قدرت کا انوکھا انتقام

امریکا اور برطانیہ دونوں ممالک میں ہندوستانی لابی بہت مضبوط،متحرک اور موثر ہے


عبد الحمید August 12, 2022
[email protected]

کہا جاتا ہے کہ ہر تعمیر میں تخریب اور ہر تخریب میں ایک تعمیر پنہاں ہوتی ہے۔سلطنتِ عثمانیہ وقت گزرنے کے ساتھ مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں میں یرغمال بنتی چلی گئی۔پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے دنیا بدل کر رکھ دی لیکن سلطنتِ عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس پر پابندیاں لگا دیں گئیں۔

اجرامِ فلکی کے مطالعے کے لیے بنائی گئی رصد گاہ کو آگ دکھا دی گئی،اس طر ح علم و آگہی کو فروغ دینے کے بجائے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ان فرسودہ اقدامات کے مقابلے میں یورپ جو اب تک غفلت کے اندھیروں میں گم تھا وہاں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی پر بہت دھیان دیا جانے لگا ۔

بس پھر کیا تھا،یورپ نے انگڑائی لی اور نت نئی ایجادات ہونے لگیں،ترقی کا ایک لا متناعی سلسلہ چل نکلا۔چند یورپی ممالک خاص کر پرتگال کے جہاز ران اپنی تجارت کو چار سو پھیلانے لگے۔ یورپ کے تاجر جب 1430عیسوی میں بحرِ اوقیانوس کے افریقی ساحلی ممالک میں پہنچے تو انھیں سونے چاندی کے سوا کسی اور چیز سے کوئی سروکار نہیں تھی لیکن 1500 عیسوی تک یورپی تاجروں نے اکیاسی ہزار کے لگ بھگ افریقیوں کو جبری پکڑ کر یورپ اور خاص کر امریکا بھیج دیا تھا۔

یورپ کا طاقتور ہونا سفید فام برتری کا آغاز بنا۔یہ برتری ابھی تک قائم ہے لیکن اب اس برتری کو ایک تو مشرق میں چین کی جانب سے بھر پور چیلنج کا سامنا ہے اور دوسری طرف خود مغرب میں سیاسی زعماء،ایشیائی،افریقی نژاد سیاست دانوں کے ہاتھوں مغلوب ہو رہے ہیں۔ یورپ ایک لمبے عرصے تک برِ اعظم افریقہ سے لاکھوں افراد کو جبر،دھوکے اور مکاری سے غلام بنا کر امریکا لے جاتا رہا جہاں ان سے انتہائی غیر انسانی سلوک ہوتا رہا۔برطانیہ نے اور علاقوں کے ساتھ برِ صغیر پاک و ہند پر قبضہ جمایا اور یہاں کی دولت لوٹ کر امیر ترین اور طاقتور ترین ملک بن گیا البتہ برِ صغیر کو غربت و افلاس کی چکی میں پسنے کے لیے چھوڑ دیا۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ برطانیہ نے 1765 اور 1938کے دوران کم و بیش45کھرب برٹش پاؤنڈ برِ صغیر سے لوٹے۔یورپی اقوام نے بظاہر یہ سب کچھ اپنے فائدے کے لیے کیا لیکن ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔قدرت عجیب طریقے سے کام کرتی ہے۔وہ افریقی جو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے، آج ان کی ہی اولاد کی ایک بڑی اکثریت امریکا میں آزاد اور صاحبِ حیثیت بن چکی ہے اور امریکی سیاست میں بہت فعال اور کامیاب ہے۔

ادھر برطانوی قبضے کی وجہ سے برِ صغیر کے رہنے والوں کی برطانیہ نقل مکانی کا راستہ کھل گیا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ برِ صغیر اوریجن کے بہت سے سیاستدان برطانوی ممبرانِ پارلیمنٹ ہیں۔یورپی اقوام کی بربریت اورسفاکی کی وجہ سے افریقی غلام بن کر،امریکا پہنچے لیکن قدرت ان افریقیوں کو وہاں عروج دلانے کے لیے کام کر رہی تھی۔برطانیہ برِ صغیر پر حکومت کرنے اور لوٹ مار کرنے آیا تھا لیکن قدرت اس بہانے پاک و ہند کے باشندوں کو برطانیہ میں شایدمقامِ بلند پر فائز کرنے کے لیے کام کر رہی تھی۔

پچھلے امریکی صدارتی انتخابات کو کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا کہ بائیڈن کی چار سالہ ٹرم کے دوران صدر اپنے بڑھاپے اور گرتی صحت کی بنیاد پر کرسیء صدارت سے سبکدوش ہو جائیں اور اُن کی نائب صدر کمیلا حارث باقی ماندہ میعاد کے لیے صدارت سنبھال لیں۔وہ جو بائیڈن کی چار سالہ ٹرم کے خاتمے پر صدارت کا الیکشن لڑیں۔کامیابی کی صورت میں،جس کا بہت امکان ہے وہ دوسری مرتبہ بھی صدارت کی امیدوار بنیں اور یوں کمیلا حارث جن کے آباؤاجدادافریقہ اور بھارت سے تھے وہ تقریباً دس سال کے لیے امریکی صدر رہیں۔

اگر ایسا ہو گیا اور جس کا قوی امکان ہے تو وہ امریکا کی پہلی افرو ایشیا نژاد خاتون صدر ہوں گی۔بارک اوباما کی آٹھ سالہ امریکی صدارت کے بعد کمیلا حارث کا لمبے عرصے تک صدر رہنا،کیا یہ سفید فام برتری کو ختم کرنے کا عندیہ نہیں اور کیا اس طرح غیر سفید فام اور خاص کر افریقیوں کے خلاف ظلم و بربریت کا جو بازار گرم رکھا گیا تھا اور جس کو مغرب اپنے تئیں اپنے مفاد میں سمجھتا تھا،کیا قدرت کی طرف سے اس کا انتقام ہوتا نظر نہیں آتا۔

امریکی صدر جوزف بائیڈن نے پچھلے دنوں ایک خطاب میں دبے دبے کہا کہ وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ابھی حال ہی میں بتایا گیا ہے کہ بائیڈن کورونا وبا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ان کی بھرپور دیکھ بھال کی جا رہی ہے مگر ان کاٹیسٹ تیسری بار بھی پازیٹو آیا ہے۔بائیڈن 20نومبر1942کو امریکی ریاست پنسلوینیا میں پیدا ہوئے۔صدر بننے سے پہلے وہ سات بار سینیٹ کے رکن اور صدر اوباما کے ساتھ مسلسل آٹھ سال امریکا کے نائب صدر رہے۔ جو بائیڈن پہلے امریکی صدر ہیں جن کے ساتھ ایک خاتون نائب صدر ہیں۔وہ ہفتے کے تمام دن پوری تندہی سے کام کرنے سے قاصر ہیں۔

امریکا اور برطانیہ دونوں ممالک میں ہندوستانی لابی بہت مضبوط،متحرک اور موثر ہے۔ امریکی کانگریس، سینیٹ اور انتظامیہ کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں ہندوستانی چھائے ہوئے اور ہندوستانی مفادات کی نگرانی نہ کر رہے ہوں۔ اس وقت دنیا کی بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اکثرچیف ایگزیکٹو ہندوستانی ہیں یا ہندوستانی نژاد۔افریقی امریکن تو اب پانچ صدیوں سے امریکی معاشرے کا حصہ ہیں اور آئے دن ان کی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بارک اوباما کی مثال سامنے ہے۔اوباما کو دنیا کی مضبوط ترین اور امیر ترین یہودی فیملی راتھ چائلڈ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اوباما کی الیکشن مہم بھی ایک راتھ چائلڈ فرد نے چلائی اور کمپین کو فنانس بھی انھوں نے ہی کیا۔اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ موثر ترین لوگ افریقی نژاد لوگوں کی پشت پناہی کر کے ان کو آگے لانے میں مددگار ہو رہے ہیں کیونکہ ان کو آنے والے وقتوں میں افریقی امریکن کیمونٹی کی ابھرتی قوت کا ابھی سے اندازہ ہے۔کمیلا حارث کو امریکا میں دو بہت موئثر لابیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ان کو بھارتی لابی کی حمایت حاصل ہے اور ساتھ ہی افریقی لابی بھی ان کی پشت پر کھڑی ہے اس لیے غالب امکان ہے کہ اگلے کچھ عرصے میں جو بائیڈن خراب صحت کے بہانے امریکی صدارت سے سبکدوش ہو جائیں اور کمیلا حارث قائم مقام صدر بن کے اگلی دو ٹرموں کے لیے امیدوار ٹھہریں۔ سوچیں سفید فام برتری کا کیا بنے گا۔

برطانیہ چند صدیوں تک سفید فام نسل پرست رویے کا ایک نمایندہ ملک رہا ہے۔برِ صغیر پر قبضے کے بعد مقامی آبادی کے ساتھ برطانوی رویہ بہت ہتک آمیز رہا۔ہندوستان جسے مغلیہ دور میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا،جس کی جی ڈی پی،دنیا کی جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ تھی اس کو لوٹ کر، برطانیہ کو گریٹ برٹن بنایا گیا۔اس ظلم و زیادتی کے دوران ایک ہی اچھی بات ہوئی کہ ہندوستانیوں کی برطانیہ نقل مکانی آسان ہو گئی اور ایک مضبوط لابی وجود میں آئی۔برطانوی کردار ایک گھناؤنا عمل تھا جس کے نتیجے اور ردِ عمل کے طور پر ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو برطانیہ منتقل ہونے کا موقع ملا۔اب وہاں پر پاکستان،بنگلہ دیش اور بھارت نژاد ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو برطانیہ میں ہی پیدا ہوئی،پلی بڑھی،وہاں کے اداروں میں تعلیم حاصل کی اور اپنے کام سے ایک مقامِ بلند حاصل کیا۔

لندن کے لارڈ میئر صادق خان اس کی ایک مثال ہیں۔ ایک اور مثال بھارتی نژاد رشی سناک کی ہے۔یہ برطانیہ کے وزیرِ خزانہ ہیں کنزرویٹو پارٹی کے یہ رکن اس وقت تک مستقبل کے وزیرِ اعظم کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔وہ ٹی وی مباحثہ میں اپنی سفید فام حریف لز ٹرس پر سبقت لے چکے ہیں۔ 3ستمبر کو کنزرویٹو پارٹی کے دو لاکھ سے زیادہ باقاعدہ ممبران اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ برطانیہ کا اگلا چیف ایگزیکٹو کون ہو گا۔سلطنتِ عثمانیہ کے بعد برطانیہ نے پوری دنیا پر واحد سُپر پاور کی حیثیت میں راج کیا۔اگر سفید فام نسل پرستی کے اس علمبردار ملک کی باگ ڈور رشی سناک کے ہاتھ میں آ جاتی ہے تو کیا یہ محض اتفاق ہے یا قدرت کا عظیم اور انوکھا انتقام۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں