تلاش ہے ایک لیڈر کی
ہمیں تلاش ہے ایک مخلص لیڈر کی جوکہ ایسے وعدے کرے جنھیں وہ پورا کرسکے
دنیا بھر میں عصر حاضر میں جس قسم کا طرز حکومت رائج ہے اور جسے جمہوری طرز حکومت بھی کہا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ اس طرز حکومت میں یا طرز سیاست کی خرابی یہ ہے کہ اس قسم کے طرز سیاست سے عوامی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ عوامی مسائل مزید گمبھیر شکل اختیار کرتے ہیں۔
اس قسم کے طرز سیاست میں وہ لوگ جوکہ مسائل سے دوچار ہوتے ہیں حکومتی ایوانوں میں ان کی نمایندگی نہیں ہوتی بلکہ ایوانوں میں وہ لوگ براجمان ہوتے ہیں جوکہ سیاست میں مال و زر کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
ایسے لوگ مال و زر کے بل بوتے پر الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا کے ذریعے یا ان وسائل کے ذریعے سیاست کرتے ہیں یا دیگر وسائل استعمال کرتے ہوئے حکومتی ایوانوں پر قابض ہو جاتے ہیں جب کہ عام آدمی جن میں کثیر تعداد افلاس زدہ لوگوں یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں یہ لوگ چونکہ وسائل سے محروم ہوتے ہیں اس لیے حکومتی ایوانوں میں ان عام لوگوں کا جانا ناممکن ہی ہوتا ہے۔
یوں اس طبقے کے مسائل میں ہر آنے والا دن اضافہ ہی لے کر آتا ہے۔ عصر حاضر میں اہل ثروت سیاست دان اپنے حلقے کے لوگوں کو فقط انتخابات کے دنوں میں ہی نظر آتے ہیں ایسے سیاستدان جوکہ عوام سے رابطوں میں نہیں ہوتے البتہ ایسے سیاست دان عوام کے حقیقی مسائل سے بھی بے خبر ہی ہوتے ہیں۔ ایسے سیاستدان حکمران تو بن جاتے ہیں بلکہ اپنی اولادوں بلکہ نسلوں کو حکمران بنانے کا پورا اہتمام کر جاتے ہیں جب کہ مسائل سے دوچار عوام ہر آنے والے انتخابات میں ایسے ہی بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو ووٹ دے دیتے ہیں کہ شاید اس بار یہ سیاستدان ہمارے مسائل پر توجہ دیں گے اور ان مسائل کو حل کریں گے یوں عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان مسائل میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
جیسے کہ ہم نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے البتہ عوام کے مسائل اگر کوئی حل کرتا ہے تو وہ ہوتا ہے لیڈر۔ کیونکہ لیڈر میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ عوام میں سے ہوتا ہے اور عوامی مسائل کا اسے مکمل ادراک بھی ہوتا ہے ہاں اگر وہ لیڈر عوام میں سے نہ بھی ہو مگر لیڈر یہ ضرور کرتا ہے کہ وہ ایک تو عوامی طرز زندگی اختیار کرتا ہے۔ لیڈر ظاہر ہے ہر کسی کو محل تو بنوا کر نہیں دے سکتا مگر وہ خود بھی محل میں رہنا پسند نہیں کرتا۔
لیڈر کی یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ لیڈر ایسے وسائل استعمال نہیں کرتا جوکہ اس کی عوام کو حاصل نہ ہوں اگر مثال کی بات ہو تو یہاں ہم کیوبا کے انقلابی لیڈر فیڈرل کاسترو کی مثال دیں گے جنھوں نے موت کو قبول کرلیا مگر غیر ملک میں جا کر علاج کروانے سے انکار کردیا کہ غیر ملکوں میں جا کر علاج کروانے کی سہولت میری عوام کو حاصل نہیں چنانچہ یہ سہولت میں نہیں لوں گا۔
البتہ ایک حکمران کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ حکومتی خزانہ بے دریغ استعمال کرتا ہے علاج کے بہانے غیر ممالک کے مہنگے مہنگے دورے کرتا ہے اگرچہ اسے کوئی مرض ہو یا نہ ہو۔ اگر مرض نہ بھی ہو تو پھر وہ اپنے دورے کا یہ جواز پیش کرتا ہے کہ میں سالانہ چیک اپ کے لیے جا رہا ہوں۔ یہ دورے بھی ان کے کسی ترقی یافتہ ممالک کے ہوتے ہیں اور ان غیر ملکی دوروں پر زر کثیر بھی خرچ ہوتا ہے یہ زر کثیر قومی خزانے سے خرچ ہوتا ہے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کردہ ٹیکس سے جمع شدہ رقم سے ہوتا ہے البتہ ایک زر کثیر خرچ کرکے جب اس قسم کے حکمران وطن واپس آتے ہیں تو بڑی بڑی پریس کانفرنسیں بھی لازمی کرتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ مجھے کوئی خاص مرض نہیں۔ البتہ تین ماہ بعد ایک چھوٹا سا چیک اپ ہوگا جس کی غرض سے مجھے اپنی عوام سے چند دنوں کے لیے دوری اختیار کرنا ہوگی، گویا ایک اور خرچے کی نوید بھی ساتھ میں سنا دیتے ہیں۔
چنانچہ اگر ہم ماضی کی بات کریں تو مغل حکمرانوں کی آٹھ نسلوں نے دو سو برس ہندوستان پر حکومت کی مگر مغل حکمران فقط حکمران ہی رہے لیڈر نہ بن پائے۔ ان مغل حکمرانوں نے جگہ جگہ حفاظتی قلعے تعمیر کیے، اپنی بیگمات و محبوباؤں کے لیے محلات تعمیر کیے، مہنگی ترین یادگاریں تعمیر کیں، حتیٰ کہ اپنے پالتو جانوروں کی یادگاریں بھی تعمیر کیں جن میں ایک یادگار شیخوپورہ کے قریب ہرن مینار ہے، یہ یادگار شہزادہ سلیم المعروف شہزادہ شیخو نے اپنے پالتو و پیارے جانور ہرن کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا تھا اور عصر حاضر میں ہرن مینار کی تعمیر پر آنے والی رقم کا اگر تخمینہ لگایا جائے تو کروڑوں روپے بنتا ہے جب کہ اس وقت لاکھوں روپے ان مغل حکمرانوں نے اپنی بیگمات کی فرمائش پر ان کے مقبروں پر خرچ کیے، ان یادگاروں میں لاہور میں نور جہاں کا مقبرہ، آگرہ میں تاج محل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
جب کہ محلات کے شاہی اخراجات کے ساتھ ساتھ سامان حرب پر بھی وجہ بے وجہ زر کثیر ان مغل حکمرانوں کے دور میں خرچ کیا جاتا تھا۔ یوں یہ تمام ثبوت ہماری بات کی تائید کرتے ہیں کہ مغل حکمران فقط حکمران تھے لیڈر نہ تھے۔
البتہ ان مغل حکمرانوں کے درمیان ایک لیڈر سامنے آیا یہ فرید خان المعروف شیرشاہ سوری تھا جس نے فقط پانچ برس ہندوستان پر حکمرانی کی اس نے دوسرے مغل حکمرانوں ہمایوں سے بزور بازو حکومت حاصل کی اور فقط پانچ برسوں میں ایسے ایسے عوامی بہبود کے کام کیے کہ اس کے کاموں کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیرشاہ سوری کا سب سے بڑا کارنامہ جرنیلی سڑک کی تعمیر ہے یہ جرنیلی سڑک کابل سے جس کا آغاز ہوتا ہے کابل سے پشاور، لاہور، دہلی، کلکتہ و کلکتہ سے ڈھاکا تک تعمیر ہوئی، ہزاروں میل جرنیلی سڑک کی تعمیر کے لیے راستے میں آنے والے کتنے دریاؤں، ندی نالوں پر کتنے پُل تعمیر ہوئے یہ ایک الگ مضمون کے طلبگار ہیں۔
اس شیر شاہ سوری نے ڈاک کا جدید ترین نظام بلکہ تیز ترین نظام قائم کیا، ڈاک کا یہ نظام اپنے عصر حاضر کے تمام جدید تقاضے پورے کرتے ہوئے قائم و دائم ہے جب کہ پولیس کو جدید تقاضے پورے کرتے ہوئے فعال کیا اور یہ پولیس کا محکمہ بروقت لوگوں کو انصاف دلاتا۔ اسی سبب شیرشاہ سوری کے دور حکمرانی میں جرائم کی شرح کم ہو گئی تھی، یوں بھی جرائم کی شرح میں کمی کا ایک باعث لوگوں کی خوشحالی بھی تھا، یہ فرق ہوتا ہے کہ حکمرانوں میں اور لیڈروں میں جو کام مغل حکمران دو سو سال میں نہ کر پائے وہ کام شیرشاہ سوری نے پانچ سالوں میں کر دکھائے اور شیر شاہ سوری نے جو کام کیے بالخصوص جرنیلی سڑک جسے جی ٹی روڈ کا نام دیا گیا آج چار ممالک کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
غرض یہ کہ ہمیں تلاش ہے ایک مخلص لیڈر کی جوکہ ایسے وعدے کرے جنھیں وہ پورا کرسکے جس میں ملک کو فلاحی ریاست بنانے کی صلاحیت بھی ہو جو عوام کا ادراک بھی رکھتا ہو، ایسا لیڈر جس کا جینا مرنا ملک سے وابستہ ہو، جوکہ دکھ کی ہر گھڑی میں اپنی عوام کے ساتھ کھڑا ہو، ناکہ فضائی دورے کرکے میڈیا پر عوامی ہمدردی کے بیانات جاری کرے، جو اپنی عوام کو کچھ دینے کا جذبہ رکھتا ہو نہ کہ ہر مشکل وقت میں عوام سے قربانیوں کا طالب ہو جس کی حکمرانی ہمارے سروں پر نہ ہو بلکہ ہمارے دلوں پر ہو۔