قائد اعظم کی کاوشوں کا ثمر پاکستان

ہمارے لوگ اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی کو اپنے اصولوں اور معیارکے مطابق پروان چڑھائیں

nasim.anjum27@gmail.com

ISLAMABAD:
آج آزادی کا دن ہے، یہ آزادی اتنی آسانی سے میسر نہیں آئی تھی، جس طرح دانشوری کا دعویٰ کرنے والے اسے ہلکا لے رہے ہیں اور اپنے کرتوتوں کی بنا پر دشمن کو شے دینے میں رتی برابر کسر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

آزادی کے گیت گانے والوں نے پاکستان کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا ، یہ ملک جو دنیا کے نقشے پر آج بھی اپنی مکمل تابانی کے ساتھ موجود ہے تو یہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ اس کی وجہ عظیم لیڈر قائد اعظم کی بحیثیت مسلمان کاوشوں اور اسلام سے محبت کا نتیجہ ہے اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر پاکستان ہے۔

علامہ اقبال کا 21 جون 1937 کا لکھا ہوا خط بنام قائد اعظم، یہ وہ خط تھا جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدل دیا۔ اقبال نے لکھا تھا کہ '' میں جانتا ہوں آپ بہت مصروف ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ میرا بار بار آپ کو خط لکھنا گراں نہ گزرتا ہوگا، میری نگاہوں میں اس وقت ہندوستان بھر میں آپ ہی وہ واحد مسلمان ہیں جس کے ساتھ ملت اسلامیہ کو اپنی امیدیں وابستہ کرنے کا حق ہے کہ آپ اس طوفان میں جو یہاں آنے والا ہے ، اس کشتی کو ثابت سالم ساحل تک پہنچائیں گے۔''

قائد اعظم نے دو قومی نظریے کی تشریح اسی وجہ سے کی تھی کہ مسلمانوں کو ان کا جائز مقام حاصل ہو، انھیں آزادی سے اپنے رسم و رواج تہذیب و ثقافت اور اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے لیے کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ 23 مارچ 1940 کے اجلاس کی منظوری سے پہلے انھوں نے اپنے صدارتی خطبے میں دو قومی نظریے کی وضاحت اس طرح کی۔ ''ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں سے تعلق رکھتے ہیں ، کانگریس کی اعلیٰ قیادت جس طرح جمہوریت کی گرویدہ ہے، اس کا مطلب ان چیزوں کی مکمل تباہی ہے ، جو اسلام میں سب سے زیادہ قیمتی ہیں۔

قوم کی کسی بھی تعریف کی رو سے مسلمان ایک قوم ہیں اور ان کے پاس لازماً اپنا وطن ، اپنا علاقہ اور اپنی ریاست ہونی چاہیے ہماری خواہش ہے کہ ہمارے لوگ اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی کو اپنے اصولوں اور معیارکے مطابق پروان چڑھائیں۔ اسلام کے خادموں کی حیثیت سے آگے آئیے اور عوام کو منظم کیجیے۔''

کسی بھی کام کو کرنے کے لیے سچے جذبے ، محنت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان کی تکمیل کے لیے قائد اعظم نے اپنی زندگی کا پل پل نچھاورکر دیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح اسلام کے حقیقی خادم تھے، وہ عاشق رسولؐ اور اطاعت خداوندی کے لیے ہر لمحہ برسر پیکار ہے، انھیں خواب میں حصول پاکستان کے حوالے سے پیارے نبی آقائے دو جہاںؐ کی زیارت نصیب ہوتی ہے ، وہ علامہ شبیر احمد عثمانی سے ملاقات کے خواہاں تھے، لیکن علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کے پیغامات اور خطوط پرکوئی خاص توجہ اس لیے نہیں دی کہ قائد اعظم مغربی تعلیم یافتہ تھے۔

ان حالات میں قائداعظم کرب سے گزر رہے تھے، وہ علامہ سے اسلام و قرآن کے حوالے سے اپنے لائحہ عمل کو طے کرنا چاہتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی نیت کا ثمر تھا کہ ایک رات آقا دوجہاں حضرت محمد ﷺ خواب میں شرف ملاقات بخشتے ہیں اور تسلی و تشفی دیتے ہیں اور اسی رات علامہ شبیر احمد عثمانی کو بھی مبارک خواب اور تقدس بھری گھڑیاں اپنے حصار میں لے لیتی ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ '' ہمارا ایک امتی ہے جو آپ سے ملنے اور رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آپ بمبئی جائیں اور ان سے ملاقات کریں اور ان کی رہنمائی کریں۔''


چنانچہ شبیر احمد عثمانی اپنی خوش قسمتی پر نازکرتے ہوئے بمبئی پہنچ جاتے ہیں ، ملاقات کے بعد پتا چلتا ہے کہ قائد اعظم کو بھی رسول پاکؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس مکالمے کے بعد دونوں عاشقان رسولؐ مختلف امور پر بحث کرتے ہیں سب سے اہم مسئلہ '' سفید بنیا '' اور ''سیاہ بنیا '' ، قائد اعظم انگریز اور ہندو کو اسی طرح پکارتے تھے۔ ان سے آزادی حاصل کرنا اور مملکت پاکستان کا قیام تھا۔ حصول آزادی کے لیے یہ کارواں قدم بہ قدم آگے بڑھتا چلا گیا اور بالآخر مملکت خداداد پاکستان عالم وجود میں آگئی۔ پاکستان کا بننا مشیت ایزدی ، رسول پاکؐ کا روحانی فیض تھا۔

ایک نہیں بہت سے واقعات ہیں ، جن سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے قیام میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی مدد و نصرت شامل تھی، کسی نے قائد اعظم سے سوال کیا کہ '' آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ '' قائد اعظم نے جوابی سوال کیا، کہ ''کیا تم بتا سکتے ہو، پیغمبر اسلامؐ کیا تھے؟ '' سوال کرنے والا کہنے لگا '' وہ تو مسلمان تھے'' قائد اعظم نے فرمایا '' تو پھر میں بھی مسلمان ہوں۔''

قائد اعظم نے اس وقت مسلمانوں کی قیادت سنبھالی ، جب مسلمان اجتماعی زوال کا شکار تھے ان کا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا تھا۔ دوسری طرف ہندو، عرصہ دراز سے اپنی حکومت کا خواب دیکھ رہے تھے۔ کانگریس کے ہندو رہنماؤں کا منصوبہ تھا کہ متحدہ قومیت کا فریب دے کر خواب غفلت میں مگن مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا جائے۔

ان حالات میں قائد اعظم محمد علی جناح اٹھے اور اپنی قوم کا بیڑا پار کرنے کے لیے اپنی متاع حیات قربان کردی۔ انھوں نے ایک موقع پر کہا '' اگرچہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں لیکن میری خواہش اور اللہ سے دعا ہے کہ میں اپنی زندگی میں قیام پاکستان کو دیکھ سکوں۔ اس کے بعد مجھے موت بھی آجائے تو میں خوشی خوشی اپنی جان ، جانِ آفرین کے سپرد کردوں گا۔'' الحمدللہ ایک آزاد اور خود مختار مملکت دنیا کے نقشے میں پاکستان کے نام سے ابھری، ان کی تمنا کو اللہ نے کامیابی سے سرفرازکیا جدوجہد آزادی انجام کو پہنچی ایک عظیم منصوبہ تکمیل کو پہنچا۔

آج جو حالات ہیں وہ قائد اعظم کی فکر سے بہت دور ہیں۔ اتحاد ملی سے ناواقف اور مفاد پرستی کی طرف گامزن، ہوس پرستی نے اخلاقیات، تہذیب اور عاقبت کی تیاری سے بہت دورکردیا ہے، جو قومیں اپنی عزت، وقار اور انا کو بھلا بیٹھتی ہیں، انھیں پوری دنیا میں اعتبار کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔

ماضی میں ایسے ہی واقعات رونما ہوئے، جن کی رو سے پاکستان کی رہی سہی عزت بھی جاتی رہی، لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے نظریات، دیانت داری اور خودی کی تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاست میں اور پھر حکومت میں آئے تو بیرون ممالک میں پاکستان کی توقیر میں اضافے کے ساتھ پاکستانی نوجوان اپنا مستقبل محفوظ سمجھنے لگے اور ملک ترقی کی سمت رواں دواں ہو گیا ، لیکن پاکستان کی بدنصیبی پھر وہی لوگ آگئے جن سے عوام بدگمان تھے۔

ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے اقتدار ملے اور جب اسے اقتدار مل جائے تو کسی بھی قیمت میں اقتدارکو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی ہے، اس کے لیے وہ طرح طرح کے حربے آزماتی ہے،وہ اپنی مخالف سیاسی جماعت کے کارکنان اور رہنماؤں کو اس انداز میں گرفتارکرتی ہے، گویا وہ دہشت گرد اور پاکستان دشمن عناصر ہوں۔ کب تک کا اقتدار اور کتنی زندگی؟ کبھی اس نکتے پر غورکیا اہل حکومت نے؟ زوال تو ہر شے کو ہے۔

آج 14 اگست ہے، اس دن کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بکھرے ہوئے پاکستان کو سمیٹنے کی ضرورت ہے، یہ ملک قائد اعظم محمدعلی جناح نے بنایا تھا۔ اس پر قبضہ کرنا محض طاقت کے بل پرکسی صورت امت مسلمہ کے لیے باعث عزت نہیں۔ اتحاد کی طرف جائیں انتشارکی طرف نہ جائیں۔
Load Next Story