مارچ میں کوئی مارچ نہیں ہو گا

ذاتی طور پر میں نے کبھی ایک لمحے کو بھی اس امکان پر غور نہ کیا کہ شہباز شریف پنجاب چھوڑ دیں گے

nusrat.javeed@gmail.com

صحافی اور سیاستدان ایک دوسرے کے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔ ہاں کچھ صورتوں میں گہری شناسائی ضرور سرزد ہوجایا کرتی ہے۔ خواجہ آصف صاحب سے میری ایسی شناسائی کا دور 1990ء کی دہائی سے شروع ہوا۔ اپنی سیاست کا آغاز انھوں نے سینیٹ کی اس نشست کو پُر کرنے سے کیا جو ان کے والد خواجہ محمد صفدر صاحب کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔ سینیٹ پہنچتے ہی انھوں نے اپنی گرجدار آواز میں سخت الفاظ کے ساتھ مختلف ''حساس'' موضوعات پر دل کھول کر بولنا شروع کر دیا۔ پارلیمانی سیاست میں ان کا اصل عروج مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں دیکھنے کو ملا۔ 1993-96ء کی قومی اسمبلی میں شاید ہی کوئی ایسا اجلاس مجھے یاد آتا ہے جسے خواجہ آصف اپنے ہوم ورک، حاضر جوابی اور شدتِ جذبات سے ہائی جیک نہ کر لیتے تھے۔ 1996ء کے بعد سے مگر وہ کچھ Sober ہو گئے۔ بعد ازاں جنرل مشرف کے ابتدائی برسوں میں انھیں احتساب والوں نے کافی تکلیف پہنچائی۔ موصوف نے بڑی بہادری سے اس مشکل وقت کا سامنا کیا اور اپنی ثابت قدمی کے سبب اُن دنوں کے بڑے جلاد مانے جانے والے چیئرمین نیب جنرل امجد کو خواجہ صاحب کو ذلت و اذیت کے عمل سے گزارنے پر باقاعدہ معافی مانگنے پر مجبور کر دیا۔ ایسی ''اخلاقی فتح'' پانے کے باوجود خواجہ صاحب میں اس واقعہ کے بعد مولوی مدن والی بات باقی نہ رہی۔ سیاست میں موجود رہے مگر کچھ تنہا اور اداس سے ہوگئے۔

نواز شریف اور شہباز شریف خواجہ آصف کو بہت پسند کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے 2013ء کے انتخابات کے قریب جب بہت سارے لوگوں نے یہ فرض کر لیا کہ پاکستان مسلم لیگ نون جیت گئی تو شہباز صاحب بجلی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے وزارتِ بجلی اور پانی سنبھالنے اسلام آباد چلے جائیں گے تو سوال اُٹھا کہ پنجاب کس کے حوالے ہو گا۔ اس ضمن میں مقابلہ بالآخر صرف دو افراد میں ہوتا دکھایا گیا۔ چوہدری نثار علی خان اور خواجہ آصف۔ ذاتی طور پر میں نے کبھی ایک لمحے کو بھی اس امکان پر غور نہ کیا کہ شہباز شریف پنجاب چھوڑ دیں گے۔ اسی کالم میں بلکہ میں نے احمقانہ ضد کے ساتھ اپنے اس خیال کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ خیر شہباز صاحب اسلام آباد تو منتقل نہ ہوئے مگر ان دنوں کی چلائی افواہوں اور بعد ازاں بہت سی دیگر وجوہات کی بناء پر چوہدری نثار علی خان اور خوجہ آصف پہلے ایک دوسرے کے انفرادی حوالوں سے حریف اور آخر کار نواز شریف کی تیسری حکومت میں مبینہ طور پر متحرک دو مخالف گروہوں کے نمایندہ ٹھہرائے گئے۔ ذاتی طور پر میں ان مبینہ گروپوں کی مفروضہ چپقلش کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ موجودہ حکومت میں ''پیا'' صرف ایک ہے۔ نام ہے اس کا میاں محمد نواز شریف۔ اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ اقتدار کی دولت سے مالامال سے جو ''پیا'' ہوتے ہیں۔ ان کی ''سہاگنیں'' وقت کی ضروریات کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ خواجہ آصف کو میں نے کبھی ایسی ''سہاگن''کا روپ دھارے نہیں دیکھا۔ درست ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعظم نے انھیں وزارتِ بجلی اور پانی سونپ دی۔ یہ بہت اہم وزارت اس لیے بھی تھی کہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرنا تھا۔ گردشی قرضوں کی یک مشت ادائیگی کے بعد اب یہ مسئلہ نمایاں حد تک حل ہوا نظر آتا ہے۔ مگر اس کا کریڈٹ خواجہ آصف کو ہرگز نہیں ملا۔ سارا میلہ ماہرین کی وہ کمیٹی لوٹ گئی جس کے اجلاسوں کی صدارت وزیر اعظم خود فرمایا کرتے تھے۔ میاں منشاء جیسے صنعت کاروں کی طرح شہباز شریف کے ہونہار بروا سلمان میاں بھی اس کمیٹی کے متحرک رکن تھے۔ پھر ایک صاحب ڈاکٹر مصدق بھی ہیں جنھیں مختلف النوع ''توانائیوں'' کے علاج ڈھونڈنے میں مہارت حاصل ہے۔ ان سب افراد سے بڑھ کر ایک وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ہوتے ہیں جنہوں نے نہ جانے کیسے 500 ارب روپے اکٹھا کیے اور گردشی قرضے ادا کر دیے۔ اب لوڈشیڈنگ میں جو نمایاں کمی ہوئی ہے اس کی دُعائیں صرف خواجہ آصف کی نذر نہیں ہورہیں۔ خواجہ صاحب مگر بڑے دل والے ہیں۔ کریڈٹ وغیرہ لینے کا روگ نہیں پالتے۔ ہنستے کھیلتے ڈنگ ٹپاتے رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف سے ویسے بھی ان کا ''وفاداری بشرطِ استواری'' والا رشتہ ہے۔ مکمل عقیدت اور وفاداری کے اسی تعلق کو ذہن میں رکھتے ہوئے میاں صاحب نے انھیں وزارتِ دفاع بھی عنایت فرما دی۔ یہ وزارت خواجہ صاحب کو دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ نواز شریف نے اپنے ذہن میں کوئی واضح Strategic Doctrine ہے جسے وہ سیالکوٹ سے آئے اس ایک زمانے کے بینکر کے ذریعے ہماری عسکری قیادت کے ذہنوں میں ڈالنا چاہ رہے ہیں۔ قصہ بس اتنا تھا کہ سپریم کورٹ Missing Persons کے معاملے میں کچھ ناراض ہو رہی تھی۔ دفاع کی وزارت میاں صاحب اپنے پاس ہی رکھتے تو ایک دن عدالت میں گیلانی اور پرویز اشرف کی طرح پیش ہونا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے عدالتوں کے سامنے کھڑے ہو کر عذر خواہی کے لیے انھوں نے خواجہ آصف کو چن لیا اور وہ ''وفاداری بشرطِ استواری'' کی بنیاد پر بڑی خوشی سے تیار بھی ہو گئے۔


گلہ مجھے خواجہ آصف صاحب سے صرف اتنا ہے کہ وہ اچانک فراموش کر بیٹھے کہ انھیں وزارت دفاع صرف عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے دی گئی ہے۔ پتہ نہیں کیوں اور کیسے وہ خود کو سچ مچ کا وزیر دفاع سمجھنا شروع ہو گئے اور برطانیہ کی رائٹر جیسی خبررساں ایجنسی کو بیان دے ڈالا کہ ''مارچ میں مارچ ہو سکتا ہے''۔ ان کا یہ بیان پڑھ کر میرے دل میں کئی بار یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان سے پرانی اور گہری شناسائی کے تعلق سے رابطہ کروں اور اکیلے میں ملنے کی درخواست کروں۔

ان سے ملاقات ہو جاتی تو انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا کہ خواجہ آصف صاحب ہماری ریاست کی نظر میں طالبان صرف طالبان نہیں ہوتے۔ ''اچھے اور ''بُرے'' طالبان ہوتے ہیں۔ ''اچھے'' طالبان جو بقول چوہدری نثار علی خان اور عمران خان اکثریت میں ہیں اور پاکستان کے خیر خواہ بھی ان دنوں 5اپریل 2014ء پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اس دن افغانستان میں صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ اس انتخاب کی ساکھ ''اچھے طالبان'' کیوں نہیں دیکھنا چاہیں گے؟ اس سوال کا جواب مجھ سے نہ پوچھیں تو بہتر ہے۔ آپ خود سمجھ دار ہیں بس سمجھ جائیے۔ ویسے بھی مجھے زور تو صرف اس بات پر دینا ہے کہ 5 اپریل 2014ء کو قریب ا ٓتے ہوئے ''مارچ میں مارچ'' نہیں ہو سکتا تھا۔ بہرحال اپنی روایتی کاہلی اور مردہ دلی کی وجہ سے میں خواجہ آصف سے رابطہ نہ کر پایا۔ مگر وزیر اعظم کو اپنے ہمراہ جیپ میں بٹھا کر چوہدری نثار علی خان بنی گالہ میں عمران خان کے گھر لے گئے۔ بھائی عمران کے چند متوالے ''35پنکچروں''والی بات دہراتے دہراتے تحریک انصاف سے بھی ''مارچ میں مارچ'' کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان والے مارچ کی منزل شمالی وزیرستان نہیں اسلام آباد ہوتی۔ اچھا ہوا نواز شریف بنی گالہ تشریف لے گئے۔ انھیں عمران خان کا گھر پسند آیا حتیٰ کہ جوتے بھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ لاہوریوں والی کھلی گپ شپ لگانے کے بعد دونوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ''مارچ میں کوئی مارچ'' نہیں ہو گا۔ آئیے اب ہم سب مل کر 5 اپریل 2014ء کا انتظار کریں۔
Load Next Story