مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا دوٹوک موقف

فلسطین کے ساتھ جو خیانت کی جا رہی ہے بر صغیر کے مسلمان اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے

ANKARA:
پاکستان کے عوام اپنے محبوب و عظیم قائد قائد اعظم محمد علی جناح کی سیرت کو جانتے ہیں اور قائد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ہمارے قائد نے فلسطین پر ہونے والے صہیونی غاصبانہ تسلط کی تحریک کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ ''فلسطین کے ساتھ جو خیانت کی جا رہی ہے بر صغیر کے مسلمان اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔'' بات یہاں تک نہیں رکی تھی قائد اعظم محمد علی جناح نے 1920ء میں فلسطین کے لیے میڈیکل وفد بھی روانہ کیا تھا ۔اس سے آگے چلتے ہوئے ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جناح صاحب نے کئی مرتبہ فلسطین ڈے منایا او ر فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی ۔

تحریک آزادی پاکستان جاری و ساری تھی، 1940ء میں لاہور مینار پاکستان پر قرار داد پاکستان پیش کرتے وقت ہمارے عظیم وبے باک رہنما محمد علی جناح نے قرار داد فلسطین پیش کی اور فلسطین فنڈ قائم کیا تھا۔ جب پاکستان آزاد ہو چکا تو اس زمانے میں بھی خارجہ پالیسی کے اصول وضع کرتے وقت آپ نے فلسطین کو صف اول میں رکھا اور اسی زمانہ میں جب مسئلہ کشمیرجنم لے چکا تھا تو ہمارے اسی عظیم قائد نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا تا کہ پاکستان کا ہر شہری کشمیر کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی دینے سے گریز نہ کرے۔

قائد اعظم کی اسی بصیرت اور محبت کا نتیجہ ہے کہ آج تک پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ بچہ ہو یا جوان ، مرد ہو یا زن ، بزرگ ہو یا نوجوان سب کے سب کشمیر کے لیے اپنی جان اور اپنا مال قربان کرتے آئے ہیں۔یہ سب کچھ قائد اعظم محمد علی جناح کے مرہون منت ہے۔

میں آپ کی خدمت میں علامہ اقبال کہ جن کو شاید آپ صرف شاعر مشرق سمجھتے ہوں گے لیکن حقیقت میں وہ ایک دانا و حکیم تھے جنھوںنے اس امت کی حکمت فرمائی اور آج تک ان کی حکمت قوم کی رگ و جاں میں ہے۔ علامہ اقبال نے فلسطین کا سفر کیا، چند دن فلسطین میں قیام کیا، قبلہ اول تشریف لے گئے۔

مفتی اعظم فلسطین سے ملاقات کی، کانفرنس میں شرکت کی، سفر سے واپسی برصغیر پہنچنے پر آپ نے قو م کو بتایا کہ اگر فلسطین کی حمایت کے جرم میں مجھے جیل بھی جانا پڑا تو میں جیل قبول کرنے کو تیار ہوں لیکن فلسطینی عوام اور قبلہ اول کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ علامہ اقبال کے زندہ وجاوید اشعار آج بھی نہ صرف پاکستان کے جوانوں کا لہو گرما رہے ہیں بلکہ فلسطین سمیت کشمیر اور دنیا بھر کے تمام حریت پسندوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔


مسئلہ فلسطین کسی عرب ممالک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ امت مسلمہ اور عالمگیر انسانی مسئلہ ہے جس کے لیے نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کی دیگر اقوام جو با ضمیر ہیں یہاں شرط با ضمیر ہونے کی ہے، سب کے سب فلسطین کاز کے ساتھ ہیں اور فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور فلسطین کی مقدس سرزمین پر قائم اسرائیل کو غاصب ریاست تصور کرتے ہیں۔

فلسطین کا مسئلہ کسی عرب ملک کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے کہ اگر کوئی دو چار عرب ریاستوں کے حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لیں گے تو مسئلہ فلسطین ختم ہو جائے گا۔جب کبھی امریکا کا چکر لگے تو وہاں معلوم کیجیے گا، آپ کو بتایا جائے گا کہ دسیوں ہزار یہودی امریکا میںمقیم ہیں جو فلسطین کو فلسطینیوں کا وطن قرار دیتے ہیں اور اسرائیل کو ایک غاصب اور ناجائز ریاست قرار دیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی اسرائیل سے متعلق گفتگو ہماری پالیسی کے برعکس تھی۔ انھوںنے ایک کارنر میٹنگ میں اسرائیل کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کی بات کی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین امریکی و مغربی غلامی سے آزادی کا نعرہ لگا کر ایک طویل اور انتھک جدوجہد میںمصروف ہیں لیکن آپ انھی کی صفوں میں بیٹھ کر مغرب کی غلامی کرنے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔

جناب محترم باتیں تو بہت ہیں جو میں آپ کی خدمت میں بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن چند باتوں پر اکتفا کرتے ہوئے یہی کہتا ہوں کہ ان باتوں سے صرف کشمیری عوام کا ہی دل نہیں دکھتا بلکہ پاکستان کے پچیس کروڑ لوگوں کا دل بھی دکھتا ہے جو کشمیر اور کشمیری عوام کو سر کا تاج سمجھتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ کشمیرکے وہ ساڑھے سات لاکھ شہداء ہیں جنھوں نے ظلم وجبر کے خلاف اور آزادی و حق کی خاطر اپنے لہو سے وطن کی آبیاری کی ہے اور آج بھی حریت پسندوں میں، عبدالغنی بٹ، عمر فارق، سیدعلی گیلانی، آسیہ اندرابی، یاسین ملک، افضل گورو، برہان وانی، مقبول بٹ، فریدہ بہن جی اور درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کے نام سن کر سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔

اسرائیل آج بھی فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کر رہا ہے اور ان کے خلاف فوجی کارروائی سے گریز نہیں کرتا۔اسرائیلی جارحیت سے لاکھوں فلسطینی شہید و زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔اسرائیلی جارحیت کے باوجود فلسطینی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔آج بھی وہ اسرائیلی جارحیت سے ہونے والی شہادتوں کے باوجود آزادی کی جنگ سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔اسرائیلی فوجی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے گھر مسمار کردیتے ہیں۔

ان کے کاروبار تباہ کر دیتے ہیں مگر اس کے باوجود فلسطینیوں نے اسرائیل کے آگے سر نہیں جھکایا اور نہ اس کی برتری قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ کارروائیاں بھی جاری رکھے اور مسلمان ممالک اس کی حکومت کو بھی تسلیم کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات قائم کریں۔اپنے اس مقصد کے لیے وہ امریکا کو استعمال کر رہا ہے۔پاکستان کا اسرائیل کے بارے میں موقف واضح ہے کہ وہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
Load Next Story