خود کشی کا دلخراش واقعہ
خودکشی کرنے کی وجہ اس نے مالک مکان کوکرایہ نہ اداکرسکنا بتائی جس کے ایک لاکھ چھیالیس ہزار روپے اس کے ذمے واجب الاداتھے
کرایہ ادا نہ کر سکنا بڑا جرم بن گیا ، بیٹیوں کو زندگی سے محروم کر کے خودکشی کر دینے والے باپ کے خط اور ''وائس نوٹ ''نے ہر درد دل رکھنے والے شخص کو اندر سے ختم کر دیا ہے، کہ ہم اس قدر بے حس بھی ہو سکتے ہیں کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ ہمارے ہمسائے کہ حالات کیسے ہیں؟
یقینا اس دور میں لوگوں کے درمیان رہ کر بھی تنہا رہ جانا معاشرے کی بے حسی کا ایک ثبوت ہے جس کا سامنا فیصل آباد کے ایک رہائشی عتیق الرحمن کو کرنا پڑا، معاشرے کی بے حسی کے شکار شخص نے خود کشی سے قبل ایک خط اور ''وائس نوٹ'' اپنے دوست شاہد کو بھیجا تھا، جس میں اس نے اقرار کیا تھا کہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں جن کی عمریں بالترتیب 11سال اور17سال تھی چھری سے ذبح کر دیا ہے اور اس کے بعد وہ خود بھی خودکشی کر رہا ہے۔
خودکشی کرنے کی وجہ اس نے مالک مکان کو کرایہ نہ ادا کر سکنا بتائی جس کے ایک لاکھ چھیالیس ہزار روپے اس کے ذمے واجب الادا تھے اور اس کے بار بار تقاضا کرنے کے باوجود بیروزگاری کے سبب یہ رقم ادا کرنے سے قاصر رہا جسکے بعد اس نے صرف خود ہی مرنے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو بھی ذبح کر دیا، اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ وصیت بھی کی کہ ان کی میتیں ایدھی والوں کے حوالے کر دی جائیں جہاں ان کو اجتماعی طور پر دفن کیا جائے اور اس کے گھر کا سارا سامان بھی ایدھی والوں کے حوالے کر دیا جائے ۔
اس سانحہ نے لوگوں کی آنکھوں کو نم کر دیا۔ حالات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خاندان شدید معاشرتی تنہائی کا شکار تھا۔ وہ اکیلے خودکشی بھی کر سکتا تھا مگر وہ اپنے بعد اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا، اسی وجہ سے اس نے اپنی موت سے قبل اپنی بیٹیوں کو ذبح کیا۔
یقین مانیں کہ یہ ایک المیہ بن چکا ہے کہ ہمارے اندر احساس ختم ہو چکا ہے، معذرت کے ساتھ ہم حقوق العباد سے زیادہ حقوق اللہ پر فوکس کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سب سے پہلے سوال حقوق العباد کا کیا جائے گا۔ اور ویسے بھی عبادات ہمارے اندر عاجزی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ایک دفعہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھاتو مولانا مودودی کے پاس کسی کام سے گیا، وہاں پر ایک شخص آیا اور اُس نے کہا کہ مولانا صاحب میں عمرے کی ادائیگی کر کے واپس آیا ہوں تو یہ کیسے پتہ چلا سکتا ہوں کہ میرا عمرہ قبول بھی ہوا ہے یا نہیں؟ مولانا نے فرمایا کہ اگر آپ پہلے سے زیادہ نرم مزاج ہو گئے ہوتو آپ کا عمرہ قبول ہوگیا۔
اُس شخص نے کہا اس کی وضاحت کردیں تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ اپنے ہمسائے کے ساتھ پہلے سے زیادہ اچھے ہوگئے ہویا اپنی بیوی کے ساتھ پہلے سے زیادہ اچھے ہو گئے ہو یا اولاد اور والدین کے حقوق پہلے سے زیادہ اچھے انداز سے پورے کر رہے ہو تو آپ کا عمرہ قبول ہے۔
اور پھر ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ '' ہمسایہ تے ماں جایا '' ہوتا ہے، ہمارے زمانے یا ہمارے بزرگ ہم سے کہیں زیادہ خوش قسمت تھے، سب سے پہلے تو رشتوں کے حوالے سے کہ ایک ہی محلے اور ایک ہی گھر میں کئی کئی نسلیں جوان ہوجاتی تھیں۔ محلے والے رشتے داروں سے بڑھ کر حق ہمسائیگی نبھاتے تھے ''ہمسایہ ماں جایا'' ایک زندہ حقیقت تھی لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے۔
قیامت کے دن ہم سے ہمارے پڑوسی کے حوالے سے سوال اٹھایا جائے گا۔ اپنے گھروں کی دیواریں اتنی بلند نہ کریں کہ آپ تک آپ کے پڑوسی کی صدا بھی نہ پہنچ سکے۔خدا کے لیے اپنے ارد گرد میں ایسے لوگوں کو دیکھیں جو سفید پوش ہیں، مانگ نہیں سکتے مگر وہ حقیقت میں ضرورت مند ہوتے ہیں، ایسے افراد کی خدمت ہی اصل خدمت ہے ورنہ ہم عتیق الرحمن جیسے واقعات سے کبھی چھٹکار ا نہیں پاسکیں گے کہ جس میں اُس نے اپنی جوان بیٹیوں کے گلے اس لیے کاٹ دیے کہ وہ انھیں کچھ کھلا نہیں سکتا تھا، وہ ان بیٹیوں کو کسی کے ہاتھ میں چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے ۔(آمین)
یقینا اس دور میں لوگوں کے درمیان رہ کر بھی تنہا رہ جانا معاشرے کی بے حسی کا ایک ثبوت ہے جس کا سامنا فیصل آباد کے ایک رہائشی عتیق الرحمن کو کرنا پڑا، معاشرے کی بے حسی کے شکار شخص نے خود کشی سے قبل ایک خط اور ''وائس نوٹ'' اپنے دوست شاہد کو بھیجا تھا، جس میں اس نے اقرار کیا تھا کہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں جن کی عمریں بالترتیب 11سال اور17سال تھی چھری سے ذبح کر دیا ہے اور اس کے بعد وہ خود بھی خودکشی کر رہا ہے۔
خودکشی کرنے کی وجہ اس نے مالک مکان کو کرایہ نہ ادا کر سکنا بتائی جس کے ایک لاکھ چھیالیس ہزار روپے اس کے ذمے واجب الادا تھے اور اس کے بار بار تقاضا کرنے کے باوجود بیروزگاری کے سبب یہ رقم ادا کرنے سے قاصر رہا جسکے بعد اس نے صرف خود ہی مرنے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو بھی ذبح کر دیا، اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ وصیت بھی کی کہ ان کی میتیں ایدھی والوں کے حوالے کر دی جائیں جہاں ان کو اجتماعی طور پر دفن کیا جائے اور اس کے گھر کا سارا سامان بھی ایدھی والوں کے حوالے کر دیا جائے ۔
اس سانحہ نے لوگوں کی آنکھوں کو نم کر دیا۔ حالات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خاندان شدید معاشرتی تنہائی کا شکار تھا۔ وہ اکیلے خودکشی بھی کر سکتا تھا مگر وہ اپنے بعد اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا، اسی وجہ سے اس نے اپنی موت سے قبل اپنی بیٹیوں کو ذبح کیا۔
یقین مانیں کہ یہ ایک المیہ بن چکا ہے کہ ہمارے اندر احساس ختم ہو چکا ہے، معذرت کے ساتھ ہم حقوق العباد سے زیادہ حقوق اللہ پر فوکس کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سب سے پہلے سوال حقوق العباد کا کیا جائے گا۔ اور ویسے بھی عبادات ہمارے اندر عاجزی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ایک دفعہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھاتو مولانا مودودی کے پاس کسی کام سے گیا، وہاں پر ایک شخص آیا اور اُس نے کہا کہ مولانا صاحب میں عمرے کی ادائیگی کر کے واپس آیا ہوں تو یہ کیسے پتہ چلا سکتا ہوں کہ میرا عمرہ قبول بھی ہوا ہے یا نہیں؟ مولانا نے فرمایا کہ اگر آپ پہلے سے زیادہ نرم مزاج ہو گئے ہوتو آپ کا عمرہ قبول ہوگیا۔
اُس شخص نے کہا اس کی وضاحت کردیں تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ اپنے ہمسائے کے ساتھ پہلے سے زیادہ اچھے ہوگئے ہویا اپنی بیوی کے ساتھ پہلے سے زیادہ اچھے ہو گئے ہو یا اولاد اور والدین کے حقوق پہلے سے زیادہ اچھے انداز سے پورے کر رہے ہو تو آپ کا عمرہ قبول ہے۔
اور پھر ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ '' ہمسایہ تے ماں جایا '' ہوتا ہے، ہمارے زمانے یا ہمارے بزرگ ہم سے کہیں زیادہ خوش قسمت تھے، سب سے پہلے تو رشتوں کے حوالے سے کہ ایک ہی محلے اور ایک ہی گھر میں کئی کئی نسلیں جوان ہوجاتی تھیں۔ محلے والے رشتے داروں سے بڑھ کر حق ہمسائیگی نبھاتے تھے ''ہمسایہ ماں جایا'' ایک زندہ حقیقت تھی لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے۔
قیامت کے دن ہم سے ہمارے پڑوسی کے حوالے سے سوال اٹھایا جائے گا۔ اپنے گھروں کی دیواریں اتنی بلند نہ کریں کہ آپ تک آپ کے پڑوسی کی صدا بھی نہ پہنچ سکے۔خدا کے لیے اپنے ارد گرد میں ایسے لوگوں کو دیکھیں جو سفید پوش ہیں، مانگ نہیں سکتے مگر وہ حقیقت میں ضرورت مند ہوتے ہیں، ایسے افراد کی خدمت ہی اصل خدمت ہے ورنہ ہم عتیق الرحمن جیسے واقعات سے کبھی چھٹکار ا نہیں پاسکیں گے کہ جس میں اُس نے اپنی جوان بیٹیوں کے گلے اس لیے کاٹ دیے کہ وہ انھیں کچھ کھلا نہیں سکتا تھا، وہ ان بیٹیوں کو کسی کے ہاتھ میں چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے ۔(آمین)