موسمی سانحات اب ہر سال کا مقدر
ہمارے ملک کے ارباب اختیار اور اشرافیہ جان لے کہ ماحولیاتی تحفظ میں ہی ہماری سلامتی ہے
صورتحال تیزی سے پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب بڑھ رہی ہے اور ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ہم دسویں نمبر پر ہیں، آٹھویں پر یا چھٹے نمبر پر ہیں، اسی میں الجھے ہوئے ہیں۔ نہ ہی حکمران اشرافیہ، پالیسی ساز اور نہ ہی عوام کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیاں ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے گرد گھیرا تنگ کرتی چلی جا رہی ہیں۔ شدید گرمی کی لہر ، شدید طوفانی بارشیں اور اس کے نتیجے میں تباہ کن سیلاب ، خشک سالی، گلیشیئر کا پگھلائو ، لینڈ سلائیڈنگ، فضائی آلودگی، سطح سمندر میں اضافے کے خطرات غرض کہ موسمیاتی تبدیلی کا کون سا ایسا مظہر ہے جس کا مشاہدہ ہم پچھلے کئی برسوں سے نہیں کر رہے ہیں۔
رواں سال موسم بہار غائب ہوا اور گرمی کی شدید لہروں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طوفانی بارشوں نے پورے ملک میں تباہی مچادی ، فصلوں ، مال مویشیوں سمیت انفرااسٹرکچر تباہ ہوا، ملک کے شمالی علاقوں میں گلیشیئر کے پگھلائو میں تیزی آئی۔ نت نئے وبائی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے مگر ہم موسمیاتی تبدیلی کے ضمن میں ہنگامی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ موسمی سانحات اب ہر سال کا مقدر ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ گرمی کی شدید لہر کو اداروں نے موسمی سانحات میں شامل ہی نہیں کیا ہے کیونکہ ان تمام سانحات کے متاثرین کی غالب اکثریت ملک کے کمزور ترین طبقات ہیں۔برلن میں قائم مرکاتر انسٹیٹیوٹ اور کلائیمیٹ انالیٹکس میں میکس کلینگھان اور ان کی ٹیم کی جانب سے مکمل کی جانے والی تحقیق جو نیچر کلائیمیٹ چینج میگزین میں شایع ہوئی بتایا گیا کہ دنیا کے 80 فیصد علاقے جہاں85 فیصد آبادی رہائش پذیر ہے موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔
اس تحقیق میں1951سے2018 تک شایع ہونے والے ایک لاکھ تحقیقی تجزیوں اور مقالوں کے تجزیے سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کے تمام براعظموں کے قدرتی ماحولیاتی نظام کو شدید متاثر کر رہی ہیں جو واضح طور پر دنیا بھر میں محسوس کی جارہی ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس حوالے سے بہت زیادہ تحقیقی کام ہوا ہے جب کہ غریب ملکوں میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تحقیقی مقالوں اور تجزیوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، ہم اس امر سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ کاربن کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے دو ممالک چین اور بھارت کے درمیان موجود ہیں اور ان کے براہ راست اثرات ہمارے اوپر مرتب ہو رہے ہیں ، لیکن ہم اس حوالے سے کوئی بھی تحقیقی ، تجزیاتی اور عملی کام کرنے کے لیے کسی بھی سطح پر تیار نہیں ہیں۔
''حالیہ ریکارڈ توڑ گرمی کی شدید لہریں، تباہ کن سیلاب سمیت دیگر شدید نوعیت کی موسمیاتی آفات تو موسمیاتی بحران کی محض ابتدا ہے مستقبل میں ان میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی'' یہ کہنا ہے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے معروف موسمیاتی سائنس دان بل مینگوائر کا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے برسوں تک سائنس دانوں کے انتباہ سے صرف نظر کیا۔ اب اس کا تاوان گرمی کی شدید لہر، سیلاب، طوفان، خشک سالی اور دیگر نوعیت کی شدید موسمی آفات کی صورت میں ادا کرنا ہو گا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ان تبدیلیوں پر قابو پانے کا وقت گزر چکا ، موسمیاتی سائنس دان مستقبل کے حوالے سے شدید خوف کا شکار ہیں اور وہ عوام کے سامنے اس پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک کی کسی بھی عالمی فہرست میں پاکستان کو کوئی بھی نمبر دیا جائے وہ رہے گا پہلے نمبر پر ہی کیونکہ پاکستان سے اوپر کے نمبر والے ملکوں کی کل آبادی کو ملا لیا جائے تو وہ شہر کراچی سے بھی کم بنتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے جڑا شاید ہی کوئی ایسا مظہر ہو جس کا نشانہ پاکستان نہ ہو، دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو۔
دنیا کے 50نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں سے سوال پوچھا گیا کہ '' انسانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون سا ہے'' جواب تھا ''ماحولیاتی تنزلی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی۔'' آخری مردم شماری کے حوالے سے ہم 20 کروڑ 77 لاکھ سے زائد ہیں اور دنیا میں نمبر5واں ہے۔ عالمی ادارے ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق اس فہرست میں شامل پہلے چار ممالک چین، بھارت، انڈونیشیا اور امریکا کے مقابلے میں آبادی کے بڑھنے کی رفتار سب سے تیز پاکستان میں ہے۔
آبادی میں ہونے والے اس بے ہنگم اضافے کی وجہ سے جہاں ہر قسم کی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، وہیں نت نئے وبائی امراض کے ساتھ خوراک اور پانی کے مسائل بھی اپنی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ پہلے خشک سالی اب معمول ہے زیادہ بارشوں کے نتیجے میں سیلاب تو دوسری طرف سطح سمندر میں اضافے کے خطرات سے ملک کی ساحلی پٹی پر بسنے والے شدید خطرات کی زد میں آچکے ہیں۔
ماضی میں کئی برسوں میں ایک ٹراپیکل سائیکلون بنتا تھا مگر اب سال میں 2 سے3 سائیکلون بننا عام سی بات ہو چکی ہے۔ سینٹر فار دی اسٹڈی آف ایکسی ٹیشنل رسک یونیورسٹی آف کیمبرج برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ہوش اڑا دینے والی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی حدت کی وجہ سے انسانوں کا خاتمہ عین ممکن ہے جس کے بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔
تحقیق کاروں کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت معاشرے اور انسانیت کے لیے تباہ کن خطرہ بن سکتا ہے ۔ تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر لیوک کیمپ اور ان کے ساتھیوں نے دنیا کی حکومتوں سے کہا ہے کہ '' وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو اس امکان کے لیے تیار کرلیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں زمین پر انسانوں کی معدومیت کا سبب بن سکتی ہیں اور اس بات پر یقین کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔''
ایک اندازے کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر0.5 فیصد کا نقصان ہو رہا ہے۔ جس تیزی سے یہ تبدیلیاں ملک پر اپنے منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں، ان نقصانات میں اضافہ بڑھتا جائے گا جس کی متحمل ہمارے جیسی کمزور معیشت ہر گز نہیں ہو سکتی۔ اب سوچنے اور نصیحت کرنے کا وقت تیزی سے ختم ہو تا جا رہا ہے۔ اب بنیادی اور مرکزی کردار ہماری سیاسی اشرافیہ اور پالیسی سازوں کو ادا کرنا ہو گا۔
مرکزی اور صوبائی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر حکمت عملیاں اس خیال کے ساتھ ترتیب دینا ہوں گی کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب ہر سال کرنا پڑے گا۔ میڈیا کے تمام شعبوں کو سوشل ریسپانسیبلٹی کے تحت عوام کو زیادہ سے زیادہ آگہی دینا ہوگی۔ اربوں روپے کمانے والی صنعتوں اور اداروں کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈ مختص کرنا ہوں گے۔
شہرہ آفاق سائنس دان اسٹیفن ہاکن نے اپنی آخری تقریر میں کہا تھا کہ '' تم سب زمین کی پیداوار ہو زمین پر زمین کے قدرتی ماحول میں ہی تمہاری سلامتی ہے۔'' ہمارے ملک کے ارباب اختیار اور اشرافیہ جان لے کہ ماحولیاتی تحفظ میں ہی ہماری سلامتی ہے۔