محشر کی گھڑی

ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ ہمارے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور ہم ہیں کہ مسلسل اکھاڑ پچاڑ میں لگے ہوئے ہیں

S_afarooqi@yahoo.com

PESHAWAR:
وطن عزیز پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 75 سال ہو چکے ہیں۔ رب کریم کا احسان ہے کہ ہم آج آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کا معرض وجود میں آنا کسی معجزے سے کم نہیں۔

آزادی کا جشن مناتے ہوئے آئیے ایک سرسری نظر اپنے اُن عظیم قائدین پر ڈالتے ہیں جن کی کوششوں اور قیادت کی وجہ سے اس مملکت خداداد نے جنم لیا اور مسلم دنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔سچ پوچھیے تو یہ شخصیات قیامِ پاکستان کی معمار ہیں، اب یہ وطن انھی کی کاوشوں کا ثمر ہے۔

یہ تین شخصیات ہیں: مصورپاکستان علامہ اقبال ، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور چوہدری رحمت علی۔ ان تینوں عظیم اور مخلص رہ نماؤں نے ہندوستان کے محکوم اور مظلوم مسلمانوں کو انگریزی راج اور ہندوؤں کے غلبہ سے نجات دلانے کے لیے اپنے اپنے انداز میں جو شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔مفکر اسلام علامہ اقبال نے اپنی انقلابی اور جوش پیدا کرنے والی قومی اور اسلامی شاعری کے ذریعے ان مسلمانوں کے قلوب و اذہان میں آزادی کی شمع روشن کی تھی۔

چوہدری رحمت علی نے انگلستان میں رہ کر اپنی تنظیم'' پاکستان نیشنل موومنٹ ''کی بنیاد ڈالی اور آزادی کی اس لَو کو تیز تر کرنے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کردیا تھا۔جب علامہ اقبال کی بے مثل اسلامی فکر اور چوہدری رحمت علی کے تصورِ پاکستان نے مسلمانانِ ہند کو آزاد وطن اور جداگانہ اسلامی مملکت کے قیام پر اُبھار کر متحد کردیا تو بانی پاکستان محمد علی جناح نے آگے بڑھ کر مسلمانوں کو منظم کیا۔ اس طرح انھوں نے اس کاروان کو منزلِ مقصود کی جانب تیزگام کردیا اور آخرکار خدا کے فضل و کرم سے پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔

اس لحاظ سے علامہ اقبال کی فکر، چوہدری رحمت علی کا پاک پلان اور اس کے لیے جدوجہد اور محمد علی جناح کی بے مثال قیادت تاریخ پاکستان کے سلسلے کی تین اہم کڑیاں ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قربانیوں نے بھی قیامِ پاکستان کی تاریخ میں ایک درخشاں باب کا اضافہ کیا ہے۔ اِن تینوں قائد اعظم کے کارناموں کا ذکر کرنا ہمارا قومی فرض ہے اور اسلامی فریضہ بھی۔

ایک ملک میں رہنے کے باوجود ہندو اور مسلمان دو مختلف مذاہب(اسلام اور ہندو دھرم) اور دو مختلف تہذیبوں پر عمل کرتے تھے۔اس لیے چوہدری رحمت علی انھیں ایک قوم خیال کرنے کے سخت مخالف تھے۔ مسلمانوں کو الگ قوم سمجھتے ہوئے وہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ اور آزاد مسلمان ملک کا مطالبہ کرتے تھے جو ہندوستان کا حصہ نہ ہو۔برصغیر کے بٹوارے کے سلسلے میں برطانیہ میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں دو قومی نظریہ کی پوری آب و تاب سے حمایت کی تھی،چونکہ گول میز کانفرنسوں میں مشترکہ قومیت اور انڈین وفاق(مختلف علاقوں کا انڈیا کے ساتھ رہنا) کے نظریے کو مسلمان لیڈر بھی ماننے پر تیار ہوگئے تھے اس لیے چوہدری رحمت علی نے ان سے سخت اختلاف کیا اور اس موقع پر اپنا ایک پمفلٹ(کتابچہ یعنی چھوٹی سی کتاب) انگریزی میں شایع کیا تھا جس کا نام تھا اب یا کبھی نہیں(Now or Never) انھوں نے اس اہم کتابچہ میں یہ بات بیان کی تھی کہ ہم ہندوؤں سے الگ قوم ہیں۔

اس لیے ہمیں اُن سے الگ ملک ملنا چاہیے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر اب ہم نے بڑا پاکستان نہ بنایا تو بعد میں ہم کبھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔انھوں نے یہ کتابچہ28 جنوری1933کو کیمبرج کے پتے سے شایع کیا تھا۔ جس پر ان کے تین ہم خیال ساتھیوں خان محمد اسلم خاں خٹک، خاں عنایت اللہ خاں اور صاحبزادہ شیخ محمد صادق کے دستخط تھے۔اسلم خاں خٹک آکسفورڈ سے، شیخ محمد صادق لندن کی آنز آف کورٹ سے اور عنایت اللہ خاں ایک ویٹرنری کالج سے تعلق رکھتے تھے اور وہ وہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔


چوہدری رحمت علی نیک،بلند ہمت،محنتی، ذہین اور مسلمان قوم کے ہمدرد اور اسلام کے سچے خادم تھے اور کسی صورت میں بھی یہ گوارہ نہیں کرسکتے تھے کہ انڈیا کے غریب اور مظلوم مسلمان انگریزوں کی غلامی سے جان چھڑا کر ہندوؤں کے غلام بن کر زندگی گزاریں۔ انھوں نے مسلمانوں کے لیے نہ صرف ایک آزاد وطن کا پرزور مطالبہ کیا تھا بلکہ انھوں نے اس وطن کا نام پاکستان بھی تجویز کیا تھا۔آئیے اب لفظ پاکستان کی ساخت پر غور کرتے ہیں جو دو الفاظ پاک اور ستان کا مرکب ہے جس کے معنی ہوئے پاک مقام،ذرا یہ بھی سوچیں کہ کیا ہم اپنے وطن کے نام کی ان صفات کی کسوٹی پر پورا اترتے بھی ہیں یا نہیں؟

افسوس کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہمارا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ ہم اغیار کی سازشوں کا نشانہ بن کر ایک متحدہ قوم سے ہٹ کر علاقہ اور لسانی بنیادوں پر آپس میں تقسیم ہوگئے جس کا خمیازہ ہمیں اپنے مشرقی بازو کی علیحدگی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ہماری خطا یہ ہے کہ ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اس وقت ہمارا جو حال ہے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے اپنے سیاسی مفادات اور مصلحتوں کی خاطر اپنے وطن کے وجود اور آگاہی کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔

ہم نے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے اور سیاسی رسہ کشی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔افہام و تفہیم سے کام لینے کے بجائے ہم ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ملک کو اس وقت جو سنگین چیلنج درپیش ہیں وہ انتہائی باعث تشویش ہیں۔ ایک طرف ہمارے سیاسی اکابرین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں اور دوسری جانب ہماری معیشت روز بروز زوال پذیر ہوتی چلی جارہی ہے۔ہم میں سے ہر کوئی محب وطن اور خادمِ قوم ہونے کا دعویدار ہے اور دوسری جانب ہم وہ حرکات کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک خلفشار اور انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں جس سے ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔

ہمیں آئینہ میں اپنی شکل کیوں نظر نہیں آرہی؟ ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ ہمارے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور ہم ہیں کہ مسلسل اکھاڑ پچاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔خدارا ملک کے معتبر اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں اور سر جوڑ کر بیٹھیں اور آپس میں لڑنے بھڑنے کے بجائے اپنی تمام تر توانائیاں تعمیر و ترقی وطن کے لیے وقف کردیں۔

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

خدارا! باز آجائیں
Load Next Story