تھر کے قحط زدگان اور جذبہ خدمت خلق

19638 مربع کلو میٹر پر محیط اس ضلع کی کل آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 955812 نفوس پر مشتمل بتائی جاتی ہے،


Shakeel Farooqi March 14, 2014
[email protected]

صوبہ سندھ کا بدقسمت ضلع تھرپارکر آج کل تاریخ کی بدترین قحط سالی کا شکار ہے۔ 19638 مربع کلو میٹر پر محیط اس ضلع کی کل آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 955812 نفوس پر مشتمل بتائی جاتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یقینا اچھا خاصہ اضافہ ہو چکا ہو گا۔ اس آبادی کی غالب اکثریت دیہات میں آباد ہے جس میں سے صرف 4.54 شہروں میں مقیم ہے۔ ڈیپلو، چھاچھرو، مٹھی اور ننگر پارکر اس ضلع کی چار تحصیلیں ہیں جب کہ مٹھی یہاں کا صدر مقام ہے۔ میرپور خاص اور عمرکوٹ کے اضلاع اس کے شمال میں واقع ہیں جب کہ اس کے مشرق میں ہندوستان کے باڑمیر اور جیسلمیر کے اضلاع ہیں اور مغرب میں ضلع بدین اور جنوب میں رن کچھ کا علاقہ واقع ہے۔ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے ہو کر گزرتی ہے اور کھوکھرا پار کے راستے بھارتی علاقے موناباؤ میں داخل ہوتی ہے۔

اس علاقے کا بیشتر حصہ صحرا پر محیط ہے جہاں تاحد نظر ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے۔ تھرپارکر کا موسم انتہائی خشک ہے اور یہاں بلا کی گرمی پڑتی ہے۔ یہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں مگر تھوڑی سی بوندا باندی سے بھی یہاں کا منظر ہی بدل جاتا ہے اور کیفیت یہ ہوتی ہے کہ بہ قول شاعر:

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

جنگل میں مور ناچنے لگتے ہیں اور پورے ماحول پر سرمستی اور بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ خوشگوار صورتحال خواب جیسی ہوتی ہے اور تھر کے باسیوں کی اداس اور کانٹوں بھری زندگی میں خوشی کے یہ لمحات بہت کم میسر آتے ہیں۔

پانی کی شدید قلت تھرپارکر کا سب سے سنگین اور گمبھیر مسئلہ ہے کیونکہ یہاں سالانہ 9 ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوتی ہے۔ پانی کے جو ذخائر زیر زمین موجود ہیں ان کا پانی کھارا اور مضر صحت ہوتا ہے جسے پینے سے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ بعض لوگ پانی کو نتھار کر استعمال کرتے ہیں جب کہ دیگر لوگ اسے صاف و شفاف کرنے کے لیے صدیوں پرانا ریت سے فلٹر کرنے کا روایتی طریقہ کار بروئے کار لاتے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی طریقہ بالکل درست اور صد فیصد قابل اطمینان نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت اس علاقے میں پینے کے صاف پانی کے لیے کافی عرصے سے مسلسل کوشاں ہے اور اس کام کو انجام دینے میں اسے عالمی شہرت کی حامل فلٹریشن پلانٹ تیار اور نصب کرنے والی ایک پاکستانی کمپنی کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔

قدرت نے صوبہ سندھ کے اس دور افتادہ علاقے کو معدنیات کے خزانوں سے مالا مال کیا ہے جس میں گرینائٹ اور چائنا کلے کے علاوہ کوئلے کے وہ زبردست ذخائر بھی شامل ہیں جن کی مدد سے آیندہ 500 سال تک سالانہ 50 ہزار میگا واٹ بجلی یا 10 کروڑ بیرل ڈیزل کا حصول ممکن ہے نیز لاکھوں ٹن کھاد بھی تیار کی جا سکتی ہے۔ تھرپارکر صوبہ سندھ کا وہی ضلع ہے جہاں ایک ماہ قبل وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ تھرکول پروجیکٹ کا افتتاح کیا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پرویز مشرف کے دور میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی تھر ہی سے الیکشن کے ذریعے منتخب کروایا گیا تھا۔ افسوس کہ ضرورت کے وقت اسے ہر حکومت اپنے مقاصد کے لیے سیاسی مصلحت کے تحت استعمال کرتی ہے اور اس کے بعد اسے فراموش کر دیتی ہے۔

تھر کے عوام پر ٹوٹنے والی قیامت کا کسی کو احساس تک ہوا۔ وہاں قدرتی آفات کے بعد پیش آنے والے سانحے کا خیال صوبہ سندھ کی حکومت کو اس وقت آیا جب 121 معصوم نعشیں کھلے آسمان کے نیچے پڑی ہوئی انسانیت کی دہائی دے رہی تھیں۔

اس بات کا کریڈٹ ایکسپریس نیوز کو جاتا ہے کہ اسی نے سب سے پہلے یہ خبر نشر کی کہ ماہ فروری کے دوران مٹھی کے سول اسپتال میں علاج کے لیے لائے جانے والے 178 بچوں میں سے 36 معصوم نونہال موت کی گود میں چلے گئے۔ ایکسپریس نیوز کی اس خبر نے گویا خطرے کی گھنٹی بجا دی جس نے خواب غفلت میں پڑی ہوئی حکومت اور انتظامیہ کو سوتے سے جگا دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس خبر کا سختی سے نوٹس لے لیا جس کے بعد سندھ کی سوئی ہوئی صوبائی حکومت اور خوابیدہ انتظامی مشینری حرکت میں آ گئی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ جو ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ میں معمر ترین وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں اس صورت حال کے بعد جوانوں کی طرح سرگرم ہو گئے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے مٹھی پہنچ گئے۔ ادھر ڈپٹی کمشنر تھرپارکر اور پی پی کے ایم پی اے ڈاکٹر مہیش ملانی نے بھی سول اسپتال مٹھی کا رخ کیا اور معصوم بچوں کی ہلاکتوں کو صرف قحط سالی ہی نہیں بلکہ مختلف بیماریوں کا شاخسانہ قرار دیا۔ مٹھی کے سول اسپتال کے اپنے ہی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دسمبر ماہ کے دوران ایک سے پانچ برس کی عمر کے 42 معصوم بچے اور اس کے بعد جنوری 2014ء میں 40 بچے اور پھر 28 دنوں پر مشتمل ماہ فروری میں 36 بچے جب کہ مارچ 2014ء کے شروع کے ہفتے کے دوران پانچ معصوم بچے لقمہ اجل بن گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جب وزیر اعلیٰ سندھ سول اسپتال کے دورے پر مٹھی پہنچے تو ضلعی انتظامیہ کے افسران کے چہروں سے اطمینان کی کیفیت نمایاں تھی اور وہ بچوں کی اتنی بڑی تعداد میں واقع ہونے والی اموات کو معمول کا واقعہ قرار دینے کی کوشش میں اپنی جان چھڑا رہے تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مٹھی کے سول اسپتال میں قحط کے باعث ایک ماہ کے مختصر سے عرصے میں 32 بچوں کی ہلاکت خیزی نے پورے پاکستان کو بھونچال کی طرح ہلا کر رکھ دیا۔ زیادہ تر بچے تھے، اسہال اور کم خوراکی یا Malnutrition کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ قحط سالی کے باعث بچوں کی ماؤں کو بھی نہ تو مناسب غذا میسر آ رہی ہے اور نہ ہی انھیں پینے کے لیے مطلوبہ مقدار میں صاف پانی دستیاب ہے۔

دریں اثنا یہ بات باعث اطمینان ہے کہ خشک سالی اور مختلف بیماریوں سے متاثرہ تھر کے صحرا نشین باسیوں کی بحالی اور امدادی سرگرمیوں کی رفتار میں روز بہ روز اور لمحہ بہ لمحہ تیزی آ رہی ہے اور حکومت کے سول اور فوجی ادارے اس کام میں ایک دوسرے کا بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر اور انتہائی لائق تحسین ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اپنی گوں ناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر نہ صرف اہم دورہ کیا بلکہ تمام متاثرین کو تمام ممکنہ اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی۔ یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایت پر متاثرین قحط کے لیے دھڑا دھڑ امداد پہنچ رہی ہے۔ تھر کی صورتحال پر پورا ملک تشویش میں مبتلا ہے اور آزمائش کی اس سخت ترین گھڑی میں مخیر تنظیمیں اور پرائیویٹ ادارے بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ضرورت مندوں کے لیے ہر قسم کی امداد کی فراہمی میں بھی سرگرم عمل ہیں۔

وقت اور حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ سیاسی مفادات اور مصلحتوں سے بالاتر اور جذبہ حب الوطنی اور خدمت خلق سے سرشار ہو کر متاثرین تھر کی بھرپور امداد کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔