قحط الرجال چند اچھے لوگ

من موہن ایشیا کے مرد آہن شخصیات میں سے ایک تھے


مرتضیٰ سید August 20, 2022
گورنر (قائم مقام) اسٹیٹ بینک

میرا پچھلا کالم محبوب الحق کے بارے میں ایک ستائشی تحریر تھی۔ نئی صدی کے آغاز پر ان کی بے وقت موت نے ہمارے ملک سے ایک ایسا روشن دماغ چھین لیا جو کم ہی پیدا ہوتا ہے... 'بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا'۔

ان کی موت نے جو خلا پیدا کیا اسے آج تک پاکستان کے پالیسی ساز نہ صرف یہ کہ بھر نہ سکے بلکہ خیالات اور تصورات کے زوال نے اس خلا کو مزید وسعت دے دی۔

اگر محبوب الحق صاحب چند سال اور زندہ رہ جاتے تو وہ ہمارے من موہن سنگھ ہو سکتے تھے یعنی وہ نرم خو لیکن ٹھوس ٹیکنوکریٹ جس نے1990 کے اوائل میں ایک غیر متوقع وزیر خزانہ کی حیثیت سے بھارت کے بدنام زمانہ 'لائسنس راج' کو ختم کیا اور نجی شعبے کی قیادت میں برق رفتار نمو کے ایک ایسے نئے دور کا آغاز کیا جس نے ان کے ملک کی قسمت بدل دی۔

من موہن ایشیا کے مرد آہن شخصیات میں سے ایک تھے۔ آج کا میرا یہ کالم ایسے ہی افراد اور ان کے زبردست کارناموں کے بارے میں ہے جن کے عزائم' جرات اور ثابت قدمی سے ہمارے ہمسایہ ممالک ایک کے بعد ایک معاشی ترقی کے سفر پر روانہ ہوتے گئے' 1950 کے عشرے میں جاپان سے یہ سلسلہ شروع ہوا' 1960 کی دہائی میں ہانگ کانگ' سنگا پور' جنوبی کوریا اور تائیوان'1970کی دہائی میں انڈونیشیا اور ملائیشیا اور تھائی لینڈ' 1980کی دہائی میں چین'1990 کے عشرے میں بھارت اور حال ہی میں کچھ نسبتاً کم درجے پر بنگلہ دیش اور ویت نام۔

افسوسناک بات ہے کہ ہمارے ارد گرد دولت کی تخلیق اور غربت کی تخفیف کی اس شاندار کہانی میں ہماری حیثیت تماشائی سے زیادہ نہیں تاہم ایک ہی نسل کے دورانیے میں ان ممالک کے شاندار عروج کو دیکھ کر کافی امید بندھ سکتی ہے۔ اپنے سفر کی ابتدا میں یہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتے تھے' ان کے عوام اجڑے ہوئے کھیتوں کی تھوڑی سی پیداوار کے نتیجے میں معمولی خوراک پر گزر بسر کرتے تھے۔ ان کے بچوں کے لیے پرائمری تعلیم تک کا حصول مشکل تھا۔

ان ایشیائی اقوام کو کس محرک نے عالمی معیشت میں صف اول کی جگہ دلائی اور پاکستان ان سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

ایشیا کے معجزے کا بنیادی جز ترقی پر وہ سودے بازی تھی' جس کے تحت سیاست' معاشیات اور معاشرے کو بدلنے کی طاقت رکھنے والے افراد نے معاشی ترقی کے لیے کوششوں کی بنیادی اہمیت کو تسلیم کیا۔ خصوصاً' اشرافیہ نے معاشی وسائل کا حجم بڑھانے کے لیے ایک مثبت جوا کھیلا۔ یہ اقوام جنگ یا سامراجی نظام سے چھٹکارا پا رہی تھیں اور انھیں قومی سلامتی کے چیلنجوں اور شدید انسانی محرومی کا سامنا تھا۔

اس کے ردعمل میں ان کی اشرافیہ کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ ان کے پاس اپنی اقوام کی بقا یقینی بنانے کے لیے اور اپنے اقتدار کو پائیدار قانونی حیثیت دینے کے لیے تیز معاشی نمو کو ترجیح دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ جنوبی کوریا کے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے آغاز میں جنرل پارک چنگ ہی نے کہا تھا ''(ایک ایسے وقت جب کہ) ملک تباہی کے دہانے پر (کھڑا) ہے' لہٰذا میرا ضمیر مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ صرف (اور صرف) قومی دفاع کے فریضے پر ہی توجہ مرکوز کی جائے''۔

جب ایک بار انھوں نے اس بارگین کو قبول کر لیا تو اشرافیہ نے بھی کامیابی سے اپنے عوام کو قائل کر لیا کہ معاشی ترقی ایک قومی کوشش ہے جس پر سب کا اتفاق ضروری ہے' حتیٰ کہ اس کے لیے بعض اوقات انفرادی آزادیوں کی قربانی بھی دی جا سکتی ہے۔ معاشی ترقی کے گرد تشکیل دیے گئے ایک نئے سماجی معاہدے میں مقبول پسند خیالات کو شامل کیا گیا اور اسے قومی مقصد کے طور پر ابھارا گیا۔ بیسویں صدی کی سب سے قابل ذکر شخصیت ژیائو پنگ نے اعلان کیا کہ ''غربت سوشلزم نہیں ہے'' اور ''امیر ہونا عظیم الشان ہے''۔

ان کے یہ خیالات گینگ آف فور کے پچھلے سبق سے مختلف تھے جن کا کہنا تھا ''سوشلزم کے تحت غریب رہنا سرمایہ دارانہ نظام میں امیر ہونے سے بہتر ہے''۔ انھوں نے پورے ایشیا میں ملک کو ایک باعزت مقام دلایا اور اسے طاقت ور بناتے ہوئے غربت کی زنجیروں کو توڑنے کا پیغام دیا جو کہ مقبولیت حاصل کر گیا اور اس پیغام سے تقسیم کا شکار اور بے سمت معاشروں کو توانا ہونے اور ایک لڑی میں پرونے میں مدد ملی۔

اس پائیدار اقتصادی ترقی کو ممکن بنانے کے لیے ان تمام ملکوں نے ایسے لیڈروں کو حکومت اور کاروبار دونوں ہی شعبوں میں با اثر عہدوں پر پہنچایا جو مضبوط' جذبے سے سرشار اور جدت پسند تھے۔ اعلیٰ قیادت نے جرات مندی کے ساتھ ٹیکنوکریٹس کو تحفظ فراہم کیا' جیسا کہ بھارت اور انڈونیشیا کی مثال سے واضح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ' وہ اصلاحاتی ایجنڈے کو روکنے کی دھمکی دینے والے ان مفاد پرست عناصر سے نمٹنے سے بھی نہیں ڈرے جو اکثر موت کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔

ان لیڈروں نے نجی کاروباری اداروں کو ڈی ریگولیشن اور ہدفی سبسڈیز کے ذریعے آزاد کرنے کی اہمیت جان لی تھی۔ تاہم یہ سہارا فراہم کرنے کے عوض ریاست نے تاجروں سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اعلیٰ معیار کی مصنوعات بنا کر انھیں برآمد کریں گے اور اس طرح انھیں غیر ملکی مسابقت میں ہمہ تن مصروف کر دیا۔ جاپان اور جنوبی کوریا نے اس معاملے میں مہارت حاصل کی۔

ایشیا کے لیڈروں میں مختلف قسم کے کردار شامل تھے' ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس' سیاست داں اور جرنیل' آمر اور جمہوریت پسند' سرمایہ دار اور کمیونسٹ کے ساتھ ساتھ معیشت داں' کاروباری افراد اور انجینئرز جو ایک مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے متحد ہو گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سب کو یقین تھا کہ ان کی اپنی کامیابی ان کے ملک کی معاشی کامیابیوں سے جڑی ہوئی ہیں اور انھوں نے اس مقصد کے لیے انتھک محنت کی۔

یہ رہنما افریقہ اور لاطینی امریکا کی ترقی پذیر قوموں کے رہنمائوں جتنے نظریاتی تو شاید نہ ہوں تاہم انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ان کی غریب آبادی اپنے طور پر صنعتوں کو نہیں سنبھال سکتی چنانچہ انھوں نے بین الاقوامی معیشت سے رجوع کیا اور برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کی دھن میں لگ گئے۔ وہ اپنی معیشتوں کی ضروریات کے مطابق پالیسیاں اختیار کرنے میں بھی زیادہ فعال تھے۔

سنگا پور کے پہلے وزیراعظم لی کو آن یو نے اعلان کیا تھا ''اپنی فطرت اور تجربے کے لحاظ سے ہم (صرف) نظریات کے دلدادہ نہیں ہیں۔ ہم جس چیز میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں وہ ہمارے مسائل کے حقیقی حل ہیں''۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ رہنما ناقابل یقین حد تک محنتی' پرخلوص اور تجربات کے لیے مستقل طور پر کشادہ دل تھے۔ سہار تو' جو انڈونیشیا میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے' کے مطابق ''ترقی ایک تند جدوجہد ہے۔ میں گھر میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں' دفتر میں اس پر عمل کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ فارغ اوقات میں بھی میں ہمیشہ نئے ذرایع اور طریقوں پر غور کرتا ہوں''۔

ایشیا کے اس معجزے کی اصل کہانی عوام اور انفرادی بصیرت کو اجتماعی جدوجہد کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے حوالے سے ہے۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ معاشی ترقی کے نظریات میں انسانی پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ خامی ہے جس کا انکشاف محبوب الحق نے کئی سال پہلے اپنے بہترین انداز میں کیا تھا۔ بالآخر معیشتوں کی تشکیل پالیسیاں نہیں' افرادکرتے ہیں' وہ افراد جو پالیسیوں کو سوچتے ہیں اور وضع کرتے ہیں۔ پیداوار اور برآمدات صرف نتائج ہیں۔ ان کا انحصار تاجروں پر' جو خطرات مول لیتے ہیں اور فیکٹریاں بناتے ہیں اور ان عام لوگوں پر ہوتا ہے جو اسمبلی لائن پر گھنٹوں کام کرتے ہیں۔

''ہمارا ایک معاشی قوت کے طور پر ابھرنا وہ تصور ہے جس کا وقت آ گیا ہے۔ یہ بات ساری دنیا کو سن لینی چاہیے۔ اب ہم بیدار ہو چکے ہیں۔ ہم چھا جائیں گے۔ غالب آ جائیں گے''۔ یہ بات من موہن سنگھ نے پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں علی الاعلان کہی۔ ہمیں بھی اس جذبے کو اپنانا ہو گا۔

حتمی تجزیے میں' ایشیا کی داستان ہمیں سکھاتی ہے کہ معاشی ترقی کے آغاز کے لیے پاکستان کو جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ہے اشرافیہ کی جانب سے ایک دلیرانہ مثبت بارگین اور معاشی ترقی سے منسلک بیانیہ' جو عوامی تخیل کو اپنی گرفت میں لے لے لیکن سب سے بڑھ کر چند ایک اچھے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق میں اس کالم کا اختتام اس شعر پر کرتا ہوں

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔