ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
پاکستانی سیاست سے وڈیرہ شاہی کے رواج کوختم کیاجائے اورایسے چہروں کاانتخاب کیا جائے جواس ملک وملت کی تقدیرکو بدل ڈالیں
ISLAMABAD:
غلامی حسن وزیبائی سے محرومی کا نام ہے،غلامی ذہنی صلاحیتوں کی زنگ آلودگی اور پژمردگی کو کہتے ہیں،غلامی اپنی خودی کا جھٹکا کرنے کی فعل قبیح ہے، غلامی اپنی اَنا کو فنا کے گھاٹ اُتارنے کا نام ہے، غلامی انسانیت کی ذلت اور نامرادی کا اعلان ہے، غلامی روزِ روشن میں شب تاریک کا تسلط ہے۔
غلامی نوعِ بشر کو جانوروں سے بھی بدتر کرنے کا عمل ہے، غلامی دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی مسرتیں پامال کرنے کی رسمِ قدیم ہے، غلامی آقاؤں کی خوشنودی اور اپنی خود کشی کی مذموم حرکت ہے۔اسی غلامی کے متعلق شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی ولولہ انگیز شاعری میں اس بات کی کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ:
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
ہم آج سے 75 برس پیچھے کی طرف دھیان ڈالیں تو ایک خوفناک خواب کی تعبیر ملتی ہے جس میں ہم لوگ ہندوستان کی غلامی کے سائے میں پل رہے تھے یہ ایسی غلامی تھی جس میں سانس لینا تو دور کی بات انسان زبان خلق سے کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ وہیں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب شاعر مشرق علامہ اقبال جیسی پُرمغز شخصیت نے ایک الگ ریاست کا خواب دیکھا ، جس کو تعبیر قائداعظم نے دی،کیونکہ اُس وقت ہندوستان میں صدیوں سے دو قومیں آباد تھیں۔
برصغیر کے مسلمانوں کا ایک ساتھ زندگی گزارنا اس قدر کارِ دشوار ہو چکا تھا اور اس حوالے سے بانی پاکستان قائداعظم اپنے خطبہ صدارت میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ''قومیت کی ہر تعریف کی رُو سے مسلمان ایک قوم ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس قومی وطن ہو، اُن کا اپنا ملک ہو اور اپنی ریاست اور دولت ہو۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ باہمی امن اور اتحاد سے رہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اپنے تصورات اور مزاج کے مطابق اور جس طرح ہمارے خیال میں بہتر ہو، روحانی،ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی زندگی میں ترقی کرے۔''اس کے بعدہمارے قائد نے دونوں قوموں کے مذاہب کے فرق کو دیکھتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے کی تہذیبوں سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارا دین اسلامی اصولوں تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنی پوری زندگی اس ضابطہ حیات کے مطابق بسر کرنا چاہتے ہیں اور اسی مطالبہ پر قائداعظم نے پاکستان کی بنیاد رکھی اور پاکستان بننے کے بعد اٹھارہ اگست 1947ء کو بحیثیت گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح قوم کے نام عید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ ''اس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔
اب بڑی ذمے داریاں ہمارے کندھوں پر آپڑی ہیں اور جتنی ذمے داریاں ہوں اتنا ہی بڑا ارادہ اتنی ہی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئی ہیں، جو کوششیں کی گئی ہیں۔ پاکستان کی تشکیل وتعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی ہی قربانیاں اوردینے کی کوشش کرنا پڑیں گی۔ حقیقی معنوں میں ٹھوس کام کا وقت آپہنچا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ مسلمانوں کی ذہانت وفطانت اس بار عظیم کو آسانی سے برداشت کرے گی اور اس بظاہر پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کی تمام مشکلات کو آسانی سے جھیلے گی۔''
بقول جلیل عالی۔
نکلے گا کوئی رستہ تدبیر بدلنے سے
ملتی نہیں آزادی زنجیر بدلنے سے
راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
قائد کے اس فرمان کے مطابق آج پاکستان اور ہندوستان سے آزادی حاصل کیے 75 برس ہو گئے ہیں ان برسوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کا جواب کون دے گا؟میں یہ سوال اس لیے کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں موجودہ حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ہمارے شہروں میں اُجڑے مناظر، بچوں سے لے کر بوڑھوں کی سسکیوں، بیٹیوں سے لے کر ماؤں کی مایوسی، محرومیوں، مفلس و بے کس کی فاقہ کشتیوں، عالمِ انسانیت کے گوناگوں کرب انگیز مسائل، قومی تشخص درہم برہم، حق و قلم کی صداقت پر پہرے، معاشرت و معیشت کی تباہی، علما زیرعتاب،خوشامدیوں کا بول بالا، حق گوئی کا زوال، عدالتوں کی میزیں شکستہ، انسانی دلوں میں کدورتیں، فن، حسن و محبت کے سبھی چراغ روشن کرنا ناپید، دھوکہ فریب عام ، تبدیلی کے نام پر قرضوں کے انبار، نیا پاکستان کا خواب اور پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کی ناکام جدوجہد کے باوجود آج 75 سال کے بعد ان تمام سوالات کے باوجود ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس تناظر میں سرور ارمان کی منظر کشی :
افسوس، شواہد بھی گئے حق میں انھی کے
میزانِ عدالت بھی لٹیروں کی طرف ہے
اس ملک سے غربت کبھی مٹ ہی نہیں سکتی
اس ملک کا دستور وڈیروں کی طرف ہے
پاکستانی سیاست سے وڈیرہ شاہی کے رواج کو ختم کیا جائے اور ایسے چہروں کا انتخاب کیا جائے جو اس ملک و ملت کی تقدیر کو بدل ڈالیں، مگر ایسا ہوتا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے ،کیونکہ پاکستان میں نئی نسل کی قیادت کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ خاندانی اعتبار سے وہ پاکستان مخالف پس منظر رکھتے ہیں۔
اُن کی تعلیم ایسے اداروں میں ہوتی ہے جہاں مطالعہ پاکستان کا کوئی مضمون شامل نصاب نہیں ہوتا،اُردو زبان سے وہ نابلد ہوتے ہیں،اُن کو کیا علم کہ جس پاکستان پر حکومت کرنا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اُس کی بنیادوں میں کس کس کا خون اور پسینہ جذب ہے۔ عوام پاکستان جانتے ہیں یہی وجہ ہے اور یہی پاکستان کا حقیقی معنوں میں المیہ ہے کہ پاکستان کے عوام کچھ اور سوچتے ہیں اور حکمرانوں کے اقدامات اُن کی سوچ کے برعکس کچھ اور ہوتے ہیں۔
آخر میں شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
غلامی حسن وزیبائی سے محرومی کا نام ہے،غلامی ذہنی صلاحیتوں کی زنگ آلودگی اور پژمردگی کو کہتے ہیں،غلامی اپنی خودی کا جھٹکا کرنے کی فعل قبیح ہے، غلامی اپنی اَنا کو فنا کے گھاٹ اُتارنے کا نام ہے، غلامی انسانیت کی ذلت اور نامرادی کا اعلان ہے، غلامی روزِ روشن میں شب تاریک کا تسلط ہے۔
غلامی نوعِ بشر کو جانوروں سے بھی بدتر کرنے کا عمل ہے، غلامی دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی مسرتیں پامال کرنے کی رسمِ قدیم ہے، غلامی آقاؤں کی خوشنودی اور اپنی خود کشی کی مذموم حرکت ہے۔اسی غلامی کے متعلق شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی ولولہ انگیز شاعری میں اس بات کی کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ:
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
ہم آج سے 75 برس پیچھے کی طرف دھیان ڈالیں تو ایک خوفناک خواب کی تعبیر ملتی ہے جس میں ہم لوگ ہندوستان کی غلامی کے سائے میں پل رہے تھے یہ ایسی غلامی تھی جس میں سانس لینا تو دور کی بات انسان زبان خلق سے کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ وہیں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب شاعر مشرق علامہ اقبال جیسی پُرمغز شخصیت نے ایک الگ ریاست کا خواب دیکھا ، جس کو تعبیر قائداعظم نے دی،کیونکہ اُس وقت ہندوستان میں صدیوں سے دو قومیں آباد تھیں۔
برصغیر کے مسلمانوں کا ایک ساتھ زندگی گزارنا اس قدر کارِ دشوار ہو چکا تھا اور اس حوالے سے بانی پاکستان قائداعظم اپنے خطبہ صدارت میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ''قومیت کی ہر تعریف کی رُو سے مسلمان ایک قوم ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس قومی وطن ہو، اُن کا اپنا ملک ہو اور اپنی ریاست اور دولت ہو۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ باہمی امن اور اتحاد سے رہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اپنے تصورات اور مزاج کے مطابق اور جس طرح ہمارے خیال میں بہتر ہو، روحانی،ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی زندگی میں ترقی کرے۔''اس کے بعدہمارے قائد نے دونوں قوموں کے مذاہب کے فرق کو دیکھتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے کی تہذیبوں سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارا دین اسلامی اصولوں تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنی پوری زندگی اس ضابطہ حیات کے مطابق بسر کرنا چاہتے ہیں اور اسی مطالبہ پر قائداعظم نے پاکستان کی بنیاد رکھی اور پاکستان بننے کے بعد اٹھارہ اگست 1947ء کو بحیثیت گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح قوم کے نام عید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ ''اس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔
اب بڑی ذمے داریاں ہمارے کندھوں پر آپڑی ہیں اور جتنی ذمے داریاں ہوں اتنا ہی بڑا ارادہ اتنی ہی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئی ہیں، جو کوششیں کی گئی ہیں۔ پاکستان کی تشکیل وتعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی ہی قربانیاں اوردینے کی کوشش کرنا پڑیں گی۔ حقیقی معنوں میں ٹھوس کام کا وقت آپہنچا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ مسلمانوں کی ذہانت وفطانت اس بار عظیم کو آسانی سے برداشت کرے گی اور اس بظاہر پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کی تمام مشکلات کو آسانی سے جھیلے گی۔''
بقول جلیل عالی۔
نکلے گا کوئی رستہ تدبیر بدلنے سے
ملتی نہیں آزادی زنجیر بدلنے سے
راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
قائد کے اس فرمان کے مطابق آج پاکستان اور ہندوستان سے آزادی حاصل کیے 75 برس ہو گئے ہیں ان برسوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کا جواب کون دے گا؟میں یہ سوال اس لیے کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں موجودہ حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ہمارے شہروں میں اُجڑے مناظر، بچوں سے لے کر بوڑھوں کی سسکیوں، بیٹیوں سے لے کر ماؤں کی مایوسی، محرومیوں، مفلس و بے کس کی فاقہ کشتیوں، عالمِ انسانیت کے گوناگوں کرب انگیز مسائل، قومی تشخص درہم برہم، حق و قلم کی صداقت پر پہرے، معاشرت و معیشت کی تباہی، علما زیرعتاب،خوشامدیوں کا بول بالا، حق گوئی کا زوال، عدالتوں کی میزیں شکستہ، انسانی دلوں میں کدورتیں، فن، حسن و محبت کے سبھی چراغ روشن کرنا ناپید، دھوکہ فریب عام ، تبدیلی کے نام پر قرضوں کے انبار، نیا پاکستان کا خواب اور پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کی ناکام جدوجہد کے باوجود آج 75 سال کے بعد ان تمام سوالات کے باوجود ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس تناظر میں سرور ارمان کی منظر کشی :
افسوس، شواہد بھی گئے حق میں انھی کے
میزانِ عدالت بھی لٹیروں کی طرف ہے
اس ملک سے غربت کبھی مٹ ہی نہیں سکتی
اس ملک کا دستور وڈیروں کی طرف ہے
پاکستانی سیاست سے وڈیرہ شاہی کے رواج کو ختم کیا جائے اور ایسے چہروں کا انتخاب کیا جائے جو اس ملک و ملت کی تقدیر کو بدل ڈالیں، مگر ایسا ہوتا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے ،کیونکہ پاکستان میں نئی نسل کی قیادت کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ خاندانی اعتبار سے وہ پاکستان مخالف پس منظر رکھتے ہیں۔
اُن کی تعلیم ایسے اداروں میں ہوتی ہے جہاں مطالعہ پاکستان کا کوئی مضمون شامل نصاب نہیں ہوتا،اُردو زبان سے وہ نابلد ہوتے ہیں،اُن کو کیا علم کہ جس پاکستان پر حکومت کرنا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اُس کی بنیادوں میں کس کس کا خون اور پسینہ جذب ہے۔ عوام پاکستان جانتے ہیں یہی وجہ ہے اور یہی پاکستان کا حقیقی معنوں میں المیہ ہے کہ پاکستان کے عوام کچھ اور سوچتے ہیں اور حکمرانوں کے اقدامات اُن کی سوچ کے برعکس کچھ اور ہوتے ہیں۔
آخر میں شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا