جب مصیبت گھر دیکھ لے تو…
بس دعا یہی ہے کہ جنوبی ایشیا کے آٹھ میں سے چھ ممالک جنھوں نے سرتوڑ کوششیں کر کے خود کو پولیو فری بنایا بخیریت رہیں
PARIS:
کہتے ہیں مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی مگر پاکستان کا معاملہ بالکل وکھرا ہے۔آزادی کے پچھترویں برس میں بھی یہ ملک ہر اعتبار سے منیر نیازی کے اس شعر کی تفسیر ہے کہ
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
کہنے کو اس ملک میں ستر ہزار دوائیں رجسٹرڈ ہیں اور بیسیوں غیرملکی اور سیکڑوں مقامی دوا ساز کمپنیاں یہ دوائیں تیار کرتی ہیں،مگر ان دواؤں کا تمام خام مال بیرونِ ملک سے آتا ہے۔یہاں صرف مکسنگ ، پیکنگ اور مارکیٹنگ ہوتی ہے۔
پچھلے دس برس میں دواؤں کی قیمتوں میں ڈیڑھ سو فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہو چکا ہے۔لیکن آج بھی صورتِ حال یوں ہے کہ آدھی مارکیٹ جعلی، غیر معیاری یا اسمگلڈ دواؤں پر زندہ ہے اور باقی آدھی مارکیٹ کی ضروریات تمام مقامی دوا ساز کمپنیاں بھی مل کے پوری نہیں کر پا رہیں۔
ایک سرکردہ زمہ دار ہیلتھ رپورٹر وقار بھٹی نے تین ماہ قبل خبر دی کہ اس وقت نفسیاتی و جسمانی امراض بشمول کینسر میں استعمال ہونے والی ساٹھ لائف سیونگ ڈرگز یا تو سرے سے غائب ہیں یا ان کی شدید قلت ہے۔اب انھوں نے تازہ اطلاع دی ہے کہ نایاب یا مشکل سے دستیاب ادویات اور پین کلرز کی تعداد بڑھ کے سو تک پہنچ گئی ہے،جب کہ ادویات کے معیار اور قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ( ڈریپ ) کا دعویٰ ہے کہ مارکیٹ میں مختلف مسائل کی بنیاد پر لگ بھگ پینتیس دواؤں کی قلت ہے۔
ان میں سے اکثر ادویات نو بڑی ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ان کا موقف یہ ہے کہ روپے اور ڈالر کے شدید اتار چڑھاؤ اور بین الاقوامی بحران کے سبب ادویات کے خام مال کی قیمت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔لہٰذا جب تک ادویات کی قیمتوں میں مزید تیس سے چالیس فیصد اضافہ نہیں ہوتا تب تک مارکیٹ میں لائف سیونگ ادویات کا بحران نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ یہ بڑھ بھی سکتا ہے۔
یہ بحران اتنا سنگین ہے کہ ایک ماہ قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو چوبیس گھنٹے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔مگر وزیرِ اعظم اتھارٹی کو شاید یہ بتانا بھول گئے کہ اگلے چوبیس گھنٹے یا اتھارٹی کی مرضی کے چوبیس گھنٹے۔
دوسری مصیبت پولیو کے دوبارہ تیزی سے پھیلاؤ کی شکل میں نازل ہوئی ہے۔ جن علاقوں میں یہ عفریت پوری طرح سر اٹھا رہا ہے، وہاں سرکاری عمل داری عملاً نہ ہونے کے برابر ہے۔
کچھ عرصے پہلے تک سمجھا جاتا تھا کہ تین ممالک یعنی پاکستان ، افغانستان اور نائجیریا کے علاوہ دنیا بھر سے پولیو ختم ہو چکا ہے۔نائجیریا دو ہزار سولہ میں پولیو فری ہو گیا۔اب رھ گئے افغانستان اور پاکستان۔ سارک کے رکن آٹھ میں سے چھ ملک پولیو سے کب کے آزاد ہو چکے۔البتہ افغانستان جہاں پچھلے برس پولیو کے چار مریض تھے۔اس سال وہاں اب تک صرف ایک نیا کیس سامنے آیا ہے۔
جب کہ پاکستان جہاں پچھلے برس ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو وائلڈ پولیو وائرس سے متاثر مریضوں کی تعداد آٹھ تھی۔اس سال اپریل سے اب تک کے چار مہینوں میں چودہ نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ان میں سے تیرہ بچے خیبر پختون خوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں پائے گئے۔جب کہ ایک کیس جنوبی ضلع لکی مروت میں سامنے آیا۔
یہ تمام چودہ بچے وہ ہیں جن تک علاقے میں جنگ جیسی حالت کے سبب یا تو پولیو ویکسینیشن ٹیمیں نہیں پہنچ پائیں یا پھر ان کے گھر والوں نے اپنے بچوں کی ویکسینیشن کروانے سے انکار کر دیا۔کئی علاقوں میں پولیو ورکر ہونا جان جوکھم میں ڈالنے کے برابر ہے۔
اس سال فروری میں دو افغان صوبوں تخار اور قندوز میں اکیس ہیلتھ ورکرز شہید ہوئے جب کہ خیبرپختون خوا میں ویکسین ٹیموں پر اس برس میں اب تک تین نئے حملوں میں دو پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت کرنے والے تین پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ پاکستان میں پولیو ورکرز خود پر قاتلانہ حملے دو ہزار بارہ کے بعد سے کچھ زیادہ ہی جھیل رہے ہیں۔یہ حملے اکثر ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں یا تو انتہاپسند سوچ کا قبضہ ہے یا پھر امن و امان کی صورتِ حال بے قابو ہے۔
کئی علاقوں میں پولیو ورکرز کو چکمہ دینے کے لیے گھر والے اپنے بچوں کے انگوٹھے پر خود ہی روشنائی کے جعلی نشانات بھی لگا لیتے ہیں،اگر پولیو ورکرز ان سے تکرار کریں تو جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ دوسرے شہروں میں بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔یوں ان کے سامان میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی بندھا رہتا ہے۔
یہ خطرہ کس قدر سنگین ہے۔اس کا یوں اندازہ ہو سکتا ہے کہ پچھلے مہینے اسلام آباد ، راولپنڈی اور لاہور سمیت پاکستان کے سات شہروں کے کچھ سیوریج نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا۔ان میں سے باقی چار شہر خیبر پختون خوا میں ہیں۔ابھی دوسرے علاقوں کی تازہ سیمپل رپورٹ آنا باقی ہے۔
ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پولیو ویکسین کو اگر ایک خاص درجہ حرارت پر محفوظ نہ رکھا جائے تو اس کا اثر کم یا ختم ہو سکتا ہے۔چنانچہ کچھ ایسے بچے بھی سامنے آئے ہیں جو ویکسینیشن کے باوجود پولیو کا شکار ہو گئے۔
مگر بری خبر یہ نہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں پولیو کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اصل خبر یہ ہے کہ جن ممالک کو کئی برس پہلے پولیو فری قرار دے دیا گیا۔ وہاں بھی اب نئے کیسز سامنے آنے لگے ہیں۔
جیسے نیویارک میں پچھلے مہینے پولیو کا پہلا کیس سامنے آیا۔افریقہ جسے دو ہزار بیس میں پولیو فری براعظم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔وہاں اب بینن، چڈ اور ڈی آر سی کانگو میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ٹو کا ایک ایک کیس جب کہ مڈغاسکر اور موزمبیق میں کل ملا کے ٹائپ ون وائرس کے ترتیب وار تین اور پانچ نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
بس دعا یہی ہے کہ جنوبی ایشیا کے آٹھ میں سے چھ ممالک جنھوں نے سرتوڑ کوششیں کر کے خود کو پولیو فری بنایا بخیریت رہیں۔مگر یہ بھی تو ہے کہ امریکا جیسے ملک میں اگر پولیو وائرس پھر سے زندہ ہو سکتا ہے تو پھر پولیو فری تمام دیگر ممالک کو پہلے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔
عالمی ادارہِ صحت کے اس تازہ پیغام میں آنے والے کئی برس تک دم رہے گا کہ جب تک کرہِ ارض پر پولیو کا ایک بھی کیس موجود ہے۔تب تک کوئی ملک خود کو محفوظ نہ سمجھے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
کہتے ہیں مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی مگر پاکستان کا معاملہ بالکل وکھرا ہے۔آزادی کے پچھترویں برس میں بھی یہ ملک ہر اعتبار سے منیر نیازی کے اس شعر کی تفسیر ہے کہ
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
کہنے کو اس ملک میں ستر ہزار دوائیں رجسٹرڈ ہیں اور بیسیوں غیرملکی اور سیکڑوں مقامی دوا ساز کمپنیاں یہ دوائیں تیار کرتی ہیں،مگر ان دواؤں کا تمام خام مال بیرونِ ملک سے آتا ہے۔یہاں صرف مکسنگ ، پیکنگ اور مارکیٹنگ ہوتی ہے۔
پچھلے دس برس میں دواؤں کی قیمتوں میں ڈیڑھ سو فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہو چکا ہے۔لیکن آج بھی صورتِ حال یوں ہے کہ آدھی مارکیٹ جعلی، غیر معیاری یا اسمگلڈ دواؤں پر زندہ ہے اور باقی آدھی مارکیٹ کی ضروریات تمام مقامی دوا ساز کمپنیاں بھی مل کے پوری نہیں کر پا رہیں۔
ایک سرکردہ زمہ دار ہیلتھ رپورٹر وقار بھٹی نے تین ماہ قبل خبر دی کہ اس وقت نفسیاتی و جسمانی امراض بشمول کینسر میں استعمال ہونے والی ساٹھ لائف سیونگ ڈرگز یا تو سرے سے غائب ہیں یا ان کی شدید قلت ہے۔اب انھوں نے تازہ اطلاع دی ہے کہ نایاب یا مشکل سے دستیاب ادویات اور پین کلرز کی تعداد بڑھ کے سو تک پہنچ گئی ہے،جب کہ ادویات کے معیار اور قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ( ڈریپ ) کا دعویٰ ہے کہ مارکیٹ میں مختلف مسائل کی بنیاد پر لگ بھگ پینتیس دواؤں کی قلت ہے۔
ان میں سے اکثر ادویات نو بڑی ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ان کا موقف یہ ہے کہ روپے اور ڈالر کے شدید اتار چڑھاؤ اور بین الاقوامی بحران کے سبب ادویات کے خام مال کی قیمت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔لہٰذا جب تک ادویات کی قیمتوں میں مزید تیس سے چالیس فیصد اضافہ نہیں ہوتا تب تک مارکیٹ میں لائف سیونگ ادویات کا بحران نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ یہ بڑھ بھی سکتا ہے۔
یہ بحران اتنا سنگین ہے کہ ایک ماہ قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو چوبیس گھنٹے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔مگر وزیرِ اعظم اتھارٹی کو شاید یہ بتانا بھول گئے کہ اگلے چوبیس گھنٹے یا اتھارٹی کی مرضی کے چوبیس گھنٹے۔
دوسری مصیبت پولیو کے دوبارہ تیزی سے پھیلاؤ کی شکل میں نازل ہوئی ہے۔ جن علاقوں میں یہ عفریت پوری طرح سر اٹھا رہا ہے، وہاں سرکاری عمل داری عملاً نہ ہونے کے برابر ہے۔
کچھ عرصے پہلے تک سمجھا جاتا تھا کہ تین ممالک یعنی پاکستان ، افغانستان اور نائجیریا کے علاوہ دنیا بھر سے پولیو ختم ہو چکا ہے۔نائجیریا دو ہزار سولہ میں پولیو فری ہو گیا۔اب رھ گئے افغانستان اور پاکستان۔ سارک کے رکن آٹھ میں سے چھ ملک پولیو سے کب کے آزاد ہو چکے۔البتہ افغانستان جہاں پچھلے برس پولیو کے چار مریض تھے۔اس سال وہاں اب تک صرف ایک نیا کیس سامنے آیا ہے۔
جب کہ پاکستان جہاں پچھلے برس ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو وائلڈ پولیو وائرس سے متاثر مریضوں کی تعداد آٹھ تھی۔اس سال اپریل سے اب تک کے چار مہینوں میں چودہ نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ان میں سے تیرہ بچے خیبر پختون خوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں پائے گئے۔جب کہ ایک کیس جنوبی ضلع لکی مروت میں سامنے آیا۔
یہ تمام چودہ بچے وہ ہیں جن تک علاقے میں جنگ جیسی حالت کے سبب یا تو پولیو ویکسینیشن ٹیمیں نہیں پہنچ پائیں یا پھر ان کے گھر والوں نے اپنے بچوں کی ویکسینیشن کروانے سے انکار کر دیا۔کئی علاقوں میں پولیو ورکر ہونا جان جوکھم میں ڈالنے کے برابر ہے۔
اس سال فروری میں دو افغان صوبوں تخار اور قندوز میں اکیس ہیلتھ ورکرز شہید ہوئے جب کہ خیبرپختون خوا میں ویکسین ٹیموں پر اس برس میں اب تک تین نئے حملوں میں دو پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت کرنے والے تین پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ پاکستان میں پولیو ورکرز خود پر قاتلانہ حملے دو ہزار بارہ کے بعد سے کچھ زیادہ ہی جھیل رہے ہیں۔یہ حملے اکثر ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں یا تو انتہاپسند سوچ کا قبضہ ہے یا پھر امن و امان کی صورتِ حال بے قابو ہے۔
کئی علاقوں میں پولیو ورکرز کو چکمہ دینے کے لیے گھر والے اپنے بچوں کے انگوٹھے پر خود ہی روشنائی کے جعلی نشانات بھی لگا لیتے ہیں،اگر پولیو ورکرز ان سے تکرار کریں تو جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ دوسرے شہروں میں بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔یوں ان کے سامان میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی بندھا رہتا ہے۔
یہ خطرہ کس قدر سنگین ہے۔اس کا یوں اندازہ ہو سکتا ہے کہ پچھلے مہینے اسلام آباد ، راولپنڈی اور لاہور سمیت پاکستان کے سات شہروں کے کچھ سیوریج نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا۔ان میں سے باقی چار شہر خیبر پختون خوا میں ہیں۔ابھی دوسرے علاقوں کی تازہ سیمپل رپورٹ آنا باقی ہے۔
ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پولیو ویکسین کو اگر ایک خاص درجہ حرارت پر محفوظ نہ رکھا جائے تو اس کا اثر کم یا ختم ہو سکتا ہے۔چنانچہ کچھ ایسے بچے بھی سامنے آئے ہیں جو ویکسینیشن کے باوجود پولیو کا شکار ہو گئے۔
مگر بری خبر یہ نہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں پولیو کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اصل خبر یہ ہے کہ جن ممالک کو کئی برس پہلے پولیو فری قرار دے دیا گیا۔ وہاں بھی اب نئے کیسز سامنے آنے لگے ہیں۔
جیسے نیویارک میں پچھلے مہینے پولیو کا پہلا کیس سامنے آیا۔افریقہ جسے دو ہزار بیس میں پولیو فری براعظم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔وہاں اب بینن، چڈ اور ڈی آر سی کانگو میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ٹو کا ایک ایک کیس جب کہ مڈغاسکر اور موزمبیق میں کل ملا کے ٹائپ ون وائرس کے ترتیب وار تین اور پانچ نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
بس دعا یہی ہے کہ جنوبی ایشیا کے آٹھ میں سے چھ ممالک جنھوں نے سرتوڑ کوششیں کر کے خود کو پولیو فری بنایا بخیریت رہیں۔مگر یہ بھی تو ہے کہ امریکا جیسے ملک میں اگر پولیو وائرس پھر سے زندہ ہو سکتا ہے تو پھر پولیو فری تمام دیگر ممالک کو پہلے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔
عالمی ادارہِ صحت کے اس تازہ پیغام میں آنے والے کئی برس تک دم رہے گا کہ جب تک کرہِ ارض پر پولیو کا ایک بھی کیس موجود ہے۔تب تک کوئی ملک خود کو محفوظ نہ سمجھے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)