عوام کو فوری ریلیف دیا جائے
ملک بھرمیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پرشدید تنقیدہورہی ہے اورحکومتی اتحادی جماعتیں ناراضگی کا اظہارکررہی ہیں
اگلے روز پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے ، عوامی سطح پر اس فیصلے پر شدید ردعمل آیا ہے ، دوسری جانب حکومتی اتحادیوں نے بھی اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
سابق صدر آصف زرداری نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہے اور ساتھ ہے۔ اس طرح کے فیصلوں پر مشاورت ضرور ہونی چاہیے، ہم سب اس حکومت میں عوام کو ریلیف دینے آئے ہیں اور عوام کو ریلیف دینا ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
ایم کیو ایم پاکستان نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف لندن میں جاری پارٹی اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایک ایسے وقت جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک جانب ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تنقید ہورہی ہے اور حکومتی اتحادی جماعتیں ناراضگی کا اظہار کررہی ہیں تو دوسری جانب اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پٹرول مہنگا کرنے کا فیصلہ درست ہے ، عوام اعتماد کریں، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا اور نہ ہی آگے جا کر لگانے کا فیصلہ ہے ، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پٹرول کی قیمت نہیں بڑھے گی بلکہ کہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس نہیں لگاؤں گا۔
آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے جس کے نتیجے میں اب معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ اس ساری صورتحال میں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے موقف کا اظہار نہیں کیا ہے ، جب کہ جشن آزادی کی رات وہ اپنی نشری تقریر میں پٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے فی لیٹر کمی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس سارے پس و پیش منظر کے تناظر میں وزیراعظم صاحب کو وضاحت کرنا ہوگی ، تاکہ حقیقی منظر نامہ عوام کے سامنے آسکے۔
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بہت سے منفی اثرات سامنے آئیں گے نہ صرف ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی ، بلکہ عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔ آنیوالے دنوں میں قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
جس میں حکومتی اتحادی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کا مقابلہ براہ راست تحریک انصاف سے ہوگا ، ضمنی انتخابات میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح عوامی رائے پر اثر انداز ہوگی ، عوامی سطح پر حکومتی حمایت متاثر ہو سکتی ہے ۔ انتخابی نظام کے مطابق ووٹ لینے کے لیے ہر پارٹی کو عوام میں جانا پڑتا ہے ، انھیں اپنی کارکردگی بتانی پڑتی ہے ، کوئی بھی جماعت نہیں چاہتی کہ وہ عوامی حمایت سے محروم ہو ۔
گزشتہ ماہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کے بعد ہر چیز کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا، گھروں کے کرائے بڑھ گئے ، آٹا، چاول، گھی سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ بچوں کی اسکول فیس بھی بڑھا دی گئی، ادویات بھی مہنگی ہو گئیں، ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں دو سوگنا اضافہ کردیا۔ جب ڈالر کی قیمت نیچے آنا شروع ہوئی تو عوام کے دل میں امید پیدا ہوئی کہ اب مہنگائی بھی کم ہو جائے گی، گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور دوائی کی قیمت میں کمی آئے گی، لیکن ان امیدوں پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔
ڈالر کی قیمت کم ہونے کے باوجود بھی کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ یہ بات درست سہی کہ حکومت ڈالر ریٹ نیچے آنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن عوام اس کامیابی کو اس وقت مانیں گے جب مہنگائی بھی کم ہو گی ، سادہ سی بات ہے اگر حکومت مہنگائی کم نہ کروا سکی تو ڈالر ریٹ نیچے آنا صرف اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے اور کچھ نہیں۔ ڈالر ریٹ کم ہونے سے کسی کے بھی اخراجات میں کمی نہیں ہو رہی، نہ ہی جانوروں کے ریٹ کم ہوئے ہیں اور نہ ہی بجلی گیس کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، عجب گومگو کی صورتحال ہے ۔
ڈالر ریٹ میں تیزی سے تبدیلی نے مختلف شعبوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہماری ملکی برآمدات کا تقریباً 70 فیصد ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ ہے۔ ڈالر کی غیر یقینی صورت حال نے ٹیکسٹائل شعبے کو متاثر کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ برآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی ضرورت کی آدھی سے زیادہ کاٹن درآمد کرتا ہے۔
حالیہ ایل سیز 240 کے حساب سے بند ہوئی ہیں ، جس کی وجہ سے خریداری مہنگی ہوئی ہے اور دوسری طرف ڈالر ریٹ کم ہونے سے متوقع منافع میں بھی کمی آ رہی ہے، ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والے کیمیکلز اور دیگر 70 فیصد خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ریٹ بڑھنے سے اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، اگر مارکیٹ مستحکم ہوتی تو برآمد کندگان زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈالر کا ایک ریٹ طے کردے تاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر اسی کے مطابق ڈیل کر سکے، اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو برآمدات میں مزید کمی آ سکتی ہے۔
ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی کے اثرات تاحال براہ راست عوام کو منتقل نہیں ہوسکے ہیں۔ دوسری جانب ڈالر کا کاروبار کرنے والے افراد کا موقف ہے کہ ڈالر ریٹ میں تیزی سے کمی نے ایکسچینج کمپنیوں کو نقصان پہنچایا ہے، گو کہ اس سے ملکی معیشت میں بہتری کے اشارے دیے جا رہے ہیں لیکن جو ڈالرز 245 روپے کے حساب سے خریدے گئے تھے آج وہ 220 روپے میں بھی فروخت نہیں ہو رہے، جس سے بھاری نقصان ہوا ہے۔
مارکیٹ میں ڈالرز کے خریدار کم ہو گئے ہیں۔ ایکسچینج کمپنیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت سے کئی مرتبہ گزارش کی ہے کہ ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر ملک میں لانے کے لیے مزید سہولتیں دی جائیں۔ بینکوں کے پاس سیکڑوں آپشنز ہیں جب کہ منی چینجر صرف تین سے چار طریقوں کے علاوہ ڈالر پاکستان نہیں لا سکتے، اگر حکومت ہمیں سہولت فراہم کرے گی تو ایک طرف ڈالر کے غیر متوقع اتار چڑھاؤ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ ہو سکے گا اور دوسری طرف ہنڈی کے ذریعے آنے والے ڈالرز میں کمی آ سکے گی جس کا فائدہ پاکستان کو ہوگا۔
اسی طرح پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے وسیع کاروبار سے وابستہ افراد کا موقف ہے کہ ڈالر ریٹ بڑھنے سے اسٹیل، ریت، بجری، ٹائلز اور سینیٹری سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن جب سے ڈالر ریٹ کم ہونا شروع ہوا ہے، ان اشیا کی قیمتوں میں کمی نہیں ہو رہی ہے اور مستقبل میں بھی اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے، جس کے باعث کنسٹرکشن کا کاروبار سکڑ رہا ہے۔ کھربوں روپوں کی یہ صنعت تنزلی کا شکار ہو رہی ہے، لیکن حکومت اس کے بچاؤ کے لیے اقدامات نہیں کر رہی۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر موثر ہیں۔
کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان بھی کمپنیز سے ریٹ بڑھانے کی وجوہات پوچھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ پاکستان میں تعمیرات کا 90 فیصد سامان درآمد ہوتا ہے، جس کا مکمل ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہے لیکن عدم دلچسپی کے باعث حالات تباہی کے دہانے پر آ پہنچے ہیں۔
آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حصول کے لیے مذاکرات کے دوران ہی بجلی ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کیا گیا یہ اضافہ بھی مہنگائی پر اثر انداز ہوا ، ماہرین عالمی منڈی کے جواز کو مشروط طور پر تسلیم کرتے ہیں اور ان کے نزدیک مقامی وجوہات زیادہ قیمتوں کو متاثر کرتی ہیں ، درآمدی اشیاء پر بھی حکومت کا کوئی چیک نہیں ، خریدار سے 17فیصد سیلز ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے مگر حکومتی خزانہ میں جمع چار فیصد جمع کرایا جاتا ہے ، سب سے اہم حکومت کے پاس صنعتی پیداوار کی گنتی کا کوئی میکنزم نہیں ، خرید و فروخت ساری کیش پر ہوتی ہے جس کے باعث غلط اور انڈر انوائس سے بھی نہ صرف مہنگائی کو جواز ملتا ہے بلکہ ٹیکس کی چوری بھی آسان ہو جاتی ہے۔
ہمارے ہاں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے نگرانی کا بھی کوئی میکنزم نہیں ہے ، کچھ عرصہ پہلے تک مجسٹریٹی نظام فعال تھا جس کی وجہ سے کسی حد تک منافع خوروں میں خوف کی فضاء تھی اور اشیاء کی قیمتوں میں بے محابا اضافہ نہیں ہوتا تھا، ضلع انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے خصوصی اختیارات حاصل تھے مگر اب اختیارات کی تقسیم بھی شبہات کا شکار ہے۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور مارکیٹ کمیٹیاں بھی غیر فعال ہیں جس کی وجہ سے تھوک منڈی اور پرچون کی سطح پر نگرانی کا کوئی انتظام نہیں اس لیے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مانیٹرنگ سسٹم کو فعال اور متحرک کرنا ہو گا۔
کسی بھی زاویہ سے پرکھا جائے تو اس وقت موجودہ حکومت کو اگر کوئی چیلنج درپیش ہے تو وہ مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی قیمت میں اضافہ ہے ،آیندہ الیکشن میں کامیابی کا انحصار بھی مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں مضمر ہے ، اپوزیشن کے پاس بھی اگر حکومت مخالف عوام کو متحرک کرنے کے لیے کوئی حقیقی عوامی ایشو ہے تو وہ مہنگائی ہی ہے، ملک میں مہنگائی کی شرح پچیس فی صد ہونے سے تمام اشیاء عوام کی رسائی سے دور ہوچکی ہیں ' ایسے میں حکومت کو عوامی مسائل کا احساس کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کی شرح کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے ہونگے ۔
سابق صدر آصف زرداری نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہے اور ساتھ ہے۔ اس طرح کے فیصلوں پر مشاورت ضرور ہونی چاہیے، ہم سب اس حکومت میں عوام کو ریلیف دینے آئے ہیں اور عوام کو ریلیف دینا ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
ایم کیو ایم پاکستان نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف لندن میں جاری پارٹی اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایک ایسے وقت جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک جانب ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تنقید ہورہی ہے اور حکومتی اتحادی جماعتیں ناراضگی کا اظہار کررہی ہیں تو دوسری جانب اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پٹرول مہنگا کرنے کا فیصلہ درست ہے ، عوام اعتماد کریں، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا اور نہ ہی آگے جا کر لگانے کا فیصلہ ہے ، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پٹرول کی قیمت نہیں بڑھے گی بلکہ کہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس نہیں لگاؤں گا۔
آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے جس کے نتیجے میں اب معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ اس ساری صورتحال میں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے موقف کا اظہار نہیں کیا ہے ، جب کہ جشن آزادی کی رات وہ اپنی نشری تقریر میں پٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے فی لیٹر کمی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس سارے پس و پیش منظر کے تناظر میں وزیراعظم صاحب کو وضاحت کرنا ہوگی ، تاکہ حقیقی منظر نامہ عوام کے سامنے آسکے۔
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بہت سے منفی اثرات سامنے آئیں گے نہ صرف ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی ، بلکہ عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔ آنیوالے دنوں میں قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
جس میں حکومتی اتحادی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کا مقابلہ براہ راست تحریک انصاف سے ہوگا ، ضمنی انتخابات میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح عوامی رائے پر اثر انداز ہوگی ، عوامی سطح پر حکومتی حمایت متاثر ہو سکتی ہے ۔ انتخابی نظام کے مطابق ووٹ لینے کے لیے ہر پارٹی کو عوام میں جانا پڑتا ہے ، انھیں اپنی کارکردگی بتانی پڑتی ہے ، کوئی بھی جماعت نہیں چاہتی کہ وہ عوامی حمایت سے محروم ہو ۔
گزشتہ ماہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کے بعد ہر چیز کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا، گھروں کے کرائے بڑھ گئے ، آٹا، چاول، گھی سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ بچوں کی اسکول فیس بھی بڑھا دی گئی، ادویات بھی مہنگی ہو گئیں، ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں دو سوگنا اضافہ کردیا۔ جب ڈالر کی قیمت نیچے آنا شروع ہوئی تو عوام کے دل میں امید پیدا ہوئی کہ اب مہنگائی بھی کم ہو جائے گی، گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور دوائی کی قیمت میں کمی آئے گی، لیکن ان امیدوں پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔
ڈالر کی قیمت کم ہونے کے باوجود بھی کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ یہ بات درست سہی کہ حکومت ڈالر ریٹ نیچے آنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن عوام اس کامیابی کو اس وقت مانیں گے جب مہنگائی بھی کم ہو گی ، سادہ سی بات ہے اگر حکومت مہنگائی کم نہ کروا سکی تو ڈالر ریٹ نیچے آنا صرف اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے اور کچھ نہیں۔ ڈالر ریٹ کم ہونے سے کسی کے بھی اخراجات میں کمی نہیں ہو رہی، نہ ہی جانوروں کے ریٹ کم ہوئے ہیں اور نہ ہی بجلی گیس کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، عجب گومگو کی صورتحال ہے ۔
ڈالر ریٹ میں تیزی سے تبدیلی نے مختلف شعبوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہماری ملکی برآمدات کا تقریباً 70 فیصد ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ ہے۔ ڈالر کی غیر یقینی صورت حال نے ٹیکسٹائل شعبے کو متاثر کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ برآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی ضرورت کی آدھی سے زیادہ کاٹن درآمد کرتا ہے۔
حالیہ ایل سیز 240 کے حساب سے بند ہوئی ہیں ، جس کی وجہ سے خریداری مہنگی ہوئی ہے اور دوسری طرف ڈالر ریٹ کم ہونے سے متوقع منافع میں بھی کمی آ رہی ہے، ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والے کیمیکلز اور دیگر 70 فیصد خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ریٹ بڑھنے سے اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، اگر مارکیٹ مستحکم ہوتی تو برآمد کندگان زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈالر کا ایک ریٹ طے کردے تاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر اسی کے مطابق ڈیل کر سکے، اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو برآمدات میں مزید کمی آ سکتی ہے۔
ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی کے اثرات تاحال براہ راست عوام کو منتقل نہیں ہوسکے ہیں۔ دوسری جانب ڈالر کا کاروبار کرنے والے افراد کا موقف ہے کہ ڈالر ریٹ میں تیزی سے کمی نے ایکسچینج کمپنیوں کو نقصان پہنچایا ہے، گو کہ اس سے ملکی معیشت میں بہتری کے اشارے دیے جا رہے ہیں لیکن جو ڈالرز 245 روپے کے حساب سے خریدے گئے تھے آج وہ 220 روپے میں بھی فروخت نہیں ہو رہے، جس سے بھاری نقصان ہوا ہے۔
مارکیٹ میں ڈالرز کے خریدار کم ہو گئے ہیں۔ ایکسچینج کمپنیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت سے کئی مرتبہ گزارش کی ہے کہ ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر ملک میں لانے کے لیے مزید سہولتیں دی جائیں۔ بینکوں کے پاس سیکڑوں آپشنز ہیں جب کہ منی چینجر صرف تین سے چار طریقوں کے علاوہ ڈالر پاکستان نہیں لا سکتے، اگر حکومت ہمیں سہولت فراہم کرے گی تو ایک طرف ڈالر کے غیر متوقع اتار چڑھاؤ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ ہو سکے گا اور دوسری طرف ہنڈی کے ذریعے آنے والے ڈالرز میں کمی آ سکے گی جس کا فائدہ پاکستان کو ہوگا۔
اسی طرح پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے وسیع کاروبار سے وابستہ افراد کا موقف ہے کہ ڈالر ریٹ بڑھنے سے اسٹیل، ریت، بجری، ٹائلز اور سینیٹری سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن جب سے ڈالر ریٹ کم ہونا شروع ہوا ہے، ان اشیا کی قیمتوں میں کمی نہیں ہو رہی ہے اور مستقبل میں بھی اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے، جس کے باعث کنسٹرکشن کا کاروبار سکڑ رہا ہے۔ کھربوں روپوں کی یہ صنعت تنزلی کا شکار ہو رہی ہے، لیکن حکومت اس کے بچاؤ کے لیے اقدامات نہیں کر رہی۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر موثر ہیں۔
کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان بھی کمپنیز سے ریٹ بڑھانے کی وجوہات پوچھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ پاکستان میں تعمیرات کا 90 فیصد سامان درآمد ہوتا ہے، جس کا مکمل ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہے لیکن عدم دلچسپی کے باعث حالات تباہی کے دہانے پر آ پہنچے ہیں۔
آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حصول کے لیے مذاکرات کے دوران ہی بجلی ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کیا گیا یہ اضافہ بھی مہنگائی پر اثر انداز ہوا ، ماہرین عالمی منڈی کے جواز کو مشروط طور پر تسلیم کرتے ہیں اور ان کے نزدیک مقامی وجوہات زیادہ قیمتوں کو متاثر کرتی ہیں ، درآمدی اشیاء پر بھی حکومت کا کوئی چیک نہیں ، خریدار سے 17فیصد سیلز ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے مگر حکومتی خزانہ میں جمع چار فیصد جمع کرایا جاتا ہے ، سب سے اہم حکومت کے پاس صنعتی پیداوار کی گنتی کا کوئی میکنزم نہیں ، خرید و فروخت ساری کیش پر ہوتی ہے جس کے باعث غلط اور انڈر انوائس سے بھی نہ صرف مہنگائی کو جواز ملتا ہے بلکہ ٹیکس کی چوری بھی آسان ہو جاتی ہے۔
ہمارے ہاں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے نگرانی کا بھی کوئی میکنزم نہیں ہے ، کچھ عرصہ پہلے تک مجسٹریٹی نظام فعال تھا جس کی وجہ سے کسی حد تک منافع خوروں میں خوف کی فضاء تھی اور اشیاء کی قیمتوں میں بے محابا اضافہ نہیں ہوتا تھا، ضلع انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے خصوصی اختیارات حاصل تھے مگر اب اختیارات کی تقسیم بھی شبہات کا شکار ہے۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور مارکیٹ کمیٹیاں بھی غیر فعال ہیں جس کی وجہ سے تھوک منڈی اور پرچون کی سطح پر نگرانی کا کوئی انتظام نہیں اس لیے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مانیٹرنگ سسٹم کو فعال اور متحرک کرنا ہو گا۔
کسی بھی زاویہ سے پرکھا جائے تو اس وقت موجودہ حکومت کو اگر کوئی چیلنج درپیش ہے تو وہ مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی قیمت میں اضافہ ہے ،آیندہ الیکشن میں کامیابی کا انحصار بھی مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں مضمر ہے ، اپوزیشن کے پاس بھی اگر حکومت مخالف عوام کو متحرک کرنے کے لیے کوئی حقیقی عوامی ایشو ہے تو وہ مہنگائی ہی ہے، ملک میں مہنگائی کی شرح پچیس فی صد ہونے سے تمام اشیاء عوام کی رسائی سے دور ہوچکی ہیں ' ایسے میں حکومت کو عوامی مسائل کا احساس کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کی شرح کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے ہونگے ۔