کونسی آزادی

سوال ہے کہ کیاچوہتر برس میں ہم اپنا کوئی ایک قومی‘ ریاستی‘ حکومتی ادارے کو مثالی بنا سکے ہیں

raomanzarhayat@gmail.com

ہر طرف شور ہے کہ جشن آزادی مبارک ہو۔ واٹ اسپ پر مبارک باد کے پیغامات کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ٹی وی پر چودہ اگست کی نسبت سے پروگرام نشر کیے جا رہے ہیں۔ جن میں صرف اور صرف سطوت دکھائی دیتی ہے۔

وزیراعظم نے رات کو ایک لکھی ہوئی تقریر دھیمی آواز میں پڑھی۔ لگتا ہے کینسر کی بیماری ان کے جسم کو نحیف کر چکی ہے۔ بہرحال وزراء اعظم اور صدور کی تقاریر تو گزشتہ چوہتر برس سے بالکل ایک جیسی ہیں۔ رتی برابر بھی فرق نہیں۔ صرف چہرے بدل جاتے ہیں۔ بلکہ اب تو شدید احساس ہے کہ چہرے تک نہیں بدلتے۔ صرف مہرے بدل جاتے ہیں۔ بہر حال خوشی کا دن تو ہے۔ مگر ماتم کا بھی، تجزیہ کا بھی اور سوچنے کا بھی۔

غور وفکر کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ کیونکہ مجموعی طور پر ہم غور و فکر کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔دلیل ہمیں گالی کی طرح چبھتی ہے۔ اب تو سنبھل کر لکھنا پڑتا ہے کہ کوئی مذہبی یا سیاسی شدت پسند اگر ناراض ہو گیا تو وہ تو دس بیس روپے کی چھری ہی سے کسی کو بھی قتل کر سکتا ہے۔ عدالتوں میں اتنی استطاعت نہیں کہ اسے یا اس جیسے شدت پسند طبقے کو سزا دے سکے۔

طالب علم کے طور پر میں بھی خوش ہوں کہ چلو' قائداعظم اور اس وقت کے طاقتور ممالک نے ہمیں انگریزوں کی ظاہری غلامی سے آزاد کروا ڈالا۔ مگر یہ بھی تو سوچیے' کہ چودہ اگست 1947کو گورے کی غلامی سے نکل کر ہم سیٹھوں' مذہب فروشوں ' ادنیٰ سیاست دانوں اور طالع آزما حکمرانوں کے مسلسل غلام بن گئے۔ کیا آج کوئی کہہ سکتا ہے کہ پاکستان 2022میں واقعی آزاد ہے؟

کم از کم طالب علم کو تو کسی طور پر بھی کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا کہ واشگاف الفاظ میں کہہ سکوں کہ واقعی ہم آزاد قوم ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی ٹھوس شہادت ہے تو اپنا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل کر لونگا۔ اور آج رات یعنی چودہ اگست کی رات کے جشن میں شامل ہو جاؤں گا۔

قاسم فرشتہ نے جو برصغیر کی دو ہزار سالہ تاریخ تحریر کی ہے۔ اس میں بادشاہوں' شہزادوں' حکمرانوں اور ان کی دولت کا بھرپور ذکر ہے۔ مگراس کتاب میں تو ایک جگہ بھی عام آدمی کی صورت حال کو بہتر نہیں بتایا گیا۔ غربت' ڈاکا زنی' مار دھاڑ' لوٹ کھسوٹ تو برصغیر کے عوام کا ہزاروں برس سے مقدر ہے۔ اور آج بھی یہی کچھ ہو رہاہے۔ ہاں' اب الفاظ بدل گئے ہیں۔

لوٹنے والے رہنما اب جعلی ووٹ حاصل کر نے کے بعد عوام سے وہی سلوک کرتے ہیں جو انگریزوں کے زمانے میں ''ٹھگوں کی تحریک'' میں کیا جاتا تھا۔ شاید آپ کو اندازہ نہیں کہ یہ تحریک کتنی خوفناک تھی۔ سات قبیلوں کے افراد جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی' باقاعدہ فریب کر کے لوٹنے کو پیشہ بنا چکے تھے۔ رومال کے ذریعے مسافروں کے گلے گھونٹتے تھے اور مال و اسباب لوٹ کر فرار ہو جاتے تھے۔

1833 سے پہلے تو یہ حالات ہو چکے تھے کہ پورے برصغیر میں سفر کرنا ناممکن تھا۔ ان ٹھگوں میں ہندو بھی بعدازاں شامل ہوئے۔ یہ تمام ٹھگ حد درجہ مذہبی تھے۔ یہ تو گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنگ کا کارنامہ تھا کہ اس نے ان خوفناک گروہوں کا قلع قمع کیا۔ 3266ٹھگ گرفتار ہوئے اور کیفر کردار تک پہنچائے گئے۔ مگر وہ تو گورا بادشاہ تھا۔ مگر آج یہ ٹھگ بھیس بدل کر ہمارے ہر شعبہ کو کنٹرول کرچکے ہیں۔


سوال ہے کہ کیاچوہتر برس میں ہم اپنا کوئی ایک قومی' ریاستی' حکومتی ادارے کو مثالی بنا سکے ہیں۔ اس کا جواب ایک طاقت ور ''نا'' بلکہ نفی ہے۔ کیا ہمارا ''نظام عدل'' درست کام کر رہا ہے۔ یہاں تو جیل میں ملزمان کو پھانسی لگ جاتی ہے۔ مگر ان کی اپیل سننے کی باری نہیں آتی۔ ہمارے قاضی تو عوام کے پیسوں سے خریدی ہوئی مہنگی ترین گاڑیوں کے علاوہ' معمولی کار پر سفر کرنا پسند نہیں کرتے۔

اسلامی اصول ہے کہ قاضی کے اثاثے عام لوگوں کے سامنے شیشے کی مانند پیش کیے جانے چاہیے۔ مگر کیا کوئی قاضی التقضا سے پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ جناب آپ کے اثاثے کتنے ہیں۔ اگر کوئی نادان یہ سوال پوچھنے کی ہمت کر بھی لے تو اسے کم سے کم پابند سلاسل کر دیا جائے گا۔ہاں باتیں سن کر تو لگتا ہے کہ ملک میں ہر شخص کو عدل باہم مل رہاہے۔ نظام عدل کسی بھی ریاست کی بنیاد ہوتا ہے۔ اگر بنیاد موجود ہی نہیں ہے تو پھر جشن آزادی کس بات کا۔

بنگلہ دیش کے ایک جج کا فقرہ ' میرے جیسے انسان کو کھا چکا ہے۔ اس نے مذہبی دہشت گردوں کو سزا دیتے ہوئے اضافی فقرہ کہا' کہ یہ بنگلہ دیش کی عدالت ہے۔ پاکستان کی نہیں!۔ ہماری جیلیں بے گناہوں سے اٹی پڑی ہیں۔ مگر کسی کے کان پر جون نہیں رینگی۔ ہمارے عقوبت خانے چل ہی رشوت پر رہے ہیں۔ جو نیچے سے اوپر تک خاموشی سے تقسیم ہو جاتی ہے۔ ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ ہمارے عظیم مذہب میں قیدیوں کے بہت حقوق ہیں۔

ملکی قانون میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔ مگر زمینی حقائق پرکھیے تو صرف اور صرف پیسے کا راج ہے۔ جیلوں کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ ہمارے سیاست دان عقوبت خانوں میں آتے جاتے رہتے ہیں۔اگر ان میں عام قیدیوں کی حالت بہتر بتانے کی معمولی سی بھی خواہش ہوتی' تو یہ برسراقتدار آ کر کم از کم لوہے کی سلاخوں میں بند انسانوں کے لیے چند انقلابی تبدیلیاں تو کر سکتے تھے۔ مگر نہیں۔ پورے ملک کے ہر نظام کی طرح ' نظام عدل اور اس سے منسلک ادارے صرف اورصرف دکھاوے کے ہیں۔

آپ تو آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔ مگر کیا آج کوئی بھی پاکستانی' پولیس کے ظلم سے محفوظ ہے۔ کیا ہمارے تھانے' لوگوں کے لیے سب سے غیر محفوظ مقام نہیں ہیں۔ کیا ' تھانوں میں عوام سے سر عام پیسے نہیں لیے جاتے؟کیا محبوس لوگوں کو ''تیل میں بھیگے'' ہوئے چھتر سے تواضع ختم ہو گئی ہے۔ جس طرح 1947سے پہلے 'پولیس' ریاستی تشدد کا نشان تھی ۔ کیا آج بھی وہی حالت نہیں ہے۔

سچ یہی ہے کہ 1947 سے لے کر آج تک ہم اپنے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو درست خطوط پر نہیں لا سکے۔ تھانہ کلچر بدلنے کے اعلانات سن کر اب تو ہنسی آتی ہے۔ بالکل یہی حالت ' ریونیو ڈیپارٹمنٹ کی ہے۔ چند اہلکار' جائیداد کی فرد دینے کے لاکھوں روپے وصول کرنا اپنا جائز حق سمجھتے ہیں۔ عدالتوں میں پچاس فیصد سے زیادہ مقدمات ' محکمہ مال کے جونیئر اور سینئر عمال کی لاپرواہی اور بددیانتی کی بدولت چل رہے ہیں۔ مگر اس بگاڑ کو کیا ہم گزشتہ سات دہائیوں میںدرست کر پائے ہیں۔

چلیے' مان لیا کہ آپ آزاد ہیں تو کیا صرف اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ ہماری معیشت اتنی زبوں حالی کا شکار کیوں ہے۔ تولیے' کپڑے اور لٹھا بنابنا کر ہم دنیا میں اپنی معاشی دھاک کیسے بٹھا سکتے ہیں۔ نجی شعبہ میں کرپشن' سرکاری شعبے سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہر باخبر انسان جانتا ہے کہ نجی شعبہ قطعاً پورا ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ٹیکس نہ دینا مہذب ممالک میں قتل کے برابر جرم ہے ۔ مگر ہمارے ہاں' ٹیکس کے ماہرین آپ کو ٹیکس نہ دینے کے بے شمار گر بتاتے ہیں۔

ایک ناکارہ نجی شعبہ جو سرکاری بیساکھیوں پر کھڑا ہے' وہ ملک کو بدحالی کے علاوہ کیا دے سکتا ہے۔ اس سوال کا بھی آزاد پاکستان میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کئی ریاستی ادارے تجارت میں براہ راست ملوث ہیں۔ جو دنیا میں کسی جگہ نہیں ہوتا۔ مگر یہاں تو ہمیں سوال پوچھنے کی اجازت تک نہیں ہے۔

سوال آپ سے نہیں' بلکہ اپنے آپ سے ہے کہ ہمیں کیساملک بنا دیا گیا ہے۔ کیا نغمے اور ترانے پیش کرنے سے ملک کی محبت کو دوبالا کیا جاسکتا ہے۔ ذرا سوچیے' کہ نئے ترانے اور نغموں سے عام آدمی سکھ کا سانس لے سکتا ہے؟ جناب' جب پورا نظام گل سڑ گیا ہو۔ کوئی سیاستدان یا ادارے اس کو معمولی سا بہتر کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہیں۔ تو پھر یہ کام نئے قومی گانوں سے بہتر اور کون کر سکتا ہے۔ نہ تو ہم آزاد ہیں اور نہ ہی ہم اپنے آپ کو درست کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ تو حضور' مجھ جیسے جاہل کو بھی سمجھا دیجیے' کہ یہ کونسی آزادی ہے ' جس کا اتنا جشن منایا جا رہا ہے؟
Load Next Story