بچوں کا پارلیمان کل کا پاکستان
ملک کے مسائل کا ادراک بچوں کو تو بخوبی ہے لیکن ارکان پارلیمنٹ دانستہ انجان بنے ہوئے ہیں
LOS ANGELES:
گزشتہ جمعہ کی سہ پہر، قومی اسمبلی کا منظر، اسپیکر راجہ پرویز اشرف، چند ایک ممبران اور قومی اسمبلی کے مہمان بچے۔ سیشن کے آغاز سے قبل اعلان ہوا کہ اس اسمبلی کی کارروائی بچے چلائیں گے۔ میں سوچنے لگا کہ یہ بچے ایوان کی کارروائی میں کیا حصہ لیں گے؟
ہمارے تو بیسیوں منتخب ممبران پارلیمان ایسے ہیں جو پانچ برس کی اسمبلی کے دوران ایک بار بھی نہیں بولتے۔ یہ ننھے منے بچے کیا بولیں گے؟ یہ نونہال کیسے لب کشائی کریں گے؟ جہاں ممبران اسمبلی اپنی تنخواہ بڑھوانے اور مراعات کےلیے یک زبان ہوتے ہیں، یہ بچے کیا مسائل بیان کریں گے؟ اسٹریٹ چائلڈز سے لے کر ایلیٹ تعلیمی اداروں تک کے بچوں کی گفتگو کیا ہوگی؟ اسمبلی اجلاس جوں جوں آگے بڑھتا گیا میرے خدشات دم توڑتے گئے۔ میری آنکھیں روشن پاکستان کی امیدوں سے جگمگانے لگیں۔ مجھے اپنے دیس کا مستقبل سورج جیسا تابناک دکھائی دینے لگا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلے نونہال مقرر سے لے کر آخری معصوم خطیب تلک ہر شریک کی گفتگو مدلل، بچوں کے حقیقی مسائل اور پاکستان کے مستقبل کی فکر کی آئینہ دار تھی۔ سب سے پہلے مقرر نے بچوں کے بنیادی حقوق پر سیر حاصل گفتگو کی، اس نے معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم کو اجاگر کیا۔ ننھے مقرر نے ایوان میں موجود ممبران سے چائلڈ لیبر پر سوالات کیے۔ یقیناً ایوان میں بیٹھے عوامی نمائندوں سے زیادہ وہ بچہ مجھے ننھے پھولوں کے مسائل سے آگاہ نظر آیا۔
غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف چلڈرن کے مطابق ملک بھر میں ایک کروڑ 2 لاکھ بچے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان میں 60 لاکھ بچے 10 سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔ یہاں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ریاست میں چائلڈ لیبر کےلیے 18 برس قبل ڈیٹا جمع کیا تھا۔ اس ڈیٹا کے مطابق 73 فیصد لڑکے اور 27 فیصد لڑکیاں چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ اب دو دہائیاں گزرنے کے بعد ان کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
اگلی مقرر ایک نجی اسکول کی بچی تھی، جس کی نظر میں آج بھی چائلڈ میرج ایک بڑا مسئلہ تھا۔ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے مگر آج بھی اس کرہ ارض پر سالانہ 5 کروڑ بچیوں کی کم عمری میں شادی ہوجاتی ہے۔ یونیسیف کے مطابق آئندہ دہائی تک یہی تعداد دگنی ہونے کا خدشہ ہے۔ صرف وطن عزیز ہی کی مثال لے لیجئے۔ ہمارا پیارا دیس کم عمری کی شادیوں میں دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے، جہاں سالانہ 21 فیصد لڑکیاں 18 سال سے کم عمری میں بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں ہے۔ پاکستان میں 13 فیصد بچیاں عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار یقیناً ہمارے ممبران پارلیمان کی ڈائریوں میں لازمی ہوں گے مگر انہیں سیاسی بیان بازی سے فرصت میسر نہیں ہے، اس لیے بچوں کا یہ مسئلہ بھی بچوں ہی کو ایوان میں پیش کرنا پڑا۔
آئین پاکستان کے تحت تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے جبکہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ لیکن پاکستان میں آج بھی ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان بچوں کے بارے میں ارباب اختیار نے کبھی نہیں سوچا، ہاں ایک ننھا منا مقرر قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑا ہوکر ارباب اختیار سے پوچھ رہا تھا کہ پاکستان آج جنوبی ایشیا میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر کیوں ہے؟ آج بھی وطن عزیز میں اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہے؟ آج بھی ریاست اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بجائے نجی شعبے پر انحصار کر رہی ہے، جس نے تعلیم کو ایک کاروبار بنادیا ہے۔
مجھے پارلیمان کے اس ننھے منے اجلاس کے دوران حیرانی اس وقت ہوئی جب ایک ایلیٹ اسکول کا طالب علم اسپیکر سے مخاطب ہوکر ان بچوں کا مقدمہ پیش کرنے لگا جنہیں ساری دنیا دھتکار رہی تھی۔ سڑکوں اور بازاروں میں ہاتھ پھیلانے والے بچوں کا مقدمہ۔ اسے اپنی گاڑی کی کھڑکی سے وہ بچے دکھائی دیتے تھے، جنہیں گھریلو مجبوریوں نے یا مافیاز نے بھیک مانگنے پر مجبور کردیا تھا۔ جو گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہوئے یا گجرے فروخت کرتے ہوئے لوگوں کی جھڑکیں برداشت کرتے تھے۔ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ صرف 2021 کے ایک سال کے ڈیٹا کے مطابق کراچی سے 2 ہزار 648، لاہور سے 1 ہزار 219، راولپنڈی سے 892 اور پشاور سے 660 بچوں کو اغوا کیا گیا۔ ان مغوی بچوں کو معذور بنا کر مافیا ان سے بھیک منگواتا ہے مگر ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس مافیا کی پشت پناہی کون کرتا ہے؟ ریاست بچوں کو تحفظ دینے میں کیوں ناکام ہے؟ قوم کا مستقبل ہاتھ کیوں پھیلائے ہوئے ہے؟ یہ سوالات ایک بچے کے ذہن میں تو ہیں مگر بیسیوں گاڑیوں کے پروٹوکول میں رہنے والے ممبران پارلیمان کی نظر کبھی ان بچوں پر نہیں پڑی۔
وطن عزیز پاکستان میں والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی تعداد 42 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ بچے تعلیم و صحت کی بنیادی سہولیات نہ ملنے کے باعث چائلڈ لیبر کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں یا پھر وہ بھکاری مافیاز کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں سویٹ ہومز اور الخدمت فاؤنڈیشن ہی وہ ادارے ہیں جو ان یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم کا انتظام کر رہے ہیں مگر 45 لاکھ میں سے محض چند ہزار ہی افراد کو بنیادی سہولیات فراہم کرپاتے ہیں۔ معصوم بچوں کی اپیل پر اسپیکر قومی اسمبلی نے تمام نجی تعلیمی اداروں سے اپیل کی کہ ہر تعلیمی ادارہ 10 یتیم بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ اگر نجی تعلیمی ادارے اس اپیل پر عملدرآمد کریں تو کم از کم 40 سے 41 لاکھ یتیم بچوں کو تعلیم مل سکتی ہے۔
حیران کن طور پر معصوم پھولوں نے تن پر لباس سے محروم، ننگے پاؤں اور بھوکے پیٹ سونے والے بچوں کی جانب ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے فیصلہ سازوں کی توجہ دلوائی۔ بچوں نے ان نمائندوں سے سوال کیا کہ کیا آپ ہمارے مسائل پر اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ ہم آپ کو ووٹ نہیں دے سکتے؟ کیا ہم اس لیے نظر انداز ہیں کہ آپ کا ہم سے کوئی مفاد وابستہ نہیں؟ ہمارے کھیلوں کے میدانوں پر پلازے اس لیے بنادیے جاتے ہیں کہ بلڈرز آپ کی سیاسی جماعت کو فنڈز دیتا ہے؟ انہوں نے والدین سے بھی سوال کیا کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر کیوں ترجیح دی جاتی ہے؟ لڑکیوں کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟ بچوں نے معاشرے سے بھی پوچھا کہ وطن عزیز میں رنگ و نسل کے تضادات کیوں ہیں؟ ننھے پارلیمنٹرین نے صنعتکاروں کے در پر بھی دستک دی کہ آپ کی صنعتیں ہمارے ماحول کو آلودہ کیوں کررہی ہیں؟
ڈیڑھ گھنٹے کے اسمبلی سیشن میں بچوں نے ارباب اختیار، ممبران پارلیمان، قانون سازوں، سب کو دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ ہم آپ کا مستقبل ہیں، ہمیں نظر انداز نہ کریں، ہمیں توجہ دیں، ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔
کئی دن گزر گئے مگر بچوں کے سوال نشتر بن کر دل میں پیوست ہوگئے ہیں کہ آخر ہم بچوں کے مسائل کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ممبران پارلیمان بچوں کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گزشتہ جمعہ کی سہ پہر، قومی اسمبلی کا منظر، اسپیکر راجہ پرویز اشرف، چند ایک ممبران اور قومی اسمبلی کے مہمان بچے۔ سیشن کے آغاز سے قبل اعلان ہوا کہ اس اسمبلی کی کارروائی بچے چلائیں گے۔ میں سوچنے لگا کہ یہ بچے ایوان کی کارروائی میں کیا حصہ لیں گے؟
ہمارے تو بیسیوں منتخب ممبران پارلیمان ایسے ہیں جو پانچ برس کی اسمبلی کے دوران ایک بار بھی نہیں بولتے۔ یہ ننھے منے بچے کیا بولیں گے؟ یہ نونہال کیسے لب کشائی کریں گے؟ جہاں ممبران اسمبلی اپنی تنخواہ بڑھوانے اور مراعات کےلیے یک زبان ہوتے ہیں، یہ بچے کیا مسائل بیان کریں گے؟ اسٹریٹ چائلڈز سے لے کر ایلیٹ تعلیمی اداروں تک کے بچوں کی گفتگو کیا ہوگی؟ اسمبلی اجلاس جوں جوں آگے بڑھتا گیا میرے خدشات دم توڑتے گئے۔ میری آنکھیں روشن پاکستان کی امیدوں سے جگمگانے لگیں۔ مجھے اپنے دیس کا مستقبل سورج جیسا تابناک دکھائی دینے لگا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلے نونہال مقرر سے لے کر آخری معصوم خطیب تلک ہر شریک کی گفتگو مدلل، بچوں کے حقیقی مسائل اور پاکستان کے مستقبل کی فکر کی آئینہ دار تھی۔ سب سے پہلے مقرر نے بچوں کے بنیادی حقوق پر سیر حاصل گفتگو کی، اس نے معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم کو اجاگر کیا۔ ننھے مقرر نے ایوان میں موجود ممبران سے چائلڈ لیبر پر سوالات کیے۔ یقیناً ایوان میں بیٹھے عوامی نمائندوں سے زیادہ وہ بچہ مجھے ننھے پھولوں کے مسائل سے آگاہ نظر آیا۔
غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف چلڈرن کے مطابق ملک بھر میں ایک کروڑ 2 لاکھ بچے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان میں 60 لاکھ بچے 10 سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔ یہاں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ریاست میں چائلڈ لیبر کےلیے 18 برس قبل ڈیٹا جمع کیا تھا۔ اس ڈیٹا کے مطابق 73 فیصد لڑکے اور 27 فیصد لڑکیاں چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ اب دو دہائیاں گزرنے کے بعد ان کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
اگلی مقرر ایک نجی اسکول کی بچی تھی، جس کی نظر میں آج بھی چائلڈ میرج ایک بڑا مسئلہ تھا۔ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے مگر آج بھی اس کرہ ارض پر سالانہ 5 کروڑ بچیوں کی کم عمری میں شادی ہوجاتی ہے۔ یونیسیف کے مطابق آئندہ دہائی تک یہی تعداد دگنی ہونے کا خدشہ ہے۔ صرف وطن عزیز ہی کی مثال لے لیجئے۔ ہمارا پیارا دیس کم عمری کی شادیوں میں دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے، جہاں سالانہ 21 فیصد لڑکیاں 18 سال سے کم عمری میں بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں ہے۔ پاکستان میں 13 فیصد بچیاں عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار یقیناً ہمارے ممبران پارلیمان کی ڈائریوں میں لازمی ہوں گے مگر انہیں سیاسی بیان بازی سے فرصت میسر نہیں ہے، اس لیے بچوں کا یہ مسئلہ بھی بچوں ہی کو ایوان میں پیش کرنا پڑا۔
آئین پاکستان کے تحت تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے جبکہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ لیکن پاکستان میں آج بھی ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان بچوں کے بارے میں ارباب اختیار نے کبھی نہیں سوچا، ہاں ایک ننھا منا مقرر قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑا ہوکر ارباب اختیار سے پوچھ رہا تھا کہ پاکستان آج جنوبی ایشیا میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر کیوں ہے؟ آج بھی وطن عزیز میں اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہے؟ آج بھی ریاست اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بجائے نجی شعبے پر انحصار کر رہی ہے، جس نے تعلیم کو ایک کاروبار بنادیا ہے۔
مجھے پارلیمان کے اس ننھے منے اجلاس کے دوران حیرانی اس وقت ہوئی جب ایک ایلیٹ اسکول کا طالب علم اسپیکر سے مخاطب ہوکر ان بچوں کا مقدمہ پیش کرنے لگا جنہیں ساری دنیا دھتکار رہی تھی۔ سڑکوں اور بازاروں میں ہاتھ پھیلانے والے بچوں کا مقدمہ۔ اسے اپنی گاڑی کی کھڑکی سے وہ بچے دکھائی دیتے تھے، جنہیں گھریلو مجبوریوں نے یا مافیاز نے بھیک مانگنے پر مجبور کردیا تھا۔ جو گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہوئے یا گجرے فروخت کرتے ہوئے لوگوں کی جھڑکیں برداشت کرتے تھے۔ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ صرف 2021 کے ایک سال کے ڈیٹا کے مطابق کراچی سے 2 ہزار 648، لاہور سے 1 ہزار 219، راولپنڈی سے 892 اور پشاور سے 660 بچوں کو اغوا کیا گیا۔ ان مغوی بچوں کو معذور بنا کر مافیا ان سے بھیک منگواتا ہے مگر ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس مافیا کی پشت پناہی کون کرتا ہے؟ ریاست بچوں کو تحفظ دینے میں کیوں ناکام ہے؟ قوم کا مستقبل ہاتھ کیوں پھیلائے ہوئے ہے؟ یہ سوالات ایک بچے کے ذہن میں تو ہیں مگر بیسیوں گاڑیوں کے پروٹوکول میں رہنے والے ممبران پارلیمان کی نظر کبھی ان بچوں پر نہیں پڑی۔
وطن عزیز پاکستان میں والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی تعداد 42 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ بچے تعلیم و صحت کی بنیادی سہولیات نہ ملنے کے باعث چائلڈ لیبر کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں یا پھر وہ بھکاری مافیاز کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں سویٹ ہومز اور الخدمت فاؤنڈیشن ہی وہ ادارے ہیں جو ان یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم کا انتظام کر رہے ہیں مگر 45 لاکھ میں سے محض چند ہزار ہی افراد کو بنیادی سہولیات فراہم کرپاتے ہیں۔ معصوم بچوں کی اپیل پر اسپیکر قومی اسمبلی نے تمام نجی تعلیمی اداروں سے اپیل کی کہ ہر تعلیمی ادارہ 10 یتیم بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ اگر نجی تعلیمی ادارے اس اپیل پر عملدرآمد کریں تو کم از کم 40 سے 41 لاکھ یتیم بچوں کو تعلیم مل سکتی ہے۔
حیران کن طور پر معصوم پھولوں نے تن پر لباس سے محروم، ننگے پاؤں اور بھوکے پیٹ سونے والے بچوں کی جانب ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے فیصلہ سازوں کی توجہ دلوائی۔ بچوں نے ان نمائندوں سے سوال کیا کہ کیا آپ ہمارے مسائل پر اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ ہم آپ کو ووٹ نہیں دے سکتے؟ کیا ہم اس لیے نظر انداز ہیں کہ آپ کا ہم سے کوئی مفاد وابستہ نہیں؟ ہمارے کھیلوں کے میدانوں پر پلازے اس لیے بنادیے جاتے ہیں کہ بلڈرز آپ کی سیاسی جماعت کو فنڈز دیتا ہے؟ انہوں نے والدین سے بھی سوال کیا کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر کیوں ترجیح دی جاتی ہے؟ لڑکیوں کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟ بچوں نے معاشرے سے بھی پوچھا کہ وطن عزیز میں رنگ و نسل کے تضادات کیوں ہیں؟ ننھے پارلیمنٹرین نے صنعتکاروں کے در پر بھی دستک دی کہ آپ کی صنعتیں ہمارے ماحول کو آلودہ کیوں کررہی ہیں؟
ڈیڑھ گھنٹے کے اسمبلی سیشن میں بچوں نے ارباب اختیار، ممبران پارلیمان، قانون سازوں، سب کو دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ ہم آپ کا مستقبل ہیں، ہمیں نظر انداز نہ کریں، ہمیں توجہ دیں، ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔
کئی دن گزر گئے مگر بچوں کے سوال نشتر بن کر دل میں پیوست ہوگئے ہیں کہ آخر ہم بچوں کے مسائل کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ممبران پارلیمان بچوں کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔