دِیا جلائے رکھنا ہے…

ہجرت کرنے کے بجائے اپنے ملک میں رہ کر اُس کی باگ ڈور سنبھالیں


مَہ وَش فاروقی August 12, 2022

BAHAWALPUR: ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر

تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر

یہ رب کریم کا بڑا فضل و احسان ہے کہ اُس نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بے مثال قیادت میں ہمیں مملکت خداداد، پاکستان جیسی عظیم نعمت سے نوازا تاکہ ہم اسلام کی اعلیٰ ترین اقدار کے مطابق اس گوشہ عافیت میں سکون و سلامتی اور باہمی ہم آہنگی کے ساتھ اپنی زندگی خوشی سے گزار سکیں اور اقوامِ عالم میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل کرسکیں۔

یہ آزاد وطن ہمارے عظیم بزرگوں کی بے پنہاں اور ناقابل فراموش قربانیوں کا ثمر ہے جن کا نعرہ تھا:

آنکھ کا نور پاکستان

دل کا سرور پاکستان

بٹ کے رہے گا ہندوستان

بن کے رہے گا پاکستان

پاکستان زندہ باد!

پاکستان زندہ باد!

اور یہ نعرہ تو پاکستان کی روح ثابت ہوا:

پاکستان کا مطلب کیا؟

لا الہ الا اللہ!

یہی وہ نعرہ ہے جو کہ دو قومی نظریہ کی جڑ ہے اور جسکی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا۔افسوس یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے جو روش اختیار کی اُس کے نتیجہ میں قائد کا پاکستان دو لخت ہوگیا،لیکن ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے اس سانحہ عظیم سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔اس وقت جب کہ وطن عزیز کو شدید ترین اور انتہائی حالات درپیش ہیں ،ہمارے اربابِ اختیار کوئی تعمیری کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔بڑے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان دن بہ دن کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ہم سب ناصرف اپنی اسلامی اقدار بلکہ اپنے اللہ اور اُس کے رسول محمد ﷺ کو بھی بھلا بیٹھے ہیں۔

ہم کون ہیں کیا ہیں بہ خدا یاد نہیں

اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں

کہیں عقیدے، کہیں فرقے، کہیں ذات پات، کہیں رنگ و نسل تو کہیں مذہب کے نام پر جنگ برپا ہے۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے:

''قابل رحم ہے وہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں مگر دل یقین سے خالی ہے۔''

مصور پاکستان علامہ اقبال کا یہ شعر موجودہ حالات پر ایک سوالیہ نشان ہے:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

یہ اندرونی خلفشار اور ملک کے اندر ٹوٹ پھوٹ آنے والے بھیانک طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ ملک دشمن قوتیں سر اٹھارہی ہیں جو کہ قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔دوسری طرف ملک اخلاقی،معاشرتی اور معاشی بدحالی کا سامنا کر رہا ہے۔ غربت، بیروزگاری، رشوت خوری، لالچ، حرص و ہوس، بھوک، بیماری، افلاس، چوری ڈکیتی، لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی، ضمیر فروشی اور دیگر مسائل ملک کی جڑیں کھود رہے ہیں۔ اب یہ ہماری موجودہ اور آیندہ آنے والی نوجوان نسل کا فرض اوّلین بھی ہے اور بنیادی ذمے داری بھی کہ وہ نہ صرف یہ کہ اس نایاب تحفہ آزادی کی دل و جاں سے قدر کریں۔

درحقیقت آزادی زندگی کی علامت ہے جس کی بقاء بے حد ضروری ہے۔ ہمارا اصل قومی خزانہ اور سرمایہ ہماری نئی پودہے جو اپنی بے لوث خدمت، جذبے اور کاوش سے اس سوہنی دھرتی کو نہ صرف سرسبز و شاداب بنا سکتی ہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے۔

علامہ محمد اقبال نے اپنے اس خوبصورت شعر میں نوجوان نسل کو کیا خوب پیغام دیا ہے ۔

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

یومِ آزادی ہمارے لیے محض ہوائی فائرنگ کرنے، ڈھول تاشے پیٹنے، شور و غل مچانے، جھنڈوں کی نمود و نمائش کرنے، جھنڈیاں اور بیجز لگا لینے، زرق برق لباس پہن لینے، گانے بجانے اور جشن منانے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو رب ذوالجلال کے سامنے سجدہ شکر بجا لانے اور اپنے عظیم بزرگوں اور رہنماؤں کی سر توڑ کوششوں اور بے لوث قربانیوں کی قدر کرنے کا وقت ہے۔غرضیکہ یہ اپنے مالکِ حقیقی کا سچے دل سے شکر ادا کرنے کا وہ قیمتی موقع ہے جس کو گانے اور گنوانے کے بجائے ہم شکرانے کے جتنے بھی نوافل ادا کریں کم ہے۔اس دن میں ہم سب کے لیے ایک انمول پیغام چھپا ہے۔

''ہم پاکستان سے ہیں

پاکستان نہیں

تو ہم بھی نہیں۔''

ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ بالخصوص نوجوان پاکستان کو خیر باد کہہ کر ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کرنے کے بجائے اپنے ملک میں رہ کر اُس کی باگ ڈور سنبھالیں اور اپنی قابلیت کا لوہا منوا کر اِس کا نام پوری دنیا میں روشن کریں۔ اِسے اپنی اہلیت، قابلیت، صلاحیت۔ جان و مال سے خدمت اور محنت کرکے اپنے پیروں پر نہ صرف کھڑا کریں بلکہ اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں۔ہمارے سامنے کتنے ہی غریب ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت نہ صرف خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے بلکہ ترقی کی دوڑ میں حصہ لے کر آج وہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں۔دنیا کی تمام عظیم قوموں کی ترقی و کامیابی کا ایک ہی گولڈن فارمولا یا راز ہے کہ انھوں نے اپنی آزادی کا مطلب سمجھ لیا اور اس کا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری محنت و لگن سے اپنے ممالک کو ترقی کے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔

ہمیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کو یاد رکھنا چاہیے ۔''عظمت صرف ایک فیصد ودیعت کی جاتی ہے اور ننانوے فیصد محنت و ریاضت سے ملتی ہے۔'' ہم خواہ دنیا کے کسی بھی ملک جا کے آباد ہوجائیں لیکن وہاں ہماری اپنی کوئی شناخت باقی نہیں رہتی بلکہ ہمیں کبھی وہاں دوسرے تو کبھی تیسرے درجے کا شہری مانا جاتا ہے۔ ہمارا یہی ملک پاکستان ہم سب کا گھر ہے ، لہذا موسم چاہے خزاں کا ہو یا بہار کا، چاہے آندھی آئے یا طوفان ہمیں اِسے چھوڑ کر نہیں جانا بلکہ ملی یکجہتی کے جذبے سے سرشار ہوکر ہر قسم کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ ہم دنیا میں ایک زندہ و پایندہ قوم کی جیتی جاگتی مثال بن سکیں۔بقول نامور فلسفی ارسطو''مشکلات میں گھبرانا نہیں چاہیے،ستارے ہمیشہ اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں۔''

معروف شاعر اسد محمد خاں نے کیا خوب کہا ہے۔

موج بڑھے یا آندھی آئے

دیِا جلائے رکھنا ہے

گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے

گھر تو آخر اپنا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔