پیغام آزادی

اپنے قائد اعظم کے کردار کی جھلک دیکھیے اور اس کی روشنی میں اپنے رہنماؤں کے کردار اور قول و عمل کا جائزہ لے لیجیے

mjgoher@yahoo.com

بلاشبہ زندہ قومیں اپنے قومی تہواروں اور یادگار دنوں کو بھرپور جوش و جذبے اور پورے تزک و اہتمام کے ساتھ مناتی ہیں۔

اپنے اسلاف کے افکار، اذکار، ہدایات اور رہنما اصول ان کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں ، جن کی روشنی میں وہ اپنے ملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے سوچ بچار کرتی ہیں اور ایسے قاعدے، قانون، منصوبے اور پالیسیاں وضع کرتی ہیں جن کے نفاذ سے ان کا ملک ترقی و کامیابی کی شاہراہ محو سفر ہو جاتا ہے۔ ایسی زندہ قومیں ہی اقوام عالم میں ایک منفرد اور باوقار اور باعزت مقام بنا پاتی ہیں۔ دنیا ان کا احترام کرتی ہے، ان کے تجربے، مشاہدات اور پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتی ہے اور پھر ان کا ملک اور قوم بھی ترقی کی منازل طے کرنے لگتا ہے۔

دوسری جانب وہ قومیں ہیں جو اپنے بزرگوں، اسلاف اور صاحب کردار رہنماؤں کے اصولوں و نظریات کو اگرچہ دل سے تسلیم کرنے کے بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہیں۔ قومی تہواروں اور یادگار دنوں پر ان کے اقوال زریں، پختہ کار روایات اور اصولوں و فلسفے پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیاں بھی کراتی ہیں۔

خصوصی مواقعوں پر یادگاری جلسے، جلوسوں اور سیمیناروں و مذاکروں کا اہتمام بھی کرتی ہیں اور اپنے اسلاف کے کارنامے بیان کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتی ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود جب ان کے اعمال کا خانہ دیکھا جائے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ خانہ خالی ہوتا ہے۔ ان کے نامہ اعمال میں ایسا کوئی زریں کارنامہ نہیں ہوتا جو دوسروں کے مثال بن سکے، جسے دنیا کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کیا جاسکے۔ دنیا کی نظروں میں ایسی قوموں کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی، انھیں عزت و وقار حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی بات کو عالمی سطح پر توجہ و دھیان سے سنا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا ملک پاکستان دوسری جانب موجود قوموں کی قطار میں کھڑا نظر آتا ہے۔ آج ہمیں آزادی حاصل کیے 75 برس بیت گئے لیکن ابھی تک ہمارا شمار صف اول کی قوموں میں نہ ہو سکا۔ پوری قوم نے 75 واں یوم آزادی حسب روایت بھرپور جوش و جذبے اور پورے اہتمام کے ساتھ منایا۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے لے کر عوام الناس کی سطح پر مختلف تنظیموں، جماعتوں اور اداروں کی جانب سے یوم آزادی کے موقع پر جلسے، جلوس، مذاکرے اور سیمینار کا اہتمام کہا گیا۔ حکومتی زعما، اپوزیشن رہنماؤں، وکلا برادری، تاجر، صنعتکار، طلبا، مزدور اور کسان غرض ہر سطح پر پرجوش روایتی بیانات کی گھن گرج سنائی دی۔


قائد اعظم کے اصولوں، نظریات اور ہدایات کی روشنی میں ملک کو علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر دینے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے۔ کچھ بھی نیا، انوکھا اور متاثر کن نہ تھا سب کچھ روایتی، گھسا پٹا اور عمل سے خالی جذبوں کا ڈھول تھا جو ہر سال یوم آزادی پر بجایا جاتا ہے۔کیا قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ایسے ہی پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ یہ قوم گزشتہ 75 سالوں سے حکمرانوں اور رہبران قوم کے دعویداروں کی ''فریب زدہ'' کہانیاں سن سن کر عاجز آچکی ہے۔ سیاسی، معاشی، مذہبی، صحافتی غرض زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے ارباب اختیار نے جو فیصلے اور اقدامات اٹھائے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے۔

لسانیت، فرقہ واریت، صوبائیت اور منافرت ہماری پہچان بن گئی۔ قائد اعظم کے پیغام اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کی جگہ تفریق، انتشار، غیر یقینی، نفرت، بغض، عداوت، کینہ، فتنہ اور انتقام کے کلچر کو فروغ ملنے لگا یہاں کہ ہم مسلمان لہو کے باوجود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن میں اپنے اپنے ''اسلام'' کے نام پر نفرت کے بیج بوئے گئے۔ خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگیٹڈ کلنگ کے ذریعے، عبادت گاہوں، اسکولوں، سڑکوں، بازاروں اور گلیوں میں عام لوگوں کو، سرکاری اہلکاروں کو، مذہبی و حکومتی اور سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔

دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کو ایک طویل عرصے تک اپنی لپیٹ میں لیے رکھا، دنیا ہمیں ایک ''ناکام ریاست'' کے نام سے پکارنے لگی۔ دشمن نے ہماری کمزوریوں، نااہلیوں اور خامیوں سے فائدہ اٹھا کر ہمیں دولخت کردیا۔ اس کے باوجود ہمارے ارباب حل و عقد نظریہ ضرورت کو جنم دینے، جمہوریت پر شب خون مارنے اور آئین معطل کرنے کے ''کارنامے'' انجام دیتے رہے۔کیا قائد اعظم نے ایسے ہی پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ کیا ہمارے آج کے رہنما و قائدین قائد اعظم کی طرح صاحب کردار، صاحب بصیرت، دیانت دار، امانت دار، اصول پسند اور محب وطن قرار دیے جاسکتے ہیں؟

اپنے قائد اعظم کے کردار کی جھلک دیکھیے اور اس کی روشنی میں اپنے رہنماؤں کے کردار اور قول و عمل کا جائزہ لے لیجیے۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ کون قومی دولت و وسائل کا امین ہے اور کون خائن ہے۔ قائد اعظم حکمرانہ شان و شوکت کے سخت خلاف تھے۔ ایک مرتبہ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر نے گورنر جنرل کے استعمال کے لیے ہوائی جہاز کی خریداری کی تفصیلات قائد اعظم کو بھیجی تو قائد نے انھیں جواب لکھا کہ پاکستان کا گورنر جنرل 15 لاکھ کا مہنگا جہاز نہیں خرید سکتا۔

ایک بار قائد کے سیکریٹری نے ان سے کہا کہ سر! آپ گورنر جنرل ہاؤس کی اس طرح اضافی بتیاں بجھا دیتے ہیں کہ شرمندگی ہوتی ہے، چند بتیوں کے جلنے سے کیا فرق پڑتا ہے، تو قائد اعظم نے فرمایا کہ ''بات فرق کی نہیں ہے، اصول کی ہے، روپیہ ضایع کرنا ایک بڑا گناہ ہے اور اگر وہ روپیہ قوم کا سرمایہ ہو تو اور بھی بڑا سخت گناہ ہے۔''

آج قائد اعظم کے خواب کی تعبیر کے متلاشی حکمراں قومی دولت اور وسائل کو کس بے دردی کے ساتھ اقتدار کی دیوی پر نچھاور کر رہے ہیں۔ ان کے بینک بیلنس اور جائیدادوں میں اضافہ ہو رہا ہے جب عام آدمی غربت اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب تک ہمارے اہل اقتدار و اہل سیاست قائد اعظم جیسے ''اوصاف حمیدہ'' کے حامل نہیں ہو جاتے وطن عزیز ترقی و خوشحالی کی منزل نہیں پاسکتا۔ 75 سال کے سفر کا حاصل یہی ''پیغام آزادی'' ہے۔
Load Next Story