پاکستانی صورت حال…مگر
لاکھوں کی تعداد میں ترقی پسند سوچ کے سیاسی کارکن موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے لاتعداد انقلابی پارٹیوں میں تقسیم ہیں
ISLAMABAD:
شیکسپئر نے کہا تھا کہ دنیاایک اسٹیج ہے 'اداکار اپنا رول کرکے چلے جاتے ہیں'البتہ جانے میں فرق ہوتا ہے۔
یہ دنیا انہونیوں کا گھر ہے 'یہاں سب کچھ ہوسکتا ہے اور ہوا بھی ہے 'چرچل جیسا عظیم لیڈر اور برطانیہ کا نجات دہندہ الیکشن ہار جاتا ہے' فرانس کے عظیم لیڈر ڈیگال کو حکومت چھوڑنی پڑتی ہے۔
حسنی مبارک کو پنجرے میں بند کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے' انقلابی رہنما صدر قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے' صدام جیسے لیڈر کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے 'شاہ ایران کو پوری دنیا میں جہاز اتارنے کے لیے جگہ نہیں ملتی 'انقلابی رہنما ڈاکٹر نجیب کی لاش ایک ہفتے تک چوک میں لٹکی ہوتی ہے۔
چلی کے منتخب صدر آلندے کی لاش کو جلایا جاتا ہے 'اسامہ بن لادن کے خوف سے دنیا لرزتی تھی آج اس کی قبر بھی نہیں ہے 'دنیا بھر کے محنت کشوں کے ہیرو چے گویرا کی لاش کا پتہ نہیں'ہمارے انقلابی بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کا بھی کچھ پتہ نہیں'بنگلہ دیش کے بانی شیج مجیب کی لاش نیچے سڑک پر پڑی تھی' بھٹو جیسے عظیم رہنماء کے جنازے میں خاندان کو شریک نہ ہونے دیا گیا 'بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں بیچ سڑک قتل کرادیا گیا ' سوال یہ نہیں کہ کس نے اور کیوں مارا؟ بات انجام کی ہے۔
اس لیے اس انجام کو ہر کسی کو ذہن میں رکھنا چاہیے 'اور کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ناقابل شکست ہے اور صرف وہ سچائی ہے باقی سب چور اور ڈاکو ہیں۔امریکا میں بھی عمران خان اعلان کرتے تھے کہ جیل میں نواز شریف سے ائر کنڈیشنڈ ہٹاؤںگا اور رانا ثناء اللہ تمہیں اڈیالہ جیل بھیجوں گا'آج ایک شہباز گل قانونی طور پر گرفتار ہوا ہے اور پو ری پی ٹی آئی کی چیخیں نکل رہی ہیں'اس کو شاباش دینے والے اب ان کی باتوں سے بریت کا اظہارکر رہے ہیں۔
چند سال قبل تیونس میںزین العابدین کی آہنی حکومت تھی' 10دسمبر 2010کو غربت سے تنگ آکر محمد نامی لڑکے نے خود کو آگ لگادی 'یہ عرب اسپرنگ کی ابتداء تھی 'زین العابدین عوامی سیلاب کے آگے نہ ٹہر سکا اور ملک چھوڑ کر بھاگ گیا'یہ طوفان پھر لیبیا اور دیگر عرب ملکوں کے طاقتور ترین حکمرانوں کو نگل گیا'آج ہم اس انتہائی خطرناک عوامی انقلاب کی وجوہات کا جائزہ لیں گے۔ان وجوہات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے کہ آخر کیا ہوا کہ اچانک عوام بھڑک اٹھے اور عرب ممالک کے بادشاہ 'شہزادے اور حکمران عوامی سیلاب میں بہہ گئے۔
مختلف تجزیہ نگاروں نے جو تجزیے کیے ہیں ان کے مطابق عرب ممالک میں نوجوان آبادی کا تناسب پچاس فی صد سے زیادہ تھا 'جس میں اکثریت بے روزگار تھی 'کسی بھی حکمران نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے روزگار کے ذرایع پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی' نوجوانوں میں نفرت کا لاوہ اندر ہی اندر سلگ رہا تھا'ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں نے عام لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی 'بیرونی یونیورسٹیوں کے طلباء اپنے مستقبل سے مایوسی کا اظہار کرتے تھے 'حکمرانوں کی اولاد 'بغیر کسی محنت اور مشقت کے عیش و آرام کی زندگی گزار رہی تھی۔
وہاں کی حکومتیں 'سیاسی خاندان اور ان کے رشتہ دار دہائیوں سے اقتدار پر قابض تھے 'عوام کے دلوں میں نفرت کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان حکمرانوں کے رشتہ دار روپ بدل بدل کر اقتدار پر قابض ہوتے رہتے ' لہٰذا اب انھیں دریا برد کرنا چاہیے' حکومتی ٹولے کی کرپشن بھی اس انقلاب کی بڑی وجہ بنی۔عرب ممالک میں تبدیلی کا نعرہ عوامی ذہنوں پر نقش ہوگیا 'سماج کے تمام طبقے اپنے اپنے فروعی اختلافات ختم کرکے نظام کی تبدیلی کے لیے متحد ہوگئے 'سوشل میڈیا نے آتش فشاں کا کام کیا'فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا نے سرکاری میڈیا کوناکام بنادیا'عوام کو ہر خبرسے اس طرح آگاہ کیا کہ کوئی بھی حکومتی سازش کامیاب نہ ہو پائی۔طاقت ور ترین فوج' پولیس'خفیہ ادارے اور ہتھیار مکمل طور پر بے بس ہوگئے۔
2011میں تیونس سے شروع ہونے والا انقلاب مصر اور دیگر عرب ممالک کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر گیا 'نوجوان نسل 'جمہوریت 'انسانی حقوق' ووٹ کی جائز طاقت 'الیکشنوں میں شفافیت'کے لیے اس طاقت سے کھڑی ہوئی جس کا پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ عرب اسپرنگ کے بعد کیا عرب ممالک کے عوام کے حالات بدلے یا کوئی بنیادی تبدیلی آئی 'کچھ نہ ہونے کی وجوہات ہیں 'اس پر بحث ہو سکتی ہے مگر ایک حقیقت ہے کہ مظلوم لوگوں نے تحت کو ہلاکر رکھ دیا' عوام کھڑے تو ہوگئے لیکن بدقسمتی سے وہاں کوئی ایسی منظم پارٹی نہیں تھی جو ایک عوامی انقلاب برپاکردیتی۔
پاکستان میں اس وقت مکمل سیاسی اور حکومتی تبدیلی کے وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی بدولت عرب اسپرنگ کی ابتداء ہوئی تھی ۔مہنگائی نے تو ہر فرد کو متاثرکیا ہے' پاکستان کے 15اور 30برس کے نوجوان 'اس وقت مجموعی آبادی کا 65فیصد ہیں' نوجوانوں میں بے روزگاری کا تناسب 12فی صد ہے 'ذرا کرپشن کی جانب نظر دوڑائیے ' تمام عالمی اداروں کے سروے کے مطابق پاکستان میں انتہائی درجے کی کرپشن ہے۔ سوشل میڈیا بھی یہاں سرگرم ہے لیکن ہر پارٹی کی اپنی ٹیمیں ہیں جو ان پارٹیوں کی ترویج کرتی ہیں۔
انقلابی شعور اور سوچ والی سوشل میڈیا بہت کم ہے۔پاکستان میں غربت کی شرح چالیس فی صد ہے 'مہنگائی انتہائی درجے کی ہے۔ ریاست اپنے فرائض ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔روسو کے مطابق جب معاشرے میںسماجی معاہدہ ( سوشل کنٹریکٹ) ہو رہا تھا تو حکمرانوں اور رعایا کے درمیان حقوق و فرائض کی واضح تقسیم کی گئی تھی۔
عوام کے فرائض میں حکومت کی تابعداری اور قانون کے تحت زندگی گزارنا تھا'حکومت کے فرائض میں عوام کی جان و مال کی حفاظت 'تعلیم و صحت کی سہولیات دینا اور روزگار کی گارنٹی دینا شامل تھا' اب ریاست پاکستان کی حالت دیکھیں'جہاں تک جان و مال کی حفاظت کا تعلق ہے تو حکومت نے یہ فرض ادا کرنا چھوڑ دیا ہے 'اگر کوئی فرد مضبوط اور طاقت ور ہو تو ٹھیک ورنہ کمزور انسان کے جان و مال کے تحفظ کی کوئی گارنٹی شاہراہوں پر بھی نہیں ہے اگر کسی نے جانی یا مالی نقصان پہنچایا تو سیکیورٹی کے ادارے بہت دیر میں پہنچتے ہیں ۔
پھر عدالتوں کے چکر 'دولت کے بغیر نہ انصاف ملتا ہے اور نہ تحفظ اور سب کچھ چھوڑیے صرف وکیل کا خرچہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔تعلیم کا جہاں تک تعلق ہے تو اگر دولت ہے تو اچھے سے اچھے اداروں یا مغرب میں تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے اگر دولت نہیں تو سرکاری ٹاٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرو 'ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اسکول کے اساتذہ بھی اپنے بچے پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجتے ہیں'اب وہ کیا خاک غریب کے بچوں کو پڑھائیں گے۔
جب کہ اپنے بچوں کو دوسرے اسکولوں میں بھیجتے ہیں'اگر غربت زیادہ ہو تو دینی مدرسے حاضر ہیں'صحت کا بھی یہ حال ہے اگر دولت ہے تو بیرون ملک کے علاوہ ملک کے اندر بھی اعلیٰ سے اعلیٰ اسپتال موجود ہیں لیکن اگر دولت نہیں تو سرکاری اسپتال کے خراب ماحول میں گزارہ کرنا ہوگا'اس سے زیادہ ریاست کچھ اور خدمت نہیں کر سکتی۔
ہر تجزیے کے مطابق پاکستان کی صورت حال ایک عظیم انقلاب کے لیے تیار ہے'لیکن عوام کی عجیب حالت ہوگئی ہے 'جتنی بھی مہنگائی ہو یا حکومت کوئی بھی ظلم کرے 'عوام کوئی حرکت نہیں کرتے 'ان کی قوت برداشت ناقابل یقین حد تک بڑھ گئی ہے 'اگر ایک دفعہ عوام حکومت کے خلاف نکل کھڑے ہوئے تو ڈر ہے کہ کہیں انقلاب فرانس کی صورت حال نہ پیدا ہوجائے۔
فرانس کے عوام تو بادشاہ کے خلاف نکلے 'یہ لوئی شانزدھم (Louis the 16th)کا زمانہ تھا فرانس کے ہر بادشاہ کا لقب لوئی اول 'دوم 'سوم ہوتا تھا'کسی استاد نے طالب علم سے سوال کیا کہ انقلاب فرانس کی وجوہات کیا تھیں'طالب علم نے جواب دیا کہ سر لوگ لوئیوں کی تعداد سے تنگ آگئے تھے۔آخر '' 16ویں لوئی'' کے خلاف بغاوت ہوگئی۔14جولائی 1789کو بادشاہ اور اس کا خاندان مارا گیا۔
اگلے دس سال تک فرانس میں بد ترین انارکی اور بد امنی رہی 'اقتدار کی جنگ میں بہت سے لوگ مارے گئے آخر کار 1799 میں نپولین کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ استحکام ہوا۔اسی طرح اگر پاکستان میں اگر کوئی منظم تحریک نہیں ہوگی تو ڈر ہے کہ عرب اسپرنگ کی طرح یہ ملک بھی انارکی کا شکار ہوجائے گا۔تیونس'لیبیا 'عراق اور شام آج تک غیر مستحکم ہیں'شام میں بشارالاسد کے اقتدار کو روس اور ایران نے بچا لیا لیکن استحکام ابھی تک نہیں آیا۔ ایک امید ہو سکتی تھی کہ پاکستان میں کوئی منظم بائیں بازو کی پارٹی ہوتی تو عوامی انقلاب کے لیے حالات موافق تھے لیکن پاکستان کے بائیں بازو کی انقلابی پارٹیوں کا حال بقول شاعر۔
؎اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے 'کوئی یہاں گرا' کوئی وہاں گر ا
پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں ترقی پسند سوچ کے سیاسی کارکن موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے لاتعداد انقلابی پارٹیوں میں تقسیم ہیں۔ بس آپس میں گپ شپ لگاتی ہیںاگر اتحاد کی بات کی جائے تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ نئی پارٹی کا لیڈر کون ہوگا؟ اور اسی نکتے پر پھر اتحاد ختم 'کسی بھی پارٹی کے منشور اور آئین پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا' بس قیادت کے مسئلے نے سب تباہی مچائی ہے۔انقلابی پارٹیوں کی صورت حال کا پھر کبھی تفصیلی جائزہ لیں گے۔
شیکسپئر نے کہا تھا کہ دنیاایک اسٹیج ہے 'اداکار اپنا رول کرکے چلے جاتے ہیں'البتہ جانے میں فرق ہوتا ہے۔
یہ دنیا انہونیوں کا گھر ہے 'یہاں سب کچھ ہوسکتا ہے اور ہوا بھی ہے 'چرچل جیسا عظیم لیڈر اور برطانیہ کا نجات دہندہ الیکشن ہار جاتا ہے' فرانس کے عظیم لیڈر ڈیگال کو حکومت چھوڑنی پڑتی ہے۔
حسنی مبارک کو پنجرے میں بند کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے' انقلابی رہنما صدر قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے' صدام جیسے لیڈر کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے 'شاہ ایران کو پوری دنیا میں جہاز اتارنے کے لیے جگہ نہیں ملتی 'انقلابی رہنما ڈاکٹر نجیب کی لاش ایک ہفتے تک چوک میں لٹکی ہوتی ہے۔
چلی کے منتخب صدر آلندے کی لاش کو جلایا جاتا ہے 'اسامہ بن لادن کے خوف سے دنیا لرزتی تھی آج اس کی قبر بھی نہیں ہے 'دنیا بھر کے محنت کشوں کے ہیرو چے گویرا کی لاش کا پتہ نہیں'ہمارے انقلابی بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کا بھی کچھ پتہ نہیں'بنگلہ دیش کے بانی شیج مجیب کی لاش نیچے سڑک پر پڑی تھی' بھٹو جیسے عظیم رہنماء کے جنازے میں خاندان کو شریک نہ ہونے دیا گیا 'بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں بیچ سڑک قتل کرادیا گیا ' سوال یہ نہیں کہ کس نے اور کیوں مارا؟ بات انجام کی ہے۔
اس لیے اس انجام کو ہر کسی کو ذہن میں رکھنا چاہیے 'اور کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ناقابل شکست ہے اور صرف وہ سچائی ہے باقی سب چور اور ڈاکو ہیں۔امریکا میں بھی عمران خان اعلان کرتے تھے کہ جیل میں نواز شریف سے ائر کنڈیشنڈ ہٹاؤںگا اور رانا ثناء اللہ تمہیں اڈیالہ جیل بھیجوں گا'آج ایک شہباز گل قانونی طور پر گرفتار ہوا ہے اور پو ری پی ٹی آئی کی چیخیں نکل رہی ہیں'اس کو شاباش دینے والے اب ان کی باتوں سے بریت کا اظہارکر رہے ہیں۔
چند سال قبل تیونس میںزین العابدین کی آہنی حکومت تھی' 10دسمبر 2010کو غربت سے تنگ آکر محمد نامی لڑکے نے خود کو آگ لگادی 'یہ عرب اسپرنگ کی ابتداء تھی 'زین العابدین عوامی سیلاب کے آگے نہ ٹہر سکا اور ملک چھوڑ کر بھاگ گیا'یہ طوفان پھر لیبیا اور دیگر عرب ملکوں کے طاقتور ترین حکمرانوں کو نگل گیا'آج ہم اس انتہائی خطرناک عوامی انقلاب کی وجوہات کا جائزہ لیں گے۔ان وجوہات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے کہ آخر کیا ہوا کہ اچانک عوام بھڑک اٹھے اور عرب ممالک کے بادشاہ 'شہزادے اور حکمران عوامی سیلاب میں بہہ گئے۔
مختلف تجزیہ نگاروں نے جو تجزیے کیے ہیں ان کے مطابق عرب ممالک میں نوجوان آبادی کا تناسب پچاس فی صد سے زیادہ تھا 'جس میں اکثریت بے روزگار تھی 'کسی بھی حکمران نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے روزگار کے ذرایع پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی' نوجوانوں میں نفرت کا لاوہ اندر ہی اندر سلگ رہا تھا'ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں نے عام لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی 'بیرونی یونیورسٹیوں کے طلباء اپنے مستقبل سے مایوسی کا اظہار کرتے تھے 'حکمرانوں کی اولاد 'بغیر کسی محنت اور مشقت کے عیش و آرام کی زندگی گزار رہی تھی۔
وہاں کی حکومتیں 'سیاسی خاندان اور ان کے رشتہ دار دہائیوں سے اقتدار پر قابض تھے 'عوام کے دلوں میں نفرت کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان حکمرانوں کے رشتہ دار روپ بدل بدل کر اقتدار پر قابض ہوتے رہتے ' لہٰذا اب انھیں دریا برد کرنا چاہیے' حکومتی ٹولے کی کرپشن بھی اس انقلاب کی بڑی وجہ بنی۔عرب ممالک میں تبدیلی کا نعرہ عوامی ذہنوں پر نقش ہوگیا 'سماج کے تمام طبقے اپنے اپنے فروعی اختلافات ختم کرکے نظام کی تبدیلی کے لیے متحد ہوگئے 'سوشل میڈیا نے آتش فشاں کا کام کیا'فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا نے سرکاری میڈیا کوناکام بنادیا'عوام کو ہر خبرسے اس طرح آگاہ کیا کہ کوئی بھی حکومتی سازش کامیاب نہ ہو پائی۔طاقت ور ترین فوج' پولیس'خفیہ ادارے اور ہتھیار مکمل طور پر بے بس ہوگئے۔
2011میں تیونس سے شروع ہونے والا انقلاب مصر اور دیگر عرب ممالک کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر گیا 'نوجوان نسل 'جمہوریت 'انسانی حقوق' ووٹ کی جائز طاقت 'الیکشنوں میں شفافیت'کے لیے اس طاقت سے کھڑی ہوئی جس کا پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ عرب اسپرنگ کے بعد کیا عرب ممالک کے عوام کے حالات بدلے یا کوئی بنیادی تبدیلی آئی 'کچھ نہ ہونے کی وجوہات ہیں 'اس پر بحث ہو سکتی ہے مگر ایک حقیقت ہے کہ مظلوم لوگوں نے تحت کو ہلاکر رکھ دیا' عوام کھڑے تو ہوگئے لیکن بدقسمتی سے وہاں کوئی ایسی منظم پارٹی نہیں تھی جو ایک عوامی انقلاب برپاکردیتی۔
پاکستان میں اس وقت مکمل سیاسی اور حکومتی تبدیلی کے وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی بدولت عرب اسپرنگ کی ابتداء ہوئی تھی ۔مہنگائی نے تو ہر فرد کو متاثرکیا ہے' پاکستان کے 15اور 30برس کے نوجوان 'اس وقت مجموعی آبادی کا 65فیصد ہیں' نوجوانوں میں بے روزگاری کا تناسب 12فی صد ہے 'ذرا کرپشن کی جانب نظر دوڑائیے ' تمام عالمی اداروں کے سروے کے مطابق پاکستان میں انتہائی درجے کی کرپشن ہے۔ سوشل میڈیا بھی یہاں سرگرم ہے لیکن ہر پارٹی کی اپنی ٹیمیں ہیں جو ان پارٹیوں کی ترویج کرتی ہیں۔
انقلابی شعور اور سوچ والی سوشل میڈیا بہت کم ہے۔پاکستان میں غربت کی شرح چالیس فی صد ہے 'مہنگائی انتہائی درجے کی ہے۔ ریاست اپنے فرائض ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔روسو کے مطابق جب معاشرے میںسماجی معاہدہ ( سوشل کنٹریکٹ) ہو رہا تھا تو حکمرانوں اور رعایا کے درمیان حقوق و فرائض کی واضح تقسیم کی گئی تھی۔
عوام کے فرائض میں حکومت کی تابعداری اور قانون کے تحت زندگی گزارنا تھا'حکومت کے فرائض میں عوام کی جان و مال کی حفاظت 'تعلیم و صحت کی سہولیات دینا اور روزگار کی گارنٹی دینا شامل تھا' اب ریاست پاکستان کی حالت دیکھیں'جہاں تک جان و مال کی حفاظت کا تعلق ہے تو حکومت نے یہ فرض ادا کرنا چھوڑ دیا ہے 'اگر کوئی فرد مضبوط اور طاقت ور ہو تو ٹھیک ورنہ کمزور انسان کے جان و مال کے تحفظ کی کوئی گارنٹی شاہراہوں پر بھی نہیں ہے اگر کسی نے جانی یا مالی نقصان پہنچایا تو سیکیورٹی کے ادارے بہت دیر میں پہنچتے ہیں ۔
پھر عدالتوں کے چکر 'دولت کے بغیر نہ انصاف ملتا ہے اور نہ تحفظ اور سب کچھ چھوڑیے صرف وکیل کا خرچہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔تعلیم کا جہاں تک تعلق ہے تو اگر دولت ہے تو اچھے سے اچھے اداروں یا مغرب میں تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے اگر دولت نہیں تو سرکاری ٹاٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرو 'ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اسکول کے اساتذہ بھی اپنے بچے پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجتے ہیں'اب وہ کیا خاک غریب کے بچوں کو پڑھائیں گے۔
جب کہ اپنے بچوں کو دوسرے اسکولوں میں بھیجتے ہیں'اگر غربت زیادہ ہو تو دینی مدرسے حاضر ہیں'صحت کا بھی یہ حال ہے اگر دولت ہے تو بیرون ملک کے علاوہ ملک کے اندر بھی اعلیٰ سے اعلیٰ اسپتال موجود ہیں لیکن اگر دولت نہیں تو سرکاری اسپتال کے خراب ماحول میں گزارہ کرنا ہوگا'اس سے زیادہ ریاست کچھ اور خدمت نہیں کر سکتی۔
ہر تجزیے کے مطابق پاکستان کی صورت حال ایک عظیم انقلاب کے لیے تیار ہے'لیکن عوام کی عجیب حالت ہوگئی ہے 'جتنی بھی مہنگائی ہو یا حکومت کوئی بھی ظلم کرے 'عوام کوئی حرکت نہیں کرتے 'ان کی قوت برداشت ناقابل یقین حد تک بڑھ گئی ہے 'اگر ایک دفعہ عوام حکومت کے خلاف نکل کھڑے ہوئے تو ڈر ہے کہ کہیں انقلاب فرانس کی صورت حال نہ پیدا ہوجائے۔
فرانس کے عوام تو بادشاہ کے خلاف نکلے 'یہ لوئی شانزدھم (Louis the 16th)کا زمانہ تھا فرانس کے ہر بادشاہ کا لقب لوئی اول 'دوم 'سوم ہوتا تھا'کسی استاد نے طالب علم سے سوال کیا کہ انقلاب فرانس کی وجوہات کیا تھیں'طالب علم نے جواب دیا کہ سر لوگ لوئیوں کی تعداد سے تنگ آگئے تھے۔آخر '' 16ویں لوئی'' کے خلاف بغاوت ہوگئی۔14جولائی 1789کو بادشاہ اور اس کا خاندان مارا گیا۔
اگلے دس سال تک فرانس میں بد ترین انارکی اور بد امنی رہی 'اقتدار کی جنگ میں بہت سے لوگ مارے گئے آخر کار 1799 میں نپولین کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ استحکام ہوا۔اسی طرح اگر پاکستان میں اگر کوئی منظم تحریک نہیں ہوگی تو ڈر ہے کہ عرب اسپرنگ کی طرح یہ ملک بھی انارکی کا شکار ہوجائے گا۔تیونس'لیبیا 'عراق اور شام آج تک غیر مستحکم ہیں'شام میں بشارالاسد کے اقتدار کو روس اور ایران نے بچا لیا لیکن استحکام ابھی تک نہیں آیا۔ ایک امید ہو سکتی تھی کہ پاکستان میں کوئی منظم بائیں بازو کی پارٹی ہوتی تو عوامی انقلاب کے لیے حالات موافق تھے لیکن پاکستان کے بائیں بازو کی انقلابی پارٹیوں کا حال بقول شاعر۔
؎اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے 'کوئی یہاں گرا' کوئی وہاں گر ا
پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں ترقی پسند سوچ کے سیاسی کارکن موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے لاتعداد انقلابی پارٹیوں میں تقسیم ہیں۔ بس آپس میں گپ شپ لگاتی ہیںاگر اتحاد کی بات کی جائے تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ نئی پارٹی کا لیڈر کون ہوگا؟ اور اسی نکتے پر پھر اتحاد ختم 'کسی بھی پارٹی کے منشور اور آئین پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا' بس قیادت کے مسئلے نے سب تباہی مچائی ہے۔انقلابی پارٹیوں کی صورت حال کا پھر کبھی تفصیلی جائزہ لیں گے۔