عوام کو کیسے بیو قوف بنایا جاتا ہے
تازہ تازہ ہمیں جو ’’ٹچ‘‘ دیا گیا ہے، وہ ہے ’’جھوٹی ہمدردی‘‘ کا ٹچ
آپ کو یقینا یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران عمران خان تقریر کر رہے تھے تو قاسم خان سوری نے خان صاحب کے کان میں ''سرگوشی'' کے انداز میں کہا تھا ''تھوڑا سلامی ٹچ دے دیں۔'' اس سے مجھے یوں لگا کہ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں نے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں یہ بات سیکھ لی تھی کہ پاکستان کے عوام کو تھوڑا سا اسلامی ٹچ دیتے رہنا چاہیے جس کے وہ عادی ہیں۔ بھلا ہو کیمرے کی آنکھ کا اور مائیک کا کہ سوری صاحب کی ''سرگوشی'' ٹی وی دیکھنے والوں نے دیکھ بھی لی اور سن بھی لی۔
ویسے تو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، ہم سادہ لوح پاکستانیوں خصوصاً پنجاب کے عوام کو کبھی جہادی ٹچ دیا گیا، کبھی اسلامی ٹچ دیا گیا، کبھی سوشلزم کا ٹچ دیا گیا، کبھی نظام مصطفیٰ کا ٹچ دیا گیا اور جناب عمران خان نے تو ٹچ پر ٹچ دینے کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ خیر ماضی کو تو بعد میں کھنگالتے ہیں مگر تازہ تازہ ہمیں جو ''ٹچ'' دیا گیا ہے، وہ ہے ''جھوٹی ہمدردی'' کا ٹچ۔
15اگست کی رات کو پٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو مریم نواز صاحبہ کا ٹویٹ نظر سے گزرا جس میں انھوں نے فرمایا کہ نواز شریف تیل کی قیمت بڑھانے کے خلاف تھے اور احتجاجاً اجلاس سے آن لائن واک آؤٹ کرگئے۔ آصف زرداری نے بھی تیل کی قمیت بڑھانے کے فیصلے کو درست قرار نہیں دیا۔ مطلب ہماری سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے! بقول شاعر
کہتے ہیں تجھ کو لوگ مسیحا مگر یہاں
اک شخص مرگیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
پاکستان کی جدید سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پاکستان کا موجودہ آئین تخلیق کیا گیا، جسے 1973 کے آئین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بھٹو اسلامی سوشلزم کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد سوال یہ تھا کہ وہ کیسا آئین بنائیں گے۔ وہ اقتدار میں آئے تو ان پر بڑا دباؤ تھا۔ ان کے بعض طاقت ور ساتھی چاہتے تھے کہ نیا آئین سوشلزم اور سیکولرازم کی بنیاد پر بنایا جائے لیکن انھوں نے اس سب کو نظر انداز کرتے ہوئے آئین کو ایسی بنیادیں فراہم کر دیں جن کی مدد سے قانون سازی میں قرآن و سنت سے انحراف ممکن نہ رہا۔ 1977 میں بھٹو صاحب کے خلاف قومی اتحاد نے احتجاجی تحریک شروع کی تو اس تحریک کو اسلامی ٹچ دیا گیا۔
قومی اتحاد کی تحریک کو بے اثر بنانے کے لیے شراب اور جوئے پر پابندی کے علاوہ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے یہ اقدامات خالصتا ًاپنی حکومت بچانے کے لیے کیے لیکن سیاست کو اسلامی ٹچ دے دیا کیونکہ قومی اتحاد بھی یہی کام کررہا تھا۔ اس احتجاج تحریک کے نتائج کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا سے قبل بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو دو دو ادوار ملے۔ بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے سے قبل ایک خاص وضع قطع اختیار کی۔ سر ڈھانپنا شروع کیا، تسبیح بھی ان کے ہاتھ آ گئی۔! آج کے دور میں عمران خان کے ہاتھ میں تسبیح نظر آتی ہے، یہ ہے ہماری سیاست اور سیاسی لیڈروں کا اسلامی ٹچ۔
مطلب! عوام کو جب ان ساری گیمز کی سمجھ آتی ہے، اس وقت تک ان کی جیب کٹ چکی ہوتی ہے اور انتظار میں بیٹھے دوسرے سیاسی جیب کترے نئی واردات ڈالنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔لہٰذااس وقت عوام کو باشعور ہونا ہوگا، اگر عوام نے انقلاب لانا ہے تو انھیں پہلے باشعور ہونا پڑے گا۔ ورنہ اصل تبدیلی آنے کے بعد بھی کچھ ہاتھ میں نہیں آئے گا، یہ بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے سری لنکا میں ''انقلاب'' آیا ہے۔ سری لنکا کے بحران سے جن لوگوں نے انقلاب کی امید باندھ لی تھی، ان کو مایوسی ہوئی۔ تاریخی اعتبار سے بحران وقتاً فوقتاً انقلاب کا پیش خیمہ ضرور ثابت ہوئے ہیں مگر صرف بحران سے انقلاب نہیں آ سکتا۔ بحران محض ایک عنصر ہوتا ہے، انقلاب کے لیے منظم انقلابی پارٹی اور شعور کے ہتھیاروں سے لیس انقلابی ورکرز کی ضرورت ہوتی ہے۔
یوں انقلابی پارٹی کے باشعور لیڈر اور ورکرز عوام کی انقلاب کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اس سال موسم گرما میں سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے عوامی بغاوت برپا ہوئی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں حکومت کا تختہ بھی الٹ دیا گیا۔ ملک کے صدر کو جلاوطن ہونا پڑا۔ یہ بغاوت مہینوں چلتی رہی۔ اس دوران عوام کی رہنمائی کرنے والوں نے صدارتی محل پر قبضہ کیا۔ سوئمنگ پول میں تیراکی سے لطف اٹھایا۔ سرکاری باورچی خانے میں کھانا کھایا۔ حکمران اشرافیہ کے پر تعیش بستر اور خواب گاہیں دیکھیں لیکن ان احتجاجیوں کو کوئی انقلابی پارٹی رہنمائی فراہم نہیں کررہی تھی، ان کے سامنے کوئی متبادل نظام نہیں تھا، بس ایک ہجوم تھا جو تھوڑے دنوں کے بعد غائب ہوگیا اور سری لنکا پر قابض استحصالی طبقہ اب بھی اقتدار میں ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ سری لنکا کے ان انوکھے انقلابیوں نے پورے جنوبی ایشیا میں حکمران طبقات کے لیے خوف ضرور پیدا کر دیا۔
اس خطے کی حکمران اشرافیہ نے کولمبو میں ہونے والی افراتفری کو دیکھا اور خوف سے سوچا کہ کیا ان کو بھی اس سے ملتے جلتے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ مگر بد قسمتی سے اس خوف کے باوجود حکمران اشرافیہ نے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پورے جنوبی ایشیا میں عوام کا طرزِفکر' طرزِ زندگی اور طرزِ حکمرانی ویسے کا ویسے ہی رہا۔ کسی نے اپنے پر تعیش طرزِ زندگی میں کٹوتی کرنے' سادگی اختیار کرنے اور عوام کے وسائل میں بچت کے لیے کسی نئی پالیسی کا عندیہ نہیں دیا۔
لہٰذاعوام اب بے وقوف بننے کے بجائے باشعور ہو، اُس کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے، تعلیم آپ کو لاشعور ی سے باشعوری تک کا سفر فراہم کرتی ہے، اوراگر ایسا نہ ہوسکا تو عوام یوں ہی بے وقوف بھی بنتے رہیں گے اور سیاستدان ہمیں یوں ہی اپنے ذاتی مقاصد اور اپنے اقتدار کے لیے استعمال کرتے رہیں گے!
ویسے تو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، ہم سادہ لوح پاکستانیوں خصوصاً پنجاب کے عوام کو کبھی جہادی ٹچ دیا گیا، کبھی اسلامی ٹچ دیا گیا، کبھی سوشلزم کا ٹچ دیا گیا، کبھی نظام مصطفیٰ کا ٹچ دیا گیا اور جناب عمران خان نے تو ٹچ پر ٹچ دینے کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ خیر ماضی کو تو بعد میں کھنگالتے ہیں مگر تازہ تازہ ہمیں جو ''ٹچ'' دیا گیا ہے، وہ ہے ''جھوٹی ہمدردی'' کا ٹچ۔
15اگست کی رات کو پٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو مریم نواز صاحبہ کا ٹویٹ نظر سے گزرا جس میں انھوں نے فرمایا کہ نواز شریف تیل کی قیمت بڑھانے کے خلاف تھے اور احتجاجاً اجلاس سے آن لائن واک آؤٹ کرگئے۔ آصف زرداری نے بھی تیل کی قمیت بڑھانے کے فیصلے کو درست قرار نہیں دیا۔ مطلب ہماری سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے! بقول شاعر
کہتے ہیں تجھ کو لوگ مسیحا مگر یہاں
اک شخص مرگیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
پاکستان کی جدید سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پاکستان کا موجودہ آئین تخلیق کیا گیا، جسے 1973 کے آئین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بھٹو اسلامی سوشلزم کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد سوال یہ تھا کہ وہ کیسا آئین بنائیں گے۔ وہ اقتدار میں آئے تو ان پر بڑا دباؤ تھا۔ ان کے بعض طاقت ور ساتھی چاہتے تھے کہ نیا آئین سوشلزم اور سیکولرازم کی بنیاد پر بنایا جائے لیکن انھوں نے اس سب کو نظر انداز کرتے ہوئے آئین کو ایسی بنیادیں فراہم کر دیں جن کی مدد سے قانون سازی میں قرآن و سنت سے انحراف ممکن نہ رہا۔ 1977 میں بھٹو صاحب کے خلاف قومی اتحاد نے احتجاجی تحریک شروع کی تو اس تحریک کو اسلامی ٹچ دیا گیا۔
قومی اتحاد کی تحریک کو بے اثر بنانے کے لیے شراب اور جوئے پر پابندی کے علاوہ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے یہ اقدامات خالصتا ًاپنی حکومت بچانے کے لیے کیے لیکن سیاست کو اسلامی ٹچ دے دیا کیونکہ قومی اتحاد بھی یہی کام کررہا تھا۔ اس احتجاج تحریک کے نتائج کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا سے قبل بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو دو دو ادوار ملے۔ بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے سے قبل ایک خاص وضع قطع اختیار کی۔ سر ڈھانپنا شروع کیا، تسبیح بھی ان کے ہاتھ آ گئی۔! آج کے دور میں عمران خان کے ہاتھ میں تسبیح نظر آتی ہے، یہ ہے ہماری سیاست اور سیاسی لیڈروں کا اسلامی ٹچ۔
مطلب! عوام کو جب ان ساری گیمز کی سمجھ آتی ہے، اس وقت تک ان کی جیب کٹ چکی ہوتی ہے اور انتظار میں بیٹھے دوسرے سیاسی جیب کترے نئی واردات ڈالنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔لہٰذااس وقت عوام کو باشعور ہونا ہوگا، اگر عوام نے انقلاب لانا ہے تو انھیں پہلے باشعور ہونا پڑے گا۔ ورنہ اصل تبدیلی آنے کے بعد بھی کچھ ہاتھ میں نہیں آئے گا، یہ بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے سری لنکا میں ''انقلاب'' آیا ہے۔ سری لنکا کے بحران سے جن لوگوں نے انقلاب کی امید باندھ لی تھی، ان کو مایوسی ہوئی۔ تاریخی اعتبار سے بحران وقتاً فوقتاً انقلاب کا پیش خیمہ ضرور ثابت ہوئے ہیں مگر صرف بحران سے انقلاب نہیں آ سکتا۔ بحران محض ایک عنصر ہوتا ہے، انقلاب کے لیے منظم انقلابی پارٹی اور شعور کے ہتھیاروں سے لیس انقلابی ورکرز کی ضرورت ہوتی ہے۔
یوں انقلابی پارٹی کے باشعور لیڈر اور ورکرز عوام کی انقلاب کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اس سال موسم گرما میں سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے عوامی بغاوت برپا ہوئی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں حکومت کا تختہ بھی الٹ دیا گیا۔ ملک کے صدر کو جلاوطن ہونا پڑا۔ یہ بغاوت مہینوں چلتی رہی۔ اس دوران عوام کی رہنمائی کرنے والوں نے صدارتی محل پر قبضہ کیا۔ سوئمنگ پول میں تیراکی سے لطف اٹھایا۔ سرکاری باورچی خانے میں کھانا کھایا۔ حکمران اشرافیہ کے پر تعیش بستر اور خواب گاہیں دیکھیں لیکن ان احتجاجیوں کو کوئی انقلابی پارٹی رہنمائی فراہم نہیں کررہی تھی، ان کے سامنے کوئی متبادل نظام نہیں تھا، بس ایک ہجوم تھا جو تھوڑے دنوں کے بعد غائب ہوگیا اور سری لنکا پر قابض استحصالی طبقہ اب بھی اقتدار میں ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ سری لنکا کے ان انوکھے انقلابیوں نے پورے جنوبی ایشیا میں حکمران طبقات کے لیے خوف ضرور پیدا کر دیا۔
اس خطے کی حکمران اشرافیہ نے کولمبو میں ہونے والی افراتفری کو دیکھا اور خوف سے سوچا کہ کیا ان کو بھی اس سے ملتے جلتے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ مگر بد قسمتی سے اس خوف کے باوجود حکمران اشرافیہ نے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پورے جنوبی ایشیا میں عوام کا طرزِفکر' طرزِ زندگی اور طرزِ حکمرانی ویسے کا ویسے ہی رہا۔ کسی نے اپنے پر تعیش طرزِ زندگی میں کٹوتی کرنے' سادگی اختیار کرنے اور عوام کے وسائل میں بچت کے لیے کسی نئی پالیسی کا عندیہ نہیں دیا۔
لہٰذاعوام اب بے وقوف بننے کے بجائے باشعور ہو، اُس کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے، تعلیم آپ کو لاشعور ی سے باشعوری تک کا سفر فراہم کرتی ہے، اوراگر ایسا نہ ہوسکا تو عوام یوں ہی بے وقوف بھی بنتے رہیں گے اور سیاستدان ہمیں یوں ہی اپنے ذاتی مقاصد اور اپنے اقتدار کے لیے استعمال کرتے رہیں گے!