اقلیتیں قومی وجود کا لازمی جزو
ہم پر لازم ہے کہ قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں ریاست میں قانونی سازی کا عمل مکمل کریں
کراچی:
ملکی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی میں گیارہ اگست 1947کی پہلی دستور اسمبلی میں قائداعظم محمد علی جناح کی اقلیتوں کے حقوق کے لیے کی گئی یادگار تقریر کی یاد میں قومی اقلیتی کنونشن ہوا، جس میں اقلیتی موجودہ و سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور رہنماؤں نے خطاب کیے، اقلیتی رہنماؤں نے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تشویش اور پاکستان میں اقلیتوں کے برابر حقوق دیے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا اور بعض مسائل کی نشاندہی بھی کی۔
اس موقعے پر اقلیتوں کے حقوق کے لیے متفقہ قرار داد منظور کی گئی جس کے ذریعے تمام اقلیتوں نے پارلیمان کو اپنی امیدوں کا مرکز قرار دیدیا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ قومی اسمبلی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی قدم اٹھایا ہے اور قائداعظم کے وژن کے عین مطابق پاکستان کے تمام باشندوں کے درمیان مساوات کی بنیاد پر برابری کے فروغ پر زور دیا ہے۔ قائداعظم مذہبی آزادی اور غیرمسلموں کے مساوی حقوق میں لازوال یقین رکھتے تھے، اور اس کا عملی طور پر نفاذ چاہتے تھے۔
انھوں نے ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے ایک راہ متعین کردی تھی۔ قائد اعظم نے قومی پرچم میں سبز رنگ کے ساتھ سفید رنگ شامل کرایا جو اقلیتوں کی نمایندگی کرتا ہے۔ اپنی پوری سیاسی زندگی میں انھوں نے کئی بار یہ بات دہرائی کہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھا جائے۔ ان کے پورا سیاسی سفر اس بات کا آئینہ دار ہے، قائداعظم اقلیتوں کے سرپرست تھے اور ان کے حقوق کے داعی تھے۔
بلاشبہ اقلیتیں ہمارے قومی وجود کا لازمی جزو ہیں۔ ریاست میں اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کے خدوخال قائداعظم نے واضح کیے تھے ، وہ درحقیقت ایک وژن رکھتے تھے کہ کسی بھی ریاست میں اقلیتوں کی اہمیت و افادیت اور حقوق کیا ہوتے ہیں۔ تقسیم کے وقت حالات نے انسانی تاریخ میں ایک نئی کروٹ لی تھی، تاریخ کی بہت بڑی ہجرت عمل میں آرہی تھی، فسادات میں لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہورہا تھا، ایسے وقت میں پاکستان میں موجود تمام اقلیتوں جان و مال کے تحفظ اور حقوق کے ضمانت کی ضرورت تھی، یہ ضمانت عملی طور پر قائداعظم نے فراہم کی تھی۔
ان کی گیارہ اگست والی تقریر میں مدلل انداز اور دوٹوک الفاظ میں اقلیتوں کو تمام حقوق فراہمی کی واشگاف الفاظ میں یقین دہانی ملتی ہے۔ قائد اعظم نے گیارہ اگست کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔'' صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے بے شمار مقامات پہ تقریروں کے درمیان عندیہ دیا کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق فراہم کریں گے۔
قائد اعظم نے عملی طورپر پہلا کام تو یہ کیا کہ پاکستان بنتے ہی 17 اگست کو جو پہلا اتوار آیا ، اس دن کراچی کے ایک چرچ کی دعوت پر وہاں گئے، تھینکس گونگ کی تقریب میں شرکت کی، فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ تھیں، وہاں انھوں نے پھر سے یہ بات دہرائی کہ پاکستان میں مسلم غیر مسلم کی تفریق ہرگز نہیں ہو گی، سب کے لیے برابری کا اشارہ دیا اور واپس آگئے۔
قائد اعظم اپنے وعدوں کو نبھانے والے تھے جب دستور ساز اسمبلی بنائی تو جوگندر ناتھ منڈل کو سربراہ بناتے ہوئے پندرہ مزید ہندو اراکین اس میں شامل کر دیے، اس سے پہلے بھی دو نومبر 1941 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں، 15جنوری 1945 کو احمد آباد مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے جلسے میں، 11 اپریل 1946 کو مسلم لیگ دہلی کنونشن میں اور بارہا دیگر جگہوں پہ انھوں نے یہ باتیں اپنی تقریروں میں کیں کہ اقلیتیں ریاست کی معزز شہری بن کے رہیں گی، ہندو، سکھ، مسیحی سب کو پاکستان میں برابر کے حقوق ملیں گے۔
یہ وہ مثبت سوچ تھی اور عملی یقین دہانیاں تھیں جس نے اقلیتوں کو بھرپور تحفظ فراہم کیا۔ مصنف یاسر لطیف ہمدانی کی تحقیق کے مطابق محمد علی جناح نے صرف 11 اگست کی تقریر ہی نہیں بلکہ لگ بھگ اپنی 33 تقریروں میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بات کی۔ اقلیتوں کے حقوق اور ان کی مذہبی و تہذیبی شناخت کا تحفظ قرارداد پاکستان کا اہم پہلو تھا جسے بنیاد بنا کر برصغیر پاک و ہند کی اقلیتی برادری نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد اور قیام پاکستان کے بعد قومی تعمیر و ترقی کے عمل میں بھر پور حصہ لیا۔
پاکستان میں بہت سی اقلیتیں آباد ہیں جن کا اپنا اپنا مذہب، اپنے اپنے عقائد اور اپنی اپنی ثقافتی اقدار ہیں۔ یہاں سب سے بڑی اقلیت ہندو ہیں ، اس کے بعد مسیحیوں کا نمبر آتا ہے۔ ان دونوں بڑی اقلیتوں کے علاوہ بہائی، پارسی، بودھ اور دیگر عقائد کے لوگ بھی ہیں۔
آزادی کی جدوجہد میں ان صوبوں کی مذہبی اور نسلی اقلیتوں نے قائد اعظم کے عظیم مشن اور نظریات کی بھرپور حمایت کی، جو آگے چل کر پاکستان کا حصہ بننے والے تھے۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے وقت صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے ارکان کی تعداد برابر تھی یہ تین مسیحی ارکان تھے جنھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور پاکستان کو وہ علاقے مل گئے جن پر کانگریس کا دعویٰ تھا، ان میں سے ایک یعنی ایس پی سنگھا کو قیام پاکستان کے بعد صوبائی اسمبلی کا اسپیکر بنایا گیا۔
عظیم قائد نے اپنی دور اندیشانہ حکمت عملی کے تحت تمام شہریوں کو ایک دوسرے کے احترام، برابری کی بنیاد پر حسن سلوک تحمل برداشت اور مملکت کی تعمیر و ترقی میں مل جل کر بھرپور حصہ لینے کا درس دیا جو اسلامی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ غیرمسلموں کی عزت اور برابری کے مواقعے فراہم کرنے کی یہ بہت بڑی مثال ہے کہ انھوں نے ایک ہندو کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون بنایا۔ آنے والے وقتوں میں ہندو اور عیسائی پاکستان کے چیف جسٹس بھی رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے رہنماء اصولوں کے مطابق اقلیتوں کو بنیادی حقوق اور مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اقلیتی برادری نہ صرف پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتی ہے بلکہ ملک کی خوشحالی میں بھی شانہ بشانہ ساتھ دے رہی ہے۔پاکستان کی ترقی میں اقلیتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں،ہم ایک ہیں
ہندو خواتین کو ہندو میرج ایکٹ کے تحت شادی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا حق حاصل ہوا ہے، جب کہ اس سے قبل پاکستان کے قیام کے بعد سے ملک کے لگ بھگ آٹھ ملین ہندوؤں کو اپنی شادیوں کو حکومت کے پاس درج کرانے کا حق نہیں تھا۔ ایک اہم مسئلہ گزشتہ دو دہائیوں میں نمودار ہوا ہے اور اس کا تعلق زبردستی مذہب کی تبدیلی سے ہے، جس میں سب سے زیادہ ہندو لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔
ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، جوکہ خوش آیند امر ہے۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے ، رنگ ، نسل ، مذہب اور عقیدے کی کوئی تفریق نہیں ہے ، یہی سچ ہے ۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے حکومت بھرپور اقدامات یقینی بنارہی ہے۔ اس ضمن میں اقلیتی رہنماء اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
ہم پر لازم ہے کہ قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں ریاست میں قانونی سازی کا عمل مکمل کریں، جو اس عمل میں حصہ لیں ان کے ذہن میں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ گیارہ اگست کی تقریر سے جو نقشہ ابھرتا اور بنتا ہے اس کی پیروی کی جائے، اس کے مندرجات پر عمل کیا جائے، ہمارے پیارے قائداعظم جیسی ریاست بنانا چاہتے تھے ان کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ویسی ہی ریاست کے لیے کوششیں جاری رکھنی ہیں۔
ملکی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی میں گیارہ اگست 1947کی پہلی دستور اسمبلی میں قائداعظم محمد علی جناح کی اقلیتوں کے حقوق کے لیے کی گئی یادگار تقریر کی یاد میں قومی اقلیتی کنونشن ہوا، جس میں اقلیتی موجودہ و سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور رہنماؤں نے خطاب کیے، اقلیتی رہنماؤں نے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تشویش اور پاکستان میں اقلیتوں کے برابر حقوق دیے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا اور بعض مسائل کی نشاندہی بھی کی۔
اس موقعے پر اقلیتوں کے حقوق کے لیے متفقہ قرار داد منظور کی گئی جس کے ذریعے تمام اقلیتوں نے پارلیمان کو اپنی امیدوں کا مرکز قرار دیدیا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ قومی اسمبلی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی قدم اٹھایا ہے اور قائداعظم کے وژن کے عین مطابق پاکستان کے تمام باشندوں کے درمیان مساوات کی بنیاد پر برابری کے فروغ پر زور دیا ہے۔ قائداعظم مذہبی آزادی اور غیرمسلموں کے مساوی حقوق میں لازوال یقین رکھتے تھے، اور اس کا عملی طور پر نفاذ چاہتے تھے۔
انھوں نے ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے ایک راہ متعین کردی تھی۔ قائد اعظم نے قومی پرچم میں سبز رنگ کے ساتھ سفید رنگ شامل کرایا جو اقلیتوں کی نمایندگی کرتا ہے۔ اپنی پوری سیاسی زندگی میں انھوں نے کئی بار یہ بات دہرائی کہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھا جائے۔ ان کے پورا سیاسی سفر اس بات کا آئینہ دار ہے، قائداعظم اقلیتوں کے سرپرست تھے اور ان کے حقوق کے داعی تھے۔
بلاشبہ اقلیتیں ہمارے قومی وجود کا لازمی جزو ہیں۔ ریاست میں اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کے خدوخال قائداعظم نے واضح کیے تھے ، وہ درحقیقت ایک وژن رکھتے تھے کہ کسی بھی ریاست میں اقلیتوں کی اہمیت و افادیت اور حقوق کیا ہوتے ہیں۔ تقسیم کے وقت حالات نے انسانی تاریخ میں ایک نئی کروٹ لی تھی، تاریخ کی بہت بڑی ہجرت عمل میں آرہی تھی، فسادات میں لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہورہا تھا، ایسے وقت میں پاکستان میں موجود تمام اقلیتوں جان و مال کے تحفظ اور حقوق کے ضمانت کی ضرورت تھی، یہ ضمانت عملی طور پر قائداعظم نے فراہم کی تھی۔
ان کی گیارہ اگست والی تقریر میں مدلل انداز اور دوٹوک الفاظ میں اقلیتوں کو تمام حقوق فراہمی کی واشگاف الفاظ میں یقین دہانی ملتی ہے۔ قائد اعظم نے گیارہ اگست کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔'' صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے بے شمار مقامات پہ تقریروں کے درمیان عندیہ دیا کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق فراہم کریں گے۔
قائد اعظم نے عملی طورپر پہلا کام تو یہ کیا کہ پاکستان بنتے ہی 17 اگست کو جو پہلا اتوار آیا ، اس دن کراچی کے ایک چرچ کی دعوت پر وہاں گئے، تھینکس گونگ کی تقریب میں شرکت کی، فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ تھیں، وہاں انھوں نے پھر سے یہ بات دہرائی کہ پاکستان میں مسلم غیر مسلم کی تفریق ہرگز نہیں ہو گی، سب کے لیے برابری کا اشارہ دیا اور واپس آگئے۔
قائد اعظم اپنے وعدوں کو نبھانے والے تھے جب دستور ساز اسمبلی بنائی تو جوگندر ناتھ منڈل کو سربراہ بناتے ہوئے پندرہ مزید ہندو اراکین اس میں شامل کر دیے، اس سے پہلے بھی دو نومبر 1941 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں، 15جنوری 1945 کو احمد آباد مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے جلسے میں، 11 اپریل 1946 کو مسلم لیگ دہلی کنونشن میں اور بارہا دیگر جگہوں پہ انھوں نے یہ باتیں اپنی تقریروں میں کیں کہ اقلیتیں ریاست کی معزز شہری بن کے رہیں گی، ہندو، سکھ، مسیحی سب کو پاکستان میں برابر کے حقوق ملیں گے۔
یہ وہ مثبت سوچ تھی اور عملی یقین دہانیاں تھیں جس نے اقلیتوں کو بھرپور تحفظ فراہم کیا۔ مصنف یاسر لطیف ہمدانی کی تحقیق کے مطابق محمد علی جناح نے صرف 11 اگست کی تقریر ہی نہیں بلکہ لگ بھگ اپنی 33 تقریروں میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بات کی۔ اقلیتوں کے حقوق اور ان کی مذہبی و تہذیبی شناخت کا تحفظ قرارداد پاکستان کا اہم پہلو تھا جسے بنیاد بنا کر برصغیر پاک و ہند کی اقلیتی برادری نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد اور قیام پاکستان کے بعد قومی تعمیر و ترقی کے عمل میں بھر پور حصہ لیا۔
پاکستان میں بہت سی اقلیتیں آباد ہیں جن کا اپنا اپنا مذہب، اپنے اپنے عقائد اور اپنی اپنی ثقافتی اقدار ہیں۔ یہاں سب سے بڑی اقلیت ہندو ہیں ، اس کے بعد مسیحیوں کا نمبر آتا ہے۔ ان دونوں بڑی اقلیتوں کے علاوہ بہائی، پارسی، بودھ اور دیگر عقائد کے لوگ بھی ہیں۔
آزادی کی جدوجہد میں ان صوبوں کی مذہبی اور نسلی اقلیتوں نے قائد اعظم کے عظیم مشن اور نظریات کی بھرپور حمایت کی، جو آگے چل کر پاکستان کا حصہ بننے والے تھے۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے وقت صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے ارکان کی تعداد برابر تھی یہ تین مسیحی ارکان تھے جنھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور پاکستان کو وہ علاقے مل گئے جن پر کانگریس کا دعویٰ تھا، ان میں سے ایک یعنی ایس پی سنگھا کو قیام پاکستان کے بعد صوبائی اسمبلی کا اسپیکر بنایا گیا۔
عظیم قائد نے اپنی دور اندیشانہ حکمت عملی کے تحت تمام شہریوں کو ایک دوسرے کے احترام، برابری کی بنیاد پر حسن سلوک تحمل برداشت اور مملکت کی تعمیر و ترقی میں مل جل کر بھرپور حصہ لینے کا درس دیا جو اسلامی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ غیرمسلموں کی عزت اور برابری کے مواقعے فراہم کرنے کی یہ بہت بڑی مثال ہے کہ انھوں نے ایک ہندو کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون بنایا۔ آنے والے وقتوں میں ہندو اور عیسائی پاکستان کے چیف جسٹس بھی رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے رہنماء اصولوں کے مطابق اقلیتوں کو بنیادی حقوق اور مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اقلیتی برادری نہ صرف پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتی ہے بلکہ ملک کی خوشحالی میں بھی شانہ بشانہ ساتھ دے رہی ہے۔پاکستان کی ترقی میں اقلیتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں،ہم ایک ہیں
ہندو خواتین کو ہندو میرج ایکٹ کے تحت شادی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا حق حاصل ہوا ہے، جب کہ اس سے قبل پاکستان کے قیام کے بعد سے ملک کے لگ بھگ آٹھ ملین ہندوؤں کو اپنی شادیوں کو حکومت کے پاس درج کرانے کا حق نہیں تھا۔ ایک اہم مسئلہ گزشتہ دو دہائیوں میں نمودار ہوا ہے اور اس کا تعلق زبردستی مذہب کی تبدیلی سے ہے، جس میں سب سے زیادہ ہندو لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔
ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، جوکہ خوش آیند امر ہے۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے ، رنگ ، نسل ، مذہب اور عقیدے کی کوئی تفریق نہیں ہے ، یہی سچ ہے ۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے حکومت بھرپور اقدامات یقینی بنارہی ہے۔ اس ضمن میں اقلیتی رہنماء اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
ہم پر لازم ہے کہ قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں ریاست میں قانونی سازی کا عمل مکمل کریں، جو اس عمل میں حصہ لیں ان کے ذہن میں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ گیارہ اگست کی تقریر سے جو نقشہ ابھرتا اور بنتا ہے اس کی پیروی کی جائے، اس کے مندرجات پر عمل کیا جائے، ہمارے پیارے قائداعظم جیسی ریاست بنانا چاہتے تھے ان کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ویسی ہی ریاست کے لیے کوششیں جاری رکھنی ہیں۔