دو قومی نظریہ کا پس منظر

بانی پاکستان دو قومی نظریے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں

shabbirarman@yahoo.com

دو قومی نظریہ' بر صغیر کے مسلمانوں کے ہندوؤں سے علیحدہ تشخص کا نظریہ ہے۔ اس نظریے کی آسان تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کے مطابق نہ صرف ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظریے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علیحدہ اور کامل قومیں قرار دیا گیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی شاہراہ آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہلا سنگ میل ہے جسے مشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند بالآخر 1947ء میں اپنی منزل مقصد کو پانے میں سرخرو ہوئے۔

جنگ آزادی 1857ء کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ ہندوؤں نے ایک اور مسئلے کو لاکھڑا کیا۔ یہ جھگڑا ہندی اردو جھگڑے 1867ء کے نام سے موسوم ہے۔ 1867ء میں بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کر دی، جس کا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا اور عربی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا۔

اس جنونی اور لسانی تحریک کا صدر دفتر الہ آباد میں قائم کیا گیا، جب کہ پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں، تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کیا جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے'اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اردو کے خلاف ہندوؤں کی تحریک ایک ناقابل فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا، کیونکہ اردو کو جنوبی ایشیا میں نہ صرف متعارف کرانے اور ہر دلعزیز بنانے بلکہ اسے بام عروج پر پہچانے کے لیے انھوں نے بھی وہی کردار ادا کیا تھا جو خود مسلمانوں کا تھا۔

اگر اردو کا کوئی قصور تھا بھی تو صرف اتنا کہ اس نے مسلمانوں کے شاندار ماضی ان کے بہادروں، عالموں، اولیائے کرام اور سپہ سالاروں کے کارناموں اور کرداروں کو اپنے اصناف اور دبستانوں میں محفوظ کر رکھا تھا۔ کئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ان پر واضح کیا گیا کہ اردو انڈو اسلامک آرٹ کا ایک لازمی جزو بن گئی ہے۔ کوئی لاکھ بار چاہے تو جنوبی ایشیا کی ثقافتی ورثے سے اس انمول ہیرے کو نکال باہر نہیں کر سکتا' مگر ان دلائل کا ہندوؤں پر کچھ اثر نہ ہوا۔ سرسید احمد خان نے بھی، جو ان دنوں خود بنارس میں تھے، اپنی تمام تر مصالحتی کوششیں کر لیں، لیکن بری طرح ناکام رہے، کیونکہ سرسید ہی کے قائم کردہ سائینٹیفک سوسائٹی آف انڈیا کے ہندو اراکین بھی اردو کے خلاف تحریک میں پیش پیش تھے۔

ہندی اور اردو کے درمیان میں اس قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں برآمد ہوا۔ ثقافتوں کے اس ٹکراؤ نے سرسید کے خیالات میں ایک اور انقلاب برپا کر دیا۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سرسید احمد خان ہندی اردو جھگڑے سے پہلے ہندو مسلم اتحاد کے بڑے علمبردار تھے اور متحدہ قومیت کے حامی تھے، لیکن اس جھگڑے کے باعث انھیں اپنے سیاسی نظریات یکسر تبدیل کرنا پڑے۔ ہندو مسلم اتحاد کے بجائے اب وہ انگریز مسلم اتحاد کے داعی بن گئے اور متحدہ قومیت کے بجائے ہندوستان میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے عظیم پیامبر بن کر ابھرے۔

دو قومی نظریہ میں علمائے کرام کے کردار کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے یا پھر اسے غلط رنگ میں پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ دو قومی نظریہ بنیادی طور پر تھا ہی مذہبی کارڈ اور جو ہر دور میں ہر مذہب ہر لمحہ استعمال کرتا ہے۔ سر سید احمد خان جو عقلی استدلال کی جماعت بنانا چاہتے تھے لیکن جلد ہی انھیں اسلام ہی کو شناخت بنانا پڑا۔ سرسید احمد خان کے بعض سوانح نگاروں کے مطابق اس جھگڑے سے پہلے سرسید Idealist تھے اور Idealism پر یقین رکھتے تھے، لیکن اس جھگڑے نے ان کو Realist بنا دیا اور اب وہ Realism کے پیکر بن کر سامنے آئے۔


یہ وہ جھگڑا تھا جس نے ہندوستان میں متحدہ قومیت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان لا کھڑا کیا۔ یہ ایسا جھگڑا تھا جس نے ہندو مسلم اتحاد کی حقیقت کو طشت ازبام کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندی اردو جھگڑے کی صورت میں ہم ان دو مختلف ثقافتوں کا ٹکراؤ دیکھتے ہیں، جو صدیوں تک ایک ہی خطے میں پروان چڑھنے کے باوجود ریل کی دو پٹریوں کی طرح آپس میں گھل مل سکے اور نہ کبھی مستقبل میں ان کے گھل مل جانے کا کوئی امکان تھا۔

مکتبہ علی گڑھ کے قائدین نے دو قومی نظریے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کا استدلال تھا کہ دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند اپنے دائمی حلیفوں کی دائمی غلامی سے بچ سکتے ہیں۔ اس نظریے کے حامی رہنماؤں نے 1906ء میں نہ صرف شملہ وفد کو منظم کیا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ نمایندہ سیاسی جماعت بھی قائم کر دی۔1906ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز دو قومی نظریہ ہی رہا ہے۔

اس ضمن میں آل انڈیا کانگریس، ہندو مہا سبھا، دیگر ہندو تنظمیں اور ہندو رہنما اپنی تمام تر کوششوں، حربوں اور چالوں میں مکمل طور پر ناکام رہے کہ کسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو دو قومی نظریے سے برگشتہ کیا جا سکے اور اس نظریے کو غلط مفروضے کے طور پر پیش کیا جائے سکے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

یورپ کی سیر، یورپ میں مطالعہ اور مسجد قرطبہ میں اذان دینے کے بعد ڈاکٹر علامہ اقبال نے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا، تو آپ کے سیاسی نظریات کھل کر سامنے آئے۔ 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے نہ صرف دو قومی نظریے کی کھل کر وضاحت کی بلکہ اسی نظریے کی بنیاد پر آپ نے مسلمانان ہند کی ہندوستان میں ایک الگ مملکت کے قیام کی پیشن گوئی بھی کر دی۔

دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران میں آپ نے محمد علی جناح سے کئی ملاقاتیں کیں، جن کا مقصد دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا تھا۔1936ء سے 1938ء تک آپ نے قائداعظم کو جو مکتوبات بھیجے، ان میں بھی دو قومی نظریے کا عکس صاف اور نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

بانی پاکستان دو قومی نظریے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں۔ آپ نے نہ صرف آل انڈیا کانگریس کے تا حیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیوبند اور مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی، لیکن اس کے باوجود 'دو قومی نظریے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر ہی آل انڈیا مسلم لیگ کو ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد مسلمانوں کی واحد نمایندہ سیاسی جماعت کے طور پر بھی منوایا۔ دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی کو جاتا ہے۔
Load Next Story