ظلم کی انتہا اور معاشرتی بے حسی
وطنِ عزیز میں طاقتوروں کی جانب سے ماضی میں بھی بے بس لوگوں پر بہیمانہ ظلم ہوتا رہا اور اب بھی ہورہا ہے
LUCKNOW:
دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو مکمل طور پر خوش اور مطمئن ہو۔ چاہے وہ بادشاہ ہو یا فقیر، ہر کسی کو کوئی نہ کوئی دکھ، کوئی نہ کوئی محرومی اور فکر ضرور دامن گیر ہوتی ہے۔ ہم روتے بھی ہیں، ہمیں تکلیف بھی پہنچتی ہے اور ہم اچھے اور برے رویوں کو محسوس بھی کرتے ہیں۔ یہ سب نارمل ہے اور زندہ ہونے کے نشانی ہے، اس لیے ہمیں ان کے اعتراف کو معیوب یا باعثِ شرم نہیں سمجھنا چاہیے۔
میں بھی سب کی طرح ہوں لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر نئے دن کا آغاز کسی مثبت سوچ اور مسکراہٹ کے ساتھ کیا جائے۔ لیکن آج کوشش کے باوجود ایسا نہ ہوسکا۔ یہ کل رات کی بات ہے جب حسبِ معمول حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لینے کےلیے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کھولی ہی تھی کہ اوکاڑہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 39/4L کی کمزور و ناتواں سی ایک بوڑھی ماں کی رسیوں سے بندھی تشدد کی ویڈیو نظروں کی سامنے آگئی۔
آسمان کب پھٹے گا؟ یہ دنیا ملیامیٹ کب ہوگی اور قیامت کب قائم ہوگی؟ یقیناً اسی طرح جب ظلم کی انتہا ہوجائے گی۔ یقیناً مضبوط سے مضبوط اعصاب رکھنے والے انسان کےلیے بھی وہ ظلم و بربریت دیکھنا مشکل ہوگا۔
اپنے ملک کی اس کمزور و ناتواں بے بس بزرگ پر جاہل زمینداروں کا وحشیانہ تشدد مجھ سے زیادہ دیر نہیں دیکھا گیا۔ دکھ، غصے، تکلیف اور بے بسی کے ملے جلے جذبات تھے۔ یہ بات باعثِ دکھ اور باعث شرم بھی ہے کہ ماضی میں بھی وطنِ عزیز میں بے کس و لاچاروں پر طاقتوروں کی جانب سے اس طرح کا بہیمانہ ظلم بارہا ہوتا رہا اور اب بھی یہ واقعات ہمارے پاک وطن میں وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ ہم لکھنے والے اور پھر وطن سے دور پاکستانی شاید کچھ زیادہ ہی حساس ہوتے ہیں، وطن سے آنے والی چھوٹی سی اچھی خبر پر بھی بے انتہا خوش ہوجاتے ہیں اور دُکھی کردینے والی خبریں کئی کئی دن تک ہمیں پریشان اور اداس رکھتی ہیں۔
یہ دل سوز واقعہ کسی مہذب معاشرے میں وقوع پذیر ہوا ہوتا تو اب تک شاید وہاں طوفان برپا ہوچکا ہوتا لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ قانون کی زبان میں اس جرم کی کوئی بڑی دفعہ بھی نہیں ہوگی سزا تو درکنار۔ کیونکہ آئے روز یہ واقعات ہمارے آس پاس ہی ہورہے ہوتے ہیں اور ہم ایک سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
مجھ سے یہ ویڈیو مکمل نہیں دیکھی گئی لیکن ضمیر جھنجھوڑنے اور اپنی بساط کے مطابق اس واقعے کے ردعمل کے طور پر میں نے وہیں سوشل میڈیا پر وزیرِاعظم شہبازشریف کو ٹیگ کیا اور بہاولپور کا ایک واقعہ یاد دلانے کی کوشش کی، جس میں ایک بیٹی کی ساتھ زیادتی اور اس کے بعد بہیمانہ قتل کے واقعے پر اس وقت کے وزیرِاعلیٰ شہباز شریف بذریعہ ہیلی کاپٹر بہاولپور پہنچ رہے تھے تو آئی جی ڈی پی او اور متعلقہ ایس ایچ او کو حکم تھا کہ ہیلی کاپٹر اترنے سے پہلے پہلے مجرموں کو زمین کھود کر نکالو یا پہاڑ کاٹ کر، لیکن ہر حال میں برآمد کرو۔ اور پھر وہ مجرم واقعی پکڑ لیے گئے جنہیں پولیس نے کیفرِ کردار تک بھی پہنچا دیا۔
میں نے وزیرِاعظم شہباز شریف کو لکھا کہ اس کمزور بوڑھی ماں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر وہی غصہ اور وہی فی الفور فیصلہ درکار ہے تاکہ ان جانوروں کو بھی نشانِ عبرت بنایا جاسکے۔ اس کے بعد ایک دو قریبی لوگوں کو بھی میں نے وہ ویڈیو بھیجی۔ وہ بھی افسردہ تھے لیکن یہی کہہ رہے تھے کہ مجرموں کا کچھ نہیں ہوگا۔ بعد ازاں یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ اوکاڑہ پولیس نے ''ویڈیو وائرل ہونے کے بعد'' مقدمہ درج کرکے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔ لیکن کیا ان مجرموں کو واقعی سزا بھی ہوسکے گی یا کچھ عرصہ بعد جب یہ معاملہ لوگوں کے ذہن سے محو ہوجائے گا تو یہ مجرم دوبارہ آزادانہ دندناتے پھریں گے؟
مجھے چند ماہ قبل کسی اخبار میں چھپی ایک بزرگ ماں جی کی تصویر یاد آگئی جو کہیں کھو گئی تھیں۔ پولیس انھیں ڈھونڈ کر جب ان کے گھر واپس چھوڑنے جارہی تھی تو وہ پولیس والے کو مسلسل یہ کہے جارہی تھیں کہ بیٹا میرے پُتر نوں آکھیں ہُن مینوں مارے نا۔ (بیٹا میرے بیٹے کو کہنا اب مجھے مت مارے)
یہ ہمارا معاشرہ ہے؟ یہ ہمارا ہمارے کمزوروں کے ساتھ سلوک ہے؟ میں مسلسل سوچتی رہی کہ ہم اس ظلم کو کیسے ختم کرسکتے ہیں؟ ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے بے بس اور لاچار خصوصاً کمزور لوگ چاہے وہ بچے ہوں، خواتین یا بزرگ ہوں، ان کےلیے جینا سزا نہ ہو، زندگی وبالِ جاں نہ ہو۔
یقیناً یہ اہلِ اقتدار طبقے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں کہ ذمے داری ہے کہ وہ پِسے ہوئے بے بس لوگوں کی زندگیاں آسان بنائیں۔ ان کے ساتھ ظلم اور ناانصافی نہ ہونے دیں۔ ان کو ایک آزاد انسان کی طرح باعزت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں جو ہمارے بس میں ہے ہمیں اس سے بھی پہلوتہی نہیں کرنی چاہیے۔ اپنے بزرگوں کی قدر کرنا سیکھیں۔ انہیں وقت دیں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہمارے پاس تاحیات نہیں رہیں گے اور ان کے پاس کتنا مختصر وقت ہے یہ بھی پتا نہیں۔ ان سے حسنِ سلوک کریں۔ اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ اپنے اردگرد انصاف کو پروان چڑھائیں۔ حقوق ادا کریں۔ جتنی خوشیاں، جتنی آسانیاں اور جتنا سکون ہم کسی کو دے سکتے ہیں، دیں اور جتنا ہوسکے، جہاں تک ہوسکے کمزوروں کے مظلوموں کے حق کےلیے آواز بلند کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو مکمل طور پر خوش اور مطمئن ہو۔ چاہے وہ بادشاہ ہو یا فقیر، ہر کسی کو کوئی نہ کوئی دکھ، کوئی نہ کوئی محرومی اور فکر ضرور دامن گیر ہوتی ہے۔ ہم روتے بھی ہیں، ہمیں تکلیف بھی پہنچتی ہے اور ہم اچھے اور برے رویوں کو محسوس بھی کرتے ہیں۔ یہ سب نارمل ہے اور زندہ ہونے کے نشانی ہے، اس لیے ہمیں ان کے اعتراف کو معیوب یا باعثِ شرم نہیں سمجھنا چاہیے۔
میں بھی سب کی طرح ہوں لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر نئے دن کا آغاز کسی مثبت سوچ اور مسکراہٹ کے ساتھ کیا جائے۔ لیکن آج کوشش کے باوجود ایسا نہ ہوسکا۔ یہ کل رات کی بات ہے جب حسبِ معمول حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لینے کےلیے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کھولی ہی تھی کہ اوکاڑہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 39/4L کی کمزور و ناتواں سی ایک بوڑھی ماں کی رسیوں سے بندھی تشدد کی ویڈیو نظروں کی سامنے آگئی۔
آسمان کب پھٹے گا؟ یہ دنیا ملیامیٹ کب ہوگی اور قیامت کب قائم ہوگی؟ یقیناً اسی طرح جب ظلم کی انتہا ہوجائے گی۔ یقیناً مضبوط سے مضبوط اعصاب رکھنے والے انسان کےلیے بھی وہ ظلم و بربریت دیکھنا مشکل ہوگا۔
اپنے ملک کی اس کمزور و ناتواں بے بس بزرگ پر جاہل زمینداروں کا وحشیانہ تشدد مجھ سے زیادہ دیر نہیں دیکھا گیا۔ دکھ، غصے، تکلیف اور بے بسی کے ملے جلے جذبات تھے۔ یہ بات باعثِ دکھ اور باعث شرم بھی ہے کہ ماضی میں بھی وطنِ عزیز میں بے کس و لاچاروں پر طاقتوروں کی جانب سے اس طرح کا بہیمانہ ظلم بارہا ہوتا رہا اور اب بھی یہ واقعات ہمارے پاک وطن میں وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ ہم لکھنے والے اور پھر وطن سے دور پاکستانی شاید کچھ زیادہ ہی حساس ہوتے ہیں، وطن سے آنے والی چھوٹی سی اچھی خبر پر بھی بے انتہا خوش ہوجاتے ہیں اور دُکھی کردینے والی خبریں کئی کئی دن تک ہمیں پریشان اور اداس رکھتی ہیں۔
یہ دل سوز واقعہ کسی مہذب معاشرے میں وقوع پذیر ہوا ہوتا تو اب تک شاید وہاں طوفان برپا ہوچکا ہوتا لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ قانون کی زبان میں اس جرم کی کوئی بڑی دفعہ بھی نہیں ہوگی سزا تو درکنار۔ کیونکہ آئے روز یہ واقعات ہمارے آس پاس ہی ہورہے ہوتے ہیں اور ہم ایک سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
مجھ سے یہ ویڈیو مکمل نہیں دیکھی گئی لیکن ضمیر جھنجھوڑنے اور اپنی بساط کے مطابق اس واقعے کے ردعمل کے طور پر میں نے وہیں سوشل میڈیا پر وزیرِاعظم شہبازشریف کو ٹیگ کیا اور بہاولپور کا ایک واقعہ یاد دلانے کی کوشش کی، جس میں ایک بیٹی کی ساتھ زیادتی اور اس کے بعد بہیمانہ قتل کے واقعے پر اس وقت کے وزیرِاعلیٰ شہباز شریف بذریعہ ہیلی کاپٹر بہاولپور پہنچ رہے تھے تو آئی جی ڈی پی او اور متعلقہ ایس ایچ او کو حکم تھا کہ ہیلی کاپٹر اترنے سے پہلے پہلے مجرموں کو زمین کھود کر نکالو یا پہاڑ کاٹ کر، لیکن ہر حال میں برآمد کرو۔ اور پھر وہ مجرم واقعی پکڑ لیے گئے جنہیں پولیس نے کیفرِ کردار تک بھی پہنچا دیا۔
میں نے وزیرِاعظم شہباز شریف کو لکھا کہ اس کمزور بوڑھی ماں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر وہی غصہ اور وہی فی الفور فیصلہ درکار ہے تاکہ ان جانوروں کو بھی نشانِ عبرت بنایا جاسکے۔ اس کے بعد ایک دو قریبی لوگوں کو بھی میں نے وہ ویڈیو بھیجی۔ وہ بھی افسردہ تھے لیکن یہی کہہ رہے تھے کہ مجرموں کا کچھ نہیں ہوگا۔ بعد ازاں یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ اوکاڑہ پولیس نے ''ویڈیو وائرل ہونے کے بعد'' مقدمہ درج کرکے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔ لیکن کیا ان مجرموں کو واقعی سزا بھی ہوسکے گی یا کچھ عرصہ بعد جب یہ معاملہ لوگوں کے ذہن سے محو ہوجائے گا تو یہ مجرم دوبارہ آزادانہ دندناتے پھریں گے؟
مجھے چند ماہ قبل کسی اخبار میں چھپی ایک بزرگ ماں جی کی تصویر یاد آگئی جو کہیں کھو گئی تھیں۔ پولیس انھیں ڈھونڈ کر جب ان کے گھر واپس چھوڑنے جارہی تھی تو وہ پولیس والے کو مسلسل یہ کہے جارہی تھیں کہ بیٹا میرے پُتر نوں آکھیں ہُن مینوں مارے نا۔ (بیٹا میرے بیٹے کو کہنا اب مجھے مت مارے)
یہ ہمارا معاشرہ ہے؟ یہ ہمارا ہمارے کمزوروں کے ساتھ سلوک ہے؟ میں مسلسل سوچتی رہی کہ ہم اس ظلم کو کیسے ختم کرسکتے ہیں؟ ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے بے بس اور لاچار خصوصاً کمزور لوگ چاہے وہ بچے ہوں، خواتین یا بزرگ ہوں، ان کےلیے جینا سزا نہ ہو، زندگی وبالِ جاں نہ ہو۔
یقیناً یہ اہلِ اقتدار طبقے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں کہ ذمے داری ہے کہ وہ پِسے ہوئے بے بس لوگوں کی زندگیاں آسان بنائیں۔ ان کے ساتھ ظلم اور ناانصافی نہ ہونے دیں۔ ان کو ایک آزاد انسان کی طرح باعزت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں جو ہمارے بس میں ہے ہمیں اس سے بھی پہلوتہی نہیں کرنی چاہیے۔ اپنے بزرگوں کی قدر کرنا سیکھیں۔ انہیں وقت دیں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہمارے پاس تاحیات نہیں رہیں گے اور ان کے پاس کتنا مختصر وقت ہے یہ بھی پتا نہیں۔ ان سے حسنِ سلوک کریں۔ اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ اپنے اردگرد انصاف کو پروان چڑھائیں۔ حقوق ادا کریں۔ جتنی خوشیاں، جتنی آسانیاں اور جتنا سکون ہم کسی کو دے سکتے ہیں، دیں اور جتنا ہوسکے، جہاں تک ہوسکے کمزوروں کے مظلوموں کے حق کےلیے آواز بلند کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔