جامعہ کراچی زیر مقدمہ عمارت میں اسپورٹس پویلین کے قیام پر حکام کا اظہارِ لاتعلقی
یہ جگہ یونیورسٹی کی ملکیت ہے جس کے بعد عدالت نے اس جگہ پر حکم امتناع دے رکھا ہے، جامعہ کراچی
BUENOS AIRES:
جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے اپنے اثاثوں کی حفاظت میں غفلت و لاپرواہی کی پالیسی برقرار ہے اور حال ہی میں سبکدوش انتظامیہ کے دور میں یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کے سامنے قائم یونیورسٹی کی 7ایکڑاراضی پر قائم ایک ایسی عمارت میں نئے کاروبار کے طور پر 'اسپورٹس پویلین' قائم کردیا گیا ہے۔
جس کا معاملہ پہلے سے عدالت میں موجود ہے اور یونیورسٹی ریکارڈ کے مطابق جامعہ کراچی کا یہ دعوی ہے کہ یہ جگہ یونیورسٹی کی ملکیت ہے جس کے بعد عدالت نے اس جگہ پر حکم امتناع دے رکھا ہے اور دونوں فریقین کو اس جگہ کسی بھی سرگرمی سے روک رکھا ہے تاہم اس کے باوجود ایک نامعلوم نجی پارٹی کی جانب سے اس عمارت میں نا صرف ایک نئے کاروبار کے طور پر اسپورٹس پویلین کا قیام عمل میں لایا گیا ہے بلکہ عمارت کی دیواروں کو اشتہارات کے لیے مختص کرکے اس پر سائن بورڈ بھی آویزاں کردیے گئے ہیں۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ جامعہ کراچی کے متعلقہ شعبوں سیکیورٹی اور اسٹیٹ آفس کی جانب سے اس سلسلے مکمل خاموشی اختیار کی گئی جس کے بعد شعبہ کیمسٹری کے ایک استاد کی جانب سے جامعہ کراچی کی قائم مقام وائس چانسلر کو لکھے گئے خط میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جامعہ کراچی کی زمین پر بنائی گئی غیر قانونی عمارت میں اسپورٹس کے نام پر اب کمرشل سرگرمیاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔
مراسلے میں کہا گیا کہ یہ عمارت یونیورسٹی روڈ پر موجود ہے لہذا یونیورسٹی کی ذمین کے اس غیر قانونی استعمال کا نوٹس لیا جائے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس خط کے باوجود چند روز قبل تک سبکدوش انتظامیہ اور اب موجودہ انتظامیہ سوئی ہوئی ہے اور متعلقہ شعبے حرکت میں نہیں آئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ متعلقہ شعبوں کی مرضی سے انجام پارہا ہے۔
اس صورتحال پر جامعہ کراچی کے سابق سیکیورٹی ایڈوائزر پروفیسر محمد زبیر سے ان کی سبکدوشی سے قبل رابطہ کیا تھا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علم میں بھی یہ بات آئی ہے کہ جو عمارت ہماری زمین پر قائم ہے اس میں کچھ کمرشل سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں لیکن مصروفیات کے سبب میں نہ خود وہاں جاسکا ہوں نا ہی عملے کو بھیج سکا ہوں تاہم اب اس معاملے کو دیکھوں گا۔
ادھر نئے سیکیورٹی ایڈوائزر کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی ہے.
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کیمپس سے میں سے تقریباًنصف زمین پر قبضہ مافیا قابض ہے اوریونیورسٹی کے متعلقہ شعبوں کی سنگین غفلت و لاپرواہی کے سبب قبضہ کی گئی زمین عملی طورپراب ریسٹورینٹس،کارڈیلرز،جھگی مافیااورایک سرکاری اسپتال کے تصرف میں ہے۔
جامعہ کراچی کے ذرائع کہتے ہیں کہ 7میں سے کم از کم 3ایکڑاراضی قبضہ ہوچکی ہے اورتعلیم وتحقیق کے لیے مختص کی گئی جامعہ کراچی کی اس زمین پراب روزانہ کی بنیادوں پرکروڑوں روپے کاکاروبارکیاجارہاہے تاہم انتظامیہ مسلسل نشاندہی کیے جانے کے باوجود کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
مذکورہ کمرشل سرگرمیاں سابق اور اس سے پیوستہ انتظامیہ کے دور سے ہی یونیورسٹی کی ذمین پر شروع پوچکی تھیں تاہم ہر دور کی انتظامیہ اس سلسلے میں خاموش رہی اور یونیورسٹی کے اسٹیٹ آفس کا رویہ اس سلسلے میں مشکوک رہا پھر بھی گزشتہ 3 انتظامیہ کے دور سے اس قدر قبضوں کے باوجود ایک ہی اسٹیٹ افسر کو تعینات کر رکھا ہے۔
حال ہی میں یونیورسٹی کا چارج لینے والے مستقل وائس چانسلر نے بھی انھیں عہدے پر برقرار رکھا ہوا ہے بتایا جارہا ہے کہ نئے وائس چانسلر بھی انھیں عہدے سے ہٹانے سے قاصر ہیں۔
"ایکسپریس " نے متعلقہ اسٹیٹ آفیسر نورین شارق سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا تو ان کاکہنا تھا کہ اس عمارت پر عدالت نے مزید تعمیرات سے روکا ہے کسی سرگری سے نہیں روکا جس پر ایکسپریس نے دریافت کیا کہ کیا اس عمارت میں کوئی بھی نیا کاروبار شروع ہوسکتا ہے۔
جس پر ان کا کہنا تھا ہم نے اس پارٹی کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ بورڈ اتاریں ہم بورڈ اتروادیں گے تاہم جب ایکسپریس نے پوچھا کہ کیا کاروبار بھی روکا جائے گا جس پر ان کا کہنا تھا کہ مزید معلومات رجسٹرار جامعہ کراچی سے کریں یا سیکیورٹی سے پوچھیں"۔
دوسری جانب جب کچھ روز قبل سبکدوش رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر مقصود انصاری سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اسٹیٹ آفس اور لیگل ڈپارٹمنٹ کو کہا ہے کہ اس کے خلاف ایکشن لیں میں آن سے دوبارہ پوچھوں گا کہ ایکشن کیوں نہیں ہوا۔
جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے اپنے اثاثوں کی حفاظت میں غفلت و لاپرواہی کی پالیسی برقرار ہے اور حال ہی میں سبکدوش انتظامیہ کے دور میں یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کے سامنے قائم یونیورسٹی کی 7ایکڑاراضی پر قائم ایک ایسی عمارت میں نئے کاروبار کے طور پر 'اسپورٹس پویلین' قائم کردیا گیا ہے۔
جس کا معاملہ پہلے سے عدالت میں موجود ہے اور یونیورسٹی ریکارڈ کے مطابق جامعہ کراچی کا یہ دعوی ہے کہ یہ جگہ یونیورسٹی کی ملکیت ہے جس کے بعد عدالت نے اس جگہ پر حکم امتناع دے رکھا ہے اور دونوں فریقین کو اس جگہ کسی بھی سرگرمی سے روک رکھا ہے تاہم اس کے باوجود ایک نامعلوم نجی پارٹی کی جانب سے اس عمارت میں نا صرف ایک نئے کاروبار کے طور پر اسپورٹس پویلین کا قیام عمل میں لایا گیا ہے بلکہ عمارت کی دیواروں کو اشتہارات کے لیے مختص کرکے اس پر سائن بورڈ بھی آویزاں کردیے گئے ہیں۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ جامعہ کراچی کے متعلقہ شعبوں سیکیورٹی اور اسٹیٹ آفس کی جانب سے اس سلسلے مکمل خاموشی اختیار کی گئی جس کے بعد شعبہ کیمسٹری کے ایک استاد کی جانب سے جامعہ کراچی کی قائم مقام وائس چانسلر کو لکھے گئے خط میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جامعہ کراچی کی زمین پر بنائی گئی غیر قانونی عمارت میں اسپورٹس کے نام پر اب کمرشل سرگرمیاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔
مراسلے میں کہا گیا کہ یہ عمارت یونیورسٹی روڈ پر موجود ہے لہذا یونیورسٹی کی ذمین کے اس غیر قانونی استعمال کا نوٹس لیا جائے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس خط کے باوجود چند روز قبل تک سبکدوش انتظامیہ اور اب موجودہ انتظامیہ سوئی ہوئی ہے اور متعلقہ شعبے حرکت میں نہیں آئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ متعلقہ شعبوں کی مرضی سے انجام پارہا ہے۔
اس صورتحال پر جامعہ کراچی کے سابق سیکیورٹی ایڈوائزر پروفیسر محمد زبیر سے ان کی سبکدوشی سے قبل رابطہ کیا تھا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علم میں بھی یہ بات آئی ہے کہ جو عمارت ہماری زمین پر قائم ہے اس میں کچھ کمرشل سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں لیکن مصروفیات کے سبب میں نہ خود وہاں جاسکا ہوں نا ہی عملے کو بھیج سکا ہوں تاہم اب اس معاملے کو دیکھوں گا۔
ادھر نئے سیکیورٹی ایڈوائزر کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی ہے.
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کیمپس سے میں سے تقریباًنصف زمین پر قبضہ مافیا قابض ہے اوریونیورسٹی کے متعلقہ شعبوں کی سنگین غفلت و لاپرواہی کے سبب قبضہ کی گئی زمین عملی طورپراب ریسٹورینٹس،کارڈیلرز،جھگی مافیااورایک سرکاری اسپتال کے تصرف میں ہے۔
جامعہ کراچی کے ذرائع کہتے ہیں کہ 7میں سے کم از کم 3ایکڑاراضی قبضہ ہوچکی ہے اورتعلیم وتحقیق کے لیے مختص کی گئی جامعہ کراچی کی اس زمین پراب روزانہ کی بنیادوں پرکروڑوں روپے کاکاروبارکیاجارہاہے تاہم انتظامیہ مسلسل نشاندہی کیے جانے کے باوجود کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
مذکورہ کمرشل سرگرمیاں سابق اور اس سے پیوستہ انتظامیہ کے دور سے ہی یونیورسٹی کی ذمین پر شروع پوچکی تھیں تاہم ہر دور کی انتظامیہ اس سلسلے میں خاموش رہی اور یونیورسٹی کے اسٹیٹ آفس کا رویہ اس سلسلے میں مشکوک رہا پھر بھی گزشتہ 3 انتظامیہ کے دور سے اس قدر قبضوں کے باوجود ایک ہی اسٹیٹ افسر کو تعینات کر رکھا ہے۔
حال ہی میں یونیورسٹی کا چارج لینے والے مستقل وائس چانسلر نے بھی انھیں عہدے پر برقرار رکھا ہوا ہے بتایا جارہا ہے کہ نئے وائس چانسلر بھی انھیں عہدے سے ہٹانے سے قاصر ہیں۔
"ایکسپریس " نے متعلقہ اسٹیٹ آفیسر نورین شارق سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا تو ان کاکہنا تھا کہ اس عمارت پر عدالت نے مزید تعمیرات سے روکا ہے کسی سرگری سے نہیں روکا جس پر ایکسپریس نے دریافت کیا کہ کیا اس عمارت میں کوئی بھی نیا کاروبار شروع ہوسکتا ہے۔
جس پر ان کا کہنا تھا ہم نے اس پارٹی کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ بورڈ اتاریں ہم بورڈ اتروادیں گے تاہم جب ایکسپریس نے پوچھا کہ کیا کاروبار بھی روکا جائے گا جس پر ان کا کہنا تھا کہ مزید معلومات رجسٹرار جامعہ کراچی سے کریں یا سیکیورٹی سے پوچھیں"۔
دوسری جانب جب کچھ روز قبل سبکدوش رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر مقصود انصاری سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اسٹیٹ آفس اور لیگل ڈپارٹمنٹ کو کہا ہے کہ اس کے خلاف ایکشن لیں میں آن سے دوبارہ پوچھوں گا کہ ایکشن کیوں نہیں ہوا۔