خانہ پُری قائداعظم اور ’قائدِ ملت‘ کی جوڑی تو سلامت رہنے دیں
پاکستان کی 75 ویں سال گرہ پر جاری کردہ 75 روپے کے نوٹ میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو نظر انداز کردیا گیا
یادگاری نوٹ پر لیاقت علی خان کی تصویر نہیں، فوٹو: فائل
'اسٹیٹ بینک آف پاکستان' کی جانب سے پاکستان کی 75 ویں سال گرہ کی مناسبت سے جاری کردہ 75 روپے کے کرنسی نوٹ میں پہلی بار 'بابائے قوم' قائد اعظم محمد علی جناح کے علاوہ دیگر اکابرین کی تصویریں بھی دی گئی ہیں، جن میں علامہ اقبال، محترمہ فاطمہ جناح اور سرسید احمد خان شامل ہیں، لیکن اس میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے لیے ہندوستان میں اپنی وسیع وعریض جاگیریں چھوڑیں، بلکہ یہاں اس کے بدلے میں کوئی گھر تک نہیں لیا اور آخری دم تک ہجرت کرنے والوں کی یہاں آباد کاری کے مسائل سے جھوجھتے رہے۔ نئی دلی میں آج پاکستانی ہائی کمیشن بھی لیاقت علی خان ہی کے دیے گئے مکان میں قائم ہے۔ پچھلی اتوار کو ایک طرف ہم اسی دلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں منائے گئے یوم آزادی کی خبریں سن رہے تھے، تو دوسری طرف اسی ریاست نے اسی روز ایک ایسا کرنسی نوٹ جاری کیا تھا، جس میں انھی کا پتا بالکل صاف کر دیا گیا تھا۔
'حکومت پاکستان' کی جانب سے اس سنگین غفلت پر ہم نے قائد اعظم اکادمی کے سابق ڈائریکٹر اور ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر کی رائے لی، تو انھوں نے بھی اس امر سے اتفاق کیا کہ لیاقت علی خان اور قائد اعظم کی جوڑی بالکل ہندوستان کی موہن داس گاندھی اور جواہر لال نہرو کی طرح ہے۔ جیسے وہاں گاندھی کے ساتھ دوسرا بڑا نام بلا شرکت غیرے جواہر لال کا ہے، بالکل ایسے ہی ہمارے ہاں محمد علی جناح کے ساتھ لیاقت علی کا سمبندھ موجود ہے، ورنہ ہمارے ہاں کی طرح وہاں بھی بہت سے بڑے اکابرین کے نام موجود ہیں، جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، ولبھ بھائی پٹیل اور ان کا دستور لکھنے والے بی آر امبیڈکر جیسے قدآور شامل ہیں، لیکن جب بھی گاندھی کے ساتھ کسی دوسرے کا تذکرہ ہوتا ہے، تو وہ جواہر لال نہرو ہی ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح بابائے قوم اور بانی پاکستان کہلائے اور اس کے ساتھ دوسرا بڑا مقام 'قائد ملت' لیاقت علی خان کا ہے، جسے ہمیں کسی بھی صورت میں متنازع نہیں بنانا چاہیے، باقی ظاہر ہے ہم تاریخ میں سر سید احمد خان اور علامہ اقبال جیسے اکابرین کو بھی فراموش نہیں کر سکتے اور اس سے آگے چلیے، تو چوہدری رحمت علی اور راجا صاحب محمود آباد تک بہتیرے نامی گرامی شخصیات جگمگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
اب تاریخی دلائل کے حساب سے ہماری تاریخ کے تیسرے اور چوتھے نمبر پر بڑے راہ نما کے حوالے سے ہم سب کی رائے الگ الگ ہو سکتی ہے، لیکن لیاقت علی خان کا مرتبہ قائد کے بعد سب سے بڑا ہے، اسے غیر متنازع رہنے دینا چاہیے۔ اب اسٹیٹ بینک نے اگر ہمارے چار اکابرین کی تصویریں دی ہی تھیں، تو جیسے قائد کے ایک جانب محترمہ فاطمہ جناح اور سرسید ہیں، تو دوسری جانب اقبال کے ساتھ لیاقت علی خان کی 'گنجائش' بھی پیدا کی جا سکتی تھی، لیکن افسوس، ہم جنھیں قائد کا 'دستِ راست' اور 1947ءکی صبح آزادی میں بانیان پاکستان کی خوش نصیب جوڑی سمجھ رہے تھے، ہماری ریاست آج 75 برس بعد انھیں چار نمایاں بانیان تک میں شمار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔۔۔!
کیا صرف اس لیے کہ ہندوستان کے اُس خاندانی رئیس زادے اور نواب نے اس نئے ملک کے روایتی وڈیروں اور جاگیرداروں کی طرح بڑی بڑی زمینوں کا مالک بن کر اس ریاست پر راج کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا۔۔۔۔؟کیا اس لیے کہ وہ اپنے بعد اپنی اولاد اور اس کے بعد اس کی اولاد کو سیاست میں لانے والی مہلک 'موروثی سیاست' کا حصہ نہیں بنا۔۔۔؟
کیا ریاست نے تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور اس ملک کے پہلے وزیراعظم کو لاوارث گردان کر یہ سب کیا ہے۔۔۔؟ تو یہ نہایت شرم کا مقام ہے کہ اس وقت بھی ایک نام نہاد 'مسلم لیگ' ہی (ن) کے لاحقے کے ساتھ اقتدار میں موجود ہے اور یہ سب اس کی زیرنگرانی انجام پایا ہے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بینک کے مرکزی ترجمان عابد قمر کہتے ہیں کہ 75 روپے کا یہ نوٹ کمیٹی کے بعد باقاعدہ بورڈ کی منظوری سے وفاقی کابینہ تک گیا اور وفاقی کابینہ کی حتمی منظوری کے بعد اسے 14 اگست 2022ءکو جاری کیا گیا ہے، جو باقاعدہ 30 ستمبر 2022ءسے دست یاب ہو سکے گا۔
یعنی اس غفلت کا ارتکاب براہ راست وزیراعظم شہباز شریف کی درجن بھر اتحادی سیاسی جماعتوں پر مشتمل 55 رکنی بھاری بھرکم وفاقی کابینہ نے بھی کیا ہے، جس میں مولانا شاہ احمد نورانی جیسی شخصیات کے صاحب زادے شاہ انس نورانی صاحب بھی بطور 'مشیر' شامل ہیں، تو ایم کیو ایم (بہادرآباد گروپ) کے دو اہم ترین وزیر سید امین الحق اور فیصل سبز واری بالترتیب 'آئی ٹی' اور 'بحری امور' کے قلم دان لیے براجمان ہیں۔ یقیناً اسٹیٹ بینک کا یہ 75 روپے کا یادگاری نوٹ ان کے علم میں بھی آیا ہی ہوگا۔۔۔ حیرت ہے کہ وہ 'بانیانِ پاکستان' کے اتنے بڑے دعوے دار بنتے ہیں، لیکن انھوں نے بھی اس نوٹ کا کوئی نوٹس نہیں لیا کہ اس میں شہد ملت لیاقت علی خان کو کس بات کی سزا دی گئی ہے۔۔۔؟ ظاہر ہے اگر اس ملک میں 'شہید ملت' کو لاوارث سمجھ لیا گیا تو یہ بہت بڑی غلطی ہے۔۔۔ اس ملک میں آج بھی لاکھوں، کروڑوں عقیدت مند نواب زادہ لیاقت علی خان کے وارث ہیں۔
رہی بات 'شہید ملت' پر تنقید کرنے کی، تو بہت سوں کو ان کے دور میں منظور ہونے والی 'قراردادِ مقاصد' سے الرجی ہوگی، تو کچھ ان کے روس کے بہ جائے امریکا کے دورے کرنے پر غیر مطمئن ہوں گے، کچھ ان کے قائداعظم سے "اختلافات" کی باتیں بھی کریں گے، کچھ محترمہ فاطمہ جناح سے اَن بن ہونے کا ہوّا بنائیں گے، کچھ شاید حسین شہید سہروردی جیسے اکابر سے ان کی رقابت کا دفتر بھی کھول لیں، لیکن یہ سب سیاست کا حصہ ہوتا ہے، جب آپ کسی عہدے پر ہوتے ہیں، تو فیصلے سازی میں کچھ لوگ آپ کے حامی ہوتے ہیں، تو کچھ مخالف بن جاتے ہیں، لیکن یہ معمولی اختلافی امور 'قائد ملت' لیاقت علی خان کی پاکستان کے لیے قربانیوں اور اس کے لیے ان کے تاریخی کردار کو کبھی ختم نہیں کر سکتے۔
آپ تاریخ دیکھ لیجیے کہ پاکستان کی جن غیر جمہوری، وڈیرانہ، جاگیردارنہ اور آمرانہ قوتوں نے لیاقت علی خان کو راول پنڈی میں شہید کروایا، پھر وہی قوتیں حسین شہید سہروردی کے درپے ہوئیں اور اس کے بعد انھوں نے ہی پھر محترمہ فاطمہ جناح کی ذات پر رکیک حملے کیے اور انھیں ہماری تاریخ کا پہلا 'ہندوستانی ایجنٹ' تک قرار دے ڈالا، جس سے کم از کم یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ وہ اس ملک میں 'بانیان پاکستان' کی سرپرستی کا ٹمٹماتا ہوا آخری چراغ تھے اور 16 اکتوبر 1951ءکو ان کی شہادت کے بعد 1952ءمیں بنگلا زبان کے معاملے پر ڈھاکا میں جانیں تلف ہوئیں، 1953ءمیں لاہور میں پہلا مارشل لا لگا، 1954ءمیں باوردی کمانڈر انچیف ایوب خان کو دفاع کا قلم دان سونپا گیا، 1954ءہی میں دستورساز اسمبلی کی برخاستگی، 1955ءمیں ون یونٹ کا قیام اور بالآخر 1958ءمیں پہلا مارشل لا، درالحکومت کی کراچی سے منتقلی اور ان سب کے نتیجے میں 1971ءمیں پاکستان ٹوٹنے جیسے مہلک اور گھناﺅنے واقعات یہ بتلاتے ہیں کہ لیاقت علی خان اس ملک کے سیاسی بگاڑ کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ تھے، اور پھر جب ان کے قتل کی تحقیقاتی فائل بھی "فضائی حادثے" کی نذر ہوگئی، تو پھر سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ واضح ہوتا چلا گیا۔
آج ریاستی سطح پر شہید ملت کی بالواسطہ نفی کے اس اقدام نے ماضی کی ساری اچھی بری یادیں پھر سے تازہ کر دی ہیں!
ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی انتشار کے اس نازک مرحلے پر 'حکومت پاکستان' فوری طور پر اپنی اس مجرمانہ غفلت کا نوٹس لے اور فی الفور 75 روپے کے اس یادگاری تاریخی نوٹ کی تصحیح کرتے ہوئے اس میں شہید ملت لیاقت علی خان کو شامل کر ان کے لاکھوں عقیدت مندوں اور 'بانیان پاکستان' کی اولادوں کو مزید بے چینی اور اضطراب سے بچائے، بقول شہید ملت :
"خدا پاکستان کی حفاظت کرے!"
پس نوشت: ہم رکن قومی اسمبلی محترمہ کشور زہرا کے شکر گزار ہیں، آپ نے اس ناچیز کی توجہ دلانے پر 15 اگست 2022ءکو منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں 75 روپے کے یادگاری نوٹ پر لیاقت علی خان کو نظرانداز کرنے پراسٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز سے جواب طلب کیا اور منتخب ایوان کی اس جانب توجہ دلائی۔