روس یوکرائن جنگ نئے خدشات
تیل، گندم اور اسٹیل سمیت دیگر خام مال کی بڑی مارکیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے
روس اور یوکرائن کی جنگ خاصی طویل ہوگئی ہے، روس کی قیادت نے جو اہداف بنائے تھے، وہ شاید پورے نہیں ہوئے، روس کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ وہ چند روز میں یوکرائن میں اپنے اہداف حاصل کرکے وہاں اپنی حامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن امریکا اور نیٹو ممالک اور یورپی یونین کی حمایت اور امداد نے یوکرائن آرمی کو نئی طاقت بخشی جس کی وجہ سے وہ اب تک روسی فوج سے لڑ رہی ہے۔
گو جنگ میں روس کا پلڑا اب بھی بھاری ہے لیکن اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو حالات سنگین ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ روس نے یوکرائن کے پاور پلانٹس کو بھی نشانہ بنایا ہے، اب خطرہ ہے کہ کہیں یوکرائن کے ایٹمی پلانٹ کو نشانہ نہ بنادیا جائے ، ایسا ہوا تو حالات انتہائی سنگین ہوجائیں گے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے روس اور یوکرین کی لڑائی میں زاپوریزیا کے ایٹمی پلانٹ پر ممکنہ حملے کو خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک سمٹ کے دوان یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی اور ترک صدر طیب اردوان سے ملاقات کی، میڈیا کے مطابق اس ملاقات کے دوران انھوں نے جنوبی یوکرین کے شہر زاپوریزیا پر ممکنہ حملے سے متعلق بات بھی کی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ زاپوریزیا کے نزدیک قائم ایٹمی پلانٹ پر حملہ خودکشی ہوگا۔ یوکرین کے شہر کیف پر حملے کے بعد یوکرینی صدر اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی یہ پہلی ملاقات تھی۔
یوکرین کے صدر نے پاور پلانٹس پر ہونے والے حالیہ حملوں کو روس کی سوچی سمجھی کارروائی قرار دیا ہے۔ روس نے یوکرین کے جنوب مشرقی شہر زاپوریزیا میں جوہری پلانٹ کے اردگرد کے علاقے سے فوجیں ہٹانے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
روس نے اپنے دشمن ممالک کو دھمکی دی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہنگامی حالات میں ہی ممکن ہے۔اس کا مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ روس یوکرائن میں ایٹمی پلانٹ کو نشانہ بنا سکتاہے، اس پر یورپ میں خاصی تشویش پائی جارہی ہے۔ یوکرین کے صدرنے اقوام متحدہ کے سربراہ اور ترکیہ کے صدرکے ساتھ روس کے ساتھ تنازعہ کے خاتمے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ادھر بھارت ، روس سے سستا تیل خرید رہا ہے ، بھارت کی اس پالیسی پر ایک بار پھر امریکا کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈپرائس نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ بھارت کو روس سے دوری اختیار کرنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنا ہو گی تاہم اس کے لیے کافی وقت درکار ہو گا۔ نیڈ پرائس نے اس بات کا اقرار کیا کہ بھارت روس سے فوراً دوری اختیار نہیں کر سکتا، اس میں وقت لگے گا۔
بھارت اور روس کی مشترکہ فوجی مشقوں اور فضائی، دفاعی نظام کی خریدنے کے سوال پر کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہر ملک اپنی سلامتی سے متعلق فیصلے اپنے مفادات اور اپنی اقدار کی بنیاد پر کرتا ہے۔ تاہم امریکا واضح کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے مشترکہ مفادات اور ہماری مشترکہ اقدار اکثر کس طرح ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک شراکت داری سے حاصل ہونے والے منافع کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔
یوکرین کے صدر نے مارچ کے اواخر میں برسلز میں یورپین کونسل کے اجلاس سے خطاب کے دوران یورپی ممالک کی قیادت سے شکوہ کیا تھا کہ انھوں نے روس کو یوکرائن پر حملہ کرنے سے روکنے میں تاخیر کی تھی۔ یوکرائن کا صدر کا شکوہ بجا تھا لیکن یہ شکوہ اس وقت کیا گیا جب روس یوکرائن پر حملہ کرچکا تھا۔
یوکرین پر حملے کے بعد امریکا اور یورپی ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے مغربی یورپ اور دنیا کے ایسے ممالک جن کی تجارت کا دارومدار روس اور یوکرائن پر ہے، انھیں شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جو اب تک جاری ہے، اس وقت عالمی اداروں کا کہنا تھا کہ پابندیوں سے صرف روس نہیں دیگر ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے ابتدائی دنوں میں نیٹو کی جانب سے غیر جانبدار رہنے کے بیانا ت سامنے آتے رہے لیکن پھرنیٹو اتحاد کی خفیہ سرگرمیاں شروع ہوئی اور نیٹو اس جنگ کا براہ راست نہ سہی لیکن خفیہ طور پر یوکرین کی حمایت میں اس جنگ کا حصہ بن چکا ہے۔
روس کی فوج جس وقت یوکرین میں فوجی آپریشن کررہی تھی اس وقت نیٹو اپنی ایک رسپانس فورس تیار کرچکی تھی ، اس کے علاوہ نیٹو نے پہلی بار مشرقی یورپی ممالک میں اپنی فوجیں بھی اکٹھی کرلی ہیں جنھیں خاص طور پر روس کے خلاف ٹرپ وائر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے ، نیٹو نے بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اپنی فضائی پولیسنگ کو بھی بڑھا دیا ہے۔
یوکرین اور روس کے مابین مسلح جنگ یورپ کو بری طرح متاثر کر رہی ہے بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا خطہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے ، اگر روس اور یوکرین جنگ نے مزید طول کھینچا تو مغربی یورپی ممالک کی معیشت مزید ڈاؤن ہوسکتی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجہ میں گندم اور پٹرول کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب روس اور یوکرین سے ایکسپورٹ ہونے والی دیگر اشیا کی طلب و رسد میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
تیل، گندم اور اسٹیل سمیت دیگر خام مال کی بڑی مارکیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں خام مال کی قیمت میں اضافے سے کئی شعبے براہ راست متاثر ہوں گے۔ یوکرین دنیا میں گندم برآمد کرنے کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں چودہ ممالک ایسے ہیں جہاں یوکرین سے درآمد کی جانے والی گندم کی شرح کل کھپت کے دس فیصد سے زیادہ ہے۔
صدیوں سے یوکرین مشرقی افریقہ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو اناج کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اسی لیے یورپ والے یوکرین کو اپنی بریڈ باسکٹ کہتے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جنگ کے بعد اب یورپ کی بریڈ باسکٹ روس کے شکنجہ میں آگئی ہے جس کے متعلق فرانس کے صدر کہہ چکے ہیں کہ ''جنگ ایک بار پھر یورپ لوٹ آئی ہے، روس اور یوکرین کی جنگ طویل ہوگی جس کے زراعت کی دنیا پر اثرات ناگزیر ہیں۔''
اس تنازعے کا براہ راست اثر جو پاکستان پر پڑ سکتا ہے ، وہ گندم کی قیمت، پاکستان یوکرین سے سستی درآمد کرتا رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے یوکرین سے 13لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی جو کہ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کی کل درآمدات کا 40 فیصد بنتا ہے، اگر یوکرین سے گندم کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا ہے تو پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور گندم دیگر ممالک سے مہنگے داموں درآمد کرنی پڑ سکتی ہے۔
جب روس یوکرائن جنگ شروع ہوئی تھی ، تب آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے اثرات دنیا کی معیشت پر پڑیں گے ، عالمی ترقی کی رفتار میں کمی، مہنگائی میں اضافے کی شکل میں سامنے آئیں گے۔ پناہ گزینوں کی لہر اور دوسرے انسانی مسائل کے علاوہ اس جنگ سے افراط زر بڑھے گا۔ خوراک اور توانائی کی اشیا مہنگی جب کہ آمدنی کی قدر کم ہو گی۔ علاقائی اقتصادی ترقی میں کمی کا خدشہ ہے۔ سیاحت ، تجارت سمیت مختلف میدانوں میں دبائو کو محسوس کیا جائے گا۔
بلاشبہ روس اور یوکرین کا تصادم عالمی معیشت کے لیے ایک دھچکا ہے جس سے پیداواری شعبہ متاثر ہو رہا ہے اور اشیائے خورونوش کے نرخ بڑھ رہے ہیں ، جنگ مزید جاری رہتی ہے تو یوکرین تباہ ہوکر افغانستان بن سکتا ہے جب کہ روس کی اپنی معیشت مفلوج ہوجائے گی ، اس کے پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے۔ روس کی ناکہ بندی، امریکا عالمی صف بندی کا حصہ ہے اور نئی سرد جنگ میں تیزی کا اظہار ہے۔
نیٹو کی مزید توسیع کے خلاف روسی ڈٹ گئے ہیں ۔ یہ تلخ حقیقت کہ گلوبلائزڈ ورلڈ اور عالمی سپلائی چینز کی محتاج عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے دور میں اقتصادی پابندیاں پوری عالمی منڈی کو متاثر کرتی ہیں۔ روس متاثر ہو گا تو مغربی دنیا بھی متاثر ہوگی۔ ایک رائے یہ بھی بنائی جا رہی ہے کہ یو کرینی صدر میں تدبر اور دُور اندیشی کی کمی ہے۔ اس لیے اُنھوں نے روس کے بار بار انتباہ کے باوجود نیٹو میں شمولیت اختیار کی اور امریکا سے مشورے کیے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
سب سے پہلے امریکا نے جھنڈی دکھائی، امریکا نے مدد سے صاف انکار کر دیا۔ نیٹو کے تیس ممالک روس سے نیچرل گیس لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی درآمدت، برآمدات ان ممالک کے مابین ہے لہٰذا نیٹو کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ براہ راست روس کے ساتھ جنگ میں الجھے لیکن وہ یوکرائن کو فوجی و اقتصادی مدد فراہم کرکے روس کو کنگال کرنے کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔
گو جنگ میں روس کا پلڑا اب بھی بھاری ہے لیکن اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو حالات سنگین ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ روس نے یوکرائن کے پاور پلانٹس کو بھی نشانہ بنایا ہے، اب خطرہ ہے کہ کہیں یوکرائن کے ایٹمی پلانٹ کو نشانہ نہ بنادیا جائے ، ایسا ہوا تو حالات انتہائی سنگین ہوجائیں گے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے روس اور یوکرین کی لڑائی میں زاپوریزیا کے ایٹمی پلانٹ پر ممکنہ حملے کو خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک سمٹ کے دوان یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی اور ترک صدر طیب اردوان سے ملاقات کی، میڈیا کے مطابق اس ملاقات کے دوران انھوں نے جنوبی یوکرین کے شہر زاپوریزیا پر ممکنہ حملے سے متعلق بات بھی کی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ زاپوریزیا کے نزدیک قائم ایٹمی پلانٹ پر حملہ خودکشی ہوگا۔ یوکرین کے شہر کیف پر حملے کے بعد یوکرینی صدر اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی یہ پہلی ملاقات تھی۔
یوکرین کے صدر نے پاور پلانٹس پر ہونے والے حالیہ حملوں کو روس کی سوچی سمجھی کارروائی قرار دیا ہے۔ روس نے یوکرین کے جنوب مشرقی شہر زاپوریزیا میں جوہری پلانٹ کے اردگرد کے علاقے سے فوجیں ہٹانے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
روس نے اپنے دشمن ممالک کو دھمکی دی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہنگامی حالات میں ہی ممکن ہے۔اس کا مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ روس یوکرائن میں ایٹمی پلانٹ کو نشانہ بنا سکتاہے، اس پر یورپ میں خاصی تشویش پائی جارہی ہے۔ یوکرین کے صدرنے اقوام متحدہ کے سربراہ اور ترکیہ کے صدرکے ساتھ روس کے ساتھ تنازعہ کے خاتمے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ادھر بھارت ، روس سے سستا تیل خرید رہا ہے ، بھارت کی اس پالیسی پر ایک بار پھر امریکا کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈپرائس نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ بھارت کو روس سے دوری اختیار کرنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنا ہو گی تاہم اس کے لیے کافی وقت درکار ہو گا۔ نیڈ پرائس نے اس بات کا اقرار کیا کہ بھارت روس سے فوراً دوری اختیار نہیں کر سکتا، اس میں وقت لگے گا۔
بھارت اور روس کی مشترکہ فوجی مشقوں اور فضائی، دفاعی نظام کی خریدنے کے سوال پر کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہر ملک اپنی سلامتی سے متعلق فیصلے اپنے مفادات اور اپنی اقدار کی بنیاد پر کرتا ہے۔ تاہم امریکا واضح کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے مشترکہ مفادات اور ہماری مشترکہ اقدار اکثر کس طرح ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک شراکت داری سے حاصل ہونے والے منافع کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔
یوکرین کے صدر نے مارچ کے اواخر میں برسلز میں یورپین کونسل کے اجلاس سے خطاب کے دوران یورپی ممالک کی قیادت سے شکوہ کیا تھا کہ انھوں نے روس کو یوکرائن پر حملہ کرنے سے روکنے میں تاخیر کی تھی۔ یوکرائن کا صدر کا شکوہ بجا تھا لیکن یہ شکوہ اس وقت کیا گیا جب روس یوکرائن پر حملہ کرچکا تھا۔
یوکرین پر حملے کے بعد امریکا اور یورپی ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے مغربی یورپ اور دنیا کے ایسے ممالک جن کی تجارت کا دارومدار روس اور یوکرائن پر ہے، انھیں شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جو اب تک جاری ہے، اس وقت عالمی اداروں کا کہنا تھا کہ پابندیوں سے صرف روس نہیں دیگر ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے ابتدائی دنوں میں نیٹو کی جانب سے غیر جانبدار رہنے کے بیانا ت سامنے آتے رہے لیکن پھرنیٹو اتحاد کی خفیہ سرگرمیاں شروع ہوئی اور نیٹو اس جنگ کا براہ راست نہ سہی لیکن خفیہ طور پر یوکرین کی حمایت میں اس جنگ کا حصہ بن چکا ہے۔
روس کی فوج جس وقت یوکرین میں فوجی آپریشن کررہی تھی اس وقت نیٹو اپنی ایک رسپانس فورس تیار کرچکی تھی ، اس کے علاوہ نیٹو نے پہلی بار مشرقی یورپی ممالک میں اپنی فوجیں بھی اکٹھی کرلی ہیں جنھیں خاص طور پر روس کے خلاف ٹرپ وائر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے ، نیٹو نے بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اپنی فضائی پولیسنگ کو بھی بڑھا دیا ہے۔
یوکرین اور روس کے مابین مسلح جنگ یورپ کو بری طرح متاثر کر رہی ہے بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا خطہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے ، اگر روس اور یوکرین جنگ نے مزید طول کھینچا تو مغربی یورپی ممالک کی معیشت مزید ڈاؤن ہوسکتی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجہ میں گندم اور پٹرول کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب روس اور یوکرین سے ایکسپورٹ ہونے والی دیگر اشیا کی طلب و رسد میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
تیل، گندم اور اسٹیل سمیت دیگر خام مال کی بڑی مارکیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں خام مال کی قیمت میں اضافے سے کئی شعبے براہ راست متاثر ہوں گے۔ یوکرین دنیا میں گندم برآمد کرنے کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں چودہ ممالک ایسے ہیں جہاں یوکرین سے درآمد کی جانے والی گندم کی شرح کل کھپت کے دس فیصد سے زیادہ ہے۔
صدیوں سے یوکرین مشرقی افریقہ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو اناج کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اسی لیے یورپ والے یوکرین کو اپنی بریڈ باسکٹ کہتے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جنگ کے بعد اب یورپ کی بریڈ باسکٹ روس کے شکنجہ میں آگئی ہے جس کے متعلق فرانس کے صدر کہہ چکے ہیں کہ ''جنگ ایک بار پھر یورپ لوٹ آئی ہے، روس اور یوکرین کی جنگ طویل ہوگی جس کے زراعت کی دنیا پر اثرات ناگزیر ہیں۔''
اس تنازعے کا براہ راست اثر جو پاکستان پر پڑ سکتا ہے ، وہ گندم کی قیمت، پاکستان یوکرین سے سستی درآمد کرتا رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے یوکرین سے 13لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی جو کہ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کی کل درآمدات کا 40 فیصد بنتا ہے، اگر یوکرین سے گندم کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا ہے تو پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور گندم دیگر ممالک سے مہنگے داموں درآمد کرنی پڑ سکتی ہے۔
جب روس یوکرائن جنگ شروع ہوئی تھی ، تب آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے اثرات دنیا کی معیشت پر پڑیں گے ، عالمی ترقی کی رفتار میں کمی، مہنگائی میں اضافے کی شکل میں سامنے آئیں گے۔ پناہ گزینوں کی لہر اور دوسرے انسانی مسائل کے علاوہ اس جنگ سے افراط زر بڑھے گا۔ خوراک اور توانائی کی اشیا مہنگی جب کہ آمدنی کی قدر کم ہو گی۔ علاقائی اقتصادی ترقی میں کمی کا خدشہ ہے۔ سیاحت ، تجارت سمیت مختلف میدانوں میں دبائو کو محسوس کیا جائے گا۔
بلاشبہ روس اور یوکرین کا تصادم عالمی معیشت کے لیے ایک دھچکا ہے جس سے پیداواری شعبہ متاثر ہو رہا ہے اور اشیائے خورونوش کے نرخ بڑھ رہے ہیں ، جنگ مزید جاری رہتی ہے تو یوکرین تباہ ہوکر افغانستان بن سکتا ہے جب کہ روس کی اپنی معیشت مفلوج ہوجائے گی ، اس کے پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے۔ روس کی ناکہ بندی، امریکا عالمی صف بندی کا حصہ ہے اور نئی سرد جنگ میں تیزی کا اظہار ہے۔
نیٹو کی مزید توسیع کے خلاف روسی ڈٹ گئے ہیں ۔ یہ تلخ حقیقت کہ گلوبلائزڈ ورلڈ اور عالمی سپلائی چینز کی محتاج عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے دور میں اقتصادی پابندیاں پوری عالمی منڈی کو متاثر کرتی ہیں۔ روس متاثر ہو گا تو مغربی دنیا بھی متاثر ہوگی۔ ایک رائے یہ بھی بنائی جا رہی ہے کہ یو کرینی صدر میں تدبر اور دُور اندیشی کی کمی ہے۔ اس لیے اُنھوں نے روس کے بار بار انتباہ کے باوجود نیٹو میں شمولیت اختیار کی اور امریکا سے مشورے کیے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
سب سے پہلے امریکا نے جھنڈی دکھائی، امریکا نے مدد سے صاف انکار کر دیا۔ نیٹو کے تیس ممالک روس سے نیچرل گیس لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی درآمدت، برآمدات ان ممالک کے مابین ہے لہٰذا نیٹو کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ براہ راست روس کے ساتھ جنگ میں الجھے لیکن وہ یوکرائن کو فوجی و اقتصادی مدد فراہم کرکے روس کو کنگال کرنے کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔