تصویر کا دوسرا رخ آخری حصہ
ان کے چاہنے والوں نے ان کے قاتلوں کو سزا دی اور ان کے مغز کو شیشے کے ایک کیس میں محفوظ کرلیا
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں مرحوم پاکستان اور شیخ مجیب الرحمن کی ادھوری یادوں کا ذکرکیا تھا اور سچ یہ ہے کہ وہ ان کی ادھوری یادیں ہیں۔
انھوں نے پاکستان کی اس کال کوٹھری کا ذکر نہیں کیا ہے جس میں شیخ مجیب الرحمن '' غدارِ وطن '' قرار دے کر رکھے گئے۔ وہ مشرقی بنگال میں '' بنگلہ بندھو'' کہے جاتے تھے، اپنی پھانسی کا انتظار کرتے رہے۔ یہ انتظار ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کیا اور آخرکار موت کے گھاٹ اترے۔ پاکستان کے اکثریتی صوبے مشرقی بنگال کا رہنما مجیب الرحمن اور صوبہ سندھ کا مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو دونوں ہی خوفناک موت کا نوالہ بنے۔
مجیب الرحمن صاحب کے گھر کے دروازے پر جب ان کے اپنے فوجیوں نے دستک دی ، وہ ان سے ملنے کے لیے اپنے گھر کی سیڑھیاں اترنے لگے تو انھیں گولیوں کی بوچھاڑ کرکے ختم کردیا گیا۔ ان کی کھوپڑی اڑی اور ان کا مغز چھت پر چپک گیا۔ ان کے چاہنے والوں نے ان کے قاتلوں کو سزا دی اور ان کے مغز کو شیشے کے ایک کیس میں محفوظ کرلیا۔
'' دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو'' ان کی قتل گاہ میں ایسی کئی چیزیں ہیں جو دیکھنے والوں کو غم زدہ کردیتی ہیں اور حیران بھی۔ وہ شخص جو مسلم لیگ کے بعد عوامی لیگ کا عظیم رہنما تھا وہ اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں قتل کردیا گیا۔ اس کی بیوی ، بیٹیاں اور دوسرے قریبی عزیز بھی اس حملے میں مارے گئے۔ حسینہ واجد ملک سے باہر تھیں، وہ بچ گئیں اور آج وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں۔
بنگلہ دیش پر کتنے ہی ناول اور تحقیقی کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں بنگلہ، انگریزی اور اردو میں وہ کتابیں ہیں جن کے صفحوں سے خون ٹپکتا ہے۔ یہ سب کا لکھا ہوا سچ ہے۔ رضیہ فصیح احمد، الطاف فاطمہ، شہناز پروین، سلینا حسین، جہاں آرا امام اور جانے کس کس کا لکھا ہوا سچ۔ سب ہی دوسروں کو ظالم اور خود کو مظلوم ٹھہراتے ہیں۔
جہاں آرا امام کی وہ کتاب جو انھوں نے 1992 میں بی بی سی کی ششی سنگھ کو دی تھی، اور جب ششی نے مجھے ان کی کتاب پر آنسو بہاتے دیکھا تو وہ مجھے تحفے میں دے دی۔ اس کتاب کو انھوں نے مجھے دے دیا۔ ایک ماں جو آزادی کے لیے بیٹے کو لڑنے کے لیے بھیجتی ہے اور پھر اس کا انتظار کرتی رہتی ہے۔
Of blood and sand اسے بنگلہ سے مستفیض الرحمن نے انگریزی میں منتقل کیا اور بعد میں ہمارے یہاں احمد سلیم نے اسے اردو کا لباس پہنایا۔ ایک ماں کے بیٹے کا قصہ جو بنگلہ دیش کی آزادی کا جھنڈا اٹھا کر لڑنے گیا تھا جو واپس نہ آیا۔ ماں اس کے دوستوں اور اس کے لیے عید پر سویاں بناتی ہے، چاندی کی طشتری میں عطر کی چھوٹی چھوٹی شیشیاں رکھتی ہے، ادھر وہ لوگ ہیں جو اس کے ہاتھوں قتل ہوئے یا شہید ہوئے۔ ایک ایسی لڑائی جس میں ادھر کے لوگ بھی شہید تھے اور اُدھر کے لوگ بھی۔ سچ کہاں تھا اور سچ کہاں نہیں تھا۔ سب سچ، سب جھوٹ۔
یہ اگست کا مہینہ ہے، اسی میں برصغیر تقسیم ہوا، اسی میں بنگلہ دیش قائم ہوا، اسی میں مجیب الرحمن مارے گئے اور اسی میں بہت سے لوگوں کے خواب روندے گئے۔ سب سچ، سب جھوٹ۔ 75 برس گزر گئے، لیکن ابھی تک کوئی تصفیہ نہ ہوسکا۔
میرے خاندان کے کچھ لوگ سکھوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، میرے ہی کچھ لوگوں نے سکھوں اور ہندوؤں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ میرے کچھ لوگ مکتی باہنی کے حصار میں مارے گئے اور کچھ نے انھیں قتل کیا۔ آزادی کی اس لڑائی میں کون جیتا اور کون ہارا، سچ کیا ہے اور جھوٹ کہاں؟ تصویر کا دوسرا، تیسرا اور چوتھا رخ کون دیکھے گا اور کون دیکھے گا؟
انھوں نے پاکستان کی اس کال کوٹھری کا ذکر نہیں کیا ہے جس میں شیخ مجیب الرحمن '' غدارِ وطن '' قرار دے کر رکھے گئے۔ وہ مشرقی بنگال میں '' بنگلہ بندھو'' کہے جاتے تھے، اپنی پھانسی کا انتظار کرتے رہے۔ یہ انتظار ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کیا اور آخرکار موت کے گھاٹ اترے۔ پاکستان کے اکثریتی صوبے مشرقی بنگال کا رہنما مجیب الرحمن اور صوبہ سندھ کا مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو دونوں ہی خوفناک موت کا نوالہ بنے۔
مجیب الرحمن صاحب کے گھر کے دروازے پر جب ان کے اپنے فوجیوں نے دستک دی ، وہ ان سے ملنے کے لیے اپنے گھر کی سیڑھیاں اترنے لگے تو انھیں گولیوں کی بوچھاڑ کرکے ختم کردیا گیا۔ ان کی کھوپڑی اڑی اور ان کا مغز چھت پر چپک گیا۔ ان کے چاہنے والوں نے ان کے قاتلوں کو سزا دی اور ان کے مغز کو شیشے کے ایک کیس میں محفوظ کرلیا۔
'' دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو'' ان کی قتل گاہ میں ایسی کئی چیزیں ہیں جو دیکھنے والوں کو غم زدہ کردیتی ہیں اور حیران بھی۔ وہ شخص جو مسلم لیگ کے بعد عوامی لیگ کا عظیم رہنما تھا وہ اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں قتل کردیا گیا۔ اس کی بیوی ، بیٹیاں اور دوسرے قریبی عزیز بھی اس حملے میں مارے گئے۔ حسینہ واجد ملک سے باہر تھیں، وہ بچ گئیں اور آج وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں۔
بنگلہ دیش پر کتنے ہی ناول اور تحقیقی کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں بنگلہ، انگریزی اور اردو میں وہ کتابیں ہیں جن کے صفحوں سے خون ٹپکتا ہے۔ یہ سب کا لکھا ہوا سچ ہے۔ رضیہ فصیح احمد، الطاف فاطمہ، شہناز پروین، سلینا حسین، جہاں آرا امام اور جانے کس کس کا لکھا ہوا سچ۔ سب ہی دوسروں کو ظالم اور خود کو مظلوم ٹھہراتے ہیں۔
جہاں آرا امام کی وہ کتاب جو انھوں نے 1992 میں بی بی سی کی ششی سنگھ کو دی تھی، اور جب ششی نے مجھے ان کی کتاب پر آنسو بہاتے دیکھا تو وہ مجھے تحفے میں دے دی۔ اس کتاب کو انھوں نے مجھے دے دیا۔ ایک ماں جو آزادی کے لیے بیٹے کو لڑنے کے لیے بھیجتی ہے اور پھر اس کا انتظار کرتی رہتی ہے۔
Of blood and sand اسے بنگلہ سے مستفیض الرحمن نے انگریزی میں منتقل کیا اور بعد میں ہمارے یہاں احمد سلیم نے اسے اردو کا لباس پہنایا۔ ایک ماں کے بیٹے کا قصہ جو بنگلہ دیش کی آزادی کا جھنڈا اٹھا کر لڑنے گیا تھا جو واپس نہ آیا۔ ماں اس کے دوستوں اور اس کے لیے عید پر سویاں بناتی ہے، چاندی کی طشتری میں عطر کی چھوٹی چھوٹی شیشیاں رکھتی ہے، ادھر وہ لوگ ہیں جو اس کے ہاتھوں قتل ہوئے یا شہید ہوئے۔ ایک ایسی لڑائی جس میں ادھر کے لوگ بھی شہید تھے اور اُدھر کے لوگ بھی۔ سچ کہاں تھا اور سچ کہاں نہیں تھا۔ سب سچ، سب جھوٹ۔
یہ اگست کا مہینہ ہے، اسی میں برصغیر تقسیم ہوا، اسی میں بنگلہ دیش قائم ہوا، اسی میں مجیب الرحمن مارے گئے اور اسی میں بہت سے لوگوں کے خواب روندے گئے۔ سب سچ، سب جھوٹ۔ 75 برس گزر گئے، لیکن ابھی تک کوئی تصفیہ نہ ہوسکا۔
میرے خاندان کے کچھ لوگ سکھوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، میرے ہی کچھ لوگوں نے سکھوں اور ہندوؤں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ میرے کچھ لوگ مکتی باہنی کے حصار میں مارے گئے اور کچھ نے انھیں قتل کیا۔ آزادی کی اس لڑائی میں کون جیتا اور کون ہارا، سچ کیا ہے اور جھوٹ کہاں؟ تصویر کا دوسرا، تیسرا اور چوتھا رخ کون دیکھے گا اور کون دیکھے گا؟