تعلیمی سفر میں بستوں کا بوجھ
اسکول کے بھاری بستوں کا بوجھ کمسن طلبا کے لیے جسمانی درد اور دیگر عوارض کا باعث بن رہا ہے
بہت سے لوگوں کے بچوں کی طرح میرے بچے بھی اکثر ٹانگوں میں درد، تھکاوٹ، کمر درد اور کندھے دُکھنے کی شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ مشاہدے میں اکثر یہ بات آئی ہے کہ بچوں کے کندھوں پر بستے (school bags) کی اسٹرپ کے نیچے نشانات پڑے ہوتے ہیں۔
پچھلے دنوں میں نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے، جو کہ تیسری جماعت کا طالب علم ہے، کے کتابوں اور کاپیوں سے بھرے بستے کا وزن کیا تو وہ 9.5 کلو گرام تھا، جب کہ اس کا اپنا وزن 25 کلوگرام ہے۔ اِسی طرح میری گیارہ سالہ بیٹی جو کہ پانچویں جماعت کی طالبہ ہے، کا وزن 35 کلو گرام ہے اور بستہ 11 کلو گرام سے کچھ اوپر تھا۔ دونوں کے بستوں کو ایک ایک کرکے میں نے اپنے کندھے پر لٹکایا تو اُس طرف جھکاؤ اور بعد میں درد محسوس کرنے لگا۔ تب جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ میرے بچے جسم میں درد کا بہانہ نہیں بناتے بلکہ دراصل یہ ان کا دیرینہ مسٔلہ ہے جس کا باعث بہت حد تک بھاری بھرکم بستے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے بچوں کے جسم کے مختلف اعضا میں درد ہونے کی وجہ صرف بھاری بستے نہ ہوں لیکن اُنھیں اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھاتے ہوئے 10 سے 15 منٹ یا کچھ علاقوں میں اس سے بھی زیادہ چلنا دشوار کام ہے، جس کا اثر جسم پر کہیں نہ کہیں ضرور پڑتا ہے۔
تعلیمی حلقوں میں اسکول کے بستوں کا وزن گزشتہ کئی برسوں سے موضوعِ بحث رہا ہے۔ ماہرینِ طب، ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ نفسیات اور بچوں کے کاؤنسلرز نے بھی اکثر بھاری بستوں سے لیس طلبا کی صحت اور نشوونما پر پڑنے والے منفی اثرات کا تذکرہ کیا ہے۔ محققین کے مطابق نرسری اور کے جی سے لے کر پرائمری کی سطح تک بھاری بستے اُٹھانا طلبا کی صحت اور نشوونما کےلیے نقصان دہ ہے۔ تحقیق تو یہاں تک بھی بتاتی ہے کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں ایک بستہ جس کا وزن کسی بچے کے جسمانی وزن کا صرف 10 فیصد ہوتا ہے، وہ بھی جسمانی وضع میں خطرناک منفی تبدیلیاں لاتا ہے، اور بچوں کو گردن اور کمر درد سمیت پٹھوں کے مسائل کا شکار بناتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ مسائل ادھیڑ عمر تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
امریکا کے دو اداروں American Chiropractic Association (ACA) اور The American Occupational Therapy Association (AOTA) کے مطابق طلبا کے بستے کا وزن (زیادہ سے زیادہ) ان کے اپنے وزن کے 10 فیصد سے زیادہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس سے بھاری وزن کا بستہ اُٹھانا طلبا کےلیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے مطابق بستے کا وزن بچے کے وزن کے 10 فیصد تک ہی رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ پاکستان میں صرف خیبرپختونخوا وہ واحد صوبہ تھا جس نے اسکول کے بستوں کے وزن کے تعین کے حوالے سے 2020 میں قانون سازی کی تھی، جس کے مطابق نرسری کے بچوں کے بستے کا وزن ڈیڑھ کلو گرام، پہلی جماعت کےلیے 2.4 کلو گرام، دوسری سے پانچویں جماعت تک کےلیے 5.3 کلو گرام، چھٹی سے دسویں جماعت کےلیے 5.4 کلو گرام سے لے کر 6 کلو گرام اور گیارہویں تا بارہویں جماعت کےلیے 7 کلوگرام وزن مختص کیا گیا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد ہوا کہ نہیں کوئی نہیں جانتا۔
صحت کے مذکورہ مسائل کے ساتھ صبح صبح بچے جب بھاری بستے کے نیچے دب جاتے ہیں تو وہ بجھ سے جاتے ہیں اور شوق سے اسکول جانے کے بجائے بستے کے بوجھ کی طرح اسکول جانے اور تعلیم کو بھی بہت بڑا بوجھ سمجھتے ہیں۔ ہمارے دور میں بستوں کا وزن اتنا بھاری نہیں ہوتا تھا۔ لیکن آج کل والدین کو بے بسی سے اپنے بچوں کو سارے جہاں کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھاتے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس بوجھ تلے جب جسمانی درد بڑھ جائے تو بچے کیوں کر خوشی سے اسکول جانا چاہیں گے؟
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کے بھاری بستے کی وجہ سے پڑنے والے مسائل سے اسکول انتظامیہ کو آگاہ کریں اور اسکول انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کے خدشات اور بچوں کے مسائل کا ادراک اور مناسب منصوبہ بندی کریں، جس سے تمام کتابیں اور کاپیاں روزانہ اُٹھا کر اسکول لے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اسکول انتظامیہ کو یہ بھی چاہیے کہ اسکول میں بچوں کےلیے الگ الگ تجوری (lockers) کا بندوبست کریں تاکہ وہ اپنی کچھ کتابیں، کاپیاں، رنگین پنسلیں اور اسٹیشنری کا سامان ان تجوریوں میں رکھ سکیں اور صرف ضرورت کا سامان اپنے ساتھ گھر لے جائیں۔
بستے کمسن بچوں کےلیے فضول بوجھ ہونے کے ساتھ غیر ضروری ذمے داری کا بھی باعث ہوتے ہیں۔ یہ دور بچوں کےلیے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ خوشی خوشی، کھیلتے کودتے اور دوڑتے ہوئے اسکول جانے اور اسکول سے آنے کا ہوتا ہے۔ لیکن بستے ان کے نقل و حمل کا جوش ان سے چھین لیتے ہیں کیوں کہ ان کے بستوں میں کتابیں، کاپیاں، رنگین پنسلوں اور اسٹیشنری کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں بھی ہوتی ہیں، جن کی حفاظت کی ذمے داری بھی ان بچوں پر ہی ہوتی ہے۔
کاش! ان چھوٹے بچوں کو اپنے بستوں پر توجہ مرکوز کرنے اور دباؤ کا شکار ہونے کے بجائے خوشی خوشی اسکول جانا نصیب ہو۔
سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
ترقی یافتہ ممالک اب ڈیجیٹل وسائل کی مدد سے پڑھانے کا رُخ کر رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اسکول ڈیجیٹل وسائل کی مدد سے پڑھانے کی طرف آئیں۔ اس سے کاغذی مواد اور کتابیں اسکول لے جانے کا بوجھ کم ہوگا اور طلبا ایسی طرزِ تدریس سے محظوظ ہوتے ہوئے مختلف تصورات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے بھی قابل ہوں گے۔ مثال کے طور پر فی زمانہ ایک بصری طریقے سے سیکھنے والا (visual learner) کتاب سے پڑھنے کی نسبت کسی مشین کے کام کرنے کے طریقہ کار کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
ڈیجیٹل وسائل کو طویل عرصے تک کےلیے محفوظ کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں کاغذی مواد سنبھالنے کےلیے کافی نازک ہوتے ہیں۔ طلبا کاغذی مواد اور کتابیں کھو سکتے ہیں یا انھیں پھاڑ کر نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن ڈیجیٹل وسائل کے ساتھ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاید تمام اسکول ڈیجیٹل وسائل کی استطاعت نہ رکھ سکیں لیکن بصری طریقے سے سیکھنے اور آن لائن مطالعے کے دور میں بستے کے استعمال سے گریز تعلیم کے ماحول کو مثبت انداز میں تبدیل کرسکتا ہے۔
کاغذی مواد اور کتابیں تعلیم کا ایک ذریعہ ہیں لیکن واحد ذریعہ ہرگز نہیں۔ تحقیقی مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ بصری تعلیم اور اسمارٹ کلاس روم کی مدد سے طلبا نہ صرف بہتر انداز میں سیکھیں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ درجے کی ناقدانہ سوچ اور مختلف حالات کے ساتھ موافقت کی مہارتیں بھی سیکھیں گے۔ اگر اسمارٹ ٹیچنگ کی حوصلہ افزائی کی جائے تو اساتذہ اپنے تمام طلبا کی ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ روایتی تدریسی طریقہ کار اور مواد کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ اگرچہ بصری مواصلات بہت تیزی سے اپنی اہمیت واضح کرتے جارہے ہیں، زبانی اور تحریری مواصلات اب بھی ہر جگہ اتنے ہی اہم اور ضروری ہیں جتنے صدیوں قبل تھے۔
ہمارے تعلیمی نظام اور اسکولوں کو صرف نصابی تعلیم پر ہی توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے بلکہ طلبا کی ہمہ گیر شخصیت، مجموعی بہبود اور نشوونما پر بھی اتنا ہی زور دینا چاہیے۔ لہٰذا بستے کا حجم اور وزن نہ صرف بین الاقوامی معیار کے مطابق متعین کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے نافذالعمل بھی کیا جائے تاکہ طلبا خوشی خوشی اور شوق سے اسکول جائیں نہ کہ بوجھ تلے دب کر بجھے بجھے دل کے ساتھ۔
اسکول میں بصری مواد اور اسمارٹ ٹیچنگ طلبا کی دلچسپی، بہتر طور پر سیکھنے، بستے کے بوجھ کو کم کرنے اور ناقدانہ سوچ کے ساتھ مستقبل کے رہنماؤں کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پچھلے دنوں میں نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے، جو کہ تیسری جماعت کا طالب علم ہے، کے کتابوں اور کاپیوں سے بھرے بستے کا وزن کیا تو وہ 9.5 کلو گرام تھا، جب کہ اس کا اپنا وزن 25 کلوگرام ہے۔ اِسی طرح میری گیارہ سالہ بیٹی جو کہ پانچویں جماعت کی طالبہ ہے، کا وزن 35 کلو گرام ہے اور بستہ 11 کلو گرام سے کچھ اوپر تھا۔ دونوں کے بستوں کو ایک ایک کرکے میں نے اپنے کندھے پر لٹکایا تو اُس طرف جھکاؤ اور بعد میں درد محسوس کرنے لگا۔ تب جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ میرے بچے جسم میں درد کا بہانہ نہیں بناتے بلکہ دراصل یہ ان کا دیرینہ مسٔلہ ہے جس کا باعث بہت حد تک بھاری بھرکم بستے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے بچوں کے جسم کے مختلف اعضا میں درد ہونے کی وجہ صرف بھاری بستے نہ ہوں لیکن اُنھیں اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھاتے ہوئے 10 سے 15 منٹ یا کچھ علاقوں میں اس سے بھی زیادہ چلنا دشوار کام ہے، جس کا اثر جسم پر کہیں نہ کہیں ضرور پڑتا ہے۔
تعلیمی حلقوں میں اسکول کے بستوں کا وزن گزشتہ کئی برسوں سے موضوعِ بحث رہا ہے۔ ماہرینِ طب، ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ نفسیات اور بچوں کے کاؤنسلرز نے بھی اکثر بھاری بستوں سے لیس طلبا کی صحت اور نشوونما پر پڑنے والے منفی اثرات کا تذکرہ کیا ہے۔ محققین کے مطابق نرسری اور کے جی سے لے کر پرائمری کی سطح تک بھاری بستے اُٹھانا طلبا کی صحت اور نشوونما کےلیے نقصان دہ ہے۔ تحقیق تو یہاں تک بھی بتاتی ہے کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں ایک بستہ جس کا وزن کسی بچے کے جسمانی وزن کا صرف 10 فیصد ہوتا ہے، وہ بھی جسمانی وضع میں خطرناک منفی تبدیلیاں لاتا ہے، اور بچوں کو گردن اور کمر درد سمیت پٹھوں کے مسائل کا شکار بناتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ مسائل ادھیڑ عمر تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
امریکا کے دو اداروں American Chiropractic Association (ACA) اور The American Occupational Therapy Association (AOTA) کے مطابق طلبا کے بستے کا وزن (زیادہ سے زیادہ) ان کے اپنے وزن کے 10 فیصد سے زیادہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس سے بھاری وزن کا بستہ اُٹھانا طلبا کےلیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے مطابق بستے کا وزن بچے کے وزن کے 10 فیصد تک ہی رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ پاکستان میں صرف خیبرپختونخوا وہ واحد صوبہ تھا جس نے اسکول کے بستوں کے وزن کے تعین کے حوالے سے 2020 میں قانون سازی کی تھی، جس کے مطابق نرسری کے بچوں کے بستے کا وزن ڈیڑھ کلو گرام، پہلی جماعت کےلیے 2.4 کلو گرام، دوسری سے پانچویں جماعت تک کےلیے 5.3 کلو گرام، چھٹی سے دسویں جماعت کےلیے 5.4 کلو گرام سے لے کر 6 کلو گرام اور گیارہویں تا بارہویں جماعت کےلیے 7 کلوگرام وزن مختص کیا گیا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد ہوا کہ نہیں کوئی نہیں جانتا۔
صحت کے مذکورہ مسائل کے ساتھ صبح صبح بچے جب بھاری بستے کے نیچے دب جاتے ہیں تو وہ بجھ سے جاتے ہیں اور شوق سے اسکول جانے کے بجائے بستے کے بوجھ کی طرح اسکول جانے اور تعلیم کو بھی بہت بڑا بوجھ سمجھتے ہیں۔ ہمارے دور میں بستوں کا وزن اتنا بھاری نہیں ہوتا تھا۔ لیکن آج کل والدین کو بے بسی سے اپنے بچوں کو سارے جہاں کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھاتے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس بوجھ تلے جب جسمانی درد بڑھ جائے تو بچے کیوں کر خوشی سے اسکول جانا چاہیں گے؟
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کے بھاری بستے کی وجہ سے پڑنے والے مسائل سے اسکول انتظامیہ کو آگاہ کریں اور اسکول انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کے خدشات اور بچوں کے مسائل کا ادراک اور مناسب منصوبہ بندی کریں، جس سے تمام کتابیں اور کاپیاں روزانہ اُٹھا کر اسکول لے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اسکول انتظامیہ کو یہ بھی چاہیے کہ اسکول میں بچوں کےلیے الگ الگ تجوری (lockers) کا بندوبست کریں تاکہ وہ اپنی کچھ کتابیں، کاپیاں، رنگین پنسلیں اور اسٹیشنری کا سامان ان تجوریوں میں رکھ سکیں اور صرف ضرورت کا سامان اپنے ساتھ گھر لے جائیں۔
بستے کمسن بچوں کےلیے فضول بوجھ ہونے کے ساتھ غیر ضروری ذمے داری کا بھی باعث ہوتے ہیں۔ یہ دور بچوں کےلیے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ خوشی خوشی، کھیلتے کودتے اور دوڑتے ہوئے اسکول جانے اور اسکول سے آنے کا ہوتا ہے۔ لیکن بستے ان کے نقل و حمل کا جوش ان سے چھین لیتے ہیں کیوں کہ ان کے بستوں میں کتابیں، کاپیاں، رنگین پنسلوں اور اسٹیشنری کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں بھی ہوتی ہیں، جن کی حفاظت کی ذمے داری بھی ان بچوں پر ہی ہوتی ہے۔
کاش! ان چھوٹے بچوں کو اپنے بستوں پر توجہ مرکوز کرنے اور دباؤ کا شکار ہونے کے بجائے خوشی خوشی اسکول جانا نصیب ہو۔
سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
ترقی یافتہ ممالک اب ڈیجیٹل وسائل کی مدد سے پڑھانے کا رُخ کر رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اسکول ڈیجیٹل وسائل کی مدد سے پڑھانے کی طرف آئیں۔ اس سے کاغذی مواد اور کتابیں اسکول لے جانے کا بوجھ کم ہوگا اور طلبا ایسی طرزِ تدریس سے محظوظ ہوتے ہوئے مختلف تصورات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے بھی قابل ہوں گے۔ مثال کے طور پر فی زمانہ ایک بصری طریقے سے سیکھنے والا (visual learner) کتاب سے پڑھنے کی نسبت کسی مشین کے کام کرنے کے طریقہ کار کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
ڈیجیٹل وسائل کو طویل عرصے تک کےلیے محفوظ کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں کاغذی مواد سنبھالنے کےلیے کافی نازک ہوتے ہیں۔ طلبا کاغذی مواد اور کتابیں کھو سکتے ہیں یا انھیں پھاڑ کر نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن ڈیجیٹل وسائل کے ساتھ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاید تمام اسکول ڈیجیٹل وسائل کی استطاعت نہ رکھ سکیں لیکن بصری طریقے سے سیکھنے اور آن لائن مطالعے کے دور میں بستے کے استعمال سے گریز تعلیم کے ماحول کو مثبت انداز میں تبدیل کرسکتا ہے۔
کاغذی مواد اور کتابیں تعلیم کا ایک ذریعہ ہیں لیکن واحد ذریعہ ہرگز نہیں۔ تحقیقی مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ بصری تعلیم اور اسمارٹ کلاس روم کی مدد سے طلبا نہ صرف بہتر انداز میں سیکھیں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ درجے کی ناقدانہ سوچ اور مختلف حالات کے ساتھ موافقت کی مہارتیں بھی سیکھیں گے۔ اگر اسمارٹ ٹیچنگ کی حوصلہ افزائی کی جائے تو اساتذہ اپنے تمام طلبا کی ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ روایتی تدریسی طریقہ کار اور مواد کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ اگرچہ بصری مواصلات بہت تیزی سے اپنی اہمیت واضح کرتے جارہے ہیں، زبانی اور تحریری مواصلات اب بھی ہر جگہ اتنے ہی اہم اور ضروری ہیں جتنے صدیوں قبل تھے۔
ہمارے تعلیمی نظام اور اسکولوں کو صرف نصابی تعلیم پر ہی توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے بلکہ طلبا کی ہمہ گیر شخصیت، مجموعی بہبود اور نشوونما پر بھی اتنا ہی زور دینا چاہیے۔ لہٰذا بستے کا حجم اور وزن نہ صرف بین الاقوامی معیار کے مطابق متعین کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے نافذالعمل بھی کیا جائے تاکہ طلبا خوشی خوشی اور شوق سے اسکول جائیں نہ کہ بوجھ تلے دب کر بجھے بجھے دل کے ساتھ۔
اسکول میں بصری مواد اور اسمارٹ ٹیچنگ طلبا کی دلچسپی، بہتر طور پر سیکھنے، بستے کے بوجھ کو کم کرنے اور ناقدانہ سوچ کے ساتھ مستقبل کے رہنماؤں کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔