اسے پاکستان کی تاریخ سے مت نکالو
مغربی پاکستان کی اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کے مفادات اور نظریات کچھ اور تھے، صرف ایوب خان گیا تھا، اس کی لیگیسی موجود تھی
پندرہ اگست 1975کی وہ شام مجھے اب بھی یاد ہے جب شیخ مجیب کو بمع خاندان ڈھاکا میں مارا گیا تھا۔ میری عمر بارہ سال ہوگی، والد پابند سلاسل تھے، بھٹو صاحب کا زمانہ تھا ، ابھی جلاوطنی ختم کرکے لندن سے کراچی پہنچے ۔کچھ دو ہفتوں بعد شاید حکومت کے کان کھڑے ہوئے۔
لگ بھگ دس پولیس والوں کا جتھہ ہمارے گاؤں آ پہنچا ، ایک معقول سی گاڑی میں ابا کراچی ان کی تحویل میں پہنچے، جس کی تصدیق نو بجے کی پی ٹی وی خبرنامے میں بھی ہوئی، جیل نہیں بھیجا ، بس نظر بند ہی کیا، پہلے ہل ٹاپ کے پاس ایک انگریز خاتون کا گھر تھا جو خالی تھا، جو ان کے شوہر بیوی کے لیے چھوڑ گئے تھے، غالبا اولاد نہیں تھی ان کی۔ ایک دو ماہ بعد گھارو کے ریسٹ ہاؤس میں رکھا۔
قید کیسی بھی ہو قید ہی ہوتی ہے، دشت تنہائی اتنی کے ابا کہتے اس سے بہتر تو جیل تھی کہ بہت سے سیاسی قیدی بھی ہوتے ہیں جن سے بات چیت ، ہنسی مذاق رہتا ہے۔ مگر یہاں، ایک عدد ٹیلی ویژن ، ڈھیر سارے اخبار اور ریڈیو بہرحال ان کے پاس تھے، باورچی ہم نے اپنے گاؤں سے بھیجا تھا، جو ابو کے مزاج کو سمجھتا تھا ، انھیں صبح ورزش اور شام کو لمبی چہل قدمی کی عادت تھی، کبھی ہر ہفتہ کی شام کو بھنبھور کے اجڑے ، ٹوٹے پھوٹے پرانے زمانوں پر گذارنے کی ان کو اجازت تھی ۔ سسی یہاں سے چلی تھی ،پنوں جب اس سے بچھڑا تھا صدیوں پرانا یہ قصہ ہے۔
بھنبھور گھارو سے کچھ ہی میل کے فاصلے پر تھا۔ خیر ان فرصت کے زمانوں میں ابا نے اپنی سوانح حیات مکمل کرلی، جو سندھی زبان میں ان کے دو ناولوں کے علاوہ ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ اب اس کا اردو ترجمہ ہمارے ڈاکٹر جعفر احمد اور ان کے ادارے کی کاوشوں سے رواں سال ہی مارکیٹ میں آجائے گا۔ اس میں آدھی داستان ان کے سیاسی سفر کی ہے جس میں خود شیخ مجیب اور عوامی لیگ سے ان کی وابستگی کی باتیں بھی ہیں۔
مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا ،کچھ اس طرح کہ جیسے زخم سا ہو جو بھرتا نہیں ہے ، غالبا یہ پندرہ اگست ہی تھی یا ایک دو دن آگے پیچھے جب ہمارے چچا زاد بھائی آصف پکنک کوگئے اور روہڑی کینال میں ڈوب کے جاں بحق ہوئے، ان کی عمر اس وقت تیس سال تھی، ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اب یہ خبر ابا کو کون بتائے ، نہ فون پر ان سے رابطہ ہوسکتا تھا نہ ہی ہم نے مناسب سمجھا ۔ ابا دو سال جلاوطنی کے گزار کے واپس آئے تھے۔
اس میں سے چند مہینے وہ بنگلہ دیش کے ریاستی مہمان رہے پھر وہاں سے کابل پہنچے جہاں اجمل خٹک ٹھہرے ہوئے تھے انھوں نے افغانستان کا پاسپورٹ تھمایا اور وہ لندن روانہ ہوئے ، لندن جاکے خوب بھٹو حکومت کے خلاف پمفلٹ چھاپے ، ان کے یاروں میں اجمل خٹک ، عطا اللہ مینگل ، میر غوث بخش بزنجو یہ سب تھے، پاکستان میں چھوٹی قوموں کے حقوق کی جلاوطنی میں آواز بلند کی، پھر سمجھ گئے ایسی باتیں جلاوطنی میں نہیں کی جاتیں ۔ جلا وطنی سے وطن میں قید ہونا لاکھوں درجے بہتر ہے۔ یہ وہی بھٹو تھے ، جنھوں نے ان کو جہاز سے اتارا تھا ،جب وہ والدہ کے ساتھ عمرے پر جارہے تھے اور پھر ان کو بارڈر کراس کروا کے ہندوستان سے بنگلہ دیش پھر کابل اور لندن میں جلاوطنی گزارنی پڑی اور واپس آکے انھیں قید کی صعوبت کو بہتر جانا۔
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اس کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فر پہ دم نکلے
گھر میں دو بیانیے تھے، ایک بھٹو کا بیانیہ تھا جو چاچا اور گاؤں والے حویلی کا سکہ رائج الوقت تھا، چچا ہمارے بمبئی بورڈ سے گولڈ میڈلسٹ تھے، کریمنل مقدمات کے بہت بڑے وکیل تھے اور بڑے زمیندار بھی تھے، سندھ اسمبلی میں بلا مقابلہ ممبر بنے مگر ان کے بیٹے آصف جو سب سے بڑے تھے وہ ''تایا ابا'' (ہمارے والد کے بیٹے تھے) وہ ابا کے بیانیے کو لے چلے ، گاؤں کے بیانیے کو ٹھکرایا۔ جب ستر کے انتخابات ہوئے تو نوابشاہ سے حاکم علی زرداری کے مقابلے میں عوامی لیگ کے ٹکٹ سے ابا الیکشن لڑے تھے۔
عوامی لیگ کا نشان کشتی تھا ۔ اور انتخابی مہم میں گانا چلتا تھا ''میری کشتی پار لگا دینا ،اے میرے مولا علی، شیر خدا'' مجھے وہ سب یاد ہے۔ ایک میلے کا سماں تھا، پتہ تھا ہم ہاریں گے، بھٹو کو تو مشرقی پاکستان میں ایک بنگالی بھی نہ ملا جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑتا مگر یہاں عوامی لیگ کی ٹکٹ پر ہر صوبے سے لوگ کھڑے ہوئے تھے بمع عاصمہ جہانگیر کے والد ملک جیلانی۔
آصف کے انتقال کی خبر کس طرح ابا کو بتائی جائے ، اس کی تدفین کے بعد خاندان کے کچھ لوگوں کو ابا کے پاس جانے کا فیصلہ ہوا تاکہ صبح اخبار پہنچنے سے پہلے ہم وہاں موجود ہوں ابھی ہم حیدر آباد پہنچے تھے کہ شام تک یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ شیخ مجیب کو بمع تمام خاندان ماردیا گیا ہے۔ اب تو ہمارے لیے دو سانحات تھے ،ایک آصف کا اور دوسرا شیخ مجیب کا اور اس سے بھی بری خبر کے گھارو کے اس ریسٹ ہاؤس میں تنہا پڑے اس شخص کو کیسے سنبھالا جائے۔
ایک طرف اس کے یار کا اپنی اولاد سمیت مارا جانا ہے اور دوسرا ان کے بیٹوں جیسا بھتیجہ آصف۔ یوں کرتے کرتے ہم سب خاندان والے حیدرآباد جمع ہوگئے کہ صبح کو ابا کے پاس پہنچے جس میں ہماری والدہ بھی تھی، بس چچا اور اس کے خاندان کے گاؤں چھوڑا۔
ریسٹ ہاؤس میں اخبارات آنے سے پہلے ہم وہاں پہنچے ، شیخ مجیب کے قتل کی خبر پڑھ چکے تھے ، ان کے آنسو تھے کہ تھمتے نہیں تھے، دھان منڈی کا وہ گھر جہاں اسے قتل کیا گیا تھا بمع خاندان ، وہ ابا کا ہی تو گھر تھا جہاں وہ ٹھہرتے، بہت سارا وقت گزارتے تھے۔ میں جب دھان منڈی کے اس گھر گیا جو اب میوزیم ہے وہاں غالبا واحد ابا کی ہی شیخ مجیب کے تصویر آویزاں ہے ۔
ہر اک قدم اجل تھا ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچہ قاتل سے آئے ہیں
ابا کو تو شیخ مجیب کے جانے کے بعد، ایک چپ سی لگ گئی تھی اور باقی ایا م سیاست ترک تعلق کرکے ادبی کاموں سے لگ گئے ، وکالت ٹوٹ پھوٹ گئی اور بڑھاپا بڑھتا گیا ، کچھ ہی سالوں میں یہ سارے غم لے کے وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔
پچھلے سال شیخ مجیب کو سو سال پورے ہوئے وہ ان کے بنگلا باندھو کہتے ہیں ، جس طرح ہمارے جناح صاحب ہیں، مگر شیخ مجیب ان کی رگوں میں رہتا ہے۔ ان کا لاشعور ہے اور ہمارے ہاں جناح جو ہے ہمارے لیے اجنبی ٹھہرتے ہیں۔
اس بار میں نے چاہا کہ پندرہ اگست کو ایک کالم لکھوں گا، لیکن میرا کالم اس دن چھپتا نہیں ، اس لیے آج لکھنا مناسب سمجھا ۔ یہ وہ شخص ہے جس کی 1935سے سیاسی جدو جہد پاکستان کی آزادی کے لیے تھی، سائیکل پر سوار، اپنی جوانی میں جھنڈا لے کر کلکتہ کی گلیوں میں نعرے لگاتاتھا ۔''بن کے رہے گا پاکستان'' شہید سہروردی اس کا سیاسی مرشد تھا۔
حال ہی میں ان کی ایک اور کتاب آئی ہے جو ان کے جیل کے زمانوں میں لکھی ڈائری کا متن ہے ۔ پورا کا پورا پاکستان لکھا ہوا ہے اور جو خود اس شخص کی سوانح حیات ہے، وہ جو آمریتوں کے خلاف اس کی جدوجہد ، خود پاکستان کے بننے میں خود پوری کی پوری بنگالیوں والی مسلم لیگ کو سازش کرکے پارٹی سے نکالنا ، جس کی کوکھ سے بنی تھی عوامی لیگ، کس طرح بیرسٹر شہید سہروردی جو کراچی میں وکالت کرتے تھے اور راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض ، سجاد ظہیر کے وکیل تھے ، جن کا ٹرائل حیدرآباد جیل میں چلتا تھا ، اور وہ خوبصورت سفر جو شیخ مجیب 1953کے زمانوں میں حیدرآباد سے کراچی واپس آنے کا سفر سہروردی کے ساتھ اکیلے کیا تھا ، سہروردی خود گاڑی چلا رہے تھے، وہ ان کو منانے آئے تھے کہ'' بیرسٹر صاحب سیاست سے روٹھ کرمت بیٹھو ، قوم کو آپ کی ضرورت ہے۔'' وہ لہلہاتے ہوئے کھیت جو ٹھٹھہ کے راستے میں آتے ، سندھ کے لینڈ اسکیپ جن کا ذکر وہ اپنی سوانح حیات میں محبت سے کرتے ہیں ۔
جب ایوب کھوڑو زیر اعلیٰ تھے ،ابا پر جھوٹے مقدمے بنائے ہوئے تھے، جیل میں ڈالا ہوا تھا، تو یہ شیخ مجیب اس کراچی میں قومی اسمبلی میں چیخ چیخ کے یہ رواداد بتاتے تھے اور ان کی آزادی کا مطالبہ کرتے تھے۔ کتنا بدل گیا کراچی ، وہ کراچی لگتا ہی نہیں کہ اس کراچی کا تسلسل ہے۔ ایک تقسیم سے پہلے کراچی تھا، دوسرا تقسیم کے بعد کراچی اور تیسرا ، ان بیس سالوں میں حیران کن کراچی یہاں اب چالیس لاکھ غیر قانونی افغانی آباد ہوگئے ہیں جو اس شہر کی پوری ڈیموگرافی تبدیل کرنے کو جارہے ہیں۔
یہ وہ شیخ مجیب تھا جو فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑ اہوگیا،جنرل ایوب کے خلاف ۔ اس نے پاکستان آمریتوں کے خلاف بھرپور جنگ لڑی وہ بھٹو کی طرح دوغلے پن کا شکار نہیں تھا ۔ وہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے ، اسے محض اس لیے غدار نہ کہا جائے کہ اس نے بنگلہ دیش بنایا۔ بنانا تو جناح نے بھی پاکستان نہیں تھا ، مگر کانگریسی قیادت کے رویئے کی وجہ سے حالات ایسے ہوگئے ، بنانا تو شیخ مجیب بھی بنگلہ دیش نہیں چاہتا تھا مگر ہم نے اس کی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا۔اس پر ایک کتاب بنتی ہے جو میں ضرور لکھوں گا۔
کون نہیں چاہے گا ، پاکستان کا وزیر اعظم بننا۔ مگر مغربی پاکستان کی اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کے مفادات اور نظریات کچھ اور تھے، صرف ایوب خان گیا تھا، اس کی لیگیسی موجود تھی اور اقتدار اور ملکی وسائل پر قابض تھی ، بھٹو ان کی جھولی میں بیٹھا ہوا تھا لہٰذا اسے استعمال کیا گیا، مشکل وقت نکلتے ہی اسے بھی قبرستان پہنچا دیا گیا۔
میرے والد جب جلا وطن ہوکر ڈھاکا میںمقیم ہوئے تو ہفتے میں دو بار شیخ مجیب ان سے ان کے ریسٹ ہاؤس میں ملنے آتے۔میں نے ابا کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ شیخ مجیب نہیں سمجھتے کہ پاکستان مزید تقسیم ہو، پاکستان میں آئین کی بالادستی، جمہوریت ہو اور ریاست اور مذہب الگ الگ ہو۔اسے پاکستان کے لوگوں سے شدت سے محبت تھی ، اس کی کاوشیں تمام مزدور، کسان ، محکوم لوگوں کے لیے تھیں۔
اور یہ بات تو ابا نے سوانح حیات میں لکھی ہے کہ شیخ مجیب نے کہا کہ ''میری جان بچانے میں بھٹو کا بڑا ہاتھ ہے۔ ''یہ تو انھوں نے اس وقت کہا تھا جب وہ پنڈی سے لندن پہنچے تھے، جہاں میرے والد فوراً ان سے ملنے لندن گئے تھے ،ذوالفقار علی بھٹو کا سندیس لے کے۔ابھی تو وہ ڈھاکا پہنچے بھی نہیں تھے۔ مختصر یہ کہ پندرہ اگست شیخ مجیب کی موت کا دن ہمارے لیے بھی سبق ہے۔
دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی
لگ بھگ دس پولیس والوں کا جتھہ ہمارے گاؤں آ پہنچا ، ایک معقول سی گاڑی میں ابا کراچی ان کی تحویل میں پہنچے، جس کی تصدیق نو بجے کی پی ٹی وی خبرنامے میں بھی ہوئی، جیل نہیں بھیجا ، بس نظر بند ہی کیا، پہلے ہل ٹاپ کے پاس ایک انگریز خاتون کا گھر تھا جو خالی تھا، جو ان کے شوہر بیوی کے لیے چھوڑ گئے تھے، غالبا اولاد نہیں تھی ان کی۔ ایک دو ماہ بعد گھارو کے ریسٹ ہاؤس میں رکھا۔
قید کیسی بھی ہو قید ہی ہوتی ہے، دشت تنہائی اتنی کے ابا کہتے اس سے بہتر تو جیل تھی کہ بہت سے سیاسی قیدی بھی ہوتے ہیں جن سے بات چیت ، ہنسی مذاق رہتا ہے۔ مگر یہاں، ایک عدد ٹیلی ویژن ، ڈھیر سارے اخبار اور ریڈیو بہرحال ان کے پاس تھے، باورچی ہم نے اپنے گاؤں سے بھیجا تھا، جو ابو کے مزاج کو سمجھتا تھا ، انھیں صبح ورزش اور شام کو لمبی چہل قدمی کی عادت تھی، کبھی ہر ہفتہ کی شام کو بھنبھور کے اجڑے ، ٹوٹے پھوٹے پرانے زمانوں پر گذارنے کی ان کو اجازت تھی ۔ سسی یہاں سے چلی تھی ،پنوں جب اس سے بچھڑا تھا صدیوں پرانا یہ قصہ ہے۔
بھنبھور گھارو سے کچھ ہی میل کے فاصلے پر تھا۔ خیر ان فرصت کے زمانوں میں ابا نے اپنی سوانح حیات مکمل کرلی، جو سندھی زبان میں ان کے دو ناولوں کے علاوہ ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ اب اس کا اردو ترجمہ ہمارے ڈاکٹر جعفر احمد اور ان کے ادارے کی کاوشوں سے رواں سال ہی مارکیٹ میں آجائے گا۔ اس میں آدھی داستان ان کے سیاسی سفر کی ہے جس میں خود شیخ مجیب اور عوامی لیگ سے ان کی وابستگی کی باتیں بھی ہیں۔
مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا ،کچھ اس طرح کہ جیسے زخم سا ہو جو بھرتا نہیں ہے ، غالبا یہ پندرہ اگست ہی تھی یا ایک دو دن آگے پیچھے جب ہمارے چچا زاد بھائی آصف پکنک کوگئے اور روہڑی کینال میں ڈوب کے جاں بحق ہوئے، ان کی عمر اس وقت تیس سال تھی، ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اب یہ خبر ابا کو کون بتائے ، نہ فون پر ان سے رابطہ ہوسکتا تھا نہ ہی ہم نے مناسب سمجھا ۔ ابا دو سال جلاوطنی کے گزار کے واپس آئے تھے۔
اس میں سے چند مہینے وہ بنگلہ دیش کے ریاستی مہمان رہے پھر وہاں سے کابل پہنچے جہاں اجمل خٹک ٹھہرے ہوئے تھے انھوں نے افغانستان کا پاسپورٹ تھمایا اور وہ لندن روانہ ہوئے ، لندن جاکے خوب بھٹو حکومت کے خلاف پمفلٹ چھاپے ، ان کے یاروں میں اجمل خٹک ، عطا اللہ مینگل ، میر غوث بخش بزنجو یہ سب تھے، پاکستان میں چھوٹی قوموں کے حقوق کی جلاوطنی میں آواز بلند کی، پھر سمجھ گئے ایسی باتیں جلاوطنی میں نہیں کی جاتیں ۔ جلا وطنی سے وطن میں قید ہونا لاکھوں درجے بہتر ہے۔ یہ وہی بھٹو تھے ، جنھوں نے ان کو جہاز سے اتارا تھا ،جب وہ والدہ کے ساتھ عمرے پر جارہے تھے اور پھر ان کو بارڈر کراس کروا کے ہندوستان سے بنگلہ دیش پھر کابل اور لندن میں جلاوطنی گزارنی پڑی اور واپس آکے انھیں قید کی صعوبت کو بہتر جانا۔
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اس کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فر پہ دم نکلے
گھر میں دو بیانیے تھے، ایک بھٹو کا بیانیہ تھا جو چاچا اور گاؤں والے حویلی کا سکہ رائج الوقت تھا، چچا ہمارے بمبئی بورڈ سے گولڈ میڈلسٹ تھے، کریمنل مقدمات کے بہت بڑے وکیل تھے اور بڑے زمیندار بھی تھے، سندھ اسمبلی میں بلا مقابلہ ممبر بنے مگر ان کے بیٹے آصف جو سب سے بڑے تھے وہ ''تایا ابا'' (ہمارے والد کے بیٹے تھے) وہ ابا کے بیانیے کو لے چلے ، گاؤں کے بیانیے کو ٹھکرایا۔ جب ستر کے انتخابات ہوئے تو نوابشاہ سے حاکم علی زرداری کے مقابلے میں عوامی لیگ کے ٹکٹ سے ابا الیکشن لڑے تھے۔
عوامی لیگ کا نشان کشتی تھا ۔ اور انتخابی مہم میں گانا چلتا تھا ''میری کشتی پار لگا دینا ،اے میرے مولا علی، شیر خدا'' مجھے وہ سب یاد ہے۔ ایک میلے کا سماں تھا، پتہ تھا ہم ہاریں گے، بھٹو کو تو مشرقی پاکستان میں ایک بنگالی بھی نہ ملا جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑتا مگر یہاں عوامی لیگ کی ٹکٹ پر ہر صوبے سے لوگ کھڑے ہوئے تھے بمع عاصمہ جہانگیر کے والد ملک جیلانی۔
آصف کے انتقال کی خبر کس طرح ابا کو بتائی جائے ، اس کی تدفین کے بعد خاندان کے کچھ لوگوں کو ابا کے پاس جانے کا فیصلہ ہوا تاکہ صبح اخبار پہنچنے سے پہلے ہم وہاں موجود ہوں ابھی ہم حیدر آباد پہنچے تھے کہ شام تک یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ شیخ مجیب کو بمع تمام خاندان ماردیا گیا ہے۔ اب تو ہمارے لیے دو سانحات تھے ،ایک آصف کا اور دوسرا شیخ مجیب کا اور اس سے بھی بری خبر کے گھارو کے اس ریسٹ ہاؤس میں تنہا پڑے اس شخص کو کیسے سنبھالا جائے۔
ایک طرف اس کے یار کا اپنی اولاد سمیت مارا جانا ہے اور دوسرا ان کے بیٹوں جیسا بھتیجہ آصف۔ یوں کرتے کرتے ہم سب خاندان والے حیدرآباد جمع ہوگئے کہ صبح کو ابا کے پاس پہنچے جس میں ہماری والدہ بھی تھی، بس چچا اور اس کے خاندان کے گاؤں چھوڑا۔
ریسٹ ہاؤس میں اخبارات آنے سے پہلے ہم وہاں پہنچے ، شیخ مجیب کے قتل کی خبر پڑھ چکے تھے ، ان کے آنسو تھے کہ تھمتے نہیں تھے، دھان منڈی کا وہ گھر جہاں اسے قتل کیا گیا تھا بمع خاندان ، وہ ابا کا ہی تو گھر تھا جہاں وہ ٹھہرتے، بہت سارا وقت گزارتے تھے۔ میں جب دھان منڈی کے اس گھر گیا جو اب میوزیم ہے وہاں غالبا واحد ابا کی ہی شیخ مجیب کے تصویر آویزاں ہے ۔
ہر اک قدم اجل تھا ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچہ قاتل سے آئے ہیں
ابا کو تو شیخ مجیب کے جانے کے بعد، ایک چپ سی لگ گئی تھی اور باقی ایا م سیاست ترک تعلق کرکے ادبی کاموں سے لگ گئے ، وکالت ٹوٹ پھوٹ گئی اور بڑھاپا بڑھتا گیا ، کچھ ہی سالوں میں یہ سارے غم لے کے وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔
پچھلے سال شیخ مجیب کو سو سال پورے ہوئے وہ ان کے بنگلا باندھو کہتے ہیں ، جس طرح ہمارے جناح صاحب ہیں، مگر شیخ مجیب ان کی رگوں میں رہتا ہے۔ ان کا لاشعور ہے اور ہمارے ہاں جناح جو ہے ہمارے لیے اجنبی ٹھہرتے ہیں۔
اس بار میں نے چاہا کہ پندرہ اگست کو ایک کالم لکھوں گا، لیکن میرا کالم اس دن چھپتا نہیں ، اس لیے آج لکھنا مناسب سمجھا ۔ یہ وہ شخص ہے جس کی 1935سے سیاسی جدو جہد پاکستان کی آزادی کے لیے تھی، سائیکل پر سوار، اپنی جوانی میں جھنڈا لے کر کلکتہ کی گلیوں میں نعرے لگاتاتھا ۔''بن کے رہے گا پاکستان'' شہید سہروردی اس کا سیاسی مرشد تھا۔
حال ہی میں ان کی ایک اور کتاب آئی ہے جو ان کے جیل کے زمانوں میں لکھی ڈائری کا متن ہے ۔ پورا کا پورا پاکستان لکھا ہوا ہے اور جو خود اس شخص کی سوانح حیات ہے، وہ جو آمریتوں کے خلاف اس کی جدوجہد ، خود پاکستان کے بننے میں خود پوری کی پوری بنگالیوں والی مسلم لیگ کو سازش کرکے پارٹی سے نکالنا ، جس کی کوکھ سے بنی تھی عوامی لیگ، کس طرح بیرسٹر شہید سہروردی جو کراچی میں وکالت کرتے تھے اور راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض ، سجاد ظہیر کے وکیل تھے ، جن کا ٹرائل حیدرآباد جیل میں چلتا تھا ، اور وہ خوبصورت سفر جو شیخ مجیب 1953کے زمانوں میں حیدرآباد سے کراچی واپس آنے کا سفر سہروردی کے ساتھ اکیلے کیا تھا ، سہروردی خود گاڑی چلا رہے تھے، وہ ان کو منانے آئے تھے کہ'' بیرسٹر صاحب سیاست سے روٹھ کرمت بیٹھو ، قوم کو آپ کی ضرورت ہے۔'' وہ لہلہاتے ہوئے کھیت جو ٹھٹھہ کے راستے میں آتے ، سندھ کے لینڈ اسکیپ جن کا ذکر وہ اپنی سوانح حیات میں محبت سے کرتے ہیں ۔
جب ایوب کھوڑو زیر اعلیٰ تھے ،ابا پر جھوٹے مقدمے بنائے ہوئے تھے، جیل میں ڈالا ہوا تھا، تو یہ شیخ مجیب اس کراچی میں قومی اسمبلی میں چیخ چیخ کے یہ رواداد بتاتے تھے اور ان کی آزادی کا مطالبہ کرتے تھے۔ کتنا بدل گیا کراچی ، وہ کراچی لگتا ہی نہیں کہ اس کراچی کا تسلسل ہے۔ ایک تقسیم سے پہلے کراچی تھا، دوسرا تقسیم کے بعد کراچی اور تیسرا ، ان بیس سالوں میں حیران کن کراچی یہاں اب چالیس لاکھ غیر قانونی افغانی آباد ہوگئے ہیں جو اس شہر کی پوری ڈیموگرافی تبدیل کرنے کو جارہے ہیں۔
یہ وہ شیخ مجیب تھا جو فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑ اہوگیا،جنرل ایوب کے خلاف ۔ اس نے پاکستان آمریتوں کے خلاف بھرپور جنگ لڑی وہ بھٹو کی طرح دوغلے پن کا شکار نہیں تھا ۔ وہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے ، اسے محض اس لیے غدار نہ کہا جائے کہ اس نے بنگلہ دیش بنایا۔ بنانا تو جناح نے بھی پاکستان نہیں تھا ، مگر کانگریسی قیادت کے رویئے کی وجہ سے حالات ایسے ہوگئے ، بنانا تو شیخ مجیب بھی بنگلہ دیش نہیں چاہتا تھا مگر ہم نے اس کی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا۔اس پر ایک کتاب بنتی ہے جو میں ضرور لکھوں گا۔
کون نہیں چاہے گا ، پاکستان کا وزیر اعظم بننا۔ مگر مغربی پاکستان کی اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کے مفادات اور نظریات کچھ اور تھے، صرف ایوب خان گیا تھا، اس کی لیگیسی موجود تھی اور اقتدار اور ملکی وسائل پر قابض تھی ، بھٹو ان کی جھولی میں بیٹھا ہوا تھا لہٰذا اسے استعمال کیا گیا، مشکل وقت نکلتے ہی اسے بھی قبرستان پہنچا دیا گیا۔
میرے والد جب جلا وطن ہوکر ڈھاکا میںمقیم ہوئے تو ہفتے میں دو بار شیخ مجیب ان سے ان کے ریسٹ ہاؤس میں ملنے آتے۔میں نے ابا کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ شیخ مجیب نہیں سمجھتے کہ پاکستان مزید تقسیم ہو، پاکستان میں آئین کی بالادستی، جمہوریت ہو اور ریاست اور مذہب الگ الگ ہو۔اسے پاکستان کے لوگوں سے شدت سے محبت تھی ، اس کی کاوشیں تمام مزدور، کسان ، محکوم لوگوں کے لیے تھیں۔
اور یہ بات تو ابا نے سوانح حیات میں لکھی ہے کہ شیخ مجیب نے کہا کہ ''میری جان بچانے میں بھٹو کا بڑا ہاتھ ہے۔ ''یہ تو انھوں نے اس وقت کہا تھا جب وہ پنڈی سے لندن پہنچے تھے، جہاں میرے والد فوراً ان سے ملنے لندن گئے تھے ،ذوالفقار علی بھٹو کا سندیس لے کے۔ابھی تو وہ ڈھاکا پہنچے بھی نہیں تھے۔ مختصر یہ کہ پندرہ اگست شیخ مجیب کی موت کا دن ہمارے لیے بھی سبق ہے۔
دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی