فراہمی و نکاسی آب کے ارتقائی مراحل
کراچی کے اہم ترین مسائل میں ایک اہم اور حساس مسئلہ پانی کی طلب و رسد میں عدم توازن ہے
کراچی کے اہم ترین مسائل میں ایک اہم اور حساس مسئلہ پانی کی طلب و رسد میں عدم توازن ہے جس کے باعث پانی کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم ایک مشکل امر بن کر رہ گئی ہے اور میرے خیال میں اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو کراچی کے شہریوں کے لیے پانی کی عدم دستیابی ایک بحران کی شکل اختیارکرسکتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ کراچی کی صنعتوں اور دیگر اداروں کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے بیروزگاری کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔
ادارے کی جانب سے نکاسی آب کے نظام کو دوسری ترجیح ہونے کی وجہ اور وسائل کی کمی نے کراچی کو متاثر کیا جس کے سبب شہر، شہریوں اور سمندری و فضائی ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہوگیا اور اسی وجہ سے ماہی گیری کی صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ روشنیوں کے اس شہر کا جمالیاتی حسن بھی شدید متاثر ہوا، چونکہ کراچی میں فراہمی و نکاسی آب کا مسئلہ ایک انتہائی حساس اور توجہ طلب مسئلہ ہے، اسی لیے سب سے پہلے کراچی کو فراہم کیے جانے والے پانی میں مرحلہ وار اضافہ اور اس کی مختصر تاریخ بیان کرنا چاہتا ہوں، اس کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کے درپیش مسائل اور اس میں اضافے کی بھی بات کروں گا۔ اس لیے آج کے اس موضوع میں کراچی کے دو بڑے انتہائی اہم اور ابتدائی مرحلوں، منصوبوں جس کی تاریخ میں نے وہاں کے مقامی لوگوں اور کراچی سے متعلق تاریخ کی دستیاب کتابوں سے حاصل کی ہے وہ بیان کروں گا۔
گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم جو کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ کی مدد سے ڈالی گئی، جس کے تحت کراچی میں مرحلہ وار 280 ملین گیلن پانی دستیاب کرنا تھا اور اس کے بعد عالمی بینک کی امداد سے 10 کروڑ گیلن یومیہ پانی کا منصوبہ K-II اور وفاقی حکومت کی مدد سے مکمل کیا گیا منصوبہ K-III اور ساتھ ساتھ 1982 میں حب ڈیم سے کینال کے ذریعے ابتدا 8 کروڑ گیلن اور پھر 10 کروڑ گیلن پانی دستیاب ہوا، اس طرح آج کراچی شہر کو ان تمام منصوبوں کی مدد سے 650 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے (دھابیجی، گھارو، پپری پمپنگ مشینری بہت پرانے ہونے اور بار بار کی مرمت کے سبب واٹر بورڈ کے انجینئرز کی رائے میں یہ مشینری اپنی استعداد کار (Efficiency) کم ہوچکی ہے اور اب یہ مشینری 80 فیصد سے زیادہ کارکردگی کے قابل نہیں ہے)۔
میں کراچی کی موجودہ آبادی، صنعتوں، کثیرالمنزلہ عمارتوں اور کمرشل سرگرمیوں کو پورا کرنے کے لیے یہ سمجھتا ہوں کہ 1200 کیوسک یعنی 120 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہے، جب کہ پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے ٹرنک مین اور ڈسٹری بیوشن مین کے نظام کو وسعت دینے کی بھی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ کراچی کی اقتصادی ترقی اور بہتر رہائشی سہولتوں کے لیے انتہائی ضروری منصوبہ گریٹر کراچی سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ S-III اور گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم K-IV کی اشد ضرورت ہے۔
ملوٹی واٹر سپلائی سسٹم: (کراچی کا پہلا اور قدیم باقاعدہ فراہمی آب کا نظام)۔ کراچی میں سب سے پہلے باقاعدہ پانی کا نظام 1839 میں تعمیر کیا گیا، جب کراچی کا نظام برٹش گورنمنٹ کے زیر انتظام تھا، اس وقت کراچی ایک چھوٹی سی بستی تھی اور پینے کے پانی کا واحد ذریعہ لیاری ندی اور شہر کے مختلف مقامات پر کھودے گئے کنوئیں تھے۔ اس نظام حکومت نے 1844 میں ایک کمیٹی بنائی، جس نے شہر کے مختلف مقامات پر 22 کنوئوں کا سروے کیا اور رپورٹ تیار کی جس میں یہ بات سامنے آئی چونکہ کراچی کا ساحل اس وقت میٹھادر اور کھارادر کو لگتا تھا، اس کی وجہ سے زیادہ تر پانی کے نمونے نمکین ہونے کی وجہ سے پینے کے قابل نہ تھے۔ اس کے بعد 1846 میں دوسری رپورٹ تیار کی گئی جس کے تحت اس بات پر زور دیا گیا کہ لیاری ندی میں سے ریتی بجری اٹھانے پر پابندی لگائی جائے تاکہ زیر زمین پانی کے ذخائر بڑھیں اور ان کنوئوں سے پینے کا پانی حاصل کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں 11 ہزار روپے کا اسٹیمیٹ بھی بنایا گیا لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود پانی کی مطلوبہ مقدار حاصل نہ کی جاسکی۔ اس کے بعد مزید ایک رپورٹ پیش کی گئی کہ لیاری ندی کے علاوہ حب ندی (مراد بند) سے پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک اور منصوبہ تیار کیا گیا لیکن اس منصوبہ پر اخراجات کا تخمینہ زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ کام نہ ہوسکا۔
پھر 1880 میں مسٹر جینس اسٹریچن نے 8 لاکھ 50 ہزار روپے کے اسٹیمیٹ سے باقاعدہ ملیر ندی کی سروے لینڈ پر 10 کنوئیں کھودے جانے کے احکامات جاری کیے اور تیار شدہ رپورٹ کی بنیاد پر ملیر ندی اور اطراف اور اکناف سے ریتی بجری اٹھانے پر پابندی لگا دی گئی۔18 فروری 1880 کو ٹیمپل اینڈ کری (T&C) جو کہ خداداد کالونی میں واقع ہے، اس مقام پر ریزر وائر کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا، اسی طرح حسن اسکوائر کے قریب لوئر سروسس ریزر وائر (LSR) بھی تعمیر کیا گیا۔ دے کھر کرو جو ملیر ندی کے وسط اور دادو ندی کا تسلسل ہے، جس میں دیہہ جانگڑی سے سیون کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی جو سپر ہائی وے کو عبور کرکے رن پٹھانی کی جانب جاتا ہے وہ بھی بارشوں کے ذریعے ملیر ندی میں داخل ہوجاتا ہے، اسی طرح گزشتہ سال بارشوں کے دوران سعدی ٹائون میں لوگوں کی تکالیف و نقل مکانی کا باعث بنا، دراصل یہ پانی کیتھر کی پہاڑیوں سے بذریعہ سرجانی ٹائون سپر ہائی وے کو عبور کرکے ملیر ندی میں شامل ہونا تھا لیکن چونکہ بازار نالہ اور سیہون سے آنے والے پانی نے ملیر ندی کا لیول ہائی کردیا تھا، لہٰذا تھڈو نالہ سے داخل ہونے والا پانی جو ملیر ندی میں شامل ہوتا ہے، اس پانی نے ملیر ندی میں گنجائش نہ ہونے کے سبب آبادی کا رخ کرلیا۔
(جاری ہے)