میثاق معیشت
وقت کا تقاضا ہے کہ بحیثیت قوم درست سمت میں سفر کو جاری رکھیں
ISLAMABAD:
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے یوم آزادی کے حوالے سے قوم سے خطاب کے دوان ایک بار پھر میثاق معیشت کی پیش کش کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں نے قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی اور آج بطور وزیراعظم پھر میثاق معیشت کی پیش کش کرتا ہوں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ بحیثیت قوم درست سمت میں سفر کو جاری رکھیں اور قومی مفاد کو ذاتی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی سیاسی قیادت انتخابات پر نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل پر نظر رکھتی ہے۔
اسی جذبے سے تعمیر پاکستان ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ وہ کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ نوجوان نسل کو ان کا حق نہیں دے سکے لیکن ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔یوم آزادی کے موقعے پر میرا دل مسرور بھی ہے اور بے چین بھی کہ ہم اپنے بچوں کو وہ کچھ نہیں دے سکے جو انھیں ملنا چاہیے تھا۔ ہم بحرانوں سے دوچار ہوئے جس میں سب سے بڑھ کر معاشی بحران ہے۔ آج قوم کو تقسیم در تقسیم، پارہ پارہ کرنے اور انتشار پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے۔
آج ہمیں کئی بحرانوں کے ساتھ جذباتی بحران کا سامنا ہے،11اپریل سے آج تک بطور وزیراعظم میرا سب سے تلخ تجربہ یہی ہے۔ ہم جدوجہد کی ابتدا کرچکے ہیں، ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے دن رات محنت کی اور پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا، پچھلی حکومت نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لیا، قرض کے سود کی ادائیگی بھی محال ہوچکی ہے۔
2018 میں ملک کو گندم میں خود کفیل چھوڑ کر گئے تھے لیکن اربوں ڈالر کی گندم باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں، کیا یہ ہے حقیقی آزادی؟ ہم نے مہنگی بجلی کے بجائے سولر سسٹم لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم نے تہیہ کیا ہے کہ پاکستان کو معاشی خود انحصاری کے راستے پر لے کر جائیں گے کیونکہ معاشی آزادی کے بغیر حقیقی آزادی کا تصور ناممکن ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے یوم آزادی کے موقعے پر جو کچھ کہا ہے ' اس کی سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہ بھی درست بات ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات اس ملک کے درمیانے اور نچلے طبقات کے نوجوانوں اور بچوں کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ ناکامیوں کا اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ ملک معاشی اور معاشرتی و اخلاقی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان پر حکومت کرنے والے طبقوں نے زراعت اور کسانوں کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ بیرون ملک سے زرعی اجناس درآمد کرنے کی پالیسی اختیار کر کے پاکستان کی زراعت کو تباہی کا شکار کر دیا جب کہ امپورٹرز کا مراعات یافتہ طبقہ پیدا کر دیا۔
اب ارب پتی امپورٹرز اتنے با اثر ہو چکے ہیں کہ زراعت اور کسان ان کا یرغمال بن چکا ہے۔ پاکستان کے حکمران حقائق کو سمجھتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات ذاتی 'خاندانی اور گروہی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کی ترجیحات میں پاکستان کے عام لوگوں کی ترقی کا کوئی پہلو شامل نہیں ہے۔ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ شوگر ملز موجود ہیں ' گنے کی پیداوار وافر ہے ' لیکن اس کے باوجود پرچون کی سطح پر چینی کی قیمت مہنگی ہے ' یہی نہیں بلکہ چینی درآمد بھی کی جاتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی چینی وافر ہونے کی بنیاد پر ایکسپورٹ کر دی جاتی ہے ' یہ سب کچھ حکمرانوں کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔
چینی برآمد کرنی ہو یا درآمد کرنی ہو 'اس کی منظوری حکومت ہی دیتی ہے۔ اسی طرح ملک میں گندم وافر پیدا ہوتی ہے لیکن گندم کی سرکاری تقسیم کا نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ جس کا فائدہ فلورز ملز مالکان اور سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو ہوتا ہے۔ پاکستان کے کسانوں کی دن رات محنت اور خون پسینے سے تیار ہونے والی گندم 'سبسڈی دے کر فلور ملز کے حوالے کر دی جاتی ہے اور پھر بھی ملک میں آٹے کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں 'اسے سیاسی حکمران ' بیوروکریسی اور فلور ملز مالکان بخوبی جانتے ہیں۔
پاکستان کی گندم 'پاکستانی آٹا 'چینی پورے افغانستان کے بازاروں میں عام فروخت ہوتی ہے جب کہ پاکستان کے اپنے صوبے خیبرپختونخوا میں گندم اور آٹے کی نہ صرف قلت رہتی ہے بلکہ اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے اس حق کو کون کھا رہا ہے 'اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری ہے تاکہ خیبرپختونخوا کے عام آدمی کو بھی معلوم ہو سکے کہ افغانستان کی طرف اسمگل ہونے والی گندم ' دراصل پورے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام کا حق ہے۔ افغانستان میں پاکستانی گندم کیسے اسمگل ہوتی ہے ' اس کے بارے میں کسٹمز حکام ' بارڈرز سیکیورٹی حکام اور محکمہ خوراک اور پاسکو کے حکام یقیناً جانتے ہوں گے۔
پاکستان میں دیگر معاملات کو دیکھا جائے تو ریاست نے اپنے آپ کو بتدریج اپنے ذمے عائد فرائض اور ڈیوٹیز سے الگ کرنا شروع کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ریاست پر اپنے عوام کے حوالے سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں ' وہ اس سے تقریباً آزاد ہو چکی ہے۔ آج ریاست صرف اپنے حق اور استحقاق کے نظام پر کھڑی ہے۔ شعبہ تعلیم کو دیکھ لیں ' اسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی تعداد کو فلاحی تنظیموں اور ٹرسٹ وغیرہ کے حوالے کر دیا گیا ہے اور حکومت خود اپنی ذمے داری سے آزاد ہو چکی ہے۔ بہت کم اسکول ایسے ہیں جو حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے اپنی مرضی کا یونیفارم اختیار کرتے ہیں 'مرضی کا سلیبس پڑھاتے ہیں اور اپنی مرضی سے فیسوں کا تعین کرتے ہیں۔
صحت کی طرف دیکھیں تو یہاں بھی ریاست و حکومت نے اپنی ذمے داریوں کو بہت محدود کر لیا ہے جب کہ نجی اداروں میں بڑے بڑے اسپتال قائم ہو گئے ہیں 'سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ' حکومت جتنے مرضی دعوے کرتی رہے لیکن زمینی حقیقت کا جائزہ لینا ہو تو سرکاری اسپتالوں کا وزٹ کر لیا جائے ۔
اسی طرح ٹیسٹ لیبارٹریز کے حوالے سے بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بہت سے ٹیسٹ کیے ہی نہیں جاتے ' جن کے کیے جاتے ہیں 'وہ بھی اکثر مشینیں خراب رہتی ہیں ' اس لیے عوام کی 90فیصد تعداد میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے لیے نجی لیبارٹریز اور مختلف فلاحی و خیراتی اداروں کی قائم کردہ لیبارٹریز کا رخ کرتی ہے۔ فلاحی اور خیراتی اداروں کے نام پر قائم لیبارٹریز میں بھی طبقاتی تقسیم ہے۔ کچھ لیبارٹریز کے ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں ' اس کے بارے میں بھی حکومت مکمل خاموش ہے۔ حکومت نے آج تک میڈیکل ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز کے ریٹ مقرر نہیں کیے۔ بہرحال یہ ایک اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے ماضی کی ناکامیوں کو تسلیم کیا ہے ۔
انھوں نے کہا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے البتہ ملک کی معاشی مشکلات بدستور موجود ہیں۔ ایک خبر کے مطابق مالی سال 2021-22 میں وفاقی بجٹ خسارہ ریکارڈ 55 کھرب ( 5.5 ٹریلین ) روپے رہا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بجٹ خسارہ مقررہ ہدف سے 37 فیصد زائد رہا۔ گزشتہ مالی سال کے لیے بجٹ خسارے کا ہدف تقریباً 44کھرب روپے رکھا گیا تھا۔
گزشتہ مالی سال میں اپریل کے پہلے ہفتے تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ سابقہ حکومت بھاری واجبات چھوڑ کر گئی ہے جن کی وجہ سے بجٹ خسارہ 56کھرب روپے سے بھی بڑھ سکتا ہے۔
مالی سال 2021-22میں پاکستان نے 32کھرب روپے سود اد اکیا جو ہدف میں رکھے گئے بجٹ سے ایک کھرب 20ارب روپے زائد ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت ابھی بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے البتہ یہ خبر خوش آیند ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی امداد دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ہفتہ کو خبر رساں ایجنسی بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی وزارت خزانہ اسی ہفتے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 3 ارب ڈالر ڈپازٹ کرنے کے معاہدے کی تجدید کرسکتا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب 10 ماہ تک ماہانہ 10 کروڑ ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات کی اضافی مدد بھی کرسکتا ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اس امداد کا اعلان دو دن میں کیا جا سکتا ہے۔موجودہ حکومت نے معیشت کے حوالے سے جو کام کیے ہیں ' اس کے نتائج ظاہر ہو رہے ہیں' روپے کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ٹیکس وصولی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
دوسری طرف سیاسی استحکام ابھی تک موجود ہے ' اس وجہ سے معیشت پر برا اثر پڑ رہا ہے ' اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیراعظم نے میثاق معیشت کی جو بات کی ہے 'ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کی قیادت کو اس حوالے سے مثبت اور تعمیری رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے یوم آزادی کے حوالے سے قوم سے خطاب کے دوان ایک بار پھر میثاق معیشت کی پیش کش کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں نے قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی اور آج بطور وزیراعظم پھر میثاق معیشت کی پیش کش کرتا ہوں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ بحیثیت قوم درست سمت میں سفر کو جاری رکھیں اور قومی مفاد کو ذاتی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی سیاسی قیادت انتخابات پر نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل پر نظر رکھتی ہے۔
اسی جذبے سے تعمیر پاکستان ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ وہ کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ نوجوان نسل کو ان کا حق نہیں دے سکے لیکن ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔یوم آزادی کے موقعے پر میرا دل مسرور بھی ہے اور بے چین بھی کہ ہم اپنے بچوں کو وہ کچھ نہیں دے سکے جو انھیں ملنا چاہیے تھا۔ ہم بحرانوں سے دوچار ہوئے جس میں سب سے بڑھ کر معاشی بحران ہے۔ آج قوم کو تقسیم در تقسیم، پارہ پارہ کرنے اور انتشار پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے۔
آج ہمیں کئی بحرانوں کے ساتھ جذباتی بحران کا سامنا ہے،11اپریل سے آج تک بطور وزیراعظم میرا سب سے تلخ تجربہ یہی ہے۔ ہم جدوجہد کی ابتدا کرچکے ہیں، ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے دن رات محنت کی اور پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا، پچھلی حکومت نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لیا، قرض کے سود کی ادائیگی بھی محال ہوچکی ہے۔
2018 میں ملک کو گندم میں خود کفیل چھوڑ کر گئے تھے لیکن اربوں ڈالر کی گندم باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں، کیا یہ ہے حقیقی آزادی؟ ہم نے مہنگی بجلی کے بجائے سولر سسٹم لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم نے تہیہ کیا ہے کہ پاکستان کو معاشی خود انحصاری کے راستے پر لے کر جائیں گے کیونکہ معاشی آزادی کے بغیر حقیقی آزادی کا تصور ناممکن ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے یوم آزادی کے موقعے پر جو کچھ کہا ہے ' اس کی سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہ بھی درست بات ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات اس ملک کے درمیانے اور نچلے طبقات کے نوجوانوں اور بچوں کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ ناکامیوں کا اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ ملک معاشی اور معاشرتی و اخلاقی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان پر حکومت کرنے والے طبقوں نے زراعت اور کسانوں کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ بیرون ملک سے زرعی اجناس درآمد کرنے کی پالیسی اختیار کر کے پاکستان کی زراعت کو تباہی کا شکار کر دیا جب کہ امپورٹرز کا مراعات یافتہ طبقہ پیدا کر دیا۔
اب ارب پتی امپورٹرز اتنے با اثر ہو چکے ہیں کہ زراعت اور کسان ان کا یرغمال بن چکا ہے۔ پاکستان کے حکمران حقائق کو سمجھتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات ذاتی 'خاندانی اور گروہی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کی ترجیحات میں پاکستان کے عام لوگوں کی ترقی کا کوئی پہلو شامل نہیں ہے۔ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ شوگر ملز موجود ہیں ' گنے کی پیداوار وافر ہے ' لیکن اس کے باوجود پرچون کی سطح پر چینی کی قیمت مہنگی ہے ' یہی نہیں بلکہ چینی درآمد بھی کی جاتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی چینی وافر ہونے کی بنیاد پر ایکسپورٹ کر دی جاتی ہے ' یہ سب کچھ حکمرانوں کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔
چینی برآمد کرنی ہو یا درآمد کرنی ہو 'اس کی منظوری حکومت ہی دیتی ہے۔ اسی طرح ملک میں گندم وافر پیدا ہوتی ہے لیکن گندم کی سرکاری تقسیم کا نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ جس کا فائدہ فلورز ملز مالکان اور سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو ہوتا ہے۔ پاکستان کے کسانوں کی دن رات محنت اور خون پسینے سے تیار ہونے والی گندم 'سبسڈی دے کر فلور ملز کے حوالے کر دی جاتی ہے اور پھر بھی ملک میں آٹے کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں 'اسے سیاسی حکمران ' بیوروکریسی اور فلور ملز مالکان بخوبی جانتے ہیں۔
پاکستان کی گندم 'پاکستانی آٹا 'چینی پورے افغانستان کے بازاروں میں عام فروخت ہوتی ہے جب کہ پاکستان کے اپنے صوبے خیبرپختونخوا میں گندم اور آٹے کی نہ صرف قلت رہتی ہے بلکہ اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے اس حق کو کون کھا رہا ہے 'اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری ہے تاکہ خیبرپختونخوا کے عام آدمی کو بھی معلوم ہو سکے کہ افغانستان کی طرف اسمگل ہونے والی گندم ' دراصل پورے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام کا حق ہے۔ افغانستان میں پاکستانی گندم کیسے اسمگل ہوتی ہے ' اس کے بارے میں کسٹمز حکام ' بارڈرز سیکیورٹی حکام اور محکمہ خوراک اور پاسکو کے حکام یقیناً جانتے ہوں گے۔
پاکستان میں دیگر معاملات کو دیکھا جائے تو ریاست نے اپنے آپ کو بتدریج اپنے ذمے عائد فرائض اور ڈیوٹیز سے الگ کرنا شروع کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ریاست پر اپنے عوام کے حوالے سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں ' وہ اس سے تقریباً آزاد ہو چکی ہے۔ آج ریاست صرف اپنے حق اور استحقاق کے نظام پر کھڑی ہے۔ شعبہ تعلیم کو دیکھ لیں ' اسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی تعداد کو فلاحی تنظیموں اور ٹرسٹ وغیرہ کے حوالے کر دیا گیا ہے اور حکومت خود اپنی ذمے داری سے آزاد ہو چکی ہے۔ بہت کم اسکول ایسے ہیں جو حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے اپنی مرضی کا یونیفارم اختیار کرتے ہیں 'مرضی کا سلیبس پڑھاتے ہیں اور اپنی مرضی سے فیسوں کا تعین کرتے ہیں۔
صحت کی طرف دیکھیں تو یہاں بھی ریاست و حکومت نے اپنی ذمے داریوں کو بہت محدود کر لیا ہے جب کہ نجی اداروں میں بڑے بڑے اسپتال قائم ہو گئے ہیں 'سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ' حکومت جتنے مرضی دعوے کرتی رہے لیکن زمینی حقیقت کا جائزہ لینا ہو تو سرکاری اسپتالوں کا وزٹ کر لیا جائے ۔
اسی طرح ٹیسٹ لیبارٹریز کے حوالے سے بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بہت سے ٹیسٹ کیے ہی نہیں جاتے ' جن کے کیے جاتے ہیں 'وہ بھی اکثر مشینیں خراب رہتی ہیں ' اس لیے عوام کی 90فیصد تعداد میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے لیے نجی لیبارٹریز اور مختلف فلاحی و خیراتی اداروں کی قائم کردہ لیبارٹریز کا رخ کرتی ہے۔ فلاحی اور خیراتی اداروں کے نام پر قائم لیبارٹریز میں بھی طبقاتی تقسیم ہے۔ کچھ لیبارٹریز کے ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں ' اس کے بارے میں بھی حکومت مکمل خاموش ہے۔ حکومت نے آج تک میڈیکل ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز کے ریٹ مقرر نہیں کیے۔ بہرحال یہ ایک اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے ماضی کی ناکامیوں کو تسلیم کیا ہے ۔
انھوں نے کہا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے البتہ ملک کی معاشی مشکلات بدستور موجود ہیں۔ ایک خبر کے مطابق مالی سال 2021-22 میں وفاقی بجٹ خسارہ ریکارڈ 55 کھرب ( 5.5 ٹریلین ) روپے رہا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بجٹ خسارہ مقررہ ہدف سے 37 فیصد زائد رہا۔ گزشتہ مالی سال کے لیے بجٹ خسارے کا ہدف تقریباً 44کھرب روپے رکھا گیا تھا۔
گزشتہ مالی سال میں اپریل کے پہلے ہفتے تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ سابقہ حکومت بھاری واجبات چھوڑ کر گئی ہے جن کی وجہ سے بجٹ خسارہ 56کھرب روپے سے بھی بڑھ سکتا ہے۔
مالی سال 2021-22میں پاکستان نے 32کھرب روپے سود اد اکیا جو ہدف میں رکھے گئے بجٹ سے ایک کھرب 20ارب روپے زائد ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت ابھی بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے البتہ یہ خبر خوش آیند ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی امداد دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ہفتہ کو خبر رساں ایجنسی بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی وزارت خزانہ اسی ہفتے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 3 ارب ڈالر ڈپازٹ کرنے کے معاہدے کی تجدید کرسکتا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب 10 ماہ تک ماہانہ 10 کروڑ ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات کی اضافی مدد بھی کرسکتا ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اس امداد کا اعلان دو دن میں کیا جا سکتا ہے۔موجودہ حکومت نے معیشت کے حوالے سے جو کام کیے ہیں ' اس کے نتائج ظاہر ہو رہے ہیں' روپے کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ٹیکس وصولی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
دوسری طرف سیاسی استحکام ابھی تک موجود ہے ' اس وجہ سے معیشت پر برا اثر پڑ رہا ہے ' اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیراعظم نے میثاق معیشت کی جو بات کی ہے 'ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کی قیادت کو اس حوالے سے مثبت اور تعمیری رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔