پاکستان کی 75سالہ تاریخ
1950 میں جی ڈی پی 3 ارب ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 2022 میں 383 ارب ڈالر ہو چکی ہے
گزشتہ ہفتے پاکستان نے اپنے قیام کی ڈائمنڈ جوبلی یعنی 75 ویں سالگرہ منائی۔ پاکستان کا 75 سال کا سفر جہاں ہنگامہ خیز اور مصائب سے بھرپور رہا۔ وہیں پاکستانی قوم نے جس بے سرو سامانی کے عالم میں مملکت خداداد کو مصائب سے نکالا اس نے دنیا کو حیران کردیا۔ پاکستان کے قیام کے فوری بعد جہاں ایک طرف مہاجرین کی آباد کاری جیسے مسائل تھے وہیں بھارت کے ساتھ 1948 میں کشمیر پر ہونے والی جنگ اور 1948 میں بھارت کی پاکستان سے زرعی اجناس کی ایکسپورٹ سے انکار نے پاکستان کی معیشت کو ادھ موا کر دیا۔ آزادی کے بعد مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے چیلنجز کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، ایک طرف بھارت نے پاکستان کے حصے کے پیسے دینے سے انکار کر دیا ، دوسری طرف پاکستان اپنی 3 کروڑ آبادی کو کھانا کھلانے کے بھی قابل نہیں تھا اور ہمیں غذائی ضروریات کا بیشتر حصہ بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا تھا۔
زرمبادلہ ذخائر اور وسائل کی کمی کی وجہ سے آزادی کے فوری بعد پاکستان کو گندم کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت پنڈت نہرو ، گاندھی اور مولانا عبد القیوم آزاد یہ پیشگوئی کر رہے تھے کہ پاکستان بہت جلد ایک ناکام ریاست بن کر دوبارہ بھارت کے ساتھ انضمام پر مجبور ہوجائے گا۔ 75 سال کے سفر میں قوم نے نہ صرف دنیا کے تمام تر اندازے غلط ثابت کر دکھائے بلکہ شبانہ روز محنت اور آہنی عزم سے تمام تر کمزوریوں کے باوجود پاکستان کو اقوام عالم کی صف میں نمایاں مقام پر لاکھڑا کیا۔ اس 75 سالہ سفر میں پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن کر ابھرا۔
آزادی سے پہلے غیر منقسم ہندوستان میں کُل 921 صنعتی یونٹس میں سے صرف 34 یونٹس پاکستان کے حصے میں آئے۔ 1950 میں جی ڈی پی 3 ارب ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 2022 میں 383 ارب ڈالر ہو چکی ہے جب کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 1950 میں 1.8 فیصد کے مقابلے میں 2022 میں 5.97 فیصد ریکارڈ کی گئی، فی کس آمدنی 1950 میں 86 ڈالر تھی جو کہ اب بڑھ کر 2022 میں ایک ہزار 798 ڈالر ہو چکی ہے، ٹیکس ریونیو 1950 سے 2022 تک 31 کروڑ روپے سے بڑھ کر 6 ارب 12 کروڑ 61 لاکھ روپے تک پہنچ گیا۔
معاشی مشکلات اور چیلنجز اپنی جگہ لیکن یہ روشن حقیقت ہے کہ آج پاکستان نہ صرف معاشی حوالے سے بہت بہتر پوزیشن میں بلکہ ہم نے 75 سال کے دوران زرعی شعبے میں حیران کن کامیابی حاصل کی۔ پاکستان نے آزادی کے صرف 18 سال بعد منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے حیران کن پراجیکٹ مکمل کیے جس زرعی شعبے کی ترقی کے استحکام میں بھی مدد ملی۔ کھیلوں کے شعبے میں ہاکی ، کرکٹ اور اسکواش پر عالمی حکمرانی ہو یا اولمپکس میں پاکستان کی نمایندگی، سائنس اور امن کے شعبوں میں 2 نوبل انعام ہماری کامیابیوں و کامرانیوں کا سفر ہر موڈ پر غیر معمولی رہا۔
دوسری طرف 1965 میں پاکستانی قوم اور افواج پاکستان نے جہاں غیر معمولی بہادری اور دلیری کے ساتھ اپنے سے 7 گنا بڑے دشمن کو شکست فاش دی وہیں 1971 میں ملک دولخت ہونے جیسے سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی بھی ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے معاشی استحکام اور ترقی کے ساتھ ساتھ کامیاب خارجہ پالیسی اہم جزو ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے خارجہ پالیسی کے محاذ پر ہم نے کامیابیاں تو حاصل کیں لیکن خارجہ پالیسی کے اتار چڑھاؤ کے باعث ہم ان کامیابیوں کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد کشمیر کے تنازعے پر پاکستان اور بھارت کی جنگ شروع ہوگئی بھارت معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔1948 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کر لی لیکن بدقسمتی سے پاکستان آج تک نہ اقوام متحدہ سے اپنی منظور کی گئی قرار داد پر عمل کروا سکا اور نہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے آسکی۔
خارجہ پالیسی کے معاملے میں قائداعظم کا وِژن یہ تھا کہ امن سب کے ساتھ ہو ، دشمنی کسی سے نہ ہو۔ فروری 1948 کے ایک نشریے میں امریکی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ ''پاکستان کو بین الاقوامی تعلقات میں غیر وابستہ رہنا چاہیے۔'' قائد کا کہنا تھا ''خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ سب سے دوستی ہو اور کسی بھی ملک کے خلاف ناپسندیدہ عزائم نہ رکھے جائیں۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت اور اصولی طریقِ کار اختیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ہماری تمام مساعی سے عالمی امن کو یقینی بنانے میں مدد ملے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق زبوں حال اور جبر سے دوچار اقوام کی حمایت اور مدد سے کبھی گریز نہیں کرے گا۔''
لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد 1950 سے ہی پاکستان نے گندم بحران ، مسئلہ کشمیر ، مالی بحران اور ممکنہ معاشی ترقی کے پیش نظر غیر وابستہ تحریک کے بجائے امریکا یا سوویت یونین میں سے کسی ایک بلاک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔1954 میں سیٹو اور 1955 میں سینٹو نامی عسکری اتحاد میں شمولیت کے بعد پاکستان باضابطہ طور پر امریکی بلاک کا حصہ بن گیا۔
دوسری طرف بھارت غیر وابستہ تحریک میں شامل ہونے کے باوجود سوویت یونین اور امریکا سے بیک وقت عسکری اور معاشی فوائد حاصل کرتا رہا۔ 1965 کی جنگ کے بعد پاکستان پر امریکی عسکری پابندیوں اور 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران امریکا کی طوطا چشمی کے بعد پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی شفٹ لانے کا خیال آیا۔ اس دوران پاکستان نے نہ صرف چین کو بیرونی دنیا سے متعارف کروایا بلکہ چین اور امریکا کے سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے پل کا کردار ادا کیا۔1971 سے 1978 کا عرصہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس عرصے کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی بدولت پاکستان کے نہ صرف سوویت یونین سے تعلقات بہتر ہوئے جس کی بدولت کراچی میں سوویت یونین کی مدد سے پاکستان میں پہلا اسٹیل مل پلانٹ لگایا گیا۔ فرانس کے ساتھ بھی پاکستان نے مثالی تعلقات قائم ہوئے اور فرانس کے ساتھ پاکستان نے کراچی میں پہلا ایٹمی بجلی گھر لگانے کا معاہدہ کیا۔1974 میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا شرف پاکستان کو ملا 1974 کے سربراہی اجلاس نے مسلم اقوام کو اتحاد ، خود انحصاری اور تعاون کی راہ پر گامزن کیا۔
1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکی پابندیوں اور 9/11 حملوں کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کے فیصلے نے ترقی کے رستے ہٹ کر ہماری تنزلی کی رفتار کو دگنا کر دیا۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا 1960 کی دہائی تک سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ ہو یا خلائی تحقیق ، زرعی شعبہ ہو یا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ پاکستان ہر لحاظ سے نہ صرف بھارت بلکہ ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں صف اول میں تھا۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ غربت اور دیگر مسائل کے باوجود بھارت کی سفارتی پوزیشن اور خارجہ پالیسی اتنی مضبوط ہے کہ بھارت امریکا کے عسکری اتحاد کا حصہ ہونے اور روس پر عالمی پابندیوں کے باوجود دنیا میں روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔
چین کے ساتھ سرحدی تنازعات اور جھڑپوں کے باوجود بھارت چین دوطرفہ تجارت کا حجم 120 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جو 2001 میں صرف 1.83 ارب ڈالر تھی۔ قوموں کی زندگیوں اور مصائب اور مشکلات آتی رہتی ہیں۔ چین ، بھارت ، جاپان سمیت دنیا کی تمام عظیم قومیں معاشی مشکلات کا سامنا کرتی رہی ہیں۔
ایک مضبوط خارجہ پالیسی ہی آج کی دنیا میں وہ واحد ہتھیار ہے جو کسی بھی قوم کے مصائب اور مشکلات کو امکانات میں بدل سکتا ہے ، اگر ہم اپنی معاشی مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک مضبوط اور ٹھوس خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو ہماری موجودہ معاشی مشکلات کو باآسانی معاشی امکانات میں بدل سکتی ہے ، لیکن مضبوط خارجہ پالیسی کے لیے تمام تر قومی قیادت کو اپنے سیاسی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے مل کر بیٹھنا ہوگا۔
زرمبادلہ ذخائر اور وسائل کی کمی کی وجہ سے آزادی کے فوری بعد پاکستان کو گندم کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت پنڈت نہرو ، گاندھی اور مولانا عبد القیوم آزاد یہ پیشگوئی کر رہے تھے کہ پاکستان بہت جلد ایک ناکام ریاست بن کر دوبارہ بھارت کے ساتھ انضمام پر مجبور ہوجائے گا۔ 75 سال کے سفر میں قوم نے نہ صرف دنیا کے تمام تر اندازے غلط ثابت کر دکھائے بلکہ شبانہ روز محنت اور آہنی عزم سے تمام تر کمزوریوں کے باوجود پاکستان کو اقوام عالم کی صف میں نمایاں مقام پر لاکھڑا کیا۔ اس 75 سالہ سفر میں پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن کر ابھرا۔
آزادی سے پہلے غیر منقسم ہندوستان میں کُل 921 صنعتی یونٹس میں سے صرف 34 یونٹس پاکستان کے حصے میں آئے۔ 1950 میں جی ڈی پی 3 ارب ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 2022 میں 383 ارب ڈالر ہو چکی ہے جب کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 1950 میں 1.8 فیصد کے مقابلے میں 2022 میں 5.97 فیصد ریکارڈ کی گئی، فی کس آمدنی 1950 میں 86 ڈالر تھی جو کہ اب بڑھ کر 2022 میں ایک ہزار 798 ڈالر ہو چکی ہے، ٹیکس ریونیو 1950 سے 2022 تک 31 کروڑ روپے سے بڑھ کر 6 ارب 12 کروڑ 61 لاکھ روپے تک پہنچ گیا۔
معاشی مشکلات اور چیلنجز اپنی جگہ لیکن یہ روشن حقیقت ہے کہ آج پاکستان نہ صرف معاشی حوالے سے بہت بہتر پوزیشن میں بلکہ ہم نے 75 سال کے دوران زرعی شعبے میں حیران کن کامیابی حاصل کی۔ پاکستان نے آزادی کے صرف 18 سال بعد منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے حیران کن پراجیکٹ مکمل کیے جس زرعی شعبے کی ترقی کے استحکام میں بھی مدد ملی۔ کھیلوں کے شعبے میں ہاکی ، کرکٹ اور اسکواش پر عالمی حکمرانی ہو یا اولمپکس میں پاکستان کی نمایندگی، سائنس اور امن کے شعبوں میں 2 نوبل انعام ہماری کامیابیوں و کامرانیوں کا سفر ہر موڈ پر غیر معمولی رہا۔
دوسری طرف 1965 میں پاکستانی قوم اور افواج پاکستان نے جہاں غیر معمولی بہادری اور دلیری کے ساتھ اپنے سے 7 گنا بڑے دشمن کو شکست فاش دی وہیں 1971 میں ملک دولخت ہونے جیسے سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی بھی ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے معاشی استحکام اور ترقی کے ساتھ ساتھ کامیاب خارجہ پالیسی اہم جزو ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے خارجہ پالیسی کے محاذ پر ہم نے کامیابیاں تو حاصل کیں لیکن خارجہ پالیسی کے اتار چڑھاؤ کے باعث ہم ان کامیابیوں کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد کشمیر کے تنازعے پر پاکستان اور بھارت کی جنگ شروع ہوگئی بھارت معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔1948 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کر لی لیکن بدقسمتی سے پاکستان آج تک نہ اقوام متحدہ سے اپنی منظور کی گئی قرار داد پر عمل کروا سکا اور نہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے آسکی۔
خارجہ پالیسی کے معاملے میں قائداعظم کا وِژن یہ تھا کہ امن سب کے ساتھ ہو ، دشمنی کسی سے نہ ہو۔ فروری 1948 کے ایک نشریے میں امریکی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ ''پاکستان کو بین الاقوامی تعلقات میں غیر وابستہ رہنا چاہیے۔'' قائد کا کہنا تھا ''خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ سب سے دوستی ہو اور کسی بھی ملک کے خلاف ناپسندیدہ عزائم نہ رکھے جائیں۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت اور اصولی طریقِ کار اختیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ہماری تمام مساعی سے عالمی امن کو یقینی بنانے میں مدد ملے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق زبوں حال اور جبر سے دوچار اقوام کی حمایت اور مدد سے کبھی گریز نہیں کرے گا۔''
لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد 1950 سے ہی پاکستان نے گندم بحران ، مسئلہ کشمیر ، مالی بحران اور ممکنہ معاشی ترقی کے پیش نظر غیر وابستہ تحریک کے بجائے امریکا یا سوویت یونین میں سے کسی ایک بلاک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔1954 میں سیٹو اور 1955 میں سینٹو نامی عسکری اتحاد میں شمولیت کے بعد پاکستان باضابطہ طور پر امریکی بلاک کا حصہ بن گیا۔
دوسری طرف بھارت غیر وابستہ تحریک میں شامل ہونے کے باوجود سوویت یونین اور امریکا سے بیک وقت عسکری اور معاشی فوائد حاصل کرتا رہا۔ 1965 کی جنگ کے بعد پاکستان پر امریکی عسکری پابندیوں اور 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران امریکا کی طوطا چشمی کے بعد پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی شفٹ لانے کا خیال آیا۔ اس دوران پاکستان نے نہ صرف چین کو بیرونی دنیا سے متعارف کروایا بلکہ چین اور امریکا کے سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے پل کا کردار ادا کیا۔1971 سے 1978 کا عرصہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس عرصے کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی بدولت پاکستان کے نہ صرف سوویت یونین سے تعلقات بہتر ہوئے جس کی بدولت کراچی میں سوویت یونین کی مدد سے پاکستان میں پہلا اسٹیل مل پلانٹ لگایا گیا۔ فرانس کے ساتھ بھی پاکستان نے مثالی تعلقات قائم ہوئے اور فرانس کے ساتھ پاکستان نے کراچی میں پہلا ایٹمی بجلی گھر لگانے کا معاہدہ کیا۔1974 میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا شرف پاکستان کو ملا 1974 کے سربراہی اجلاس نے مسلم اقوام کو اتحاد ، خود انحصاری اور تعاون کی راہ پر گامزن کیا۔
1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکی پابندیوں اور 9/11 حملوں کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کے فیصلے نے ترقی کے رستے ہٹ کر ہماری تنزلی کی رفتار کو دگنا کر دیا۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا 1960 کی دہائی تک سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ ہو یا خلائی تحقیق ، زرعی شعبہ ہو یا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ پاکستان ہر لحاظ سے نہ صرف بھارت بلکہ ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں صف اول میں تھا۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ غربت اور دیگر مسائل کے باوجود بھارت کی سفارتی پوزیشن اور خارجہ پالیسی اتنی مضبوط ہے کہ بھارت امریکا کے عسکری اتحاد کا حصہ ہونے اور روس پر عالمی پابندیوں کے باوجود دنیا میں روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔
چین کے ساتھ سرحدی تنازعات اور جھڑپوں کے باوجود بھارت چین دوطرفہ تجارت کا حجم 120 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جو 2001 میں صرف 1.83 ارب ڈالر تھی۔ قوموں کی زندگیوں اور مصائب اور مشکلات آتی رہتی ہیں۔ چین ، بھارت ، جاپان سمیت دنیا کی تمام عظیم قومیں معاشی مشکلات کا سامنا کرتی رہی ہیں۔
ایک مضبوط خارجہ پالیسی ہی آج کی دنیا میں وہ واحد ہتھیار ہے جو کسی بھی قوم کے مصائب اور مشکلات کو امکانات میں بدل سکتا ہے ، اگر ہم اپنی معاشی مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک مضبوط اور ٹھوس خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو ہماری موجودہ معاشی مشکلات کو باآسانی معاشی امکانات میں بدل سکتی ہے ، لیکن مضبوط خارجہ پالیسی کے لیے تمام تر قومی قیادت کو اپنے سیاسی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے مل کر بیٹھنا ہوگا۔