شیکسپیئر کے دیس سے

ولیم شیکسپیئر نے اپنی تحریروں اور ڈائیلاگ میں جس دانش کے پھول بکھیرے ہیں وہ علم و ادب کا عظیم خزانہ ہیں


سرور منیر راؤ August 21, 2022
[email protected]

ایک تحقیقی کام کے سلسلے میں مجھے برمنگھم کے قریب واروک شائرکاونٹی میں واقع ولیم شیکسپیئر کے آبائی گاؤں جانے کا موقع ملا۔ولیم شیکسپیئر کے نام اور کام سے سبھی اہل علم اور خصوصی طور پر انگریزی ادب سے متعلق افراد بخوبی آگاہ ہیں۔

ولیم شیکسپیئر کو برطانیہ کے قومی شاعر کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس کے لکھے ہوئے ڈراموں کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ شیکسپیئر کا ڈرامہ ''رومیو اور جولیٹ''دنیائے ادب کی تاریخ میں ایک حوالہ بن گیا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ برطانوی قوم نے اپنے اس ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیا خوب طریقہ اختیار کیا ہے۔

انھوں نے جس طرح اس گاؤں کے ساتھ ساتھ شیکسپیئر کے گھر اور رہائشی علاقے کو قومی ورثہ قرار دیا ہے وہ قابل تقلید ہے۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ شیکسپیئر کے ورثے کو آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کیا ہے بلکہ اس کے گاؤں کو اس قدر خوبصورت اور دلکش بنا دیا ہے کہ یہاں اگر آپ ایک ہفتہ سے زیادہ بھی قیام کرنا چاہیں تو بوریت محسوس نہ ہوگی۔

برمنگھم سے ''واروکشائر''تک کے راستے میں انگور اور دوسرے پھلوں کے خوبصورت باغات ہیں۔سرسبز مناظر سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ برمنگھم میں ولیم شیکسپیئر کے آبائی گاؤں کے درمیان نصف مسافت پر سڑک کے کنارے '' ہی نلے ''کا قصبہ ہے، یہاں کی ہینڈ میڈ آئس کریم کھائے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔

روایات کے مطابق شیکسپیئر کا جب بھی یہاں سے گزر ہوتا وہ اس جگہ آئسکریم ضرور کھاتے تھے۔ شیکسپیئر کے شیدائی اس روایت پر عمل کرتے ہیں۔ہم نے بھی یہاں رک کر آئسکریم کھائی اور تصاویر بنوائیں۔سرراہ یہاں رک کر آئس کریم کھانا کئی اعتبار سے ایک یادگار لمحہ ہے۔

ولیم شیکسپیئر کے آبائی قصبے کا پورا نام ''اسٹراٹفورڈ ایوان''ہے۔اس قصبے کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت جیل بھی ہے جس میں دن کے وقت سیاح کشتی رانی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ خوابناک قصبہ صدیوں پرانی یادوں کو محفوظ کیے ہوئے ہے کہ یہاں آ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ زمانہ قدیم میں پہنچ گئے ہیں ۔ اس قدیم ماحول میں تمام جدید سہولیات موجود ہیں۔یہاں فائیو اسٹار ہوٹل، ریسٹورنٹس اور ہر عمر کے افراد کے لیے تفریح کا سامان موجود ہے۔

برطانیہ کی نوجوان نسل کو ولیم شیکسپیئر سے روشناس کرانے کے لیے مختلف اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز کے طالب علموں کو گروپ کی شکل میں اس گاؤں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ولیم شیکسپیئر ایک ایسا شاعر اور مصنف تھا جس کی تحریروں نے ادب سے متعلق سبھی مصنّفین، ڈرامہ نگاروں اور تخلیق کاروں کو متاثر کیا ہے۔

برطانیہ کے شہر برمنگھم سے پون گھنٹے کی مسافت پر واقعہ ولیم شیکسپیئر کا آبائی گاؤں دنیا بھر کے سیاحوں اور اہل علم افراد کے لیے خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ قصبہ گزشتہ پانچ سو سال سے شیکسپیئر کے متوالوں کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔ خصوصی طور پر ہفتہ اور اتوار کو اس قصبے میں وہ علاقہ جہاں شیکسپیئر کی ولادت ہوئی، رہائش رکھی یا جہاں اس کی تدفین ہوئی وہاں شیکسپیئر کے متوالے اور چاہنے والوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔

ولیم شیکسپیئر نے اپنی تحریروں اور ڈائیلاگ میں جس دانش کے پھول بکھیرے ہیں وہ علم و ادب کا عظیم خزانہ ہیں۔شیکسپیئر نے تھیٹر اور ڈرامے کی صنف کو ایک نئی جہت اور جلا بخشی۔ اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کے لیے نہ صرف تفریح کا سامان مہیا کیا بلکہ برطانوی سماجیات کے مختلف پہلو کو انتہائی دانشمندی سے اجاگر بھی کیا۔شیکسپیئر کی شخصیت اور اس کے کام پر دنیا بھر میں ہزارہا تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی گی ہیں۔

پانچ سو سال گزر جانے کے بعد بھی شیکسپیئر کا تاریخی گھر اپنے تعمیراتی حسن کو برقرار رکھے ہوئے ہے، یہ گھر اپنے دور کی ایک عظیم عمارت تھا۔ تیرہ سال کی عمر تک شیکسپیئر اسی گھر میں رہے ۔ یہ گھر گاؤں کی جس گلی میں ہے اس کا نام''اسپیکر اسٹریٹ'' ہے۔آپ جب اس گلی میں داخل ہوتے ہیں تو شیکسپیئر کی تحریروں اور ڈراموں کے مختلف کردار کہیں مجسموں اور کہیں زندہ افراد شیکسپیئر کے کرداروں کا روپ دھار کر کھڑے نظر آئیں گے۔خصوصا ہفتہ اور اتوار کے دن پوری گلی ایک میلے کا سماں پیش کرتی ہے۔ لوگ ان کرداروں کے سامنے کھڑے ہوکر تصاویر بنواتے ہیں، میوزک کی دھن پر رقص کرتے ہیں، اکثر جگہوں پر سوینئر کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔

گلی میں بچوں کی تفریح کے لیے بھی خاطر خواہ انتظام کیا گیا ہے۔پوری گلی تاریخی حوالوں کے ساتھ ساتھ تفریح کا ایک منظر نامہ ہے۔سیاح شیکسپیئر کے گھر کے اندر ایک طرف سے داخل ہوتے ہیں اور دیکھنے کے بعد دوسری طرف سے باہر نکل جاتے ہیں۔ شیکسپیئر کے گھر کے اندر ایک جگہ پیتل کی پلیٹ پر کارونگ کی ہوئی علامہ اقبال کے تصویر نمایاں طور پر لگی ہوئی ہے۔ اس تصویر کے نیچے علامہ اقبال نے شیکسپیئر کے بارے میں جو کہا ہے وہ لکھا ہے۔ علامہ اقبال کی یہ پذیرائی دیکھ کر ہر پاکستانی سیاح خوشی کا اظہار کرتا ہے ۔

ولیم شیکسپیئر ایک امیر آدمی تھے۔ بچپن میں شیکسپیئر نے بڑی خوشحالی دیکھی اسے ایک جاگیردار اور تاجر کا بیٹا تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن جب شیکسپیئر جوان ہوا تو اس نے والد کے کاروبار میں دلچسپی نہ لی جس وجہ سے کاروبار کو نقصان اٹھانا پڑا۔مالی مشکلات کی وجہ سے شیکسپیئر کی تعلیم بھی متاثر ہوئی۔انھی مشکلات کی وجہ سے شیکسپیئر کو ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ اس نے عملی زند گی کا آغازا سکول ٹیچر کے طور پر کیا۔شیکسپیئر نے اسی تنخواہ سے اپنے خاندان کی کفالت کی۔بعد میں وہ لندن چلا گیا اور وہاں ایک اداکار کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ لندن ہی میں انگلینڈ کے پہلے تھیٹر ''دی تھیٹر''میں اس کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئی اور اس نے ڈرامہ نگاری شروع کی اور روشن مقام حاصل ہوا۔

شیکسپیئر نے اڑتالیس سال کی عمر میں تصنیف و تالیف سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور واپس اپنے گاؤں چلا گیا۔شیکسپیئر کا انتقال اسی آبائی گاؤں میں ہوا اور یہاں ہی تدفین ہوئی۔ شیکسپیئر کو گاؤں کے ایک چرچ کے صحن میں دفن کیا گیا۔ اس چرچ کے چاروں طرف اب ایک قدیم قبرستان ہے، اس شہر کی قدیم تاریخ کی نشانی ہیں۔شیکسپیئر کا شمار دنیا کے ان چند نامور افراد میں ہوتا ہے جو موت کے بعد بھی زندہ ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے لوگ ولیم شیکسپیئر کو جس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں یا علم و ادب کی تاریخ میں وہ جس طرح زندہ ہیں اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں