خاتون رکن اسمبلی کی ہراسگی کا معاملہ لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کی برطرفی کی منظوری
ڈاکٹر اختر بلوچ کو شازیہ کریم کو موبائل فون پر بھیجے گئے غیر اخلاقی مواد کے الزام میں عہدے سے فارغ کیا جارہا ہے
حکومت سندھ نے شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ کو عہدے سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر اختر بلوچ کو رکن سندھ اسمبلی شازیہ کریم کو موبائل فون پر بھیجے گئے غیر اخلاقی مواد کے الزام میں عہدے سے فارغ کیا جارہا ہے جس کی دو مختلف انکوائریز کرائی گئی ہیں تاہم کرائی گئی دونوں تحقیقات کی رپورٹس آپس میں متضاد ہیں۔
لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی برطرفی سے متعلق بھجوائی گئی سمری کے مطابق ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے مطابق ڈاکٹر اختر بلوچ کے موبائل فون سے غیر اخلاقی مواد immoral (sexual ) content/video مذکورہ ایم پی اے کو بھیجی گئی ہے جبکہ اسی سمری میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کہ تحقیقات کے مطابق سوفٹ ویئر کی محدودیت limitation کے سبب موبائل فون سے مذکورہ مواد نہیں مل سکا تاہم اس کے باوجود ان کی برطرفی کے لیے اقدام کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر اختر بلوچ کی برطرفی کا فیصلہ سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو کی سفارش اور بھجوائی گئی اسی سمری کی بنیاد پر کیا گیا ہے اورذرائع کے مطابق وزیر اعلی سندھ نے لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹانے کی منظوری بھی دے دی ہے اور ابتدا میں انہیں برطرفی کے لیے شوکاز نوٹس جاری کیا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر اختر بلوچ کو 6 ماہ قبل 12 فروری کو 45 روز کی جبری رخصت پر بجھواتے ہوئے ان کے خلاف ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس ڈاکٹر سعید قریشی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی تھی کمیٹی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد کی وائس چانسلر ڈاکٹر طیبہ ظریف اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کی پروفیسر نازلی حسین کو شامل کیا گیا تھا۔
لیاری یونیورسٹی کا چارج اس وقت کے ڈائو میڈیکلیونیورسٹی کے پروفیسر امجد سراج میمن کو دے دیا گیا تھا وہ اب جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں جبکہ تاحال لیاری یونیورسٹی کا چارج بھی ان ہی کے پاس ہے ادھر "ایکسپریس" نے اس معاملے پر سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو سے رابطہ کیا تو انھوں نے ڈاکٹر اختر بلوچ کی برطرفی کے حوالے سے بھجوائی گئی سمری کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ "سمری ریسیوو ہونے پر برطرفی کے حوالے سے formalities پوری کی جائیں گی جس میں شوکاز بھی شامل ہے انکوائری میں ایف آئی اے کی فائنڈنگ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے یہ نہیں کہا کہ ان کے موبائل فون سے غیر اخلاقی مواد ٹرانسفر نہیں ہوا ہے بلکہ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ مواد ہمیں نہیں ملا کیونکہ مواد ڈیلیٹ ہوگیا جبکہ انکوائری کمیٹی کی فائنڈنگ سے یہ ثابت ہے کہ غیر اخلاقی مواد ڈاکٹر اختر بلوچ کے موبائل سے ہی ٹرانسفر ہوا ہے"۔
واضح رہے کہ وزیر اعلی سندھ کو بھجوائی گئی سمری میں کہا گیا کہ ڈاکٹر اختر بلوچ کے اس دعوے کی قابل فہم وضاحت نہیں ملی کہ ان کا موبائل فون ہیک ہوگیا تھا جبکہ انکوائری کمیٹی کے مطابق مذکورہ نازیبا ویڈیو مواد ڈاکٹر اختر بلوچ کے فون سے ہی بھیجا گیا تھا۔
سمری کے مطابق آنڈرائیڈ اور اسمارٹ فونز کے اپنے سوفٹ ویئر ہوتے ہیں جس سے مواد کو ڈیلیٹ اور فون کو ری سیٹ کردیا جاتا ہے لہذا یہاں اس بات کا امکان ہے کہ اس موبائل فون کا ڈیٹا کلیئر/ری سیٹ کردیا گیا ہو کیونکہ موبائل فون 4 ماہ تک ڈاکٹر اختر بلوچ کی تحویل میں ہی رہا ۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر اختر بلوچ کو رکن سندھ اسمبلی شازیہ کریم کو موبائل فون پر بھیجے گئے غیر اخلاقی مواد کے الزام میں عہدے سے فارغ کیا جارہا ہے جس کی دو مختلف انکوائریز کرائی گئی ہیں تاہم کرائی گئی دونوں تحقیقات کی رپورٹس آپس میں متضاد ہیں۔
لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی برطرفی سے متعلق بھجوائی گئی سمری کے مطابق ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے مطابق ڈاکٹر اختر بلوچ کے موبائل فون سے غیر اخلاقی مواد immoral (sexual ) content/video مذکورہ ایم پی اے کو بھیجی گئی ہے جبکہ اسی سمری میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کہ تحقیقات کے مطابق سوفٹ ویئر کی محدودیت limitation کے سبب موبائل فون سے مذکورہ مواد نہیں مل سکا تاہم اس کے باوجود ان کی برطرفی کے لیے اقدام کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر اختر بلوچ کی برطرفی کا فیصلہ سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو کی سفارش اور بھجوائی گئی اسی سمری کی بنیاد پر کیا گیا ہے اورذرائع کے مطابق وزیر اعلی سندھ نے لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹانے کی منظوری بھی دے دی ہے اور ابتدا میں انہیں برطرفی کے لیے شوکاز نوٹس جاری کیا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر اختر بلوچ کو 6 ماہ قبل 12 فروری کو 45 روز کی جبری رخصت پر بجھواتے ہوئے ان کے خلاف ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس ڈاکٹر سعید قریشی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی تھی کمیٹی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد کی وائس چانسلر ڈاکٹر طیبہ ظریف اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کی پروفیسر نازلی حسین کو شامل کیا گیا تھا۔
لیاری یونیورسٹی کا چارج اس وقت کے ڈائو میڈیکلیونیورسٹی کے پروفیسر امجد سراج میمن کو دے دیا گیا تھا وہ اب جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں جبکہ تاحال لیاری یونیورسٹی کا چارج بھی ان ہی کے پاس ہے ادھر "ایکسپریس" نے اس معاملے پر سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو سے رابطہ کیا تو انھوں نے ڈاکٹر اختر بلوچ کی برطرفی کے حوالے سے بھجوائی گئی سمری کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ "سمری ریسیوو ہونے پر برطرفی کے حوالے سے formalities پوری کی جائیں گی جس میں شوکاز بھی شامل ہے انکوائری میں ایف آئی اے کی فائنڈنگ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے یہ نہیں کہا کہ ان کے موبائل فون سے غیر اخلاقی مواد ٹرانسفر نہیں ہوا ہے بلکہ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ مواد ہمیں نہیں ملا کیونکہ مواد ڈیلیٹ ہوگیا جبکہ انکوائری کمیٹی کی فائنڈنگ سے یہ ثابت ہے کہ غیر اخلاقی مواد ڈاکٹر اختر بلوچ کے موبائل سے ہی ٹرانسفر ہوا ہے"۔
واضح رہے کہ وزیر اعلی سندھ کو بھجوائی گئی سمری میں کہا گیا کہ ڈاکٹر اختر بلوچ کے اس دعوے کی قابل فہم وضاحت نہیں ملی کہ ان کا موبائل فون ہیک ہوگیا تھا جبکہ انکوائری کمیٹی کے مطابق مذکورہ نازیبا ویڈیو مواد ڈاکٹر اختر بلوچ کے فون سے ہی بھیجا گیا تھا۔
سمری کے مطابق آنڈرائیڈ اور اسمارٹ فونز کے اپنے سوفٹ ویئر ہوتے ہیں جس سے مواد کو ڈیلیٹ اور فون کو ری سیٹ کردیا جاتا ہے لہذا یہاں اس بات کا امکان ہے کہ اس موبائل فون کا ڈیٹا کلیئر/ری سیٹ کردیا گیا ہو کیونکہ موبائل فون 4 ماہ تک ڈاکٹر اختر بلوچ کی تحویل میں ہی رہا ۔