مگر جب چیئرمین صاحب نے ان گھپلوں کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کی تو اکبر نے حقائق قوم کے سامنے لانے کی ٹھان لی اور پھر سالہا سال تک وہ ایک کٹھن اور کانٹوں بھرے راستے پر تن تنہا چلتا رہا، اور بالآخر جدوجہد، عزمِ صمیم اور ثابت قدمی کا استعارہ بن گیا۔ تعلیمی اور تربیتی درسگاہوں میں آیندہ جب بھی نامساعد حالات میں ڈٹے رہنے، ناامید نہ ہونے اور لگن، ہمتّ اور حوصلے سے ایک بظاہر ناممکن ہدف حاصل کرنے کی جدوجہد پر لیکچر دیے جائیں گے تو ان میں اکبر ایس بابر کا ذکر ضرور ہوگا۔
اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کون اس کا شکار بنتا ہے اور کون مستفیض ہوتا ہے، کون victim بنتا ہے اور کون beneficiary۔ یہ توآنے والا وقت بتائے گا مگر اس طویل قانونی جنگ میں جو شخص سر بلند اور سرخرو ہوا ہے، اس کا نام اکبر شیر بابر ہے۔
کیس کی سماعت آٹھ سال تک چلتی رہی مگر پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر اکبر بابر کے کردار اور دیانتداری پر انگلی نہیں اٹھاسکا، اپنے ہر مخالف کو چور، ڈاکو کہنے والے عمران خان بھی اکبر ایس بابر کی ذات پر کوئی الزام نہیں لگا سکے۔ بابر قبیلے کے اس پٹھان کی سادگی، دیانتداری، مقصد سے لگن، حوصلے، جرأت اور ثابت قدمی نے ایک نئی تاریخ لکھ کر سب کو حیران اور ششدر کردیا ہے۔
پونے چار سال تک اس کیس کا بڑا ملزم الیہہ ملک کا وزیراعظم اور سیاہ وسفید کا مالک تھا، لہٰذامدعی پر بے پناہ دباؤ بھی ڈالا گیا، دھمکیاں بھی دی گئیں، جُھوٹے کیس بھی درج کرائے گئے اور گورنر سمیت بڑے سے بڑے عہدے کا لالچ بھی دیا گیا مگر نہ کسی دھمکی سے اس کے قدم لڑکھڑائے اور نہ کوئی تحریص اور لالچ اسے جھکا سکا۔ میں اس کی لگن اور ثابت قدمی دیکھ سوچ رہا ہوں کہ ؎ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔
میں نے خود پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں سے اکبر بابر کی integrity اور کیریکٹر کے بارے میں پوچھا تو سب نے تسلیم کیا کہ ''اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا کردار بے داغ ہے'' بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افراد اپنے فرائض اور ذمے دار ی بلاخوف ورغبت ادا کرنے کے حلف اٹھاتے ہیں مگر کبھی رغبت اور temptation سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور کبھی خوف سے لڑکھڑا جاتے ہیں۔
مگر ایک معمولی سی کار میں سفر کرنے والا اورسادہ زندگی گذارنے والایہ پختون انجینئر ہر قسم کے خوف اور دباؤ کے سامنے سینہ سپر ہوگیا، اُس نے اپنی جرأت اور اولوالعزامی سے ہر قسم کی دھمکیوں اور رغبتوں کو پاؤں تلے روند ڈالا اور اپنے ٹھوس شواہد کی ضربات سے ملک کے سب سے مقبول شخص کو بے نقاب کردیا اوراس کی ''ایمانداری'' کے بُت کو پاش پاش کردیا۔ میں جب اس کے کردار کا جائزہ لیتا ہوں تو سیاسی جماعتوں میں ایسے بلند اور بے داغ کردار کا کوئی شخص نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ ایسے ہیرے ہی ہماری سیاست اور لولی لنگڑی جمہوریت کا حسن ہیں۔ ایسے لوگوں کے وجود سے ہی پارلیمنٹ کے وقار اور اعتبار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
بہت سے باخبر حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی ریٹائرڈ جج چیف الیکشن کمشنر ہوتا تو فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس مزید کئی سالوں تک لٹکا رہتا اور اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہوسکتا۔ جس طرح تھا نہ کلچر کی کچھ قباحتیں ہیں، اسی طرح عدالتی کلچر کی بھی کچھ کمزوریاںہیں اور ''تاخیر'' ایک ایسی ہی کمزوری ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ منصفین تمام فریقوں کو اپنا موقف بیان کرنے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں، اس دوران مختلف فریقوں کی درخواست پر سماعت بھی ملتوی ہوتی رہتی ہے۔
Quick Decision Making انتظامی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پولیس اور انتظامیہ کے افسران میں فوری یا جلد فیصلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راقم 2010سے یہ لکھ رہا تھا کہ انتخابات کا انعقاد، عدالتی نہیں انتظامی عمل ہے، اس طرح کے کام سرانجام دینا جیوڈیشری کی تربیّت میں شامل نہیں ہے۔
لہٰذا الیکشن کمیشن کے افسران عدلیہ سے نہیں لینے چاہیں، اس سلسلے میں ممبرانِ پارلیمنٹ کو بھی sensitise کیا گیا اور بالآخر متعلقہ حضرات قائل ہوئے اور آئین میں ترمیم کی گئی کہ چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر ریٹائرڈ جج صاحبان کے بجائے سول سروسز کے ریٹائرڈ افسروں کو تعینات کیا جائے گا۔
عمران خان صاحب کی شخصیّت اور سیاست کا مشاہدہ کرنے والاہر شخص یہ جان چکا ہے کہ وہ ہر سرکاری افسر اور ہر ادارے کی طرف سے مکمل اطاعت چاہتے ہیں، انھوں نے اپنے اقتدار میں یہ ثابت کیا ہے کہ انھیں سول سرونٹس کی ایمانداری سے نہیں وفاداری سے غرض ہے، اگرکوئی افسر اُن سے وفاداری نبھانے کے لیے تیار ہے، ان کے سیاسی مخالفین کو کچلنے کا ٹاسک مکمل کرنے میں ''مخلص''ہے تو پھر اس کی بددیانتی، اس کی لُوٹ مار اور عوام کے ساتھ زیادتی اور بے انصافی بھی قابلِ قبول ہے۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ ڈسکہ میں پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران نے حکومت کی ہدایت پر پی ٹی آئی کو جتوانے کے لیے تمام تر غیرقانونی حربے استعمال کیے تھے۔
کوئی بھی الیکشن کمشنر اس قدر عریاں دھاندلی دیکھ کر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا تھا، میرے خیال میں تو ڈسکہ میں الیکشن کمیشن کی طرف سے نرمی دکھائی گئی تھی۔ اس وقت کے آئی جی اور چیف سیکریٹری کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ 2010 میں جب راقم گوجرانوالہ کا ڈی آئی جی تھا تو ایک ضمنی الیکشن میں اسی طرح پریذائڈنگ افسر غائب کیے گئے تھے اور ان کے ذریعے دھاندلی کا پروگرام بنایا گیا مگر غیر جانبدار پولیس نے بروقت اور موثر کارروائی کر کے دھاندلی کا منصوبہ ناکام بنادیا اور حقدار کو فورری طور پر اس کا حق مل گیا۔ نہ چیف الیکشن کمیشن تک بات گئی اور نہ ہی سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ عمران خان نے اُس وقت گوجرانوالہ پولیس کی غیر جانبداری کی درجنوں بار تعریف کی مگر وزیرِاعظم بن کر انھیں غیرجانبدار ادارے برے لگنے لگے۔
وہ چاہتے تھے کہ الیکشن کمیشن اُن کے ہر غیر قانونی کام میں ان کی مدد کرے، ایسا نہ ہوسکا، اس لیے وہ کمیشن سے ناراض ہوگئے۔ دال میں کالا تو اُسی وقت نظر آگیا تھا جب عمران صاحب بار بار اس کیس کی سماعت ملتوی کراتے یا اس میں رکاوٹیں ڈالتے تھے مگر اب تو یہ بات قانون کی زبان میںbeyond any doubt ثابت ہوگئی ہے کہ عمران خان صاحب اکاؤنٹس چھپانے اور الیکشن کمیشن کے سامنے جھوٹا بیانِ حلفی دینے (misdeclaration) کے جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
اس لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو قا نون میں درج ہے اور جو ماضی میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ 2016میں میرے بڑے بھائی صاحب جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ ایم این اے تھے، وہ اپنے انتخابی فارم میں اپنے آبائی گاؤں کی مسجد (جس کے انتظامات اور اخراجات کی ذمے داری انھی کے پاس تھی) کے ڈیڑھ دو لاکھ کے بینک اکاؤنٹ کا سہواً ذکر نہ کرسکے، الیکشن ٹریبونل نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دیا، معاملہ سپریم کورٹ گیا تو جج صاحبان نے کہا ''ہم جانتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نام جج رہے ہیںاور آپ کی کوئی بدنیتی نہیں ہے مگر قانون میں لکھا ہے کہ ایک روپے کا ذکر بھی مِس ہوا ہو تو پورا الیکشن کا لعدم قرار پائے گا'' لہٰذا اُن کا الیکشن کا لعدم قرار دے دیا گیا۔
میاں نوازشریف کے ساتھ تو بے پناہ زیادتی ہوئی، ایک خیالی آمدنی (جو انھوں نے وصول ہی نہیں کی تھی) کا اندراج نہ کرنے پر انھیں تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا، اب عمران خان کے سپورٹرز یہ بیانیہ بیچ رہے ہیں کہ عمران خان نے چاہے جرم کیا ہے مگر سزا اس لیے نہیں ملنی چاہیے کہ وہ بڑا مقبول ہے۔ مقبولیت قانون سے بالاہونے کا معیار قرار پائی تو کل کلاں کوئی مقبول لیڈر قتل یا اربوں کے فراڈ کے کیسوں میں بھی استثنیٰ مانگے گا۔ مدینہ کا نام بے جا استعمال کرنے والا کپتان کیا نہیں جانتا کہ شاہِ مدینہﷺ نے جب یہ فرمادیا کہ ''اگر میری بیٹی فاطمہ بھی جرم کرے گی تو اسے وہی سزا ملے گی جو ایک عام مجرم کو ملتی ہے'' توequality before law کا اصول ہمیشہ کے لیے طے کردیا اور ہر قسم کیexemption کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔
انسانی معاشروں یا ملکوں میں امن کی ضمانت صرف انصاف دیتا ہے، بے لاگ اور بلا استثنیٰ انصاف۔ اگر مختلف مجرموں کے لیے قانون کے معیار مختلف ہوںگے، اگر عام آدمی اور کم مقبول شخص کو سزا دی جائے اور مقبول کے لیے انصاف اور سزا کا پیمانہ بدل دیا جائے تو اس سے ملک انار کی اور بدامنی کا شکار ہو جائے گا۔ ہوش مند، باشعور اورmature قومیں قیادت کے لیے شکل، رنگ یا قد نہیں دیکھتیں وہاں امیدواروں کا کیریکٹر اوراہلیت دیکھی جاتی ہے، جذباتی اور immature لوگ سیرت کے بجائے ظاہری صورت سے متاثر ہوتے اور دلکش نعروں سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور غلط فیصلہ کر کے کئی دھائیوں تک اس کے نقصان اٹھاتے رہتے ہیں۔
اگر دونوں کا کردار اور طرزِ عمل دیکھا جائے تو اکبر شیر بابر، عمران خان سے کہیں بڑا انسان ثابت ہوا ہے، اسے مالی معاملات میں بے ضابطگی اور بددیانتی نظر آئی تو عمران خان کو زبانی اور تحریری طور پر آگاہ کیا، مگر جب چیئرمین صاحب نے ان گھپلوں کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کی تو اکبر نے حقائق قوم کے سامنے لانے کی ٹھان لی اور پھر سالہا سال تک وہ ایک کٹھن اور کانٹوں بھرے راستے پر تن تنہا چلتا رہا، اور بالآخر جدوجہد، عزمِ صمیم اور ثابت قدمی کا استعارہ بن گیا۔ تعلیمی اور تربیتی درسگاہوں میں آیندہ جب بھی نامساعد حالات میں ڈٹے رہنے، ناامید نہ ہونے اور لگن، ہمتّ اور حوصلے سے ایک بظاہر ناممکن ہدف حاصل کرنے کی جدوجہد پر لیکچر دیے جائیں گے تو ان میں اکبر ایس بابر کا ذکر ضرور ہوگا۔