معیشت میں بہتری کے آثار
اسٹیٹ بینک نے گزشتہ روز مالی سال2022کی معاشی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے، یہ رپورٹ بھی اطمینان بخش نظرآتی ہے
SWAT:
پاکستان کی معیشت اور مالیاتی پوزیشن میں بہتری کا سلسلہ جاری ہے۔اسٹیٹ بینک کی بہتر مالیاتی پالیسی اور کرنسی کنٹرول کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوا اور اسٹاک مارکیٹ میں بھی گزرے ہفتے کے دوران کاروباری تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے گزشتہ روز مالی سال2022کی معاشی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے، یہ رپورٹ بھی اطمینان بخش نظرآتی ہے ۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مالی سال22کی پہلی ششماہی کے تناظر میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی ایل ایس ایم)میں وسیع البنیاد اضافہ دیکھا گیا ہے، برآمدات میں تیزی کا رجحان رہاجب کہ ایف بی آر ٹیکسوں میں نمو ہوئی اور خریف کی فصلوں میں بلند پیداوار ریکارڈ کی گئی ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی برآمدات بڑھ رہی ہیں جو اچھی بات ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصولی کی شرح بھی تسلی بخش ہے ، البتہ اسٹیٹ بینک نے یہ بھی بتایا ہے کہ جوں جوں سال گذرا کئی سال کی بلند ترین اجناس کی عالمی قیمتوں کے باعث بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جاری کھاتے کا خسارہ چیلنج بن کر سامنا آیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس دباؤ کی وجہ سے طلب کو اعتدال پر لانے کے لیے دیگر ضوابطی اقدامات کے علاوہ زری سختی ضروری ہوگئی، جولائی تا دسمبر مالی سال 22ء کے اعدادوشمار کے مطابق رپورٹ میں بیان کیاگیا ہے کہ کووڈ کے حوالے سے بہتر حالات کے ساتھ حکومت کی ویکسی نیشن کی بھرپور مہم نے بڑی حد تک بلاتعطل معاشی سرگرمیوں کے لیے راہ ہموار کردی، اس کے علاوہ مالیاتی اقدامات بشمول بعض شعبوں پر ٹیکس کٹوتیوں اور وفاقی و صوبائی ترقیاتی اخراجات میں توسیع کے ہمراہ بلند غیرسودی جاریہ اخراجات نے معاشی نمو کو سہارا دیا۔
مالی سال22ء کی پہلی ششماہی میں ایل ایس ایم میں وسیع البنیاد اضافہ ہوا جس میں22میں سے 16 ایل ایس ایم شعبوں میں پیداواری نمو ریکارڈ کی گئی تاہم مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی میں9.7فیصد کے اضافے کا اثر دوسری سہ ماہی کی قدرے معتدل 5.5 فیصد نمو کی وجہ سے زائل ہوگیا، شعبہ زراعت میں خریف کی اچھی پیداوار کا سبب چاول اور گنے کی فصلوں کی ریکارڈ فصلیں تھیں،کپاس کی پیداوار بھی سازگار موسمی حالات کے باعث پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھی، پہلی ششماہی میں برآمدات خاصی بڑھ گئیں۔
پہلی ششماہی میں غیرسودی اخراجات تیزی سے بحال ہوئے جس کی وجہ سماجی تحفظ اور زرِ اعانت کے مصارف میں اضافہ ہے جب کہ وفاقی سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا، دوسری سہ ماہی میں مالیاتی خسارہ قابو کرنے کے لیے اس میں بھی کمی آگئی۔ ادھر اخباری خبر کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی ہے۔
عالمی ادارہ پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہو گیا ہے،آئی ایم ایف نے لیٹر آف انٹینٹ پر دستخط کرکے پاکستان کو بھجوادیا ہے ،وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کی طرف سے معاہدے پر آمادگی کا مراسلہ موصول ہونے کی تصدیق کردی ہے، یہ ایک اچھی خبر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام کا سلسلہ بھی جاری ہے،آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی قسط ادا کرنی ہے جو آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو موصول ہوگی،جس کے لیے پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ کی پیشگی شرائط بھی پوری کر چکا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بارے میں یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس کا پاکستان کی معیشت پر بہتر اثر پڑے گا اور پاکستان کے لیے دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم ہو گا۔ ڈالر کرنسی سے وابستہ اور آئی ایم ایف سے وابستہ ترقی یافتہ ممالک کا رویہ بھی پاکستان کے بارے میں تبدیل ہو گا جس کی وجہ سے پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں گی۔
ادھر وفاقی حکومت بینکروں، اسٹاک مارکیٹ بروکروں، تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو 60 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دینے پر غور کر رہی ہے تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کے لیے دیگر شعبوں پر مساوی ٹیکس لگا کر عالمی ادارے کو مطمئن کیا جا سکے،حکومت نے ان مذکورہ کلیدی شعبوں کو ریلیف دینے کا ارادہ اس وقت ظاہر کیا جب آئی ایم ایف کی جانب سے لیٹر آف انٹینٹ(آمادگی مراسلہ) موصول ہوا،یہ ایک ایسی دستاویز جس پر وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کے لیے دستخط کرنے ہیں۔
وزارت خزانہ اس مراسلے کا جائزہ لے رہی ہے اور اس پر دستخط کے بعد 29 اگست کوآئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس متوقع ہے۔اقتصادی رابطہ کمیٹی پہلے ہی پی ایس او کو سبسڈی کے لیے 30 ارب روپے کے اضافی بجٹ کی منظوری دے چکی ہے۔ معاشی بحران کے درمیان حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان شعبوں کو اربوں روپے کے ٹیکس ریلیف دینے جا رہی ہے۔ ذرایع نے بتایا کہ بینکوں کو انکم ٹیکس میں 10 سے 12 ارب روپے کا ریلیف مل سکتا ہے۔ یہ بھی ایک ضروری اقدام ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تقریباً طے پا چکا ہے، جیسے ہی پاکستان کو پہلی قسط مل جاتی ہے تو حکومت اس پوزیشن میں ہو گی کہ کئی ایک شعبوں میں تاجروں، صنعت کاروں اور عام طبقات کو کسی حد تک ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو اظہار آمادگی کا خط ملنے پر رواں ماہ کے اختتام تک قرض پروگرام کے معاہدے پر دستخطوں کی خبروں سے روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جمعہ کو ڈالر کے انٹربینک ریٹ 218,، 217 اور 216 روپے سے نیچے آئے، اوپن ریٹ مارکیٹ میں 216 ، 215 اور 214 روپے تک نیچے آگئے۔ ڈالر کی قدر میں تسلسل سے کمی کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعہ کو دوبارہ تیزی رونما ہوئی جب کہ مقامی صرافہ مارکیٹوں میں جمعہ کو فی تولہ سونا کی قیمت 2700 روپے کمی دیکھی گئی۔
جیسے جیسے روپے کی قدر بڑھتی جائے گی، پاکستان کی معیشت استحکام حاصل کرتی چلی جائے گی اور پاکستان کا ایکسپورٹ ریونیو بڑھتا جائے گا۔ پاکستان میں ایسی اشیاء جو غیرملکی خام مال کے استعمال کی وجہ سے مہنگی ہوئی ہیں، روپے کی قدر بڑھنے سے ان کی قیمتوں میں بھی کمی آنے کا امکان موجود ہے۔ بہرحال ابھی حکومت کو معاشی استحکام کے لیے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ملک میں ابھی تک سیاسی استحکام نہیں آیا ہے اور سیاسی محاذآرائی بڑھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کار اور کاروباری طبقہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اسی دوران پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارتی معاہدہ ایک اچھی خبر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ترکیہ کے وزیر تجارت مہمت موش کے اعزاز میں ظہرانے کے دوران دوطرفہ تجاری معاہدے پردستخطی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اورترکیہ تین سال میں دو طرفہ تجارتی حجم 5ارب ڈالر تک لے جائیں گے ،اس حوالے سے تجارتی معاہدہ طے پاگیا ہے، انھوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ حکومت نے معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔
پاکستان اورترکیہ کے درمیان تجارتی معاہدہ مستقبل کے تجارتی تعلقات کی سمت متعین کرے گا، درآمدی ایندھن پرخرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بچانے کے لیے پن بجلی، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے جیسے متبادل ذرایع پر انحصار کریں گے، ترک کمپنیاں پاکستان میں پن بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں ضمانت دیتا ہوں کہ ہر قسم کی رکاوٹوں کا خاتمہ ہوگا، منصوبوں کے لیے پیش رفت کی خود نگرانی کروں گا۔ وزیراعظم نے کہا یہ معاہدہ برادارانہ تعلقات کا مضبوط عکاس، انھوں نے کہا ہمارا ایندھن کا درآمدی بل 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔وزیراعظم نے ترکیہ کے وزیر تجارت سے کہا کہ وہ اپنے ملک کے مینوفیکچررز اور سرمایہ کاروں کوپاکستان بھجوائیں، ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا پاکستان اور ترکی کے مابین تجارت کے لامحدود امکانات ہیں، ترکیہ وزیر تجارت مہمت مش نے کہاکہ پاکستان اور ترکی کو طویل عرصہ سے مشترکہ تجارت کے فروغ کے اس معاہدے کی ضرورت تھی۔
پاکستان انتہائی مشکل معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا ہے، یقینا یہ ایک بڑی کامیابی ہے ورنہ سری لنکا کو دیکھا جائے تو یہ ملک ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں کر سکا جس کی وجہ سے اس کا معاشی بحران گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی حکومت نے بروقت فیصلے کیے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کیے، ملک میں مالیاتی کنٹرول کو مستحکم کیا جس کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آنے میں کامیاب ہوا۔
پاکستان کی معیشت اور مالیاتی پوزیشن میں بہتری کا سلسلہ جاری ہے۔اسٹیٹ بینک کی بہتر مالیاتی پالیسی اور کرنسی کنٹرول کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوا اور اسٹاک مارکیٹ میں بھی گزرے ہفتے کے دوران کاروباری تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے گزشتہ روز مالی سال2022کی معاشی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے، یہ رپورٹ بھی اطمینان بخش نظرآتی ہے ۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مالی سال22کی پہلی ششماہی کے تناظر میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی ایل ایس ایم)میں وسیع البنیاد اضافہ دیکھا گیا ہے، برآمدات میں تیزی کا رجحان رہاجب کہ ایف بی آر ٹیکسوں میں نمو ہوئی اور خریف کی فصلوں میں بلند پیداوار ریکارڈ کی گئی ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی برآمدات بڑھ رہی ہیں جو اچھی بات ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصولی کی شرح بھی تسلی بخش ہے ، البتہ اسٹیٹ بینک نے یہ بھی بتایا ہے کہ جوں جوں سال گذرا کئی سال کی بلند ترین اجناس کی عالمی قیمتوں کے باعث بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جاری کھاتے کا خسارہ چیلنج بن کر سامنا آیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس دباؤ کی وجہ سے طلب کو اعتدال پر لانے کے لیے دیگر ضوابطی اقدامات کے علاوہ زری سختی ضروری ہوگئی، جولائی تا دسمبر مالی سال 22ء کے اعدادوشمار کے مطابق رپورٹ میں بیان کیاگیا ہے کہ کووڈ کے حوالے سے بہتر حالات کے ساتھ حکومت کی ویکسی نیشن کی بھرپور مہم نے بڑی حد تک بلاتعطل معاشی سرگرمیوں کے لیے راہ ہموار کردی، اس کے علاوہ مالیاتی اقدامات بشمول بعض شعبوں پر ٹیکس کٹوتیوں اور وفاقی و صوبائی ترقیاتی اخراجات میں توسیع کے ہمراہ بلند غیرسودی جاریہ اخراجات نے معاشی نمو کو سہارا دیا۔
مالی سال22ء کی پہلی ششماہی میں ایل ایس ایم میں وسیع البنیاد اضافہ ہوا جس میں22میں سے 16 ایل ایس ایم شعبوں میں پیداواری نمو ریکارڈ کی گئی تاہم مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی میں9.7فیصد کے اضافے کا اثر دوسری سہ ماہی کی قدرے معتدل 5.5 فیصد نمو کی وجہ سے زائل ہوگیا، شعبہ زراعت میں خریف کی اچھی پیداوار کا سبب چاول اور گنے کی فصلوں کی ریکارڈ فصلیں تھیں،کپاس کی پیداوار بھی سازگار موسمی حالات کے باعث پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھی، پہلی ششماہی میں برآمدات خاصی بڑھ گئیں۔
پہلی ششماہی میں غیرسودی اخراجات تیزی سے بحال ہوئے جس کی وجہ سماجی تحفظ اور زرِ اعانت کے مصارف میں اضافہ ہے جب کہ وفاقی سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا، دوسری سہ ماہی میں مالیاتی خسارہ قابو کرنے کے لیے اس میں بھی کمی آگئی۔ ادھر اخباری خبر کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی ہے۔
عالمی ادارہ پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہو گیا ہے،آئی ایم ایف نے لیٹر آف انٹینٹ پر دستخط کرکے پاکستان کو بھجوادیا ہے ،وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کی طرف سے معاہدے پر آمادگی کا مراسلہ موصول ہونے کی تصدیق کردی ہے، یہ ایک اچھی خبر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام کا سلسلہ بھی جاری ہے،آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی قسط ادا کرنی ہے جو آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو موصول ہوگی،جس کے لیے پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ کی پیشگی شرائط بھی پوری کر چکا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بارے میں یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس کا پاکستان کی معیشت پر بہتر اثر پڑے گا اور پاکستان کے لیے دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم ہو گا۔ ڈالر کرنسی سے وابستہ اور آئی ایم ایف سے وابستہ ترقی یافتہ ممالک کا رویہ بھی پاکستان کے بارے میں تبدیل ہو گا جس کی وجہ سے پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں گی۔
ادھر وفاقی حکومت بینکروں، اسٹاک مارکیٹ بروکروں، تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو 60 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دینے پر غور کر رہی ہے تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کے لیے دیگر شعبوں پر مساوی ٹیکس لگا کر عالمی ادارے کو مطمئن کیا جا سکے،حکومت نے ان مذکورہ کلیدی شعبوں کو ریلیف دینے کا ارادہ اس وقت ظاہر کیا جب آئی ایم ایف کی جانب سے لیٹر آف انٹینٹ(آمادگی مراسلہ) موصول ہوا،یہ ایک ایسی دستاویز جس پر وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کے لیے دستخط کرنے ہیں۔
وزارت خزانہ اس مراسلے کا جائزہ لے رہی ہے اور اس پر دستخط کے بعد 29 اگست کوآئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس متوقع ہے۔اقتصادی رابطہ کمیٹی پہلے ہی پی ایس او کو سبسڈی کے لیے 30 ارب روپے کے اضافی بجٹ کی منظوری دے چکی ہے۔ معاشی بحران کے درمیان حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان شعبوں کو اربوں روپے کے ٹیکس ریلیف دینے جا رہی ہے۔ ذرایع نے بتایا کہ بینکوں کو انکم ٹیکس میں 10 سے 12 ارب روپے کا ریلیف مل سکتا ہے۔ یہ بھی ایک ضروری اقدام ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تقریباً طے پا چکا ہے، جیسے ہی پاکستان کو پہلی قسط مل جاتی ہے تو حکومت اس پوزیشن میں ہو گی کہ کئی ایک شعبوں میں تاجروں، صنعت کاروں اور عام طبقات کو کسی حد تک ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو اظہار آمادگی کا خط ملنے پر رواں ماہ کے اختتام تک قرض پروگرام کے معاہدے پر دستخطوں کی خبروں سے روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جمعہ کو ڈالر کے انٹربینک ریٹ 218,، 217 اور 216 روپے سے نیچے آئے، اوپن ریٹ مارکیٹ میں 216 ، 215 اور 214 روپے تک نیچے آگئے۔ ڈالر کی قدر میں تسلسل سے کمی کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعہ کو دوبارہ تیزی رونما ہوئی جب کہ مقامی صرافہ مارکیٹوں میں جمعہ کو فی تولہ سونا کی قیمت 2700 روپے کمی دیکھی گئی۔
جیسے جیسے روپے کی قدر بڑھتی جائے گی، پاکستان کی معیشت استحکام حاصل کرتی چلی جائے گی اور پاکستان کا ایکسپورٹ ریونیو بڑھتا جائے گا۔ پاکستان میں ایسی اشیاء جو غیرملکی خام مال کے استعمال کی وجہ سے مہنگی ہوئی ہیں، روپے کی قدر بڑھنے سے ان کی قیمتوں میں بھی کمی آنے کا امکان موجود ہے۔ بہرحال ابھی حکومت کو معاشی استحکام کے لیے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ملک میں ابھی تک سیاسی استحکام نہیں آیا ہے اور سیاسی محاذآرائی بڑھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کار اور کاروباری طبقہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اسی دوران پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارتی معاہدہ ایک اچھی خبر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ترکیہ کے وزیر تجارت مہمت موش کے اعزاز میں ظہرانے کے دوران دوطرفہ تجاری معاہدے پردستخطی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اورترکیہ تین سال میں دو طرفہ تجارتی حجم 5ارب ڈالر تک لے جائیں گے ،اس حوالے سے تجارتی معاہدہ طے پاگیا ہے، انھوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ حکومت نے معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔
پاکستان اورترکیہ کے درمیان تجارتی معاہدہ مستقبل کے تجارتی تعلقات کی سمت متعین کرے گا، درآمدی ایندھن پرخرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بچانے کے لیے پن بجلی، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے جیسے متبادل ذرایع پر انحصار کریں گے، ترک کمپنیاں پاکستان میں پن بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں ضمانت دیتا ہوں کہ ہر قسم کی رکاوٹوں کا خاتمہ ہوگا، منصوبوں کے لیے پیش رفت کی خود نگرانی کروں گا۔ وزیراعظم نے کہا یہ معاہدہ برادارانہ تعلقات کا مضبوط عکاس، انھوں نے کہا ہمارا ایندھن کا درآمدی بل 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔وزیراعظم نے ترکیہ کے وزیر تجارت سے کہا کہ وہ اپنے ملک کے مینوفیکچررز اور سرمایہ کاروں کوپاکستان بھجوائیں، ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا پاکستان اور ترکی کے مابین تجارت کے لامحدود امکانات ہیں، ترکیہ وزیر تجارت مہمت مش نے کہاکہ پاکستان اور ترکی کو طویل عرصہ سے مشترکہ تجارت کے فروغ کے اس معاہدے کی ضرورت تھی۔
پاکستان انتہائی مشکل معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا ہے، یقینا یہ ایک بڑی کامیابی ہے ورنہ سری لنکا کو دیکھا جائے تو یہ ملک ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں کر سکا جس کی وجہ سے اس کا معاشی بحران گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی حکومت نے بروقت فیصلے کیے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کیے، ملک میں مالیاتی کنٹرول کو مستحکم کیا جس کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آنے میں کامیاب ہوا۔