نمیبیا کے قلندرز
میرا جب ان سے تعارف ہوا تو چاروں نے ہی بتایا کہ وہ پاکستان آ کر بہت خوش ہیں
''پاکستان کو ایسا بنائیں گے کہ باہر سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے''
سابق وزیر اعظم عمران خان نے چند برس قبل یہ کہا تھا گوکہ اب تک ایسا ہو نہیں سکا،البتہ بیرون ملک سے کھلاڑی ضرور اب یہاں ٹریننگ کیلیے آنے لگے ہیں، نیا پاکستان تو نہیں بنا البتہ نیا ہائی پرفارمنس سینٹر ضرور بن گیا جس کا کریڈٹ لاہور قلندرز کو جاتا ہے،مجھے چند روز قبل یہ پتا چلا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی تیاریوں کیلیے نمیبیا کے چار کرکٹرز لاہور آ رہے ہیں۔
پہلے یہ سن کر حیرت ہوئی مگر پھر فورا ہی ذہن میں آ گیا کہ ایسا ڈیوڈ ویزے کی وجہ سے ہوا ہو گا، وہ پی ایس ایل میں قلندرز کی ہی نمائندگی کرتے ہیں، چند برس قبل شاید ہی پاکستان میں کوئی ان کے نام سے واقف ہو لیکن جارحانہ بیٹنگ اور عمدہ بولنگ کی بدولت انھوں نے شائقین کے دل میں گھر کر لیا،اس کا ویزے کو انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی فائدہ ہوا اور کارکردگی کا معیار بہتر بنا لیا،انھوں نے قلندرز ہائی پرفارمنس سینٹر میں ٹریننگ کے بعد سہولتوں سے متاثر ہو کر ملکی نمیبیین بورڈ کو بتایا ہوگا کہ کھلاڑیوں کو وہاں بھیجنا چاہیے۔
عاقب جاوید سے بات ہوئی تو انھوں نے تصدیق کر دی کہ ایسا ہی ہوا ہے،مجھے ویسے ہی چند انٹرویوز کیلیے لاہور جانا تھا میں نے سوچا نمیبیا کے کھلاڑیوں سے بھی بات چیت کر لی جائے، عاقب جاوید سے ذکر کیا تو انھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا، بارشوں کے اس موسم میں جب ہائی پرفارمنس سینٹر پہنچا تو چاروں مہمان کرکٹرز کو سخت ٹریننگ کرتے ہوئے پایا، عاقب بھائی ہمیشہ کی طرح بڑی گرم جوشی سے ملے، وہی مہمان کرکٹرز کی کوچنگ کر رہے تھے، میں نے پوچھا کہ آسٹریلیا میں ورلڈکپ ہے یہ پلیئرز یہاں کیوں تیاریوں کیلیے آ گئے۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ''تمہاری فٹنس اچھی نہیں لگتی ورنہ سوال کا عملی جواب دیتا، خیر آئو میں دکھاتا ہوں''یہ کہہ کر وہ مجھے نیٹ کے قریب لے گئے جہاں بولنگ مشین موجود تھی، انھوں نے بتایا کہ ہمارے ہائی پرفارمنس سینٹر میں جو سہولیات ہیں وہ آئی سی سی اکیڈمی دبئی میں ہی موجود ہیں، فاسٹ ، سلو ہر قسم کی بولنگ ممکن ہے، پھر ہمارے پاس لیفٹ آرم اسپنرز، چائنا مین و دیگر تمام ورائٹیز والے بولرز بھی ہیں،اس سے اچھی تیاری تو شاید ہی کہیں ہو سکے، آپ لوگوں کو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔
میرا اگلا سوال سن کر وہ مسکرائے اور کہا کہ ''تم مجھے برسوں سے مجھے جانتے ہو تمہیں بخوبی علم ہے کہ میں کبھی پیسوں کے پیچھے نہیں بھاگا ورنہ دوسروں کی طرح میچ فکسنگ سے کروڑوں کما لیتا، یہ عاطف رانا یہاں کھڑا ہے اس سے پوچھ لو کہ کیا میں نے فرنچائز کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ کیا،ہمارا دل کا رشتہ ہے،اس نے بڑا مالی نقصان برداشت کیا لیکن ڈٹا ہوا ہے، ہم صرف ملک کو نیا ٹیلنٹ دینا چاہتے ہیں،شاہین شاہ آفریدی، حارث رئوف تو صرف ٹریلر ہیں آگے آگے دیکھنا کتنے پلیئرز سامنے آئیں گے، پاکستان میں لوگ آنے سے ڈرتے تھے۔
ہمارے میدان برسوں ویران رہے،کہیں باہر جا کر بتائو کہ پاکستان سے تعلق ہے تو لوگ دہشت گردی کے حوالے سے سوالات شروع کر دیتے، شکر ہے اب حالات بہتر ہو گئے ہیں، ہم بھی اپنے ملک کا مثبت امیج دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، نمیبیا کی ٹیم جب آسٹریلیا میں ورلڈکپ کے دوران اچھا کھیل پیش کرے گی اور ان چاروں میں سے کوئی مین آف دی میچ ہوا تو اس سے یقینا یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ اس نے قلندرز ایچ پی سی میں ٹریننگ کی تھی، کریڈٹ پاکستان کو ہی جائے گا، پھر یہ کھلاڑی اپنے یا دیگر ممالک میں جا کر جب پاکستان کے اچھے حالات کا بتائیں گے تو اس کا فائدہ ہمارے ملک کو ہی ہوگا، پھر دیگر ممالک سے بھی لوگ یہاں آیا کریں گے۔
جنوبی افریقہ، افغانستان اور آسٹریلیا کے چند کرکٹرز پہلے ہی یہاں آ کر ٹریننگ کر چکے ہیں، تم کو پتا ہے انگلش کائونٹی یارکشائر سے بھی ہمارا معاہدہ ہوا ہے، گذشتہ دنوں ڈیرن گف بھی آیا تھا تم نے تو اس کا انٹرویو بھی کیا تھا، یارکشائر کے کھلاڑی بھی جلد لاہور آئیں گے''۔ یہ باتیں کرتے ہوئے عاقب جاوید کے چہرے پر موجود چمک اورجوش میں محسوس کر سکتا تھا۔
نمیبین کھلاڑی اب نیٹ میں موجود نہیں تھے شاید آرام کرنے چلے گئے تھے، میں نے عاقب جاوید سے پوچھا یہ رہتے کہاں ہیں اور کھاتے کیا ہیں، انھوں نے جواب دیا کہ'' یہیں فائیو اسٹار ہوٹل جیسی سہولتیں موجود ہیں، چاروں یہیں قیام پذیر ہیں، کھاتے کیا ہیں یہ تم خود آ کر دیکھ لو، یہ کہہ کر وہ مجھے ڈائننگ روم لے گئے جہاں نمیبیئن کھلاڑی چٹخارے لے کر پاکستانی کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، پلائو، چکن کری، چپاتیاں سب موجود تھیں، یہلائو یا فرانس،شان فوچی،جین نکول لوفٹی ایٹون یہ تینوں نمیبیا کی نمائندگی کر چکے جبکہ ماریشس این گپیتا اْبھرتے ہوئے نوجوان کرکٹر ہیں۔
میرا جب ان سے تعارف ہوا تو چاروں نے ہی بتایا کہ وہ پاکستان آ کر بہت خوش ہیں اور قلندرز ہائی پرفارمنس سینٹر میں ٹریننگ کر کے کھیل میں بہتری کا موقع ملے گا،ان کو دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ چاروں کتنے مطمئن ہیں لیکن اس سے زیادہ اطمینان مجھے عاقب جاوید اور عاطف رانا کے چہروں پر نظر آیا، جاتے جاتے میں نے عاقب جاوید سے کہا کہ نمیبیئن کھلاڑیوں کو اتنا نہ سکھا دے گا کہ ہمارے لیے ہی بھاری پڑ جائیں اس پر زوردار قہقہہ لگا اور انھوں نے جواب دیا کہ پہلے تو نمیبیا کو کوالیفائینگ رائونڈ کھیلنا ہے،آگے بھی پتا نہیں کہ پاکستان سے مقابلہ ہوگا یا نہیں، ویسے فکر نہ کرو شاہین اور حارث بھی ہمارے ہی اسٹارز ہیں''۔
ہائی پرفارمنس سینٹر سے جاتے ہوئے میں یہی سوچ رہا تھا کہ اسی لاہور میں پی سی بی کا بھی ایک ہائی پرفارمنس سینٹر ہے جہاں احمد شہزاد جیسے کھلاڑی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں مگر کپتان کا بھائی آکر ضرور ٹریننگ کر سکتا ہے، قلندرز ایچ پی سی میں مجھے گائوں کا ایک غریب لڑکا بھی کھیلتے دکھائی دیا، کاش ایسی سوچ سب کی ہو جائے تو دیکھیں ملک کو کتنا نیا ٹیلنٹ ملتا ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
سابق وزیر اعظم عمران خان نے چند برس قبل یہ کہا تھا گوکہ اب تک ایسا ہو نہیں سکا،البتہ بیرون ملک سے کھلاڑی ضرور اب یہاں ٹریننگ کیلیے آنے لگے ہیں، نیا پاکستان تو نہیں بنا البتہ نیا ہائی پرفارمنس سینٹر ضرور بن گیا جس کا کریڈٹ لاہور قلندرز کو جاتا ہے،مجھے چند روز قبل یہ پتا چلا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی تیاریوں کیلیے نمیبیا کے چار کرکٹرز لاہور آ رہے ہیں۔
پہلے یہ سن کر حیرت ہوئی مگر پھر فورا ہی ذہن میں آ گیا کہ ایسا ڈیوڈ ویزے کی وجہ سے ہوا ہو گا، وہ پی ایس ایل میں قلندرز کی ہی نمائندگی کرتے ہیں، چند برس قبل شاید ہی پاکستان میں کوئی ان کے نام سے واقف ہو لیکن جارحانہ بیٹنگ اور عمدہ بولنگ کی بدولت انھوں نے شائقین کے دل میں گھر کر لیا،اس کا ویزے کو انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی فائدہ ہوا اور کارکردگی کا معیار بہتر بنا لیا،انھوں نے قلندرز ہائی پرفارمنس سینٹر میں ٹریننگ کے بعد سہولتوں سے متاثر ہو کر ملکی نمیبیین بورڈ کو بتایا ہوگا کہ کھلاڑیوں کو وہاں بھیجنا چاہیے۔
عاقب جاوید سے بات ہوئی تو انھوں نے تصدیق کر دی کہ ایسا ہی ہوا ہے،مجھے ویسے ہی چند انٹرویوز کیلیے لاہور جانا تھا میں نے سوچا نمیبیا کے کھلاڑیوں سے بھی بات چیت کر لی جائے، عاقب جاوید سے ذکر کیا تو انھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا، بارشوں کے اس موسم میں جب ہائی پرفارمنس سینٹر پہنچا تو چاروں مہمان کرکٹرز کو سخت ٹریننگ کرتے ہوئے پایا، عاقب بھائی ہمیشہ کی طرح بڑی گرم جوشی سے ملے، وہی مہمان کرکٹرز کی کوچنگ کر رہے تھے، میں نے پوچھا کہ آسٹریلیا میں ورلڈکپ ہے یہ پلیئرز یہاں کیوں تیاریوں کیلیے آ گئے۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ''تمہاری فٹنس اچھی نہیں لگتی ورنہ سوال کا عملی جواب دیتا، خیر آئو میں دکھاتا ہوں''یہ کہہ کر وہ مجھے نیٹ کے قریب لے گئے جہاں بولنگ مشین موجود تھی، انھوں نے بتایا کہ ہمارے ہائی پرفارمنس سینٹر میں جو سہولیات ہیں وہ آئی سی سی اکیڈمی دبئی میں ہی موجود ہیں، فاسٹ ، سلو ہر قسم کی بولنگ ممکن ہے، پھر ہمارے پاس لیفٹ آرم اسپنرز، چائنا مین و دیگر تمام ورائٹیز والے بولرز بھی ہیں،اس سے اچھی تیاری تو شاید ہی کہیں ہو سکے، آپ لوگوں کو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔
میرا اگلا سوال سن کر وہ مسکرائے اور کہا کہ ''تم مجھے برسوں سے مجھے جانتے ہو تمہیں بخوبی علم ہے کہ میں کبھی پیسوں کے پیچھے نہیں بھاگا ورنہ دوسروں کی طرح میچ فکسنگ سے کروڑوں کما لیتا، یہ عاطف رانا یہاں کھڑا ہے اس سے پوچھ لو کہ کیا میں نے فرنچائز کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ کیا،ہمارا دل کا رشتہ ہے،اس نے بڑا مالی نقصان برداشت کیا لیکن ڈٹا ہوا ہے، ہم صرف ملک کو نیا ٹیلنٹ دینا چاہتے ہیں،شاہین شاہ آفریدی، حارث رئوف تو صرف ٹریلر ہیں آگے آگے دیکھنا کتنے پلیئرز سامنے آئیں گے، پاکستان میں لوگ آنے سے ڈرتے تھے۔
ہمارے میدان برسوں ویران رہے،کہیں باہر جا کر بتائو کہ پاکستان سے تعلق ہے تو لوگ دہشت گردی کے حوالے سے سوالات شروع کر دیتے، شکر ہے اب حالات بہتر ہو گئے ہیں، ہم بھی اپنے ملک کا مثبت امیج دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، نمیبیا کی ٹیم جب آسٹریلیا میں ورلڈکپ کے دوران اچھا کھیل پیش کرے گی اور ان چاروں میں سے کوئی مین آف دی میچ ہوا تو اس سے یقینا یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ اس نے قلندرز ایچ پی سی میں ٹریننگ کی تھی، کریڈٹ پاکستان کو ہی جائے گا، پھر یہ کھلاڑی اپنے یا دیگر ممالک میں جا کر جب پاکستان کے اچھے حالات کا بتائیں گے تو اس کا فائدہ ہمارے ملک کو ہی ہوگا، پھر دیگر ممالک سے بھی لوگ یہاں آیا کریں گے۔
جنوبی افریقہ، افغانستان اور آسٹریلیا کے چند کرکٹرز پہلے ہی یہاں آ کر ٹریننگ کر چکے ہیں، تم کو پتا ہے انگلش کائونٹی یارکشائر سے بھی ہمارا معاہدہ ہوا ہے، گذشتہ دنوں ڈیرن گف بھی آیا تھا تم نے تو اس کا انٹرویو بھی کیا تھا، یارکشائر کے کھلاڑی بھی جلد لاہور آئیں گے''۔ یہ باتیں کرتے ہوئے عاقب جاوید کے چہرے پر موجود چمک اورجوش میں محسوس کر سکتا تھا۔
نمیبین کھلاڑی اب نیٹ میں موجود نہیں تھے شاید آرام کرنے چلے گئے تھے، میں نے عاقب جاوید سے پوچھا یہ رہتے کہاں ہیں اور کھاتے کیا ہیں، انھوں نے جواب دیا کہ'' یہیں فائیو اسٹار ہوٹل جیسی سہولتیں موجود ہیں، چاروں یہیں قیام پذیر ہیں، کھاتے کیا ہیں یہ تم خود آ کر دیکھ لو، یہ کہہ کر وہ مجھے ڈائننگ روم لے گئے جہاں نمیبیئن کھلاڑی چٹخارے لے کر پاکستانی کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، پلائو، چکن کری، چپاتیاں سب موجود تھیں، یہلائو یا فرانس،شان فوچی،جین نکول لوفٹی ایٹون یہ تینوں نمیبیا کی نمائندگی کر چکے جبکہ ماریشس این گپیتا اْبھرتے ہوئے نوجوان کرکٹر ہیں۔
میرا جب ان سے تعارف ہوا تو چاروں نے ہی بتایا کہ وہ پاکستان آ کر بہت خوش ہیں اور قلندرز ہائی پرفارمنس سینٹر میں ٹریننگ کر کے کھیل میں بہتری کا موقع ملے گا،ان کو دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ چاروں کتنے مطمئن ہیں لیکن اس سے زیادہ اطمینان مجھے عاقب جاوید اور عاطف رانا کے چہروں پر نظر آیا، جاتے جاتے میں نے عاقب جاوید سے کہا کہ نمیبیئن کھلاڑیوں کو اتنا نہ سکھا دے گا کہ ہمارے لیے ہی بھاری پڑ جائیں اس پر زوردار قہقہہ لگا اور انھوں نے جواب دیا کہ پہلے تو نمیبیا کو کوالیفائینگ رائونڈ کھیلنا ہے،آگے بھی پتا نہیں کہ پاکستان سے مقابلہ ہوگا یا نہیں، ویسے فکر نہ کرو شاہین اور حارث بھی ہمارے ہی اسٹارز ہیں''۔
ہائی پرفارمنس سینٹر سے جاتے ہوئے میں یہی سوچ رہا تھا کہ اسی لاہور میں پی سی بی کا بھی ایک ہائی پرفارمنس سینٹر ہے جہاں احمد شہزاد جیسے کھلاڑی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں مگر کپتان کا بھائی آکر ضرور ٹریننگ کر سکتا ہے، قلندرز ایچ پی سی میں مجھے گائوں کا ایک غریب لڑکا بھی کھیلتے دکھائی دیا، کاش ایسی سوچ سب کی ہو جائے تو دیکھیں ملک کو کتنا نیا ٹیلنٹ ملتا ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)