قومی مکالمہ وقت کی اہم ترین ضرورت
سب سیاستدان مل کر بیٹھیں، خدارا، ایک قومی مکالمہ کے لیے مل بیٹھیں
کراچی:
پاکستان کی آزادی کا ڈائمنڈ جوبلی جشن، ملی جوش وخروش اور شایان شان طریقے سے منایاگیا،دن کا آغاز مساجد اورعبادت گاہوں و گھروں میں ملک و قوم کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعاؤں کے ساتھ ہوا، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اکتیس اور تمام صوبائی دارالحکومتوں میں اکیس اکیس توپوں کی سلامی دی گئی جب کہ قومی ترانے کے احترام میں سائرن بجائے گئے اور ہر قسم کی ٹریفک رک گئی۔
مزار قائد اور مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پر وقار تقاریب منعقد ہوئیں اور فاتحہ خوانی کی گئی۔مرکزی تقریب جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہوئی جس میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پرچم کشائی کی اور خطاب کیا ۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے قوم کو جشن آزادی کی مبارک باد دی اورکہا کہ اس نعمت پر ہم اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔
اس موقع پرانھوں نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری طاقت ہے اور اس پروگرام سے وابستہ تمام ادارے اور افراد ہمارے محسن ہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، اس کے لیے قومی مکالمے کی ضرورت ہے جس کے لیے میثاق معیشت ہوسکتا ہے،ہم جوہری قوت بن سکتے ہیں تو معاشی قوت کیوں نہیں بن سکتے۔
بلاشبہ آزادی بڑی نعمت ہے اور اس کی قدر ان سے پوچھیں ،جو غلام ہیں اور اس نعمت سے محروم ہیں ۔ اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں رہنما اصولوں پر چلنا ہوگا ،تاکہ ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔ اس وقت اہم ترین ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کسی بھی طرح بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کریں۔ جب تک ملک میں سرمایہ نہیں آئے گا، نہ تو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جاسکیں گے اور نہ ہی روزگار کے مواقع پیدا کرکے معاشی پیداوار میں اضافہ کا اہتمام ہوسکے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے صائب بات کی ہے ، آج ملک کو ایک نئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ سب آگے بڑھیں اور ملکی معیشت کو گڑھے سے کیسے نکالا جائے۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس سیاسی نظام کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے۔حکومت کی جانب سے سب کو سیاسی مذاکرات کی دعوت دی جائے۔ جو بات وزیراعظم صاحب نے کی ہے، اسے متعدد بلکہ سارے ہی معاشی ماہرین گزشتہ کئی سالوں سے مختلف طریقوں سے بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ویسے بھی یہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ملک میں امن و امان قائم ہونا، سیاسی تناؤ میں کمی، اہم اور چیدہ چیدہ امور پر اتفاق رائے اور پارلیمنٹ میں خیر سگالی کا ماحول پیدا ہونا ضروری ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت اور آج کی اپوزیشن تحریک انصاف کے درمیان سیاسی مکالمے کے فقدان کے نتیجے میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت کو بہت سے آئینی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صدر پاکستان سیاسی وابستگی کے حوالے سے اپوزیشن کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں مگر وہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں ، جو یقیناً قابل ستائش ہے۔ عدم مذاکرات کے اس ماحول نے واقعی ملک میں دو حکومتوں کا تاثر مزید گہرا کر دیا ہے۔
ماضی قریب میں دو بڑی سیاسی جماعتوں (نون لیگ اور پی پی پی) کو ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت سے کیا حاصل ہوا؟ بالآخر نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنا پڑے۔ یہ معاہدہ درحقیقت سیاست میں مکالمے کی فتح تھی۔ آج جس طرح ہم مخلوط حکومت میں پی پی پی اور نون لیگ کو دیکھتے ہیں درحقیقت اس اتحاد کی جڑیں اسی میثاق جمہوریت میں پائی جاتی ہیں۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ متحارب فریقین کے درمیان سیاسی مذاکرات کا آغاز کون کرے گا؟ ہمارے سیاست دان جس ماحول میں گھر گئے ہیں، اس میں پہل کرنے کے لیے ناک اور مونچھیں نیچی کرنا آسان نہیں۔
سیاست، میں اس وقت ہمارے ہاں جو بیانیہ رائج ہے، اسے مہذب معاشروں کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بیانیہ ہمیں بحیثیت قوم تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ انتہا پسندی کا بارود جمع ہو رہا ہے اور اس کے ارد گرد نفرتوں کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے، دلیل کا خاتمہ ہو گیا ہے، پاکستانی معاشرہ کبھی ایسا نہیں تھا۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ جب معاشرے میں نظریاتی بنیادوں پر تقسیم بہت گہری تھی لیکن ہر مکتب فکر کے لوگ انتہائی حساس موضوعات اور سوالات پر بھی دلائل اور علم کی بنیاد پر بات کرتے تھے۔
اس زمانے کے دائیں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں، علما، دانشوروں اور صحافیوں کی گفتگو اور تحریروں میں دلائل، منطق، شائستگی، علم اور گہرائی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں تخلیق کائنات اور بعض حساس موضوعات پر بھی مباحثہ ہوتا تھا لیکن کوئی مباحثے میں اخلاقیات، اقدار اور طے شدہ اصولوں کو پامال نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کوئی فساد ہوتا تھا۔ سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں لکھا اور بولا جاتا تھا۔ آمریت اور جمہوریت پر مناظرے جاری رہتے تھے لیکن یہ منفی بیانیہ نہیں ہوتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں عدم برداشت والا اور دلیل سے عاری بیانیہ رائج ہونا شروع ہوا۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور ہر ایک اپنی بات کو درست قرار دینے کے لیے میڈیا پر حاوی رہنے اور زیادہ شور مچانے کے فارمولے پر عمل کرنے لگا۔ اس میں سچ اور حقائق گم ہو گئے۔ اس کا فائدہ ان قوتوں نے اٹھایا، جو مکالمے اور مباحثے سے خوفزدہ تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اخلاقی اقدار کو بھی نظر انداز کیا جانے لگا۔ ایک اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ عدالت میں زیر سماعت مقدمات پر بحث کے ذریعہ اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں ایک طرف تو یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اصل لڑائی کیا ہے۔
معاشرے میں تضادات کیا ہیں۔ اس لڑائی میں فریقین کون ہیں اور لوگوں کے حقیقی غصے کا رخ کس طرف ہونا چاہیے؟ جو استحصالی، استبدادی اور حقیقی لٹیرے طبقات اور گروہ ہیں، وہ اس بیانیہ میں چھپ گئے ہیں، جو بیانیہ الزام تراشی اور گالم گلوچ والا ہے۔ دوسری طرف ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔ انتہا پسندی اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ، یوں لگتا ہے کہ جیسے سیاستدان اسٹیٹس مین شپ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، جس کے دانشوروں کے پاس کوئی دلیل اور علم نہیں ہے، جس کے اہل علم معقولیت کو مسترد کرتے ہیں۔
شدت پسندی مذہبی ہو، لسانی ہو، علاقائی ہو، فرقہ وارانہ ہو یا سیاسی و سماجی نوعیت کی ہو، ہر ایک کی ہر سطح پر بڑی جرات اور دیدہ دلیری سے نفی کرنا ہوگی۔ جو لوگ بھی ان منفی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر اپنی فکر کو آگے بڑھاتے ہیں یا لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
ان کے خلاف ہر سطح پر ہمیں ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے۔تمام فریقین کو اپنے داخلی محاذ پر ایسے لوگوں کے خلاف خود کارروائی کرنی ہوگی جو ان کی صفوں میں بیٹھ کر ان کی بھی اور ملک کی بھی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ معاشرے کے سنجیدہ اور علمی و فکری افراد کو چاہیے وہ کسی بھی شعبے سے ہوں ان کو اس انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کے خلاف خاموش رہنے کے بجائے اپنی آواز کو بلند کرکے خیر کی قوتوں کا ساتھ دینا چاہے اور اس بیانیے کی کھل کر مخالفت کریں جو لوگوں میں تنگ نظری پیدا کرتا ہو۔
پاکستان نے انتہا پسندی اور پرتشدد معاشرے سے بچنے کے لیے بیس نکات پرمشتمل نیشنل ایکشن پلان اے پی ایس میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد منظور کیا تھا۔ یہ ایک قومی دستاویز ہے اور اس کے بیس نکات قومی نصاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں نصاب کی تبدیلی،سوشل میڈیا کا استعمال، نفرت انگیز اشاعتی مواد، نفرت اورتعصب پر مبنی تقریر یا تحریر، میڈیا، مدارس کی تشکیل نو، اسلحے کا استعمال، سیاسی و مذہبی فتوؤں سے گریز،سیاسی ومذہبی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی کا کردار اور فرقہ واریت سے جڑے مسائل شامل ہیں۔
ان تمام نکات کی مدد سے ایک مضبوط سماج کی تشکیل نوہونی چاہیے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم سب اپنے رویوں، اپنی باتوں، اپنی گفتگو اور اپنے طرز عمل کا ازسر نو جائزہ لیں۔ ہم اپنی مذہبی اور قومی اخلاقیات، اعلیٰ اقدار، مذہبی روایات، اپنے آئین میں دی گئی ضمانتوں اور عالمی سطح پر طے شدہ اصولوں کے مطابق ایک نیا ضابطہ جو ہمیں اقدار، اخلاقیات، آئین اور طے شدہ اصولوں کے مطابق گفتگو کرنے، تقریر کرنے، بیانات دینے، تجزیہ کرنے اور الفاظ کو ضبط تحریر میں لانے کا پابند کرے۔
حرف آخر سیاست مکالمے اور لچک کا دوسرا نام ہے۔ سب سیاستدان مل کر بیٹھیں، خدارا، ایک قومی مکالمہ کے لیے مل بیٹھیں۔ ہمیں قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابر سیاستدانوں کا بیانیہ اختیار کرنا ہے اور ان کے وژن کے مطابق پاکستان اور پاکستانی سماج کو بنانا ہے ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر سب سیاست دان وسیع تر قومی مفاد میں مل جل کر ملک میں خوشگوار ماحول پیدا کرلیں گے تو ہماری معاشی مشکلات میں واضح کمی ہوجائے گی ۔
پاکستان کی آزادی کا ڈائمنڈ جوبلی جشن، ملی جوش وخروش اور شایان شان طریقے سے منایاگیا،دن کا آغاز مساجد اورعبادت گاہوں و گھروں میں ملک و قوم کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعاؤں کے ساتھ ہوا، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اکتیس اور تمام صوبائی دارالحکومتوں میں اکیس اکیس توپوں کی سلامی دی گئی جب کہ قومی ترانے کے احترام میں سائرن بجائے گئے اور ہر قسم کی ٹریفک رک گئی۔
مزار قائد اور مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پر وقار تقاریب منعقد ہوئیں اور فاتحہ خوانی کی گئی۔مرکزی تقریب جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہوئی جس میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پرچم کشائی کی اور خطاب کیا ۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے قوم کو جشن آزادی کی مبارک باد دی اورکہا کہ اس نعمت پر ہم اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔
اس موقع پرانھوں نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری طاقت ہے اور اس پروگرام سے وابستہ تمام ادارے اور افراد ہمارے محسن ہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، اس کے لیے قومی مکالمے کی ضرورت ہے جس کے لیے میثاق معیشت ہوسکتا ہے،ہم جوہری قوت بن سکتے ہیں تو معاشی قوت کیوں نہیں بن سکتے۔
بلاشبہ آزادی بڑی نعمت ہے اور اس کی قدر ان سے پوچھیں ،جو غلام ہیں اور اس نعمت سے محروم ہیں ۔ اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں رہنما اصولوں پر چلنا ہوگا ،تاکہ ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔ اس وقت اہم ترین ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کسی بھی طرح بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کریں۔ جب تک ملک میں سرمایہ نہیں آئے گا، نہ تو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جاسکیں گے اور نہ ہی روزگار کے مواقع پیدا کرکے معاشی پیداوار میں اضافہ کا اہتمام ہوسکے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے صائب بات کی ہے ، آج ملک کو ایک نئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ سب آگے بڑھیں اور ملکی معیشت کو گڑھے سے کیسے نکالا جائے۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس سیاسی نظام کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے۔حکومت کی جانب سے سب کو سیاسی مذاکرات کی دعوت دی جائے۔ جو بات وزیراعظم صاحب نے کی ہے، اسے متعدد بلکہ سارے ہی معاشی ماہرین گزشتہ کئی سالوں سے مختلف طریقوں سے بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ویسے بھی یہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ملک میں امن و امان قائم ہونا، سیاسی تناؤ میں کمی، اہم اور چیدہ چیدہ امور پر اتفاق رائے اور پارلیمنٹ میں خیر سگالی کا ماحول پیدا ہونا ضروری ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت اور آج کی اپوزیشن تحریک انصاف کے درمیان سیاسی مکالمے کے فقدان کے نتیجے میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت کو بہت سے آئینی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صدر پاکستان سیاسی وابستگی کے حوالے سے اپوزیشن کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں مگر وہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں ، جو یقیناً قابل ستائش ہے۔ عدم مذاکرات کے اس ماحول نے واقعی ملک میں دو حکومتوں کا تاثر مزید گہرا کر دیا ہے۔
ماضی قریب میں دو بڑی سیاسی جماعتوں (نون لیگ اور پی پی پی) کو ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت سے کیا حاصل ہوا؟ بالآخر نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنا پڑے۔ یہ معاہدہ درحقیقت سیاست میں مکالمے کی فتح تھی۔ آج جس طرح ہم مخلوط حکومت میں پی پی پی اور نون لیگ کو دیکھتے ہیں درحقیقت اس اتحاد کی جڑیں اسی میثاق جمہوریت میں پائی جاتی ہیں۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ متحارب فریقین کے درمیان سیاسی مذاکرات کا آغاز کون کرے گا؟ ہمارے سیاست دان جس ماحول میں گھر گئے ہیں، اس میں پہل کرنے کے لیے ناک اور مونچھیں نیچی کرنا آسان نہیں۔
سیاست، میں اس وقت ہمارے ہاں جو بیانیہ رائج ہے، اسے مہذب معاشروں کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بیانیہ ہمیں بحیثیت قوم تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ انتہا پسندی کا بارود جمع ہو رہا ہے اور اس کے ارد گرد نفرتوں کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے، دلیل کا خاتمہ ہو گیا ہے، پاکستانی معاشرہ کبھی ایسا نہیں تھا۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ جب معاشرے میں نظریاتی بنیادوں پر تقسیم بہت گہری تھی لیکن ہر مکتب فکر کے لوگ انتہائی حساس موضوعات اور سوالات پر بھی دلائل اور علم کی بنیاد پر بات کرتے تھے۔
اس زمانے کے دائیں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں، علما، دانشوروں اور صحافیوں کی گفتگو اور تحریروں میں دلائل، منطق، شائستگی، علم اور گہرائی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں تخلیق کائنات اور بعض حساس موضوعات پر بھی مباحثہ ہوتا تھا لیکن کوئی مباحثے میں اخلاقیات، اقدار اور طے شدہ اصولوں کو پامال نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کوئی فساد ہوتا تھا۔ سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں لکھا اور بولا جاتا تھا۔ آمریت اور جمہوریت پر مناظرے جاری رہتے تھے لیکن یہ منفی بیانیہ نہیں ہوتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں عدم برداشت والا اور دلیل سے عاری بیانیہ رائج ہونا شروع ہوا۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور ہر ایک اپنی بات کو درست قرار دینے کے لیے میڈیا پر حاوی رہنے اور زیادہ شور مچانے کے فارمولے پر عمل کرنے لگا۔ اس میں سچ اور حقائق گم ہو گئے۔ اس کا فائدہ ان قوتوں نے اٹھایا، جو مکالمے اور مباحثے سے خوفزدہ تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اخلاقی اقدار کو بھی نظر انداز کیا جانے لگا۔ ایک اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ عدالت میں زیر سماعت مقدمات پر بحث کے ذریعہ اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں ایک طرف تو یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اصل لڑائی کیا ہے۔
معاشرے میں تضادات کیا ہیں۔ اس لڑائی میں فریقین کون ہیں اور لوگوں کے حقیقی غصے کا رخ کس طرف ہونا چاہیے؟ جو استحصالی، استبدادی اور حقیقی لٹیرے طبقات اور گروہ ہیں، وہ اس بیانیہ میں چھپ گئے ہیں، جو بیانیہ الزام تراشی اور گالم گلوچ والا ہے۔ دوسری طرف ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔ انتہا پسندی اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ، یوں لگتا ہے کہ جیسے سیاستدان اسٹیٹس مین شپ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، جس کے دانشوروں کے پاس کوئی دلیل اور علم نہیں ہے، جس کے اہل علم معقولیت کو مسترد کرتے ہیں۔
شدت پسندی مذہبی ہو، لسانی ہو، علاقائی ہو، فرقہ وارانہ ہو یا سیاسی و سماجی نوعیت کی ہو، ہر ایک کی ہر سطح پر بڑی جرات اور دیدہ دلیری سے نفی کرنا ہوگی۔ جو لوگ بھی ان منفی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر اپنی فکر کو آگے بڑھاتے ہیں یا لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
ان کے خلاف ہر سطح پر ہمیں ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے۔تمام فریقین کو اپنے داخلی محاذ پر ایسے لوگوں کے خلاف خود کارروائی کرنی ہوگی جو ان کی صفوں میں بیٹھ کر ان کی بھی اور ملک کی بھی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ معاشرے کے سنجیدہ اور علمی و فکری افراد کو چاہیے وہ کسی بھی شعبے سے ہوں ان کو اس انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کے خلاف خاموش رہنے کے بجائے اپنی آواز کو بلند کرکے خیر کی قوتوں کا ساتھ دینا چاہے اور اس بیانیے کی کھل کر مخالفت کریں جو لوگوں میں تنگ نظری پیدا کرتا ہو۔
پاکستان نے انتہا پسندی اور پرتشدد معاشرے سے بچنے کے لیے بیس نکات پرمشتمل نیشنل ایکشن پلان اے پی ایس میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد منظور کیا تھا۔ یہ ایک قومی دستاویز ہے اور اس کے بیس نکات قومی نصاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں نصاب کی تبدیلی،سوشل میڈیا کا استعمال، نفرت انگیز اشاعتی مواد، نفرت اورتعصب پر مبنی تقریر یا تحریر، میڈیا، مدارس کی تشکیل نو، اسلحے کا استعمال، سیاسی و مذہبی فتوؤں سے گریز،سیاسی ومذہبی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی کا کردار اور فرقہ واریت سے جڑے مسائل شامل ہیں۔
ان تمام نکات کی مدد سے ایک مضبوط سماج کی تشکیل نوہونی چاہیے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم سب اپنے رویوں، اپنی باتوں، اپنی گفتگو اور اپنے طرز عمل کا ازسر نو جائزہ لیں۔ ہم اپنی مذہبی اور قومی اخلاقیات، اعلیٰ اقدار، مذہبی روایات، اپنے آئین میں دی گئی ضمانتوں اور عالمی سطح پر طے شدہ اصولوں کے مطابق ایک نیا ضابطہ جو ہمیں اقدار، اخلاقیات، آئین اور طے شدہ اصولوں کے مطابق گفتگو کرنے، تقریر کرنے، بیانات دینے، تجزیہ کرنے اور الفاظ کو ضبط تحریر میں لانے کا پابند کرے۔
حرف آخر سیاست مکالمے اور لچک کا دوسرا نام ہے۔ سب سیاستدان مل کر بیٹھیں، خدارا، ایک قومی مکالمہ کے لیے مل بیٹھیں۔ ہمیں قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابر سیاستدانوں کا بیانیہ اختیار کرنا ہے اور ان کے وژن کے مطابق پاکستان اور پاکستانی سماج کو بنانا ہے ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر سب سیاست دان وسیع تر قومی مفاد میں مل جل کر ملک میں خوشگوار ماحول پیدا کرلیں گے تو ہماری معاشی مشکلات میں واضح کمی ہوجائے گی ۔