تمہیں خبر ہے 

نسلِ نو کے نام

فوٹو: فائل

PARIS:
تمہیں خبر ہے؟

کہ کتنی جانیں لُٹا کے ہم نے تمہاری خاطر وطن لیا تھا
ہر اِک خیاباں کو خون دے کر چمن گلابوں سے بھر دیا تھا

تمہیں خبر ہے؟

صحیفہ ہائے بنات کے جب غلاف مٹی میں رُل گئے تھے
درندگی کے قبیح ہاتھوں ورق ورق میں بدل گئے تھے

تمہیں خبر ہے؟

کہ کتنے اطفال ماں کی حرمت بچا کے خود جھاڑیوں کی جھولی میں سو گئے تھے
چراغ کتنے، جو وحشتوں کی اندھیر نگری میں کھو گئے تھے

تمہیں خبر ہے؟


کہ کتنی روحیں ازل سے جو تا ابد رواں تھیں
وہ برچھیوں سے کلام کرتے پلٹ گئی تھیں

تمہیں خبر ہے؟

جوان کتنے، نحیف کتنے، ضعیف کتنے
جو آگ دریا کو پار کر کے
مہاجرت کا عذاب سہتے
وطن کی مٹی پہ ہونٹ رکھے
نجانے کیا کچھ بتا رہے تھے

تمہیں خبر ہے؟

کھلی فضاؤں میں سانس لینے کے پیچھے کتنی قیامتیں ہیں

تمہیں خبر ہے؟

تمہیں خبر ہی نہیں شاید!
تمہیں تو کچھ بھی خبر نہیں ہے
Load Next Story