راشیل کوری کی یاد میں
راشیل کوری نے اپنے غزہ میں قیام کے دوران اپنی والدہ کو متعدد ای میل بھیجیں جو کہ بعد میں The Guardianمیں شایع کی گئیں
راشیل کوری ایک امریکی لڑکی ہے جس نے سر زمین فلسطین پر فلسطینیوں کا دفاع کرتے ہوئے صیہونیوں کے بلڈوزروں کا تن و تنہا سامنا کیا اور بلڈوزر کے نیچے آ کر جان دے دی، آنجہانی راشیل کوری کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ سچ اور حق کا راستہ انھی کو ملتا ہے جو درد دل رکھتے ہیں اور مظلوم انسانیت کی خاطر اپنی قیمتی ترین چیز اپنی زندگی اور جان کی پرواہ کیے بغیر وقت کے یزیدوں اور فرعونوں کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں ، ایسے ہی دنیا کے قیمتی اور نایاب افراد میں سے ایک راشیل کوری ہے۔
راشیل کوری واشنگٹن میں 10اپریل1979ء کو پیدا ہوئی ،وہ Craig Corrieکے تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھی،راشیل کوری کا گھرانہ امریکا کے متوسط گھرانے میںشمار ہوتا تھا،کیپیٹل ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راشیل کوری نے اولمپیا کے The Evergreen State College میں داخلہ لیا اور اپنی تعلیم کو جاری رکھا،ایک سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ راشیل کوری نے کالج میں Washington State Conservation Corps میں شمولیت حاصل کر لی، راشیل کوری کالج کی تین سالہ زندگی میں دماغی اسپتال میں مریضوں کی عیادت کے لیے پابندی سے جایا کرتی تھی۔
The Evergreen College میں راشیل کوری کو 'Olympians for Peace and Solidarityنام سے ایک پروگرام کروانے کے بعد ''امن کی سرگرم کارکن''کے اعزازسے نوازا گیا۔بعد میں راشیل کوری نے ایک تنظیم میں شمولیت اختیار کیا جس کا نام International Solidarity Movement (ISM)ہے۔اس تنظیم کا بنیادی کام فلسطین میں غاصب اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف شعور و آگہی فراہم کرنا تھا اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا تھا۔یہاں راشیل کوری نے اپنے ابتدائی سالوں میں ہی تنظیم کو ایک آزاد تعلیمی پروگرام فراہم کیا جو کہ غزہ کے لیے تھا اور اس حوالے سے ISMکے ساتھ مل کر متعدد پروگرام ترتیب دیے۔راشیل کوری نے غزہ کے معصوم بچوں کے لیے Pen-Palکے نام سے ایک پروگرام بھی منعقد کیا جس میں سیکڑو ں فلسطینی بچے شریک ہوئے۔
راشیل کوری 22جنوری 2003 کو فلسطین کے علاقے مغربی کنارے پہنچی جہاں اس نے ISM کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ہونے والے پر امن مظاہرے میں شریک ہونا تھا، راشیل کو اس حوالے سے دو روزہ تربیتی کلاس میں شریک ہونا تھا ، ان مظاہروں کا مقصد غاصب اسرائیل کو فلسطینیوں کے مکانات کو مسمار کرنے سے روکنا تھا اور پوری دنیا کے سامنے صیہونزم کا اصلی چہرہ آشکار کرنا تھا۔
جنوری 2003 میں Gordon Murray, کی جانب سے شایع ہونے والی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق راشیل کوری ان رضا کاروں کے ہمراہ بھرپورخدمات انجام دے رہی تھی جو غاصب صیہونیوں کی جانب سے پانی کی لائن کو تباہ کیے جانے کے بعد اسے دوبارہ بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل تھے۔Gordon Murray, کے مطابق جس وقت ISMکے کارکنان اور دیگر کاریگر پانی کی ٹوٹی ہوئی سپلائی لائنوں کو مرمت کرنے میں مصروف عمل تھے عین اسی وقت اسرائیلی افواج کے بھاری بلڈوزروں اور ٹینکوں سے کارکنان پر اور مرمت کاروں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں چند مرمت کار شہید ہوئے۔
راشیل کوری حالانکہ غزہ میں موجود تھی لیکن 15فروری2003 کو راشیل کوری نے امریکا کی عراق میں مداخلت کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی اور امریکی مداخلت کو عراق میں عراقی عوام پر ظلم قرار دیا،اس موقعے پر راشیل کوری نے تاریخی کارنامہ انجام دیا اور بچوں کے ہمراہ مظاہرے میں امریکی جارحیت کے خلاف امریکی پرچم کو بھی نذر آتش کر دیا۔
راشیل کوری نے اپنے غزہ میں قیام کے دوران اپنی والدہ کو متعدد ای میل بھیجیں جو کہ بعد میں The Guardianمیں شایع کی گئیں،جنوری2008میں Notronنے راشیل کوری کے حوالے سے ایک کتاب شایع کی جس کا نام Let Me Stand Alone رکھا۔اس کتاب میں راشیل کوری کی تمام خط وکتابت جو اس نے والدہ کے ساتھ کی تھی اور اس کے علاوہ کوری کی دیگر تحریروں کو شایع کیا گیا۔
راشیل کوری ایک امریکی شہریت یافتہ لڑکی تھی کہ جس نے فلسطینیو ں کے حقوق کی خاطر سر زمین فلسطین پر پہنچ کر غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا، راشیل کوری کو16مارچ 2003ء میں اسرائیلی درندہ صفت افواج نے شہید کیا، راشیل کوری فلسطینیوں کے گھروں کا دفاع کرتے ہوئے اس بلڈوزر کے تلے دب کر شہید ہوئی جس بلڈوزر کو فلسطینی گھروں کی مسماری پر معمور کیا گیا تھا۔راشیل کوری دو ماہ تک غزہ میں مقیم رہی اور آخر کار صیہونیوں کے مقابلے میں تین گھنٹوں کی جد وجہد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئی ۔راشیل ایک فلسطینی نصر اللہ کے گھر کے سامنے اپنے ہاتھوں میں میگا فون لیے کھڑی ہوئی تھی اور صیہونیوں کو پکار پکار کر فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی، جس گھر کو راشیل بچانے کی کوشش کر رہی تھی وہ کئی روز تک اسی گھر میں مہمان بھی رہ چکی تھی۔وہ استقامت اور پائیداری کے ساتھ اس بلڈوزر کے سامنے سینہ سپر رہی کہ جو فلسطینی گھر کو مسمار کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا اور بالآخر وہ بلڈوزر راشیل کوری کے جسم کو روندتا ہوا اس گھر تک جا پہنچا جس کو بچانے کی خاطر راشیل کوری نے اپنی جان دائو پر لگا دی تھی۔
راشیل کوری کی مظلومانہ شہادت کے بعد عینی شاہدین نے بتایا کہ صہیونی افواج کے کارندے بلڈوزر چلا رہے تھے اور انھوںنے راشیل کوری کی پرواہ کیے بغیر بلڈوزر کوری پر چڑھا دیا ، جب کہ دوسری طرف صیہونی غاصب انتظامیہ نے کہا کہ بلڈوزر چلانے والے ڈرائیور کو راشیل کوری نظر نہیں آئی جس کے باعث راشیل کوری پر بلڈوزر چڑھ گیا۔
راشیل کوری نے شہادت سے قبل اپنی والدہ کو بھیجی ایک ای میل میں لکھا کہ ''میں گزشتہ دو ہفتوں سے فلسطین میں موجود ہوں، میں بیان نہیں کر سکتی کہ یہاں پر کیا کچھ ہو رہاہے، یہاں بہت سے سہمے ہوئے بچے ارد گرد موجود ہیں ، یہاں ہر گھر کی دیوار میں متعدد سوراخ ہیں جو اسرائیلی ٹینکوں کی گولہ باری کی وجہ سے بنے ہوئے ہیں،میں نہیں سمجھتی کہ بچے کیا سوچتے ہوں گے کہ کیا زندگی اسی کا نام ہے؟ابھی دو روز قبل ہی ایک آٹھ سالہ فلسطینی بچہ اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوا ہے، یہاںاس کی تصاویر آویزاں ہیں جس پر اس کا نام علی لکھا ہوا ہے،یہاں بچے مجھ سے تفریح بھی کر رہے ہیں اور مجھے عربی سکھا رہے ہیں، ''کیف بش''(بش کیسا ہے؟)'' کیف شیرون''؟(شیرون کیسا ہے؟)،''بش مجنون، شیرون مجنون'' (بش پاگل ، شیرون پاگل''،آج میں نے کوشش کی کہ میں اس جملے کی عربی سیکھ پائوں کہ بش ایک آلہ کار ہے، لیکن میں عربی بچوں کو انگریزی میں نہیں سمجھا پا رہی ہوں ، خیر جو بھی ہو، لیکن آج یہاں ایک آٹھ سالہ فلسطینی بچہ شہید ہو چکا ہے،یہاں کے بچے اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا میں ان کے والدین کو اس طرح بے رحمی سے قتل نہیں کیا جاتا جس طرح فلسطین میں کیا جا رہا ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکا میں بچے ہفتے میں ایک مرتبہ ضرور اپنے والدین کے ساتھ ساحل سمندر کی سیر کے لیے ضرور جاتے ہیں۔''
بہر حال راشیل کوری اس دنیا سے چلی گئی لیکن راشیل کوری کا نام ہمیشہ تحریک آزادی فلسطین میں زندہ و پایندہ رہے گا اور حریت پسند راشیل کوری کو فراموش نہیں کریں گے، ایک پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کی طرف سے راشیل کوری کو سلام عقیدت پیش کیا جائے اور اس کے عظیم والدین کو بھی سلام پیش کیا جائے کہ جنہوںنے اپنی بیٹی کی تربیت اس طرح کی کہ کسی بھی ظالم و جابر حکمران کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا جائے بلکہ مظلوموں کی حمایت کی خاطر اپنی قیمتی ترین چیز جان بھی اس راہ میں فدا کر دی جائے جو کہ راشیل کوری نے عملی طور پر انجام دے کر دکھا دیا۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج بھی راشیل کوری کا مقدمہ اسرائیلی عدالتوں میں چل رہا ہے لیکن انصاف کی امید ظالموں سے رکھنا شاید خود ایک ناانصافی ہے۔