ایک بیدار مغز شاعر‘ ڈاکٹر راحت اندوری
ان کے والدین اندور میں ایک کپڑے کی مِل میں ملازم تھے
انسان کو خدا نے بہت سی اہم صلاحیتوں سے نوازا ہے، وہ غورو فکر بھی کرتا ہے اور محسوس بھی۔ پہلی قوت کا نام ہے ادراک اور دوسری کا احساس۔ شاعری میں ان دونوں کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ اعلیٰ درجے کی شاعری میں فکر وادراک اور جذبہ و احساس گھل مل کر ایک ہوجاتے ہیں، کیونکہ بڑا شاعر زندگی کی حقیقتوں پر غور کرتا ہے اور انھیں شعر میں پیش کرنے سے پہلے جذبہ و احساس کی شکل دے دیتا ہے۔
بیسوی صدی میں دیگر شعرا کے علاوہ راحت اندوری نے بھی یہ فرض بڑی ہنر مندی سے ادا کیا ان کے اشعار کو پڑھتے اور سنتے ہوئے ''ادراک '' اور ''احساس'' جیسی دونوں قوتوں کو شدت سے محسوس کیا جاتا۔ وہ یکم جنوری 1950 میں بھارت کے شہر اندور میں رفعت اللہ قریشی اور مقبول النساء بیگم کے ہاں پیدا ہوئے۔
ان کے والدین اندور میں ایک کپڑے کی مِل میں ملازم تھے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے نوتن ہائر سیکنڈری اسکول سے مکمل کی۔1973 میں انھوں نے اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے گریجویشن کی جب کہ 1975 میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال (مدھیہ پردیش) سے اُردو ادب میں ماسٹرز کیا۔ 1985 میں بھوج یونیورسٹی مدھیہ پردیش سے اُردو مشاعرہ پر مقالہ لکھنے پر انھیں اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔ ملازمت کا آغاز انھوں نے اندور شہر کے ایک کالج میں اُردو ادب پڑھانے سے کیا۔
راحت اندوری نے شعروادب کا آغاز کالج کے دور سے ہی شروع کر دیا تھا تب ان کی عمر 19 برس تھی، جب کہ مشاعروں میں شرکت کا ذوق شوق شروع سے ہی ان کے اندر موجود تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ملک کے مایہ نازشاعرکے طور پر مقبول ہوگئے۔ ادب کی ساتھ ساتھ وہ فٹ بال اور ہاکی کھیلنے کے بھی بہت شوقین تھے۔
وہ اسکول اور کالج لیول کی فٹ بال اور ہاکی ٹیم کے کیپٹن بھی رہے ، لیکن ان کی پہلی ترجیح اُردو ادب تھا۔ان کے شعروں میں تازگی اور نیا پن شروع ہی سے تھا۔ اس حوالے سے محمود اختر خان لکھتے ہیں کہ'' ڈاکٹر راحت اندوری زیرک اخباع ، وسیع المطالعہ اور بیدار مغز شاعر تھے وہ بہت سوچ سمجھ کر شاعری کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کا ایک زمانہ معترف ہوتا جا رہا تھا۔
نئی نسل تو اُن کی شاعری کی دیوانی تھی جو اُنھیں ہر وقت انٹرنیٹ پر سُنتی اور فیس بُک پر دیکھتی رہتی۔ راحت اندوری کے بے شمار اشعار سینہ بہ سینہ سفر کر رہے ہیں اور ضرب المثل کی صورت اختیارکرتے جا رہے ہیں۔ راحت اندوری سے صاحبِ اقتدار و اختیار ہمیشہ خائف رہتے تھے کہ کب راحت اندوری ان کے خلاف شعر کہہ دے۔ وہ غریب عوام کی حمایت اور ظالم و سفاک لوگوں کے خلاف شعر کہتے تھے۔ اسی سبب سے اہلِ ادب میں اُن کی وقعت اور عوام میں اُن کی شہرت بڑھتی جا رہی تھی۔ ''
راحت اندوری کی شاعری کا سرمایہ غزل ہے اور غزل بھی وہ جس میں سلاست اور نغمگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ شعروں میں الفاظ کی دروبست ان میں سلیقہ مندی اور برجستگی پیدا کردیتی ہے اور ان میں موسیقیت کی فضا قائم کر دیتی ہے۔ ان کے بارے میں دلیپ کمار کا لکھا ہُوا بہت خوبصورت جملہ یاد آ رہا ہے کہ''ان کے کلام میں برجستگی اور معنی آفرینی اور دورِ حاضر کا عکس ہے۔''غزل کے علاوہ انھوں نے بہت سا حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی لکھا ، جنھیں وہ ہندوستان میں ہونے والی دیگر محافل میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ جھوم جھوم کر ایسے سناتے کہ جیسے کوئی صدیوں سے درِ مصطفیؐ کے در کا سودائی ہو۔
اگر نصیب قریبِ درِ نبیؐ ہو جائے
مری حیات مری عمر سے بڑی ہو جائے
گُزرتا کیسے ایک پل مدینے میں
اگر سنانے پر آؤ تو اک صدی ہو جائے
اس کے علاوہ غم واندوہ کی مختلف کیفیات راحت اندوری کو افسردہ وملول تو کرتی ہیں مگر وہ نااُمید اور مایوس نہیں ہوتے ، بلکہ اچھے دنوں کی آس کا دامن تھامے پریشان لوگوں کا دکھ سمیٹتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ، وہ کسی پیڑکی شاخوں سے پتوں کے گرنے پر آندھیوں سے یوں مخاطب ہوتے ۔
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
راحت اندوری کی غزل جدید ہونے کے باوجود روایت سے مربوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے ہاں ایسے ضرب المثل اشعار کثرت سے ملتے ہیں جو پڑھتے ہی زبان سے دل پہ وار کرتے ہوئے روح کوگھائل کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
......
سُلا چکی تھی یہ دنیا تھپک تھپک کے مجھے
جگا دیا تیری پازیب نے کھنک کے مجھے
......
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندرکہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہیے
......
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے چلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھرگھر سے نکلتے کیوں ہیں
......
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
......
یہ حادثہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
راحت اندوری ایک صاف گو آدمی تھے ، وہ حق سچ کی بات کہتے تھے۔ اُردو غزل میں پہلی بار بہت توانائی کے ساتھ حکمرانوں، سیاست دانوں، صاحبِ اختیار و صاحبِ اقتدار کے سیاہ اور سفاک کاموں کو بے نقاب کیا وہ ہندوستان کے ہر شہر میں اس جرات کا مظاہرہ بڑی بے باکی کے ساتھ کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ غزل کے اشعار دیکھے کہ:
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
انھوں نے ساری زندگی اُردو زبان وادب کی خدمت میں گزارا۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا اور ان کو بہت سے ادبی ایوارڈ دیے گئے۔10 اگست 2020 کو کورونا وائرس اور دل کا دورہ پڑنے سے بھارت کے شہر اندور کے اربند اسپتال میں 70 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ان کی وفات سے اُردو ادب کے حلقوں میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔اس خبر سے آنکھیں ابھی بھی نم دیدہ اور دل افسردہ ہیں ۔
بیسوی صدی میں دیگر شعرا کے علاوہ راحت اندوری نے بھی یہ فرض بڑی ہنر مندی سے ادا کیا ان کے اشعار کو پڑھتے اور سنتے ہوئے ''ادراک '' اور ''احساس'' جیسی دونوں قوتوں کو شدت سے محسوس کیا جاتا۔ وہ یکم جنوری 1950 میں بھارت کے شہر اندور میں رفعت اللہ قریشی اور مقبول النساء بیگم کے ہاں پیدا ہوئے۔
ان کے والدین اندور میں ایک کپڑے کی مِل میں ملازم تھے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے نوتن ہائر سیکنڈری اسکول سے مکمل کی۔1973 میں انھوں نے اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے گریجویشن کی جب کہ 1975 میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال (مدھیہ پردیش) سے اُردو ادب میں ماسٹرز کیا۔ 1985 میں بھوج یونیورسٹی مدھیہ پردیش سے اُردو مشاعرہ پر مقالہ لکھنے پر انھیں اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔ ملازمت کا آغاز انھوں نے اندور شہر کے ایک کالج میں اُردو ادب پڑھانے سے کیا۔
راحت اندوری نے شعروادب کا آغاز کالج کے دور سے ہی شروع کر دیا تھا تب ان کی عمر 19 برس تھی، جب کہ مشاعروں میں شرکت کا ذوق شوق شروع سے ہی ان کے اندر موجود تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ملک کے مایہ نازشاعرکے طور پر مقبول ہوگئے۔ ادب کی ساتھ ساتھ وہ فٹ بال اور ہاکی کھیلنے کے بھی بہت شوقین تھے۔
وہ اسکول اور کالج لیول کی فٹ بال اور ہاکی ٹیم کے کیپٹن بھی رہے ، لیکن ان کی پہلی ترجیح اُردو ادب تھا۔ان کے شعروں میں تازگی اور نیا پن شروع ہی سے تھا۔ اس حوالے سے محمود اختر خان لکھتے ہیں کہ'' ڈاکٹر راحت اندوری زیرک اخباع ، وسیع المطالعہ اور بیدار مغز شاعر تھے وہ بہت سوچ سمجھ کر شاعری کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کا ایک زمانہ معترف ہوتا جا رہا تھا۔
نئی نسل تو اُن کی شاعری کی دیوانی تھی جو اُنھیں ہر وقت انٹرنیٹ پر سُنتی اور فیس بُک پر دیکھتی رہتی۔ راحت اندوری کے بے شمار اشعار سینہ بہ سینہ سفر کر رہے ہیں اور ضرب المثل کی صورت اختیارکرتے جا رہے ہیں۔ راحت اندوری سے صاحبِ اقتدار و اختیار ہمیشہ خائف رہتے تھے کہ کب راحت اندوری ان کے خلاف شعر کہہ دے۔ وہ غریب عوام کی حمایت اور ظالم و سفاک لوگوں کے خلاف شعر کہتے تھے۔ اسی سبب سے اہلِ ادب میں اُن کی وقعت اور عوام میں اُن کی شہرت بڑھتی جا رہی تھی۔ ''
راحت اندوری کی شاعری کا سرمایہ غزل ہے اور غزل بھی وہ جس میں سلاست اور نغمگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ شعروں میں الفاظ کی دروبست ان میں سلیقہ مندی اور برجستگی پیدا کردیتی ہے اور ان میں موسیقیت کی فضا قائم کر دیتی ہے۔ ان کے بارے میں دلیپ کمار کا لکھا ہُوا بہت خوبصورت جملہ یاد آ رہا ہے کہ''ان کے کلام میں برجستگی اور معنی آفرینی اور دورِ حاضر کا عکس ہے۔''غزل کے علاوہ انھوں نے بہت سا حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی لکھا ، جنھیں وہ ہندوستان میں ہونے والی دیگر محافل میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ جھوم جھوم کر ایسے سناتے کہ جیسے کوئی صدیوں سے درِ مصطفیؐ کے در کا سودائی ہو۔
اگر نصیب قریبِ درِ نبیؐ ہو جائے
مری حیات مری عمر سے بڑی ہو جائے
گُزرتا کیسے ایک پل مدینے میں
اگر سنانے پر آؤ تو اک صدی ہو جائے
اس کے علاوہ غم واندوہ کی مختلف کیفیات راحت اندوری کو افسردہ وملول تو کرتی ہیں مگر وہ نااُمید اور مایوس نہیں ہوتے ، بلکہ اچھے دنوں کی آس کا دامن تھامے پریشان لوگوں کا دکھ سمیٹتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ، وہ کسی پیڑکی شاخوں سے پتوں کے گرنے پر آندھیوں سے یوں مخاطب ہوتے ۔
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
راحت اندوری کی غزل جدید ہونے کے باوجود روایت سے مربوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے ہاں ایسے ضرب المثل اشعار کثرت سے ملتے ہیں جو پڑھتے ہی زبان سے دل پہ وار کرتے ہوئے روح کوگھائل کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
......
سُلا چکی تھی یہ دنیا تھپک تھپک کے مجھے
جگا دیا تیری پازیب نے کھنک کے مجھے
......
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندرکہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہیے
......
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے چلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھرگھر سے نکلتے کیوں ہیں
......
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
......
یہ حادثہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
راحت اندوری ایک صاف گو آدمی تھے ، وہ حق سچ کی بات کہتے تھے۔ اُردو غزل میں پہلی بار بہت توانائی کے ساتھ حکمرانوں، سیاست دانوں، صاحبِ اختیار و صاحبِ اقتدار کے سیاہ اور سفاک کاموں کو بے نقاب کیا وہ ہندوستان کے ہر شہر میں اس جرات کا مظاہرہ بڑی بے باکی کے ساتھ کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ غزل کے اشعار دیکھے کہ:
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
انھوں نے ساری زندگی اُردو زبان وادب کی خدمت میں گزارا۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا اور ان کو بہت سے ادبی ایوارڈ دیے گئے۔10 اگست 2020 کو کورونا وائرس اور دل کا دورہ پڑنے سے بھارت کے شہر اندور کے اربند اسپتال میں 70 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ان کی وفات سے اُردو ادب کے حلقوں میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔اس خبر سے آنکھیں ابھی بھی نم دیدہ اور دل افسردہ ہیں ۔