امر یکا اور چین کا حالیہ تنازعہ

کیا کسی فیصلہ کن موڑ پر پاکستان کھل کر امریکا کے خلاف چین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرے گا



NAIROBI: امریکی ایوان نمایندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد چین امریکا کشیدگی عروج پر ہے۔دنیا اب یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا امریکا چین تصادم ناگزیر ہوگیا؟کیا تائیوان ہی وہ میدان جنگ ہے جو واحد سپر پاور امریکا اور ابھرتی ہوئی طاقت چین کے مستقبل میں سیاسی اور معاشی کردار کا تعین کرے گا؟بین الاقوامی تعلقات کی ایک مشہور تھیوری تھوسی ڈائڈ ٹریپ ہے۔

اس کے مطابق ابھرتی ہوئی سپر پاور کا موجودہ سپر پاور کے ساتھ تصادم اور ٹکراؤ لازمی ہوتا ہے۔گزشتہ 16 میں سے 12 عالمی طاقتوں کا نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ ٹکراؤ ہوا جس کے نتیجے میں بین الاقوامی سیاست میں طاقت کا توازن تبدیل ہوا۔

حالیہ تاریخ میں سرد جنگ وہ واحد ایونٹ ہے جو پرامن طریقے سے براہ راست تصادم کے بغیر اختتام پذیر ہوا،لیکن گزشتہ دہائی اس حوالے سے منفرد ہے کہ عالمی سیاست اتنی تیزی سے تبدیل ہوئی، جسکا شاید امریکی پالیسی میکرز کو بھی اندازہ نہیں تھا۔بعض معمولی حادثات اور قدرتی آفات کے سامنے انسان تو کیا بڑی بڑی طاقتیں بے بس پڑ جاتی ہیں۔

کس کو معلوم تھا کہ 1914 میں آسٹریا کے شہزادے فرانز فرڈیننڈ کا بوسنیائی سربوں کے ہاتھوں قتل کا واقعہ عالمی جنگ کے آغاز کی بنیاد بنے گا؟ بالکل اسی طرح امریکی ایوان نمایندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کا تائیوان کا دورہ کسی بڑے عالمی حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا تھا۔امریکی حکومت اس دورے کو انفرادی حیثیت میں کیا گیا دورہ قرار دے رہی ہے،لیکن چین جو کہ ون چائینہ پالیسی کے تحت تائیوان اپنا حصہ سمجھتا ہے اس دورے کو سرخ لکیر پار کرنے کے مترادف قرار دے رہا ہے۔

ایک طرف عالمی ماہرین اس دورے کو امریکا کی عالمی بالادستی برقرار رہنے کی طرف اشارہ قرار دے رہے ہیں، دوسری طرف چین کی مستقل خاموشی اور براہ راست تصادم سے گریز بڑی معنی خیز ہے۔بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق اگر چینی صدر کو نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کو روکنے کے لیے کوئی عسکری حل پیش کیا جاتا، صدر شی آنکھیں بند کرکے تائیوان پر فوجی آپریشن کی منظوری دے دیتے۔

اس دورے نے جہاں عالمی سیاست میں تاحال امریکی بالادستی برقرار ہونے کی بحث کو جنم دیا ہے ،وہیں مستقبل کی عالمی سیاست میں چین کے ممکنہ کردار پر بھی بحث کا آغاز ہوا ہے۔دونوں عالمی طاقتوں کا ممکنہ تصادم ہو یا بنتے بگڑتے تعلقات یا امریکی عالمی سیاست میں کم ہوتا امریکی کردار یہ بحث چلتی رہے گی۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ چین بین الاقوامی سیاست میں بطور عالمی طاقت اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کتنا تیار ہے؟کیا چین دنیا کے لیے امریکا کا متبادل ثابت ہوسکتا ہے؟

دنیا میں امریکا کی پہچان انسانی حقوق کا احترام،جمہوریت اور آزاد تجارت ہے،اگر انسانی حقوق کے معاملے میں خود امریکا کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو امریکا کی تاریخ سیاہ فام غلاموں کے ساتھ رکھے جانے والے غیر انسانی رویے سے بھری ہوئی ہے۔

دنیا میں انسانوں کے خلاف تاریخ کا سب سے مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا کلنک بھی امریکا کے ماتھے پر سجا ہوا ہے۔حالیہ تاریخ میں گوانتانامو سے لے کر عراق،افغانستان اور شام میں امریکا کے ہاتھوں انسانی حقوق کی جو دھجیاں اڑائیں گئیں ،وہ کسی شرمناک باب سے کم نہیں۔چین کے معاملے میں سوائے ایغور مسلمانوں کے متنازعہ ایشو کے ریاستی سرپرستی میں انسانی حقوق کی پامالی کا کوئی منظم واقعہ نظر نہیں آتا،اگر جمہوریت کی بات کریں تو یہاں بھی امریکا کی دورخی پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کیسے ریاستی مفاد کی آڑ میں جمہوریت کے فروغ کا درس دینے والی سپر پاور نے چلی میں جنرل پنوشے کی آمریت سے لے کر مصر میں السیسی اور پاکستان میں آمروں کی سیاسی سرپرستی کی۔

جہاں امریکا کی پہچان سرمایہ دارانہ آزاد معیشت ہے، وہیں چین کی پہچان دنیا کو جوڑنے والا منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک ہے۔یہ حقیقت ہے کہ امریکا کی سرمایہ دارانہ آزاد معیشت بڑی عالمی طاقتوں کے معاشی مفادات کی نگہبان ہیں۔تیسری دنیا کے غریب ممالک بڑی معاشی طاقتوں کے لیے سوائے ایک منڈی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے،جب کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک منصوبہ خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک کی معیشتوں کے لیے ایک امید کی کرن ہے،کیونکہ اس منصوبے کا اصل مقصد نئی منڈیوں کی تلاش نہیں بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے ایک لڑی کی مانند تجارتی پارٹنر بنانا ہے۔معاشی اصولوں میں بھی ایران،شمالی کوریا اور تیسرے دنیا کے دیگر ممالک کی صورت امریکا کی دوغلی پالیسی عیاں ہوتی ہے۔

ایک طرف دنیا بھر میں آزاد معیشت کا درس دوسری جانب معاشی پابندیوں کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا۔پاکستان بھی 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکا کی اس دوغلی معاشی پالیسی کو معاشی پابندیوں کی صورت بھگت چکا ہے،اگر اس وقت برادر مسلم ممالک مفت تیل کی صورت پاکستان کی مدد نہ کرتے تو آج شاید پاکستان کے معاشی حالات بھی ایران اور شمالی کوریا جیسے ہی ہوتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی عسکری طاقت کے موازنے میں امریکا کا کوئی مقابلہ نہیں،لیکن تائیوان کی مدد کے لیے اپنی سرزمین سے ہزاروں میل دور فوج اور عسکری سازوسامان اکلوتی سپر پاور کے لیے اتنا آسان ہرگز نہ ہوگا۔دوسری جانب عسکری لحاظ سے چین کو تائیوان اور امریکا ہر حوالے سے ایڈوانٹیج حاصل ہے۔تائیوان کے قضیے پر چین اور امریکا کے تصادم اور ٹکراؤ کے امکانات پر بحث اپنی جگہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پاکستان آج کہاں کھڑا ہے؟کیا ہم نے چین اور امریکا کے کسی ممکنہ تصادم یا براہ راست ٹکراؤ کے تناظر میں کوئی پالیسی تشکیل دی ہے؟

کیا کسی فیصلہ کن موڑ پر پاکستان کھل کر امریکا کے خلاف چین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرے گا یا حالات کے مطابق خارجہ پالیسی کا ازسر نو تعین کرنے کا فیصلہ ہوگا؟عالمی سیاست میں حالات کے مطابق فوری فیصلے جہاں امکانات کے مواقع پیدا کرتے ہیں، وہیں نئے خطرات بھی جنم لیتے ہیں۔کیا پاکستان بدلتے ہوئے عالمی حالات میں ممکنہ خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟بدقسمتی سے سیاسی گرما گرمی کے ماحول میں کسی کی بھی توجہ ان بدلتے ہوئے حالات پر نہیں۔ایک چھوٹی سی چنگاری جہاں دنیا کے حالات اور نقشہ بدل سکتی ہے، وہیں پاکستان جیسے چھوٹے ممالک کسی صورت تبدیلیوں سے بچ نہیں سکتے۔پاکستان میں سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط خارجہ پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں