کیا وزیراعلیٰ سندھ کو استعفیٰ دے دینا چاہئے
ناچ گانوں پر اربوں خرچ کرنے والی حکومت کو بھو ک افلاس سے مرتے بچوں کا کو ئی خیا ل نہیں آیا.
بسا اوقا ت سوچتا ہوں کہ اگر موجودہ دور میں چنگیز خان ،ہلاکو خان اور اس طرح کے انسانیت دشمن لوگ ہو تے تو کس کردار کے مالک ہو تے ان کی تصویر کشی کس انداز میں کی جا سکتی ۔ لیکن پھرجب تھر میں معصوم بچوں کی موت کا ننگا ناچ دیکھتا ہوں تو مجھے موجودہ حکمرانوں کی شکل میں میرے سوال کا جواب میسر آ جا تا ہے۔
افسوس صد افسو س کہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا نے والے ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلا و ل بھٹوخود کس نعرے پر عمل پیرا ہیں؟ یہ حقیقت کھل کر سب کے سامنے عیاں ہو چکی ہے ایک طرف بلا و ل بھٹو نے تقریبا ً 6ارب روپے کی لاگت سے تہذیب وثقافت کا ناچ لگایا تو دوسری طرف صحرائے تھر جو اس وقت کو چہء قیامت ٹھہرا ہوا ہے وہاں بھوک و افلاس اور سندھ کی سیاسی انتظامیہ کی انتہائی نا اہلی کی بدولت غریب ہاریوں اور ان کے معصوم بچوں کی موت کا ننگا ر قص بام عروج پر تھا جو اس وقت بھی جا ری ہے۔ موجودہ بھٹو کے نام نہاد جانشینوں نے ثابت کر دیا کہ عوام کے ساتھ جو محبت و اخوت کا رشتہ بھٹو نے قائم کیا اور اپنے آنے والے جانشینوں کو جس کی تلقین کی وہ بالکل اس کے منافی چل رہے ہیں عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنے کا جو نعرہ بھٹو نے لگا یا تھا آج ان کا نعرہ روٹی کپڑا مکان چھیننے کے مصداق ہے بھٹو نے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے خاطر خود پھانسی لی اور موجودہ پیپلز پارٹی نے بنیادی سہو لتیں چھین کر عوام کو پھا نسی کے پھندے پر لٹکا دیا ہے۔
ناچ گانوں پر اربوں خرچ کرنے والی حکومت کو بھوک افلاس سے مرتے بچوں کا کو ئی خیال نہیں آیا تہذیب و ثقافت کے نام پر نت نئے ڈرامے کیے گئے، کچھ ڈرامے میڈیا کے کیمروں کے سامنے تصاویر اتروا کر کئے جائیں گے اور جب تک ہمارے سیاستدانوں کو ان شعبدہ بازیوں سے فرصت ملے گی تو کو ئی اور بحران پیدا ہو چکا ہوگا ۔
ایک خبر کے مطابق حکومت سندھ کو چند ماہ قبل ایک رپورٹ پیش کی جا چکی تھی جس کے مطابق تھر پارکر میں بارش نہ ہو نے کے باعث قحط سالی کے خدشا ت موجود ہیںجنوری میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی اے) کی جانب سے بھی قحط سالی کی وارننگ دی گئی تھی۔لیکن سندھ حکومت کی نا اہلی کی حد یہ ہے کہ انہوں نے بیچارے صحرائیوں کے لئے حفاظتی اقدامات کرنے کی بجا ئے سندھ فیسٹیول میں مشغول ہو گئے اور ثقافت کو بچا نے کے نام پراربوں روپے پانی کی طرح بہا کر معصوم بچوں کی جانوں تک سے کھیل گئے ۔غریب ہاریوں کی جانوں کے ساتھ سیاست سیاست کھیلنی والی حکومت غیر ذمہ دار انتظامیہ کے خلاف مقدمہ چلنا چا ہیے۔
قا رئین محرم ! کیا تھر کے اندر پیش آ نے والی صو رتحال صرف چند ہفتوں میں رونما ہو ئی؟نہیں یہ تو کئی مہینوں سے جاری تھی ؟ کیا حکومت کے علاوہ سول سو سا ئٹی کے وہ ادارے جو انسانی حقوق کے لئے کام کرتے ہیں ان کوان تمام صورتحال کا ادراک نہ ہو سکا ؟یہ المناک صورتحال حکومتی غفلت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے کرادار پر بھی سوالیہ نشان ہے ؟تھر پار کر ایسا صحرا جس کے نیچے قدرتی معدنیات کے خزانے با لخصوص کو ئلے کے ذخائر موجود ہیں وہاں کے غریب ہاریوں کی مشکلات سے اس قدر بے خبر ی؟ یہ وقت تھر کے معصوم لو گو ں کی زندگیا ں بچا نے کا ہے اس لئے عوام کو چا ہیے کہ صحرا نشینوں کے لئے اپنے دل کھو ل دیں اور انہیں احساس کمتری سے نکال کر تعاون کریں وہ یہ سمجھیں کہ پوری پاکستانی قوم ان کے دکھ میں شریک ہے ۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بڑے حوصلے سے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بر ی الذمہ سمجھ لیا کہ یہ سب انتظامیہ کی غفلت کی بدولت ہوا۔بات ادھر ختم نہیں ہو ئی کیا وزیر اعلیٰ کے ذمہ داری قبول کرنے سے معصوم لوگوں کی جا نیں واپس آ سکتی ہیں ؟ کیا ان مائوں کے دودھ پیتے بچے جو پیاس سے بلک بلک کر حکومت کے رحم و کرم کے انتظار میں دنیا سے چلے گئے کیا وہ واپس آسکتے ہیں؟ اگر آپ ان مائوں کے لخت جگر واپس نہیں دے سکتے ہیں وزیراعلی سندھ کو حکومت میں رہنے کا کو ئی حق نہیں ہے، انہیں پہلے ہی بچے کی موت پر ہی مستعفی ہو جا نا چاہئیے تھاکیونکہ جب قائم علی شاہ تھر کی صورتحال کی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں تو اس کے بعد ان کا حکومت میں رہنے کا کو ئی جواز نہیں رہتا ۔
ستم ظریفی کی حد دیکھئے کہ ان کی لاشوں پر وزیر اعلیٰ سندھ نے تھر پارکر جاکر بوفے لنچ تناول فر ما یا جس میں شاہانہ کھانے شامل تھے حیران کن امر ہے کہ غریب ہاریوں کو پانی کی ایک بوند تک میسر نہ آ سکی اور لشکر شاہی، شاہی کھانے اڑاتا رہے۔ ان سے بہتر تو انڈیا کی عام آدمی پارٹی ہے جو عوام سے کیے گئے وعدے کے مطابق کرپشن کے خلاف بل پاس نہ ہو نے کی وجہ پوری صو بائی کابینہ سمیت مستعفی ہو گئی، شاید اس لئے کیونکہ وہ عام آدمی پارٹی تھی یہ پارٹی بھی کسی دور میں عام آدمی کی پارٹی کہلاتی تھی مگر اب اشرافیہ اور عوام کا خون چو سنے والوں کے سوا اس پارٹی کا کو ئی سر ما یہ نہیں رہا ،جس کی سیاست پہلے عوام کے درمیان ہو تی تھی اب ٹو ئیٹر پر ہوتی ہے کیونکہ نام نہاد عوامی لیڈروں کو عوام سے ڈر لگتا ہے روٹی سے بھوکے عوام کہیں ان لیڈروں کو نہ کھا جا ئیں۔
میری گزارش ہے کہ قا رئین کرام آپ بھی تاریخی اوراق سے ظالم ترین حکمرانوں کی سوا نح حیات پڑھیں اور پھر اس کی تصویر موجودہ حکمرانوں میں ڈھونڈنے کی کو شش کریں ۔ ۔ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="202"]
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
افسوس صد افسو س کہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا نے والے ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلا و ل بھٹوخود کس نعرے پر عمل پیرا ہیں؟ یہ حقیقت کھل کر سب کے سامنے عیاں ہو چکی ہے ایک طرف بلا و ل بھٹو نے تقریبا ً 6ارب روپے کی لاگت سے تہذیب وثقافت کا ناچ لگایا تو دوسری طرف صحرائے تھر جو اس وقت کو چہء قیامت ٹھہرا ہوا ہے وہاں بھوک و افلاس اور سندھ کی سیاسی انتظامیہ کی انتہائی نا اہلی کی بدولت غریب ہاریوں اور ان کے معصوم بچوں کی موت کا ننگا ر قص بام عروج پر تھا جو اس وقت بھی جا ری ہے۔ موجودہ بھٹو کے نام نہاد جانشینوں نے ثابت کر دیا کہ عوام کے ساتھ جو محبت و اخوت کا رشتہ بھٹو نے قائم کیا اور اپنے آنے والے جانشینوں کو جس کی تلقین کی وہ بالکل اس کے منافی چل رہے ہیں عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنے کا جو نعرہ بھٹو نے لگا یا تھا آج ان کا نعرہ روٹی کپڑا مکان چھیننے کے مصداق ہے بھٹو نے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے خاطر خود پھانسی لی اور موجودہ پیپلز پارٹی نے بنیادی سہو لتیں چھین کر عوام کو پھا نسی کے پھندے پر لٹکا دیا ہے۔
ناچ گانوں پر اربوں خرچ کرنے والی حکومت کو بھوک افلاس سے مرتے بچوں کا کو ئی خیال نہیں آیا تہذیب و ثقافت کے نام پر نت نئے ڈرامے کیے گئے، کچھ ڈرامے میڈیا کے کیمروں کے سامنے تصاویر اتروا کر کئے جائیں گے اور جب تک ہمارے سیاستدانوں کو ان شعبدہ بازیوں سے فرصت ملے گی تو کو ئی اور بحران پیدا ہو چکا ہوگا ۔
ایک خبر کے مطابق حکومت سندھ کو چند ماہ قبل ایک رپورٹ پیش کی جا چکی تھی جس کے مطابق تھر پارکر میں بارش نہ ہو نے کے باعث قحط سالی کے خدشا ت موجود ہیںجنوری میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی اے) کی جانب سے بھی قحط سالی کی وارننگ دی گئی تھی۔لیکن سندھ حکومت کی نا اہلی کی حد یہ ہے کہ انہوں نے بیچارے صحرائیوں کے لئے حفاظتی اقدامات کرنے کی بجا ئے سندھ فیسٹیول میں مشغول ہو گئے اور ثقافت کو بچا نے کے نام پراربوں روپے پانی کی طرح بہا کر معصوم بچوں کی جانوں تک سے کھیل گئے ۔غریب ہاریوں کی جانوں کے ساتھ سیاست سیاست کھیلنی والی حکومت غیر ذمہ دار انتظامیہ کے خلاف مقدمہ چلنا چا ہیے۔
قا رئین محرم ! کیا تھر کے اندر پیش آ نے والی صو رتحال صرف چند ہفتوں میں رونما ہو ئی؟نہیں یہ تو کئی مہینوں سے جاری تھی ؟ کیا حکومت کے علاوہ سول سو سا ئٹی کے وہ ادارے جو انسانی حقوق کے لئے کام کرتے ہیں ان کوان تمام صورتحال کا ادراک نہ ہو سکا ؟یہ المناک صورتحال حکومتی غفلت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے کرادار پر بھی سوالیہ نشان ہے ؟تھر پار کر ایسا صحرا جس کے نیچے قدرتی معدنیات کے خزانے با لخصوص کو ئلے کے ذخائر موجود ہیں وہاں کے غریب ہاریوں کی مشکلات سے اس قدر بے خبر ی؟ یہ وقت تھر کے معصوم لو گو ں کی زندگیا ں بچا نے کا ہے اس لئے عوام کو چا ہیے کہ صحرا نشینوں کے لئے اپنے دل کھو ل دیں اور انہیں احساس کمتری سے نکال کر تعاون کریں وہ یہ سمجھیں کہ پوری پاکستانی قوم ان کے دکھ میں شریک ہے ۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بڑے حوصلے سے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بر ی الذمہ سمجھ لیا کہ یہ سب انتظامیہ کی غفلت کی بدولت ہوا۔بات ادھر ختم نہیں ہو ئی کیا وزیر اعلیٰ کے ذمہ داری قبول کرنے سے معصوم لوگوں کی جا نیں واپس آ سکتی ہیں ؟ کیا ان مائوں کے دودھ پیتے بچے جو پیاس سے بلک بلک کر حکومت کے رحم و کرم کے انتظار میں دنیا سے چلے گئے کیا وہ واپس آسکتے ہیں؟ اگر آپ ان مائوں کے لخت جگر واپس نہیں دے سکتے ہیں وزیراعلی سندھ کو حکومت میں رہنے کا کو ئی حق نہیں ہے، انہیں پہلے ہی بچے کی موت پر ہی مستعفی ہو جا نا چاہئیے تھاکیونکہ جب قائم علی شاہ تھر کی صورتحال کی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں تو اس کے بعد ان کا حکومت میں رہنے کا کو ئی جواز نہیں رہتا ۔
ستم ظریفی کی حد دیکھئے کہ ان کی لاشوں پر وزیر اعلیٰ سندھ نے تھر پارکر جاکر بوفے لنچ تناول فر ما یا جس میں شاہانہ کھانے شامل تھے حیران کن امر ہے کہ غریب ہاریوں کو پانی کی ایک بوند تک میسر نہ آ سکی اور لشکر شاہی، شاہی کھانے اڑاتا رہے۔ ان سے بہتر تو انڈیا کی عام آدمی پارٹی ہے جو عوام سے کیے گئے وعدے کے مطابق کرپشن کے خلاف بل پاس نہ ہو نے کی وجہ پوری صو بائی کابینہ سمیت مستعفی ہو گئی، شاید اس لئے کیونکہ وہ عام آدمی پارٹی تھی یہ پارٹی بھی کسی دور میں عام آدمی کی پارٹی کہلاتی تھی مگر اب اشرافیہ اور عوام کا خون چو سنے والوں کے سوا اس پارٹی کا کو ئی سر ما یہ نہیں رہا ،جس کی سیاست پہلے عوام کے درمیان ہو تی تھی اب ٹو ئیٹر پر ہوتی ہے کیونکہ نام نہاد عوامی لیڈروں کو عوام سے ڈر لگتا ہے روٹی سے بھوکے عوام کہیں ان لیڈروں کو نہ کھا جا ئیں۔
میری گزارش ہے کہ قا رئین کرام آپ بھی تاریخی اوراق سے ظالم ترین حکمرانوں کی سوا نح حیات پڑھیں اور پھر اس کی تصویر موجودہ حکمرانوں میں ڈھونڈنے کی کو شش کریں ۔ ۔ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="202"]
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔