مسلم لیگ ن کی تنہائی اور حکمرانی کا سیاسی بوجھ
سیاسی و معاشی بحران میں ان کے اتحادی خاموش رہتے ہیں یا کہیں گم ہوجاتے ہیں
پاکستان میں اتحادی حکومت کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں حکمرانی کا بڑا سیاسی بوجھ بڑی سیاسی جماعت کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جب کہ حکمرانی کے کھیل میں شامل چھوٹی اتحادی جماعتیں بظاہر حکومت کے ساتھ ہوتی ہیں یا اقتدار میں مختلف وزارتوں کی بنیاد پر حصہ دار ہوتی ہیں۔
لیکن حکومت کا سیاسی بوجھ یا مشکلات میں ساتھ دینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جب بھی حکومت پر عوامی دباو بڑھتا ہے تو یہ اتحادی جماعتیں خاموشی کی سیاست کرکے خود کو کنارہ کش کرلیتی ہیں یا کچھ حکومت پر تنقید کرکے عوامی ساکھ کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اتحادی جماعتیں حکومت میں براہ راست شامل ہیں تو اس کی حکمرانی سے جڑی برایؤں یا سیاسی مشکلات میں کیونکر حصہ دار بننے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ یہ ہی وہ موقع پرستی کی سیاست ہے جو چھوٹی جماعتوں کا وطیرہ ہے۔ جیسے ہی مشکل وقت شروع ہوا، اقتدار کا مزہ لینے والی چھوٹی جماعتیں اپوزیشن کمیپ میں بیٹھ جاتی ہیں جب کہ ناکامیوں کا سارا ملبہ بری سیاسی جماعت پر ڈال دیا جاتا ہے اور عوام بھی اسے ہی برا کہتے ہیں۔
ایسی ہی کچھ صورتحال کا سامنا آج مسلم لیگ ن کو ہے۔ حکومت میں تیرہ جماعتوں ہیں، لیکن حکومت کا دفاع شہباز شریف اور مسلم لیگ کے وزراء کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی و معاشی بحران میں ان کے اتحادی خاموش رہتے ہیں یا کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس سارے کھیل میں کافی مطمن ہے۔ کیونکہ اس پر کوئی زیادہ سیاسی دباؤ نہیں ہے لیکن وہ کسی حد تک اتحادی حکومت کے فیصلوں کی کھل کر تائید بھی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود مجھ جیسے قلم کار یہی سمجھتے اور لکھتے ہیں کہ اس وقت جو سیاسی جنگ جاری ہے، اس کے دو ہی فریق ہیں۔
اول مسلم لیگ ن اوردوئم تحریک انصاف۔ان ہی کے درمیان اصل سیاسی جنگ پنجاب کی سیاسی اجارہ داری کی ہے ۔ باقی سیاسی جماعتیں اس پنجاب میں لڑی جانے والی جنگ میں فریق نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں سیاسی کھیل میں زیادہ موثر نہیں ہے ، اسی طرح مسلم لیگ ن سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہے ، وہاں پیپلز پارٹی کو اکیلے ہی سیاسی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے ۔
مسلم لیگ ن کے پاس اقتدار میں آنے یا عمران خان کی حکومت کی رخصتی کے بعد دو ہی سیاسی آپشن تھے ۔ اول وہ نئے انتخابات کا راستہ کو اختیار کرکے عوامی عدالت میں جاتے۔دوئم اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت سنبھالتے اوراپنی حکومتی مدت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی کی مثال قائم کرکے اپنی انتخابی سیاست کو مضبوط کرتے۔مسلم لیگ ن میں ایک گروہ فوری انتخاب کا حامی تھا ، مگر شہباز شریف یا مسلم لیگ ن نے حکومت سنبھال کر اور اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کا چیلنج قبول کرکے دوسرا راستہ اختیار کیا ۔
یہ راستہ انھوں نے سیاسی طور پر تنہا نہیں اختیار کیا بلکہ اس فیصلے میں پیپلز پارٹی اورجے یو آئی یعنی آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن پیش پیش تھے۔ان ہی کے سیاسی دباؤ میں مسلم لیگ ن کو اقتدار کا راستہ اختیار کرنا پڑا ۔ لیکن اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد صوبائی سطح پر سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ پنجاب میں تنہا مسلم لیگ ن ہے جب کہ مد مقابل پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کا باغی گروپ ہے ۔ سندھ میں پی پی پی تنہا ہے اور اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی ہے ، ٹی ایل پی ہے ۔
مہنگائی اورمعاشی بدحالی یا بے روزگار ی نے اتحادی حکومت کو مشکل صورتحال میں کھڑا کردیا ہے۔ایک ایسے موقع پر جب اس برس کے آخر میں یا اگلے برس میں عام انتخابات ہونے ہیں اتحادی حکومت کو معاشی بدحالی اور مہنگائی کے چیلنج کا سامنا ہے۔
اتحادی حکومت کو اپنی اچھی حکمرانی کو بنیاد بناکر انتخابی ساکھ کو بہتر بنانا ہے۔مسلم لیگ ن کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے یہ تاثر قائم کردیا ہے کہ عمران خان انتہائی مقبول ہیں اور مین اسٹریم میڈیا پر اینکرز اور تجزیہ کرنے والے بھی اس تاثر کے ذریعے اثر ہیں۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں بیس نشتیں پی ٹی آئی کی تھیں، عدالتی فیصلوں کی پیچیدگیوں کی وجہ سے حمزہ وزیراعلیٰ ضرور تھے لیکن انتظامیہ پر ان کی گرفت کمزور ہوگئی تھی، پی ٹی آئی نے پندرہ نشستیں جیتیں اور پانچ پر اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈز بنے جیسے پی ٹی آئی پنجاب میں دوتہائی اکثریت حاصل کرلی ہے۔
اس تاثر کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عمران خان کے پاس سیاسی بیانیہ ہے، اس کا متبادل بیانیہ مسلم لیگ ن یا ان کی اتحادی جماعتوں کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کو جہاں اپنی حکمرانی کے نظام کی بہتری یا درستگی کرنی ہے وہیں ان کا بڑا چیلنج سیاسی محاذ پر عمران خان سے نمٹنا بھی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اورپی ٹی آئی کا سیاسی جنگ کا میدان پنجاب ہی ہے ۔ اسی پنجاب میں ان دونوں جماعتوں کی مستقبل کی سیاست اور اقتدار کا تعین بھی ہونا ہے کہ کون کس پر سیاسی برتری حاصل کرتا ہے ۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن پر انتخابی سیاسی برتری حاصل کرکے اپنے سیاسی مخالفین کو کمزور کیا ہے اوریہ ہی وہ بڑا سیاسی جھٹکا ہے جس سے مسلم لیگ ن آنے والے کچھ عرصہ میں نکل کر دوبارہ خود کو بڑی طاقت کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے ۔
مسلم لیگ ن کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اقتدار کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرکے خو دکو ایک بڑی مشکل میں بھی ڈال دیا ہے کیونکہ یہ برس او راگلا برس انتخاب کا برس ہے۔ اس عرصہ میں عمومی طور پر حکمران جماعت پر عوامی مشکلات کے خاتمہ او ران کو بڑا ریلیف دینے کے لیے سیاسی دباو کا سامنا ہوتا ہے۔ کیونکہ اسی عرصہ کو بنیاد بناکر حکمران طبقہ اپنی انتخابی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن مسلم لیگ ن کے پاس کوئی ایسا جادوئی عمل نہیں کہ وہ اگلے کچھ ماہ میں لوگوں کی حالت زار کو بدل سکے اور معیشت کی سمت کو درست کرسکے۔ بجلی، پیٹرول، ڈیزل اور گیس سمیت ادویات، کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ نے مسلم لیگ ن کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
پی ٹی آئی کو بھی ایسی ہی مشکل کا سامنا تھا جب ان کے اقتدار میں بھی وہ اتحادی جماعتوں کی موجودگی او رحمایت کے باوجود سیاسی طور پر تنہا تھے۔ مسلم لیگ ن کو ایک او ربڑا سیاسی جھٹکا پنجاب میں اقتدار کی محرومی کی بنیاد پر دیکھنا پڑ رہا ہے۔
ایک بار پھر اقتدار مسلم لیگ ن کے مقابلے میں پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی مسلم لیگ ق کے پاس ہے۔ عمران خان نے اس بارعثمان بزدار کا انتخاب نہیں بلکہ چوہدری پرویز الہی کو وزیراعلیٰ منتخب کرایا ہے۔ مسلم لیگ ن کو یہ ڈر بھی ہے کہ اگر چوہدری پرویز الہی اسی عہدہ پر ایک برس تک موجود رہتے ہیں تو ان کی سیاسی طاقت میں کمزوری پیدا ہوسکتی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان پنجاب کے انتظامی امور میں چوہدری پرویز الٰہی کو کتنی سپیس دیتے ہیں اور چوہدری پرویزالٰہی عمران خان کے ساتھ چلتے رہنے کے لیے کتنی لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
شہباز شریف کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ ڈلیور کرتے ہیں لیکن بطور وزیر اعظم ان کا سیاسی جادو نہیں چل پارہا۔ اول یک طرف حکمرانی سے جڑے سیاسی و معاشی سنگین مسائل، دوسری طرف پنجاب میں اقتدار کی محرومی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب نواز شریف کی سیاسی واپسی کا بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ وہ ہی عمران خان کو مشکل وقت دے سکتے ہیں۔ نواز شریف واپس آتے ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی واپسی بہت ہی آسان ہوگی، وہ بھی ممکن نہیں اور ان کی واپسی سے عمران خان کی سیاست کے بیانیہ کی کمزوری کے امکانات بھی کم ہیں۔ البتہ نواز شریف کی واپسی خود شہباز شریف کے لیے اچھا شگون نہیں ہوگی ۔