کیا ہمارے کوئلے میں بھی دم نہیں ہے
ماہرین امور توانائی نے وزیراعظم کو بریفنگ میں انکشاف کیا کہ پاکستان کا کوئلہ بھی کسی کام کا نہیں ہے.
ISLAMABAD:
پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کا 'باواآدم' ہی نرالا ہے۔ یہاں کوئی بھی چیز ڈھنگ کی نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کو ڈھنگ سے رہنے ہی نہیں دیا جاتا، وسائل تلاش کرنے میں ہم کاہل اور لٹانے میں ماہر ہیں،جیب بھلے پھوٹی کوڑی نہ ہو پر ہمارے شوق سارے نوابوں جیسے ہوں گے۔
اس وقت ملک میں ہر طرف لوڈشیڈنگ کا شور ہے۔ آج کی نئی حکومت کو دیکھ کر ذہن میں پانچ برس قبل کی سلائیڈز گھومنے لگی ہیں۔ جب ہر طرف لوڈ شیڈنگ کو شور و غوغا تھا، ایک وزیر باتدبیر اپنے تدبر کی بنیاد پر جہاں ایک طرف دسمبر میں لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کی نوید سنارہے تھے وہیں یہ حیران کن انکشاف بھی عوام کے گنہگار کان سننے پر مجبور تھے کہ سابق حکومت ( پرویز مشرف، ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز) نے ایک بھی یونٹ بجلی نہیں بنائی۔ اب نئے وزیر باتدبیر نے اپنی فراصت سے تدبیر بھی وہ نکالی جس پر باقی وزیرومشیر انگشت بادنداں رہ گئے، انہوں نے ایسی لاٹھی مارنے کی کوشش کی کہ وہ ٹوٹنے بھی نہ پائے اور سانپ بھی ایسے نکل جائے کہ لوگ لکیر پیٹتے رہ جائیں۔
جی درست پہچانا منصوبہ تھا ملک بھر میں کرائے کے بجلی گھروں یعنی رینٹل پاور کا جال بچھانے کا اور اس کے لئے تھیلے بھربھر کر رقم تقسیم کی گئی جسے بعد میں اعلیٰ عدالت نے واپس نکلوایا۔ وزیر باتدبیر لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی تاریخ پر تاریخ دیتے رہے اور پھر ایسا بھی وقت آیا کہ عدالتوں نے ان کے خلاف کیس پر تاریخیں دینا شروع کردیں مگر پاکستان میں ایسے کاموں کا صلہ تو ہمیشہ ہی اچھا ملتا ہے سو موصوف وزیر باتدبیر کو ان کی فراصت کا بھرپور صلہ دیتے ہوئے وزارت اعلیٰ کا منصب دے دیا گیا اور وہ اپنی مدت پوری کرکے چل دیئے پر لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پہلے سے بڑھ گیا۔
اس دوران تھرمیں دنیا کے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائرمیں سے ایک کا بڑا ذکر رہا اور ہمارے قابل صد احترام سائنسدان اس کوئلے کی گیس اور ڈیزل بنانے کی کوششوں میں لگے رہے جبکہ عوام بچاری بجلی کا انتظار کرتی رہی۔ 6 ماہ، دو سال اور تین سال کی ہول سیل ڈیڈ لائنز کے ساتھ اقتدار سنبھالنے والی جماعت کے سربراہ نے سب سے پہلا اجلاس ہی بجلی کے مسئلے پر طلب کیا جس میں ماہرین امور توانائی نے وزیراعظم کو بریفنگ میں انکشاف کیا کہ پاکستان کا کوئلہ بھی کسی کام کا نہیں ہے، اگر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا شوق ہے تو وہ بھی درآمدی ہونا چاہئے۔
چند روز قبل ہمارے قابل صد احترام وزیراعظم صاحب اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف کی دعوت پر تھر گئے اور کوئلے سے بجلی بنانے کے ایک منصوبے کا افتتاح کیا، اس موقع پر انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ گڈانی کے ساحلوں پر جو پاور پروجیکٹس لگیں گے ان کے لئے کوئلہ بھی تھر سے جانا چاہئے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس موقع پر یہ بھی کہہ دیتے کہ پنجاب حکومت بھی جو کوئلے سے بجلی بنانے کا منصوبہ تیار کیے بیٹھی ہے اس کیلئے بھی خام مال یعنی کوئلہ یہیں سے لیا جائے گا مگر شاید ان کو پہلے سے ہی اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ پنجاب حکومت ملکی کوئلے کو ناقص قرار دیتے ہوئے پاور پروجیکٹس کے لئے کوئلہ درآمد کرنے کا نادر فیصلہ کرچکی ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیراعظم کے نئے پاور پراجیکٹس کے اعلان کے بعد ہمارا کوئلہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں کس قدر کارآمد ثابت ہوگا۔
پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کا 'باواآدم' ہی نرالا ہے۔ یہاں کوئی بھی چیز ڈھنگ کی نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کو ڈھنگ سے رہنے ہی نہیں دیا جاتا، وسائل تلاش کرنے میں ہم کاہل اور لٹانے میں ماہر ہیں،جیب بھلے پھوٹی کوڑی نہ ہو پر ہمارے شوق سارے نوابوں جیسے ہوں گے۔
اس وقت ملک میں ہر طرف لوڈشیڈنگ کا شور ہے۔ آج کی نئی حکومت کو دیکھ کر ذہن میں پانچ برس قبل کی سلائیڈز گھومنے لگی ہیں۔ جب ہر طرف لوڈ شیڈنگ کو شور و غوغا تھا، ایک وزیر باتدبیر اپنے تدبر کی بنیاد پر جہاں ایک طرف دسمبر میں لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کی نوید سنارہے تھے وہیں یہ حیران کن انکشاف بھی عوام کے گنہگار کان سننے پر مجبور تھے کہ سابق حکومت ( پرویز مشرف، ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز) نے ایک بھی یونٹ بجلی نہیں بنائی۔ اب نئے وزیر باتدبیر نے اپنی فراصت سے تدبیر بھی وہ نکالی جس پر باقی وزیرومشیر انگشت بادنداں رہ گئے، انہوں نے ایسی لاٹھی مارنے کی کوشش کی کہ وہ ٹوٹنے بھی نہ پائے اور سانپ بھی ایسے نکل جائے کہ لوگ لکیر پیٹتے رہ جائیں۔
جی درست پہچانا منصوبہ تھا ملک بھر میں کرائے کے بجلی گھروں یعنی رینٹل پاور کا جال بچھانے کا اور اس کے لئے تھیلے بھربھر کر رقم تقسیم کی گئی جسے بعد میں اعلیٰ عدالت نے واپس نکلوایا۔ وزیر باتدبیر لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی تاریخ پر تاریخ دیتے رہے اور پھر ایسا بھی وقت آیا کہ عدالتوں نے ان کے خلاف کیس پر تاریخیں دینا شروع کردیں مگر پاکستان میں ایسے کاموں کا صلہ تو ہمیشہ ہی اچھا ملتا ہے سو موصوف وزیر باتدبیر کو ان کی فراصت کا بھرپور صلہ دیتے ہوئے وزارت اعلیٰ کا منصب دے دیا گیا اور وہ اپنی مدت پوری کرکے چل دیئے پر لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پہلے سے بڑھ گیا۔
اس دوران تھرمیں دنیا کے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائرمیں سے ایک کا بڑا ذکر رہا اور ہمارے قابل صد احترام سائنسدان اس کوئلے کی گیس اور ڈیزل بنانے کی کوششوں میں لگے رہے جبکہ عوام بچاری بجلی کا انتظار کرتی رہی۔ 6 ماہ، دو سال اور تین سال کی ہول سیل ڈیڈ لائنز کے ساتھ اقتدار سنبھالنے والی جماعت کے سربراہ نے سب سے پہلا اجلاس ہی بجلی کے مسئلے پر طلب کیا جس میں ماہرین امور توانائی نے وزیراعظم کو بریفنگ میں انکشاف کیا کہ پاکستان کا کوئلہ بھی کسی کام کا نہیں ہے، اگر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا شوق ہے تو وہ بھی درآمدی ہونا چاہئے۔
چند روز قبل ہمارے قابل صد احترام وزیراعظم صاحب اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف کی دعوت پر تھر گئے اور کوئلے سے بجلی بنانے کے ایک منصوبے کا افتتاح کیا، اس موقع پر انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ گڈانی کے ساحلوں پر جو پاور پروجیکٹس لگیں گے ان کے لئے کوئلہ بھی تھر سے جانا چاہئے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس موقع پر یہ بھی کہہ دیتے کہ پنجاب حکومت بھی جو کوئلے سے بجلی بنانے کا منصوبہ تیار کیے بیٹھی ہے اس کیلئے بھی خام مال یعنی کوئلہ یہیں سے لیا جائے گا مگر شاید ان کو پہلے سے ہی اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ پنجاب حکومت ملکی کوئلے کو ناقص قرار دیتے ہوئے پاور پروجیکٹس کے لئے کوئلہ درآمد کرنے کا نادر فیصلہ کرچکی ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیراعظم کے نئے پاور پراجیکٹس کے اعلان کے بعد ہمارا کوئلہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں کس قدر کارآمد ثابت ہوگا۔