ملکی معیشت بہتر مگر عوام کو بھی ریلیف دیں

اصل مسئلہ ملک کی معیشت اور سیاسی استحکام ہے۔ سیاسی استحکام ہوگا تو معیشت بھی مستحکم ہوگی

اصل مسئلہ ملک کی معیشت اور سیاسی استحکام ہے۔ سیاسی استحکام ہوگا تو معیشت بھی مستحکم ہوگی

برطانوی جریدے اکانومسٹ میں شایع اپنے مضمون میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے لیے ہمیں مالی مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔

بدقسمتی سے ہمارا سیاسی ماحول بری طرح منقسم ہو رہا ہے ، ملک کو غربت سے نجات دلانے کے بجائے سیاسی جماعتیں باہم متصادم ہیں۔ دوسری جانب سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایت کی کہ ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹوں کو فوری طور پر دورکیا جائے۔

وزیر اعظم شہباز شریف یکسوئی کے ساتھ اپنا ایک رُخ متعین کیے ہوئے ہیں اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے دن رات مصروف نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں ان کی کاوشوں کی ستائش کرنی چاہیے ۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان دیے گئے تین ارب ڈالرکے سیف ڈپازٹ کی واپسی کی مدت میں مزید توسیع کردی ہے، اس پیش رفت کے بعد ڈالرگزشتہ روز مزید سستا ہوگیا جب کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ فی تولہ سونے کی قیمت میں بھی کمی آرہی ہے۔

یہ تمام باتیں خوش آیند ہیں لیکن گزشتہ روز حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمت میں 6 روپے 72 پیسے کا اضافہ کیا گیا، جب کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے تو کہیں اس اضافے کو تکنیکی و معاشی مجبوری کہا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مریم نواز اور آصف زرداری نے بھی پٹرول کی قیمت میں اضافے کو رد کیا ہے۔

موجودہ اتحادی حکومت کی کارکردگی پر بات کی جائے تو ہمیں مختلف آراء نظر آئیں گی ، ایک جانب تو وزراء اور مشیر ہیں، جو حکومتی اقدامات کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں جب کہ دوسری جانب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما ہیں جو غلطیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

ملک میں سیاسی طور پر ایک جنگ جاری ہے، ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے ، ایسے میں عوام جو بے چارے مہنگائی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں کہ ان کا درد محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔ تسلیم کہ چند دنوں میں قومی مسائل کا حل ممکن نہیں۔ راتوں رات معیشت کی سمت درست ہو سکتی ہے، نہ ہی بیروزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی تعلیم ، صحت اور امن عامہ جیسے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے ، مگر ملک کے غریب عوام یہ امید ضرور رکھتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد انھیں کچھ عرصہ سکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وفاق اور پنجاب میں سیاسی لڑائی جاری ہے ، ملکی سیاست میں برپا تلاطم ہنوز اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام کا نشانہ پاکستانی معیشت اور مڈل کلاس بن رہی ہے۔ معیشت کی صورتحال بے حد نازک ہے۔ تحریک انصاف حکومت پر تنقید کررہی ہے بلکہ مسلسل احتجاجی جلسے کررہی ہے اور حکومت پر معیشت کی تباہی کی ذمے داری ڈال رہی ہے جب کہ وہ خود بھی چار سال کے قریب حکومت میں رہی ہے اور اسے ملک کی خارجہ اور معاشی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے ۔ ساڑھے تین برس کے عرصہ حکومت میں اسے عوام کے حالات زندگی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے تھی۔

دوسری طرف حکومتی وزیر، مشیر بھی اپوزیشن کی پریس کانفرنسوں کے بعد جوابی پریس کانفرنسیں کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ ان کے الزامات کو رد کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں ہونے والی کوتاہیوں اور غلط فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ گزشتہ حکومت میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ دونوں طرف کی باتیں سن کر عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے۔ کب تلک یہ سیاسی کھیل تماشا جاری رہے گا؟ الزام تراشی کا یہ سلسلہ کہاں جا کر ر کے گا اور عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہو گا؟


اصل مسئلہ ملک کی معیشت اور سیاسی استحکام ہے۔ سیاسی استحکام ہوگا تو معیشت بھی مستحکم ہوگی ۔ اس وقت معاشی بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔ لیکن اشیاء ضروریہ کی مہنگائی میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے ۔ طبی شعبے کو دیکھیں تو ادویات کی قلت بھی اور مہنگائی بھی ہیں۔ سرکاری اور نجی شعبے کے معروف اسپتالوں کے ماہرین صحت کی طرف سے مرتب کی گئی تقریباً 40 مختلف ادویات کی فہرست اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مقامی طور پر تیار کردہ کئی گولیاں، شربت، انجکشن اور مرہم یا قطرے اب دستیاب نہیں ہیں۔ یہ باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ مقامی مینوفیکچررز نے بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خام مال کی درآمد روک رکھی ہے ۔

انتہائی اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا کی درآمد پر سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر چکی ہے ، لیکن ادویہ ساز کمپنیوں پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام نہ ہونے کے باعث عام آدمی مہنگائی ادویات خریدنے پر مجبور ہے۔ جان بچانے والی ادویات اکثر دستیاب نہیں ہوتی ، سرکاری اسپتال بھی مریض کے لیے دوران علاج جو ادویات تجویزکرتے ہیں ، وہ مہنگے داموں بازار سے خریدنی پڑتی ہے۔

بھارت اور بنگلہ دیش کی ادویات ہمیں مقامی کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کے مقابلے میں کئی گنا کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں ، لیکن انھیں درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ، جس کی وجہ سے عام آدمی تو ایک طرف رہا ، اپر اور مڈل کلاس کے گھرانے بھی اپنے بیمار عزیز واقارب کے علاج معالجے اور ادویات خریدنے کی سکت سے محروم ہوچکے ہیں ۔ حکومت ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کے حل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

دنیا بھر میں حکومتیں قائم ہوتی ہیں، اپنی مدت مکمل کرتی ہیں۔ ان کی جگہ پر نئی حکومت بر سر اقتدار آ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومتیں تبدیل ہونا بھی معمول کے معاملات ہیں، اس میں کوئی انہونی بات نہیں۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد کوئی سیاسی طوفان برپا نہیں ہوتا، لیکن ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی افق پر ہر آن انتشار اور افراتفری کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ نہ عوام کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوتا ہے اور نہ ملک کو سیاسی استحکام۔ دنیا کے مہذب ممالک میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی نہایت اہم ہوتی ہیں۔

حکومت کاروبار مملکت چلاتی ہے، جب کہ اپوزیشن کے ذمے یہ کام ہوتا ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر نگاہ رکھیں۔ مفاد عامہ کے تناظر میں حکومتی اقدامات کا جائزہ لیں۔ حکومت پر جائز تنقید کریں اور غلط فیصلوں پر حکومت کی گرفت کریں۔ ہمارے ہاں مگر تنقید برائے تنقید کا رواج ہے۔ اچھے خاصے عوامی منصوبے بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ برسوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور نجانے کب تک ہوتا رہے گا۔

بہرحال اب جب کہ مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں ایک تیرہ جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت قائم ہو چکی ہے، اس کو چاہیے کہ اپنی توجہ عوام الناس کی خدمت کی طرف مبذول کرے۔ عوام کی اکثریت کو حکومت اور اپوزیشن نمایندوں کی طرف سے ہونے والی پریس کانفرنسوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ الزام تراشی اور تنقید برائے تنقید کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے بھی وہ بیزار ہو چلے ہیں۔ انھیں کوئی سروکار نہیں کہ گزشتہ حکومت غیر ملکی سازش کی وجہ سے گئی ہے یا پھر ایک آئینی طریقہ کار کے مطابق ہٹائی گئی ہے۔

عوام الناس کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کے روزمرہ زندگی سے متعلق مسائل حل ہوں۔ انھیں دو وقت کی روٹی میسر آئے۔ انھیں مہنگائی کے بوجھ سے نجات ملے اور اشیائے ضروریہ مناسب قیمتوں پر دستیاب ہوں۔ عوام یہ چاہتے ہیں کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتیں جو آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، وہ کم ہوں تاکہ انھیں ریلیف ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہوں اور ادویات مناسب نرخوں پر میسر ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقعے فراہم ہوں۔ انھیں نوکریاں ملیں اور وہ آسانی سے کاروبارکرنے کے قابل ہوں۔ عوام چاہتے ہیں کہ امن عامہ کے حالات بہتر ہوں تاکہ وہ چین سے زندگی بسر کر سکیں۔

موجودہ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے پاس صرف سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے ، لازمی ہے کہ حکومت الزامات کی سیاست میں الجھنے، مقدمے بازی میں وقت ضایع کرنے، گزشتہ حکومت کی مالی بدعنوانیوں کا سراغ لگانے کے بجائے، عوام الناس کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے ہوئے مشکلات میں گھرے عوام کو ریلیف فراہم کرے۔
Load Next Story